پیر، 28 اگست، 2017

تحویل قبلہ اور اس کی حکمتیں

تحویل قبلہ اور اس کی حکمتیں
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہی:
”روز قیامت کسی نبی کے ساتھ ایک شخص اور کسی نبی کے ساتھ دو اورکسی نبی کے ساتھ اس سے زائد افراد آئیں گے، پس نبی سے سوال ہو گا کہ کیا آپ نے اپنی قوم کو پیغام خدا وندی پہنچا دیا تھا؟ نبی کہے گا کہ ”ہاں“پھر ان افراد کو بلایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں پہنچا دیا تھا۔ وہ کہیں گے کہ ”نہیں“۔اس پر نبی سے کہا جائے گا کہ تمہارے حق میں گواہی کون دے گا ؟ وہ امت محمدیہ کا حوالہ دیں گے، پس آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کو بلا یا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کیا اس نبی نے میرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا؟ امت محمدیہ جواب دے گی کہ ”ہاں“۔اس پر ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں اس چیز کا کیسے علم ہوا؟ ( یعنی گواہی کس بنیاد پر دیتے ہو؟ )وہ کہیں گے کہ ہمیں ہماری نبی نے خبر دی کہ تمام رسولوں نے پیغام الہٰی اپنی اپنی قوموں کو پہنچا دیا ہے اور ہم نے اس خبر کو سچ جانا۔( اس بنیاد پر گواہی دی)پس الله تعالیٰ کا فرمان﴿وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطا﴾ پھر امّت محمدیہ کی سچی گواہی کی تصدیق آپ صلی الله علیہ وسلم کریں گے۔( تفسیر ابن کثیر، سورة البقرة،ذیل آیت143)

پہلا اشکال
اسی تفسیر پر پہلا اشکال یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت کی رو سے یہ امت انبیاء سے زیادہ معتبر ہوئی، حالاں کہ انبیاء کا مرتبہ بہرحال بلند ہے۔

جواب:لیکن ادنیٰ تامل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مقدمہ میں کوئی ایک فریق خواہ کتنا ہی معتمد کیوں نہ ہو، محض اسی کے قول کا اعتبار کرنا ناانصافی کہلاتا ہے، لہٰذا اس سے گواہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، پھر یہ ضروری نہیں کہ گواہ مرتبے کے اعتبار سے فریق سے بلند ہو، بلکہ کم درجے کا گواہ بھی قابل قبول ہو جاتا ہے ،جیسے کوئی وزیر ( خواہ کتنا ہی معتمد کیوں نہ ہو ) اپنے مقدمہ میں کسی چپراسی کو بطور گواہ پیش کرے تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چپراسی کو وزیر سے زیادہ مرتبہ دیا گیا ہے ۔

دوسرا اشکال
امت محمدیہ کی گواہی بغیر مشاہدہ محض خبر کی بنیاد پر کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟

جواب : گواہی محض مشاہدہ کی بنا پر نہیں دی جاتی بلکہ علم یقینی کی بنا پر دی جاتی ہے ، پس جس طرح مشاہدہ، علم یقینی کا ایک ذریعہ ہے، اسی طرح علم یقینی کے دیگر ذرائع بھی ہیں ۔ مثلاً دور سے دھواں دیکھ کر آگ کا معلوم ہونا اور پوسٹ مارٹم کے ذریعے سے موت کی وجوہات کا معلوم ہونا، ان دونوں مثالوں میں اگر چہ آگ او رموت کا مشاہدہ نہیں ہوا، لیکن نشانیوں سے آگ اور موت کا علم حاصل ہو گیا۔

پس ہم کہتے ہیں کہ علم یقینی کا سب سے اہم ذریعہ وحی الہٰی ہے، مشاہدہ اور علامات کا درجہ اس کے بعد آتا ہے ، لہٰذا امت محمدیہ انبیاء کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف اسی علم قطعی کے ذریعے گواہی دے گی جو انہیں رسول پر نازل شدہ وحی کے ذریعے سے حاصل ہوا تھا۔پس کوئی اشکال نہ رہا ۔

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ 
اب تحویل قبلہ کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ قبلہ یعنی بیت المقدس کو اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم بظاہر جان لیں کہ کون الله کے رسول کی پیروی کرتا ہے او ر کون ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے؟ہجرت کے بعد جب بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا گیا تو عرب لوگوں کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی کہ وہ لوگ رسول کی پیروی کرتے ہیں یاقومی تعصب میں اپنے باپ، دادا کے قبلہ پر قائم رہتے ہیں۔او رجب بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو اختیار کیا گیا تو اس میں یہود کی آزمائش مقصود تھی ، چناں چہ اس آزمائش میں مومنین کام یاب رہے۔

چند لوگوں کو یہ شبہ پیش آیا کہ جب کعبہ قبلہ مقرر ہو چکا ہے تو اس سے پہلے جو مسلمان بیت القدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اب وہ دنیا سے جاچکے ہیں، ان کی نمازوں کا کیا ہو گا؟ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ الله تعالیٰ تمہارے ایمان (اس سے مراد نماز ہے ) کو ضائع کرنے والا نہیں، کیوں کہ وہ نمازیں بھی الله کے حکم کے مطابق پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھی گئی ہیں، نماز لازمہ ایمان ہے، ملزوم بول کر لازم مراد لینا مجاز کے قبیل سے ہے۔

﴿قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِیْ السَّمَاء فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ، وَلَئِنْ أَتَیْْتَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَکَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم مِّن بَعْدِ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ ، الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ،الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾․(البقرہ، آیت:144 تا147)

بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھناتیرے منھ کا آسمان کی طرف ، سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے ، اب پھیر منھ اپنا طرف مسجد الحرام کے او رجس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منھ اسی کی طرف اور جن کو ملی ہے کتاب۔ البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ان کے رب کی طرف سے اور الله بے خبر نہیں ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں اور اگر تو لائے اہل کتاب کے پاس ساری نشانیاں تو بھی نہ مانیں گے تیرے قبلہ کو اور نہ تو مانے ان کا قبلہ اور نہ ان میں ایک مانتا ہے دوسرے کا قبلہ او راگر تو چلا ان کی خواہشوں پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو بے شک تو بھی ہوا بے انصافوں میںoجن کو ہم نے دی ہے، کتاب پہچانتے ہیں اس کو جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور بے شک ایک فرقہ ان میں سے البتہ چھپاتے ہیں حق کو جان کر حق وہی ہے جو تیرا رب کہے پھر تو نہ ہو شک لانے والا

ربط آیات:گزشتہ آیات میں تحویل قبلہ پر کفار کے اعتراضات کا حاکمانہ جواب تھا، اب حکیمانہ جواب صادر فرماتے ہیں۔

تفسیر
پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طبعی میلان خانہ کعبہ کی جانب تھا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بیت المقدس آپ کا عارضی قبلہ تھا، اصلی قبلہ تو کعبہ ہی تھا، لہٰذا آپ کا طبعی میلان بھی اسی جانب کر دیا گیا تھا۔

چناں چہ اسی خواہش او رمیلان کی بنا پر بعض اوقات آپ کی نگاہ وحی کے انتظار میں آسمان کی جانب اٹھ جاتی تھی کہ کب تحویل قبلہ کا حکم صادر ہو؟ آیت کریمہ میں اسے ہی بیان کیا گیا ہے کہ ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی جانب پھرنا دیکھتے رہے ہیں، پس آپ کی امید رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ضرور اسی قبلہ کا حکم دیں گے، جس پر آپ راضی ہیں۔

سبحان الله… کیا شان محبوبیت ہے!! الله تعالیٰ خود اپنے بندے کی رضا کے طلب گار ہیں۔تو لیجیے آپ کی رضا کے مطابق حکم دے ہی دیتے ہیں، اب اپنا رخ مسجد حرام کی جانب پھیرلیں اور یہ حکم آپ کی ذات کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ آپ کی امت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ تم جہاں بھی ہو نماز میں اپنا رخ کعبہ کی جانب ہی کرو، خواہ بیت المقدس ہی میں کیوں نہ ہو۔

اور یہ اہل کتاب بھی ضرور جانتے ہیں کہ نبی آخر الزمان ذو قبلتین ہوں گے، یعنی ان کا عارضی قبلہ بیت المقدس اور دائمی قبلہ کعبہ ہو گا، ان کی کتابوں میں اس کی واضح نشانیاں موجود ہیں ، لہٰذا ان کے اعتراضات سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں ، بلکہ یہ انکار ان کی ہٹ دھرمی پر مبنی ہے اور الله تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب جانتا ہے۔

احکام استقبال قبلہ
اگر نماز پڑھنے والا مسجد حرام کے اندر ہو تو نمازی کے سینہ کا رخ عین کعبہ کی جانب ہونا لازمی ہے۔ (وفی التجنیس: من کان بمعاینة الکعبة فا لشرط اصابة عینھا، ومن لم یکن بمعاینتھا فا الشرط اصابة جھتھا، وھوالمختار․ البحرالرائق، کتا ب الصلاة، باب شروط الصلاة:3/121)۔

آیت میں چہرے کا ذکر مجازاً کیا گیا ہے، اصل مراد سینہ کا رخ ہے۔ ( وفی الفتاوی: والانحراف المفسد ان یجاوز المشارق الی المغارب․ وفی التجنیس: اذا حول وجہہ لا تفسد صلاتہ، وتَفْسد بصدرہ․3/121)․

اسی لیے اگر سینے کا رخ کعبہ کی جانب ہوتے ہوئے چہرہ کعبہ سے پھر بھی جائے تو نماز درست ہو گی۔ (وفی الفتاوی: والانحراف المفسدأن جاوز المشارق الی المغارب․ وفی التجنیس: اذا حول وجہہ لا تفسد صلاتہ، وتفسد بصدرہ․3/121)․

اور مسجد حرام سے باہر کے لوگوں کے لیے عین کعبہ کی جانب رخ کرنا کافی مشکل امر تھا ،اس لیے مسجد حرام کی جانب رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور جو لوگ بلاد بعیدہ کے ہیں ان کے لیے چوں کہ عین مسجد حرام کی جانب رخ کرنا بھی کافی مشکل امر ہے ،اس لیے ایسے لوگوں کے لیے جہت کعبہ میں رخ کرکے نماز پڑھنا ہی کافی ہے ، عین کعبہ یا مسجد حرام کی جانب رخ کرنا لازمی نہیں۔ لہٰذا اگر تھوڑا بہت انحراف پایا بھی جائے تو مضائقہ نہیں۔

قبلے کے بارے میں یہود ونصاریٰ کا باہمی اختلاف
وَلَئِنْ أَتَیْْتَ الَّذِیْنَیہاں سے اہل کتاب کی ضد وعناد کو واضح کرتے ہیں کہ اگر آپ ان کے پا س ہر قسم کی نشانی لے آئیں کہ قبلہٴ اہل حق یہی کعبہ ہے، تب بھی یہ آپ کے قبلے کا اتباع نہیں کریں گے اور آپ کو تو معلوم ہے کہ ان لوگوں کے لیے قبلہ محض جہت پرستی کی حیثیت رکھتا ہے ، لہٰذا آپ قبلہ میں ان کی موافقت کرنے والے نہیں۔

ان کی ہویٰ پرستی کا تو یہ عالم ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے قبلے کی بھی پیروی نہیں کرتے ،یہود کا قبلہ بیت المقدس کا ہیکل سلیمانی ہے اور نصاری آفتاب کے طلوع ہونے کی سمت کو قبلہ مانتے ہیں، حالاں کہ عیسائی تورات کی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود باہمی طور پر متفق نہیں تو آپ کے قبلے پر کیسے راضی ہو جائیں گے؟! آپ کے قبلے کا تقرر وحی کی بنیاد پر ہوا، اگر اس کے باوجود آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی آپ کا شمار بھی ظالموں میں ہو گا۔ چوں کہ نصوص قطعیہ سے آپ کی معصومیت ثابت ہے۔ لہٰذا آپ کے لیے ان کی اتباع بھی محال ٹھہری۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت اظہر من الشمس ہے
اس کے ساتھ ہی یہ اہل کتاب اس امر قبلہ کی طرح آپ کا نبی برحق ہونا بھی اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ یعنی اپنا بیٹا اکثر نظروں کے سامنے موجود ہوتا ہے، جس طرح اس کی صورت دیکھ کر پہچاننے میں غلطی کا اشتباہ نہیں ہوتا، اس طرح آپ میں علامت نبوّت دیکھ کر بھی آپ کی نبی برحق ہونے میں کوئی تردد نہیں رہتا۔

آیت کی یہی تفسیر راجح ہے ، ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے، اہل کتاب آپ کا نبی مرسل ہونا اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹے کو پہچانتے ہیں کہ یہ واقعی میرا بیٹا ہے، لیکن اس تفسیر کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت کے واضح ہونے میں کوئی خاص تاکیدنہیں رہتی۔ کیوں کہ حضرت عبدالله بن سلام ص سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر فاروق ص کے استفسار کے جواب میں فرمایا کہ اپنی بیوی میں تو خیانت کا احتمال ہے، جس سے اپنا بیٹا ہونے میں شبہ ہو سکتا ہے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت میں ذرہ برابر بھی احتمال نہیں۔ ( مأخوذاز بیان القرآن، البقرة:145)

آیت مذکورہ میں بعض لوگوں کو یہ اشکال بھی پیش آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وضوحِ نبوّت کو خود اپنی شناخت سے تشبیہ دینا زیادہ بلیغ تھا، بنسبت بیٹے کی شناخت کے۔

لیکن بیٹے کی معرفت سے تشبیہ دینے میں یہ نکتہ ملحوظ رکھا گیا ہے باپ کو اپنے بیٹے کی شناخت ہر حال میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اپنی شناخت بعض اوقات مثلاً بیہوشی کی عمر میں کھو بھی بیٹھتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت کے اس قدر واضح ہونے کے بعد بھی تمام اہل کتاب آپ پر ایمان نہیں لاتے، بلکہ بعض ایمان لاتے ہیں اور بعض جانتے بوجھتے بھی حق کو چھپاتے ہیں۔

﴿الْحَقُّ مِن رَّبِّک…﴾: یعنی حق تو وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہے ، لہٰذا آپ شک کرنے والوں میں سے مت ہوں اور اہل کتاب کے عناد کی کچھ پرواہ مت کریں۔حق سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وہ تعارف ہے جو تورات وانجیل میں مذکور ہے۔

﴿وَلِکُلٍّ وِجْہَةٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْْرَاتِ أَیْْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ، وَمِنْ حَیْْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ،وَمِنْ حَیْْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْْکُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَلأُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․(البقرہ، آیت:148تا150)

اور ہر کسی کے واسطے ایک جانب ہے، یعنی قبلہ کہ وہ منھ کرتا ہے اس طرف، سو تم سبقت کرو نیکیوں میں ، جہاں کہیں تم ہو گے کر لائے گا تم کو الله اکٹھا، بے شک الله ہر چیز کر سکتا ہےاور جس جگہ سے تو نکلے سومنھ کر اپنا مسجد الحرام کی طرف اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور الله بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے اور جہاں سے تو نکلے منھ کر اپنا مسجد الحرام کی طرف اور جس جگہ تم ہوا کرو سو منھ کرو اسی کی طرف، تاکہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جھگڑنے کا موقع، مگر جو ان میں بے انصاف ہیں سو ان سے (یعنی ان کے اعتراضوں سے ) مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور اس واسطے کہ کامل کروں تم پر فضل اپنا اور تاکہ تم راہ پاؤ سیدھی

ربط آیات:ان آیات میں تحویل قبلہ کی مزید حکمتیں بیان کی جارہی ہیں۔

تفسیر :ہر زمان ومکان میں بیت الله کی طرف رخ کرنے کا حکم
ولکل وجہة الخ: یعنی ہر امت کے لیے ایک جہت مقرر ہے،جس کی طرف وہ اپنی عبادت میں رخ کرتے ہیں ،خواہ وہ جہت خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہو یا خود اپنی طرف سے مقرر کر رکھی ہو، پس اسی طرح امت مسلمہ کے لیے الله تعالیٰ نے کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا ہے ، لہٰذا اس الگ قبلہ مقرر ہونے پر شور وشغب کی کوئی بات نہیں ، لہٰذا تم آپس میں نیکیوں میں سبقت کرو، کیوں کہ یہی منشأ خدا وندی ہے۔ قبلہ کی بحث میں پڑ کر عبادت سے غافل مت ہونا، تم جہاں بھی ہو گے الله تعالیٰ تمہیں اکٹھا کرکے قیامت کے دن حاضر کرے گا۔

ومن حیث خرجت 
یعنی اے محمد( صلی الله علیہ وسلم)! آپ جس جگہ سے بھی سفر کے لیے نکلو نماز میں اپنے چہرے کا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، یہ حکم بالکل حق ہے، آپ کے رب کی طرف سے اور الله تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔

اور اے مومنو! تم جہاں سے بھی سفر میں نکلو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو اور تاکید کے لیے پھر مکرر کہا جاتا ہے کہ تم جہاں بھی ہو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو ۔ یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے، تاکہ تم پر لوگوں کی حجت قائم نہ ہو، یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہماری کتب کی رو سے آخر المرسلین کا قبلہ کعبہٴ ابراہیمی ہو گا، جب کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا قبلہ بیت المقدس ہے اور مشرکین کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ یہ کیسا نبی ہے، جو دعویٰ تو ملت ابراہیمی کا کرتا ہے لیکن قبلہ ابراہیمی کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف رخ کرتا ہے؟

البتہ بد نصیب لوگ ابھی بھی کٹ حجتی کریں گے کہ محمد( صلی الله علیہ وسلم) اپنے آباء کے دین کی طرف پھر رہے ہیں یا بیت المقدس ( جو کہ انبیاء کا قبلہ رہا ہے ) کو ترک کرکے انبیاء کی مخالفت کے مرتکب ہو رہے ہیں، ایسے لوگوں کا تو کام ہی یہ ہے کہ اپنے لیے انکار کی راہیں ڈھونڈیں اور تمہیں بہکانے کے لیے اعتراضات اور شہبات کا سامان جمع کریں، لہٰذا تم ان سے مت ڈرو، صرف مجھ ہی سے ڈرو۔

اور یہ حکم تحویل اس لیے ہے، تاکہ اس پر عمل کی بدولت آخرت میں تمہیں جنت میں داخل کرکے اپنی نعمت تمام کردوں اور تم سیدھی راہ پر رہو، جیسا کہ اتمام نعمت کا مقتضیٰ ہے۔

اسلوب کلام
تحویل قبلہ کے معاملے میں مشرکین واہل کتاب اور منافقین کی فتنہ انگیزیاں بہت زیادہ تھیں اور بعض ضعیف الاعتقاد مسلمانوں سے ان کے بہکاوے میں آنے کا اندیشہ تھا، اس لیے اس معاملے کو عجیب وغریب انداز میں بیان فرمایا۔ اولاً تو اس کلام کی ابتدا وانتہا میں حکم ماننے والوں کے ہدایت پر ہونے اور نہ ماننے والوں کے گم راہ ہونے کی تصریح فرماتے ہیں ، یعنی آیت نمبر142 میں ﴿یَھْدِیْ مَن یَّشَاءُ﴾ اور آیت نمبر150 میں ﴿وَلَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ﴾ فرمایا گیا۔

ثانیاً: حضر، سفر اور مدینہ ، غیر مدینہ کا حکم تاکید کی غرض سے جدا جدا بیان فرمایا اور اس میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی امت کو جدا جدا خطاب فرمایا گیا، جیسا کہ تشریح سے واضح ہے۔

ثالثاً: استقبال قبلہ کے حکم کے ساتھ ساتھ تینوں مواقع میں ایک ایک حکمت بھی بیان ہوئی ، یعنی آیت نمبر144 میں آپ کی دلی تمنا کو پورا کرنا اور آیت نمبر148 میں ہر امت کا ایک مستقل قبلہ ہونا اور آیت نمبر150 میں کفار کی حجت بازی سے خلاصی حاصل ہونا بیان فرمایا ہے۔

رابعاً: تین مقامات میں اس حکم کے حق ہونے کی تصریح بھی فرمائی ہے ۔دیکھیے آیت نمبر144، 147اور 149۔

اور ساتھ ہی ﴿فَاسْتَبِقُوْ الخَیْراتَ﴾ اور ﴿فَلَا تَخْشَوْھُمْ﴾ فرماکر منازعہ ومجادلہ سے کنارہ کش رہ کر یک سوئی سے الله تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہنے کی تلقین بھی فرما دی گئی۔ (جاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس