جمعہ، 8 ستمبر، 2017

حمدنعت نظم

             
  1. بلغ العُلٰے بکمَالِہٖ
    کشف الدُّجٰے بجمَالِہٖ
    حسُنت جمیع خِصَالِہٖ
    صَلوا علَیہِ و آلِہٖ


    (حضرت شیخ سعدیؒ)


    منظوم ترجمہ

    ہوئے کمال سے اپنے وہ فائزِ رفعت
    چھٹی جمال سے اُن کے تمام ظلمتِ شب
    خصائل اُن کے سبھی خوب اور پسندیدہ
    درود بھیجیں نبیﷺ پر اور اُن کی آل پہ سب​
  2. آیۂ نور

    جب کیا میں نے قصدِ نعتِ حضورﷺ
    ہوئے یکجا شعور و تحتِ شعور

    روحِ ممدوح دستگیر ہوئی
    شاملِ جاں تھا لطفِ ربِّ غفور

    ورنہ میں اور محامدِ احمدﷺ
    جس کی خاطر ہوا یہ نور و ظہور

    خود خدا جس کا ہے ستائش گر
    رحمتِ عالمیں ہے جو مذکور

    وہ کہ ہے مظہرِ دعائے خلیلؑ
    ذکر جس کا ہے جا بجا مسطور

    دی بشارت مسیحؑ نے جس کی
    لے کے آیا جو آخری منشور

    ذات جس کی مبشّر و مُنذِر
    جس کا دیں ہے مظفّر و منصور

    وہ کہ ہے عادل و عزیز و امیں
    وہ کہ ہے شاہد و شفیع و شکور

    مقتدی جس کے ہیں نبی سارے
    کلمہ گو جس کے ہیں وحش و طیور

    نطق جس کا حیات کا دستور
    زندگی جس کی ہے منارۂ نور

    حُسن سے جس کے کائنات حسیں
    خُلق سے جس کے خَلق ہے مسحور

    جس کے فقرِ غیور کے آگے
    منفعل فرِّ قیصرؔ و فغفورؔ

    ڈھال جس کی محافظِ اخیار
    تیغ جس کی عدوئے اہلِ شرور

    جس کے قدموں میں زندگی کی بہار
    جس کے دم سے ہے رنگ و بُو کا وفور

    وہ کہ ہے سوز و سازِ نبضِ حیات
    وہ کہ ہے غایتِ سنین و شہود

    وہ کہ ہے دولتِ دلِ مفلس
    وہ کہ ہے زورِ بازوئے مزدور

    اُس کی خدمت میں کچھ برنگِ غزل
    بہ امیدِ قبول و قرب و حضور
    ٭٭٭


    جی رہا ہوں مَیں اُس دیار سے دُور
    چارہ جُو جیسے چارہ کار سے دور

    ہوں سراپائے حسرتِ دیدار
    آج میں شہرِ شہریار سے دور

    آبجو کی طرح ہوں سر گرداں
    نکل آیا ہوں کوہسار سے دور

    اک بگولا ہوں دشتِ غربت میں
    قریۂ راحت و قرار سے دور

    اک گلِ حیرت و ملال ہوں
    مسکرایا ہوں شاخسار سے دور

    وہم ہوں، خواب ہوں، خیال ہوں میں
    بے حقیقت ہوں کوئے یار سے دور

    لب پہ آیا ہوا سوال ہوں میں
    محفل یارِ رازدار سے دور

    تیر کھایا ہوا غزال ہوں میں
    غمگسارانِ جانثار سے دور

    گم ہوں یادِ حبیبﷺ میں
    تائبؔ فکرِ فردا کے خلفشار سے دور
    ٭٭٭


    پھر ہوا سازِ مدح زمزمہ سنج
    پھر ہوئی روح کیف سے معمور

    مٹ گئے فاصلے دل و جاں کے
    نہ رہا فرقِ ظاہر و مستور

    زہے الطافِ سیّدِؐ ابرار
    مطمئن ہو گیا دلِ رنجور

    زہے اکرامِ رحمتِؐ عالم
    محترم ہو گئے جو تھے مقہور

    امّئ نکتہ داں کی حکمت سے
    حل ہوئے سب مسائلِ جمہور

    آیۂ نور چہرۂ روشن
    کیوں نہ تابندہ ہوں شبِ دیجور

    دافعِ رنج و یاس و کرب و الم
    قاطعِ کفر و شرک و فسق و فجور

    محور و منتہائے فکر و نظر
    چارہ فرمائے خاطرِ مہجور

    راحت و اعتبارِ دیدۂ تر
    عظمت و اختیارِ ہر مجبور

    اُس کے اوصاف کا احاطہ کروں
    یہ کہاں تاب، یہ کہاں مقدور

    چارہ جُز اعترافِ عجز نہیں
    ذہن قاصر، شعور ہے معذور

    صلۂ مدحِ مصطفےٰﷺ چاہوں
    یہ نہیں میری طبع کو منظور

    کیا یہ اعزاز کم ہے میرے لئے
    نعتِ خیر الوریٰﷺ پہ مامور

    میرا ہر سانس ہے سپاس گزار
    اے خداوندِ فکر و فہم و شعور

    بہ تقاضائے دیدۂ بے تاب
    کچھ نہ کچھ مجھ کو مانگنا ہے ضرور

    سوچتا ہوں کہ تجھ سے کیا مانگوں
    اے خدائے کریم و ربِّ غیور

    میرا دامانِ آرزو محدود
    اور تیرا کرم ہے لا محصور

    ہاں خطا سے مری ہوں صرفِ نظر
    سعئ ناقص ہو مقبل و مشکور

    حرزِ جاں ہو مجھے ثنائے رسولﷺ
    رگ و پے میں ہو کیف و جذب و سرور

    لب رہیں ترجمانِ صدق و صفا
    دل ہو کذب و مبالغہ سے نفور

    قبر میری بحقِّ ختمِ رسلﷺ
    ہو فراخ و معنبر و پُر نور

    سائبانِ کرم ہوں سر پہ مرے
    سر میدانِ حشر، یومِ نشور

    آخرت کے سبھی مراحل میں
    میرے نزدیک تر ہوں حضورﷺ
  3. التماسِ کرم بہ حضورِ تاجدارِؐ حرم

    اے مظہرِ لا یزال آقا
    سر تا بہ قدم جمال آقا

    وحشی ہے صرصرِ حوادث
    گرتا ہوں، مجھے سنبھال آقا

    دل دستِ فشار میں ہے ایسے
    جیسے کوئی یرغمال آقا

    رسمیں ہیں تمام جاہلانہ
    قدریں ہیں پائمال آقا

    اک وصف ہے انتہا پسندی
    اک عیب ہے اعتدال آقا

    دیکھا نہ تھا چشمِ آدمی نے
    اخلاص کا ایسا کال آقا

    اخلاق کا یہ کساد مولا
    انصاف کا یہ زوال آقا

    جاری ہے زیست کی رگوں میں
    زہرِ زر و سیم و مال آقا

    آتی ہے نظر سکوں کی مظہر
    صورت کوئی خال خال آقا

    جائیں تو کدھر کہ چار جانب
    فتنوں کے بچھے ہیں جال آقا

    اعصاب جواب دے چلے ہیں
    ہر شکل ہے اک سوال آقا

    بے صرفہ گزرتے جا رہے ہیں
    روز و شب و ماہ و سال آقا

    حالات سبھی ہیں بدلے بدلے
    ہر سانس ہُوا وبال آقا

    بے برگ ہوں، بے وقار ہوں میں
    بے ہمسر و بے مثال آقا

    میں غیر کے ہاتھ دیکھتا ہوں
    اے سر تا پا نوال آقا

    ہر سمت سے حسرتوں نے گھیرا
    ہوں آج شکستہ بال آقا

    ہو تیرے کرم سے مجھ کو شکوہ
    میری یہ کہاں مجال آقا

    گھبرا کے مصائب و فتن سے
    کی جرأتِ عرضِ حال آقا

    سینے کی جراحتوں کا تجھ بِن
    ممکن نہیں اندمال آقا

    دم گھٹنے لگا ہے تیرگی میں
    پھر جادۂ جاں اُجال آقا

    دریوزہ گرِ کرم رہا ہے
    فردا ہو کہ میرا حال آقا

    شاہا مرے جاں نواز شاہا
    آقا مرے خوش سگال آقا

    تو تیغ ہے جابروں کے حق میں
    تو ہر بیکس کی ڈھال آقا

    لرزاں تری عظمتوں کے آگے
    ذرّوں کی طرح جبال آقا

    بحر و بر و دشت پر ابھی تک
    طاری ہے ترا جلال آقا

    دیتا ہے سکوں دل و نظر کو
    ہر آن ترا خیال آقا

    اُمّت کو عروج پھر عطا ہو
    غم سے ہے بہت نڈھال آقا
    ٭٭٭
  4. خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیر البشرﷺ


    خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیر البشرﷺ
    خوش نژاد و خوش نہاد و خوش نظر، خیر البشرﷺ

    دل نواز و دلپذیر و دل نشین و دلکشا
    چارہ ساز و چارہ کار و چارہ گر خیر البشرﷺ

    حسنِ فطرت، حسنِ موجودات، حسنِ کائنات
    نورِ ایقاں، نورِ جاں، نورِ بصر، خیر البشرﷺ

    سر بسر مہر و مروّت، سر بسر صدق و صفا
    سر بسر لطف و عنایت، سر بسر خیر البشرﷺ

    اعتدالِ دین و دنیا، اتصالِ جسم و جاں
    اندمالِ زخمِ ہر قلب و جگر، خیر البشرﷺ

    آفتابِ اوجِ خوبی، ماہتابِ برتری
    آب و تابِ چہرۂ شام و سحر خیر البشرﷺ

    ساحلِ بحرِ تمنّا، حاصلِ کشتِ وفا
    حاملِ قرآن و شمشیر و سپر خیر البشرﷺ

    صاحبِ خلقِ عظیم و صاحبِ لطفِ عمیم
    صاحبِ حق، صاحبِ شقّ القمر خیر البشرﷺ

    کارزارِ دہر میں وجہِ ظفر، وجہِ سکوں
    عرصۂ محشر میں وجہِ درگزر خیر البشرﷺ

    حدِّ فاصل خیر و شر کے درمیاں ذاتِ نبیﷺ
    شاہراہِ زندگی میں معتبر خیر البشرﷺ

    آدمی کے اوّلیں درد آشنا شاہِؐ ہدیٰ
    آگہی کے آخریں پیغامبر خیر البشرﷺ

    خیر ہر ذی روح کی خیر الوریٰﷺ، خیر الانامﷺ
    خیر ہر انسان کی خیر البشرﷺ، خیر البشرﷺ

    اپنی اُمّت کے برہنہ سر پہ رکھ شفقت کا ہاتھ
    پونچھ دے انسانیت کی چشمِ تر خیر البشرﷺ

    رُو نما کب ہو گا راہِ زیست پر منزل کا چاند
    ختم کب ہو گا اندھیروں کا سفر خیر البشرﷺ

    کب ملے گا ملّتِ بیضا کو پھر اوجِ کمال
    کب شبِ حالات کی ہو گی سحر خیر البشرﷺ

    خدمتِ اقدس میں یہ نذرِ عقیدت ہو قبول
    کیا سخن ور اور کیا عرضِ ہنر خیر البشرﷺ

    در پہ پہنچے کس طرح وہ بے نوا، بے بال و پر
    اک نظر تائبؔ کے حالِ زار پر خیر البشرﷺ
    ٭٭٭​





 اے وادیٗ کشمیر! اے وادئ کشمیر...
تو حسن کا پیکر ہے،تو رعنائی کی تصویر
مخمور بہاروں کے حسین خوابوں کی تعبیر
رخشاں ہیں تیرے ماتھے پہ آنادی کی تنویر
تو جلوہ گہ نور جہان،قلب ِ جہانگیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

ہر لمحہ مچلتی ہیں تیرے من میں بہاریں
میخانہ در آغوش درختوں کی قطاریں
چشموں کے ترانے ہیں کہ ساون کی ملہاریں
ندیوں میں تری نغمہ آزادی کی تفسیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

کیوں تری فضاوٗں میں اداسی کے نشان ہیں
نکھرے ہوئے گلزار بھی کیوں محو فغاں ہیں
چشمے ترے کیوں نالہ کش ونوحہ کناں ہیں
کہسار ترے کیوں ہیں جگر بستہ ودلگیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

شاید تجھے مسلم کی وفاوٗں سے گلا ہے
فریاد تری سچ ہے،ترا شکوہ بجا ہے
لیکن میرے محبوب وہ وقت آن لگا ہے
گونجے گا فضاوٗں میں جب اک نعرہ تکبیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

مانا کہ دلوں میں وہ تب وتاب نہیں ہے
اس قوم کی تلوار میں وہ آب نہیں ہے
اب عزمِ مسلمان وہ سیلاب نہیں ہے
گردش میں ہے برسوں سے مری قوم کی تقدیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

مانا تری مٹی پہ بہت خون بہا ہے
تو نے غم وآلام غلامی کو سہا ہے
لیکن مرے ہمدم!مرا دل بول رہا ہے
 ہمت کی حرارت سے پگھل جائے گی زنجیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

تکبیر کا نعرہ تری عصمت کا امیں ہے
چھٹنے کو ہے تاریکیٗ غم،مجھ کو یقین ہے
کیا ظلمت ِ شب صبح کی تمہید نہیں ہے؟
کیا خونِ شفق رنگ نہیں مثردہٗ تنویر؟
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

اب وقت ہے سینوں میں عزائم کو جگا لیں
ہم جام و سبوتوڑ کے تلوار اٹھالیں
ہر راہ گلستان کو کمیں گاہ بنا لیں
کمزور ہیِِ، لیکن ابھی ٹوٹی نہیں شمشیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

ہیں یاد ابھی تک خالد ؓ وطارقؒ کے فسانے
کچھ دور نہیں احمد ؒ و ٹیپو ؒ کے زمانے
اٹھو ، کہ چلیں ظلم کو دنیا سے مٹانے
پھر زندہ کریں دہر میں یہ اسوہ شبیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

ہم کو ترے شاداب نظاروں کی قسم ہے
جہلم کے دلآویز کناروں کی قسم ہے
پھولوں کی ،درختوں کی چناروں کی قسم ہے
کاٹیں گے ترے پاوٗں سے ہر ظلم کی زنجیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

سر حرمت ِ توحید پہ کٹوا کے رہیں گے
ہم کفر کے طوفان سے ٹکرا کے رہیں گے
طاغوت کے ایوان کو اب ڈھا کے رہیں گے
پیوند ِ زمین ہو گی ہر اک کفر کی تعمیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

اک غلغلہ ،نعرہ تکبیر اٹھا کر
یہ برقِ تپاںخرمن ِباطل پہ گرا کر
توپوں سے برستے ہوئے شعلوں میں نہا کر
ہم خون سے لکھیں گے تری آزادی کی تحریر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

دشمن کے عزائم تیری مٹی میں ملیں گے
مدت سے جو رستے ہیں ،ترے زخم سلیں گے
اس خاک یہ الفت کے حسیں پھول کھلیں گے
صیاد جو اب تک تھا وہ بن جائے گا نخچیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

پھوٹیں گے تری خاک سے پھر نور کے دھارے
ظلمت کدہ کفر سے اٹھیں گے شرارے
گونجے گی آذانوں کی صدا ڈل کے کنارے
پھر جاگ اٹھے گی تری سوئی ہوئی تقدیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

تو خاتم ِ دنیا کا اک انمول نگیں ہے
تو حسن کا مسکن ہے ،تو بہاروں سے حسیں ہے
آسی کی نگاہوں میں تو فردوسِ بریں ہے
فردوس تو ہوتی نہیں ،شیطان کی جاگیر
اے وادیٗ کشمیر،اے وادیٗ کشمیر

یہ ولولہ انگیز نظم استاذ محترم حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے جون 1965 میں تحریر فرمائ تھی.


 مبارك باد حجاج کرام

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَك۔۔

یہ حج و زیارت مُبارک ہو تم کو
متاع سعادت مُبارک ہو تم کو

وہ ہر سمت انوار، ہر سو تجلی
وہ نور ہدایت مُبارک ہو تم کو

وہ احرام میں مست و سرشار رہنا
غموں سے فراغت مُبارک ہو تم کو

اذان سحر کا حرم میں وہ منظر
وہ کیف سماعت مُبارک ہو تم کو

مُبارک ہوں وہ ملتزم پر دُعائیں
وہ ذوق عبادت مُبارک ہو تم کو

وہ میزاب رحمت کے نیچے نمازیں
بشوق اطاعت مُبارک ہو تم کو

مُبارک ہوں وہ سنگ اَسود کے بوسے
لبوں کی حلاوت مُبارک ہو تم کو

وہ رکن یمانی پہ ہر دم تجلی
وہ آثار رحمت مُبارک ہو تم کو

وہ پی پی کے زم زم سیراب ہونا
وہ کوثر کی لذت مُبارک ہو تم کو

منٰی میں رمی کا وہ پر کیف منظر
وہ جلووں کی کثرت مُبارک ہو تم کو

وہ عرفات میں خیمہ زن ہوکے رہنا
بَزُہد و قناعت مُبارک ہو تم کو

کلام: ﴿محمد زکی کیفی﴾​


نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 پکاروں گا ہر آن ختمِ نُبوّت
مِرا دین و ایمان  ختمِ نبوّت
........................................
 نبی ﷺ کا دیوانہ کہے یہ زمانہ
مِری تو ہے پہچان ختمِ نُبوّت
............................................
 شِفاعت کا حقدارکیونکر نہ ہو وہ
کرے   گا  جو  اعلان ختمِ نُبوّت
...............................................
 فقط ایک میں ہی نہیں بلکہ اک دن
کہے  گا   ہر انسان  ختمِ نُبوّت
................................................
 محمد ﷺ خدا  کے ہیں محبوب پیارے
ملا  رتبہ   ذیشان  ختمِ نُبوّت
..............................................
 کہ بعد از محمدؐ  نہ کوئی پیمبرؑ
خدا کا ہے فرمان ختمِ نُبوّت
...............................................
 کروڑوں ہوئے وارثانِ پیمبرؑ
 محمد ﷺ کا فیضان ختمِ نُبوّت
................................................
 صداقت نے لفظوں کے بوسے لیے ہیں
چھِڑا جونہی عنوان ختمِ نُبوّت
..............................................
ُُُُنُبوّت کے رتبے حسیں تر ہیں صائم
مگر سب میں سلطان ختمِ نُبوّت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک مبشر صائم علوی



عارفانہ کلام

فقیہ العصر مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی کا عارفانہ کلام


❶ محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا

قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا

نظر سے دور رہ کر بھی تقی! وہ پاس ہے میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا


❷ حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں

میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں

زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں

میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں

کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی ملتزم کی دعاؤں میں گم ہوں

مقفل ہے در ، لٹ رہے ہیں خزانے
عطا کی نرالی اداؤں میں گم ہوں

ہر اک دل سے ظلمت کے دل چھٹ رہے ہیں
غلافِ سیہ کی ضیاؤں میں گم ہوں

جو میرے گناہوں کو بھی دھو رہی ہے
میں رحمت کی ان انتہاؤں میں گم ہوں

یہ میزابِ رحمت پہ پُر درد نالے
فلک سے برستی عطاؤں میں گم ہوں

یہ زمزم کے چشمے ، یہ پیاسوں کے جمگھٹ
زمیں سے ابلتی شفاؤں میں گم ہوں

جو اس آستاں کے لگاتے ہیں پھیرے
میں ان کے جنوں کی اداؤں میں گم ہوں

کھڑے ہیں بھکاری ترے در کو تھامے
میں ان کی بلکتی صداؤں میں گم ہوں

یہ سینے سے اٹھتی ندامت کی آہیں
میں ان دردِ دل کی دواؤں میں گم ہوں

یہ کعبے کے درباں ، یہ نازوں کے پالے
میں ان کی پیاری جفاؤں میں گم ہوں

تصور میں یادوں کی محفل سجی ہے
تخیل کی دلکش خلاؤں میں گم ہوں

ابھی شرحِ الفت کی منزل کہاں ہے
ابھی تو تقی! ابتداؤں میں گم ہوں​



❸ الہٰی! تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں

بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالا ہے

متاعِ دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹواکر
سکونِ قلب کی پونجی ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر

لٹاکر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں

گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ قلب افسردہ
ارادے مضمحل ، ہمت شکستہ ، حوصلے مردہ

کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی

خلاصہ یہ کہ بس جل بھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے

ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہے خالی

تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں

یہ تیرا گھر ہے ، تیرے مہر کا دربار ہے مولیٰ!
سراپا نور(/مہر )ہے اک مہبطِ انوار ہے مولیٰ!

یہ آنکھیں خشک ہیں یارب! انھیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنھیں دھونا نہیں آتا

زباں غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبانِ بے زبانی پر​



❹ مجھے زندگی میں یارب! سربندگی عطا کر
مرے دل کی بے حسی کو ، غمِ عاشقی عطا کر

ترے درد کی چمک ہو ، تری یاد کی کسک ہو
مرے دل کی دھڑکنوں کو ، نئی بے کلی عطا کر

جو تجھی سے لو لگادے ، جو مجھے میرا پتا دے
میرے عہد کی زباں میں ، مجھے گم رہی عطا کر

میں سفر میں سو نہ جاؤں ، میں یہیں پہ کھو نہ جاؤں
مجھے ذوق و شوقِ منزل کی ہمہ ہمی عطاکر

بڑی دور ہے ابھی تک ، رگِ جان کی مسافت
جو دیا ہے قرب تو نے ، تو شعور بھی عطاکر

بھری انجمن میں رہ کر ، نہ ہو آشنا کسی سے
مجھے دوستوں کے جھرمٹ میں وہ بے کسی عطاکر

کہیں مجھ کو ڈس نہ جائیں یہ اندھیرے بجلیوں کے
جو دلوں میں نور کردے وہی روشنی عطا کر

مجھے تیری جستجو ہو ، مرے دل میں تو ہی تو ہو
مرے قلب کو وہ فیضِ درِ عارفی عطا کر

❺ دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

سرگشتہ و درماندہ ۔۔۔ بے ہمت و ناکارہ
وارفتہ و سرگرداں۔۔ بے مایہ و بے چارہ
شیطاں کا ستم خوردہ ۔۔ اس نفس کا دکھیارا
ہر سمت سے غفلت کا ۔۔۔ گھیرے ہوئے اندھیارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

جذبات کی موجوں میں ۔۔۔ لفظوں کی زباں گم ہے
عالم ہے تحیر کا ۔۔۔ یارائے بیاں گم ہے
مضمون جو سوچا تھا ۔۔۔ کیا جانے کہاں گم ہے
آنکھوں میں بھی اشکوں کا ۔۔۔ اب نام و نشاں گم ہے
سینے میں سلگتا ہے ۔۔۔ رہ رہ کے اک انگارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

آیا ہوں ترے در پر ۔۔۔ خاموش نوا لے کر
نیکی سے تہی دامن ۔۔۔ انبارِ خطا لے کر
لیکن تری چوکھٹ سے ۔۔۔ امیدِ سخا لے کر
اعمال کی ظلمت میں ۔۔۔ توبہ کی ضیا لے کر
سینے میں تلاطم ہے ۔۔۔ دل شرم سے صدپارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

امید کا مرگز ہے ۔۔۔ رحمت سے بھرا گھر ہے
اس گھر کا ہر اک ذرہ ۔۔۔ رشکِ مہ و اختر ہے
محروم نہیں کوئی ۔۔۔ جس در سے یہ وہ در ہے
جو اس کا بھکاری ہے ۔۔۔ قسمت کا سکندر ہے
یہ نور کا قلزم ہے ۔۔۔ یہ امن کا فوّارہ

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یہ کعبہ کرشمہ ہے ۔۔۔ یارب تری قدرت کا
ہر لمحہ یہاں جاری ۔۔۔ میزاب ہے رحمت کا
ہر آن برستا ہے ۔۔۔ دھن تیری سخاوت کا
مظہر ہے یہ بندوں سے ۔۔۔ خالق کی محبت کا
اس عالم پستی میں ۔۔۔ عظمت کا یہ چوبارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یارب! مجھے دنیا میں ۔۔۔ جینے کا قرینہ دے
میرے دلِ ویراں کو ۔۔۔ الفت کا خزینہ دے
سیلابِ معاصی میں ۔۔۔ طاعت کا سفینہ دے
ہستی کے اندھیروں کو ۔۔۔ انوارِ مدینہ دے
پھر دہر میں پھیلادے ۔۔۔ ایمان کا اجیارا

دربار میں حاضر ہے ۔۔۔ اک بندۂ آوارہ
آج اپنی خطاؤں کا ۔۔۔ لادے ہوئے پشتارا

یارب میری ہستی پر ۔۔۔ کچھ خاص کرم فرما
بخشے ہوئے بندوں میں ۔۔۔ مجھ کو بھی رقم فرما
بھٹکے ہوئے راہی کا ۔۔۔ رخ سوئے حرم فرما
دنیا کو اطاعت سے ۔۔۔ گلزارِ ارم فرما
کردے میرے ماضی کے ۔۔۔ ہر سانس کا کفارہ 



❻ حضرت مفتی صاحب کے پردرد اشعار جو غالبا انھوں نے اپنے والد صاحب مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ کی وفات کے موقع پر کہے ہیں:

کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج
کیوں چھائے ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

یوں برق و شرر نے مرا پھونکا ہے نشیمن
باقی ہے کوئی شاخ ، نہ تنکوں کا نشاں آج

اب زیست کا ہر مرحلہ نظروں میں کٹھن ہے
گرداب بلا خیز ہے یہ نہر رواں آج

دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے
اور آنکھ ہے ظالم کہ بس اک خشک کنواں آج

دنیا ہے مرے دوستو! مٹی کا گھروندا
اور زندگی اک کارگہِ شیشہ گراں آج

جو مرکزِ الفت تھے ، جو گلزارِ نظر تھے
ہیں خاک کا پیوند وہ اجسامِ بتاں آج

ناگاہ کوئی دم میں ہی لد جائے گا ڈیرا
دھوکے ہیں یہ سب ، جن پہ ہے منزل کا گماں آج

عارفانہ اشعار

جس سے ہیں آپ خوش اس جہاں میں
وہ شب وروز ہے گلستاں میں

دیکھ کر میرے اشک ندامت
ابرِ رحمت کی بارش ہے جاں میں

آپ کاسنگ در اور میرا سر
حاصل زندگی ہے جہاں میں

سارے عالم کی لذت سمٹ کر
آگئ ہے تیرے آستاں میں

از: ارشادات درد دل مجددزمانہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمداحتر صاحب نوراللّٰه مرقدہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس