منگل، 27 فروری، 2018

تسہیل قواعد النحو

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
تسہیل علم النحو
علم نحو کی تعریف
عربی کا علم نحو وہ علم ہے کہ جس میں اسم و فعل و حرف کو جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب اور ہر کلمے کے آخری حرف کی حالت معلوم ہو۔
فائدہ:اس علم کا یہ ہے کہ انسان عربی زبان بولنے اور لکھنے میں ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہے۔ مثلاً زَیْدٌ، اَلدَّارِ، دَخَلَ، فِیْ۔ ان چاروں کو جوڑ کر ایک جملہ بنانا اور اس کو صحیح طور پر ادا کرنا یہ علم نحو سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسے زَیْدٌ دَخَلَ فِی الدَّارِ زید داخل ہوا گھر میں۔
موضوع:اس علم کا کلمہ اور کلام ہے۔
سبق نمبر ۱
کلمہ اور کلام
جو بات آدمی کی زبان سے نکلے اس کو لفظ کہتے ہیں۔ پھر اگر لفظ بامعنیٰ ہے تو اس کا نام ’’موضوع‘‘ ہے اور اگر بے معنیٰ ہے تو ’’مہمل‘‘۔
عربی زبان میں لفظ موضوع کی دو قسمیں ہیں ۱) مفرد ۲) مرکب
مفرد: اس اکیلے لفظ کو کہتے ہیں جو ایک معنیٰ بتائے اور اس کو کلمہ بھی کہتے ہیں۔
کلمہ کی تین قسمیں ہیں ۱) اسم ۲) فعل ۳) حرف
اسم: وہ کلمہ ہے جس کے معنیٰ بغیر دوسرے کلمہ کے ملائے معلوم ہو جائیں اور اس میں تینوں زمانوں (ماضی،حال،مستقبل) میں سے کوئی زمانہ نہ پایا جائے۔ جیسےرَجُلٌ،عِلْمٌ، مِفْتَاحٌ۔
اسم کی تین قسمیں ہیں ۱) جامد ۲) مصدر ۳) مشتق
جامد: وہ اسم ہے جو نہ آپ کسی لفظ سے بنا ہو اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہو۔جیسے رَجُلٌ ، فَرَسٌ وغیرہ
مصدر: وہ اسم ہے جو آپ تو کسی لفظ سے نہیں بنتا مگر اس سے بہت سے لفظ بنتے ہیں۔جیسے نَصْرٌ، ضَرْبٌ وغیرہ
مشتق: وہ اسم ہے جو مصدر سے بنا ہو۔ جیسے ضَرْبٌ سے ضَارِبٌ اور نَصْرٌسے نَاصِرٌ۔
فعل: وہ کلمہ ہے جس کے معنیٰ دوسرے کلمہ کے ملائے بغیر معلوم ہو جائیں۔ اور اس میں کوئی زمانہ بھی پایا جاوے۔ جیسے نَصَرَ یَنْصُرُ، ضَرَبَ یَضْرِبُ۔
فعل کی چار قسمیں ہیں ۱( ماضی ۲(مضارع ۳( امر ۴(نہی ۔ ان کی تعریفیں حسبِ ذیل ہیں:
ماضی: وہ فعل ہے جو گزرے ہوئے زمانے پر دلالت کرے۔جیسےاَکَلَ زَیْدٌ زید نے کھایا۔
مضارع: وہ فعل ہے جس میں حال اور استقبال دونوں زمانے پائے جائیں۔جیسے یَاْکُلُ زَیْدٌ زید کھاتا ہے یا زید کھائے گا۔
امر: وہ فعل ہے جس میں کوئی حکم کسی فعل کا پایا جاوے۔ جیسے اُدْخُلْداخل ہو جا۔
نہی: وہ فعل ہے جس میں کسی فعل سے روکنے اور منع کرنے کا حکم ہو۔ جیسےلَاتَضْرِبْ تو مت مار۔
ماضی کی چھ قسمیں ہیں:
ماضی مطلق: جیسے زَیْدٌ ضَرَبَ زید نے مارا۔
ماضی قریب: جیسے زَیْدٌ قَدْ ضَرَبَ زید نے مارا ہے۔
ماضی بعید:جیسے زَیْدٌ کَانَ ضَرَبَ زید نے مارا تھا۔
ماضی استمراری: جیسے زَیْدٌ کَانَ یَضْرِبُ زید مارتا تھا۔
ماضی احتمالی: جیسے زَیْدٌ لَعَلَّمَا ضَرَبَ زید نے شاید مارا ہوگا۔
ماضی تمنائی: جیسے زَیْدٌ لَیْتَ ضَرَبَ کاش زیدمارتا۔
حرف: وہ کلمہ ہے جس کا معنیٰ بغیر دوسرے کلمہ کے ملائے معلوم نہ ہوں۔ جیسےمِنْ، فِیْ کہ جب تک ان حرفوں کے ساتھ کوئی اسم یا فعل نہ ملے گا ان سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔
جیسےخَرَجَ زَیْدٌ مِنَ الدَّارِاور دَخَلَ عَمْرٌو فِی الْمَسْجِدِ۔
حرف کی دو قسمیں ہیں: ۱) عامل ۲) غیر عامل
مرکب: وہ لفظ ہے جو دو یا زیادہ کلموں کو جوڑ کر بنایا جائے۔مرکب کی دو قسمیں ہیں:۱) مفید ۲)غیر مفید۔
مرکب مفید: وہ ہے کہ جب کہنے والا بات کہہ چکے تو سننے والے کو گزشتہ واقعے کی خبر یا کسی بات کی طلب معلوم ہو۔ جیسےذَھَبَ زَیْدٌ (زید گیا) اِیْتِ بِالْمَاءِ (پانی لا) پہلی بات سے سننے والے کو زید کے جانے کی خبر معلوم ہوئی۔ اور دوسری بات سے معلوم ہوا کہ کہنے والا پانی طلب کرتا ہے۔ مرکب مفید کو جملہ اور کلام بھی کہتے ہیں۔ جملہ دو طرح کا ہوتا ہے: ۱) جملہ خبریہ ۲) جملہ انشائیہ۔
جملہ خبریہ: اس جملہ کو کہتے ہیں جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا کہہ سکیں۔ اور یہ دو قسم پر ہے: ۱) جملہ اسمیّہ ۲) جملہ فعلیہ
جملہ اسمیّہ:اس جملہ کو کہتے ہیں جس کا پہلا حصہ اسم ہو اور دوسرا حصہ خواہ اسم ہو یا فعل ۔ جیسے زَیْدٌ عَالِمٌ اور زَیْدٌ عَلِمَ ان میں سے ہر ایک جملہ اسمیہ خبریہ ہے۔ اور ان کا پہلا حصہ مسند الیہ ہے جس کو مبتدا کہتے ہیں اور دوسرا حصہ مسند ہے جس کو خبر کہتے ہیں۔ جملہ اسمیّہ خبریہ کے معنوں میں ہے۔ ہوں، ہو آتا ہے۔
جملہ فعلیہ: وہ جملہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ فعل ہو اور دوسرا حصہ فاعل۔ جیسےعَلِمَ زَیْدٌاور سَمِعَ بَکْرٌ۔ان میں سے ہر ایک جملہ فعلیہ ہے۔ اور ان کا پہلا حصہ مسند ہے جس کو فعل کہتے ہیں اور دوسرا حصہ مسند الیہ ہے جس کو فاعل کہتے ہیں۔
مسند الیہ: وہ ہے جس کی طرف کسی اسم یا فعل کی نسبت کی جائے اور اس کو مبتدا اس لیے کہتے ہیں کہ اس سے جملہ کی ابتدا ہوتی ہے۔
مسند:وہ ہے جس کو دوسرے کی طرف نسبت کریں اور اس کو خبر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پہلے اسم کے حال کی خبر دیتا ہے۔
اسم مسند اور مسند الیہ دونوں ہو سکتا ہے ۔ جیسے زَیْدٌ عَالِمٌ کہ اس میںزَیْدٌاورعَالِمٌ دونوں اسم ہیں اور عالم کی نسبت زید کی طرف ہو رہی ہے اس لیے زید مسند الیہ اور عالم مسند ہوا۔
فعل مسند ہوتا ہے مسند الیہ نہیں ہو سکتا۔ جیسےزَیْدٌ عَلِمَ اور عَلِمَ زَیْدٌ۔ان دونوں جملوں میں عَلِمَ کی نسبت زَیْدٌکی طرف ہو رہی ہے اس لیےعَلِمَ مسند ہوا اورزَیْدٌ مسند الیہ اور حرف نہ مسند ہو سکتا ہے نہ مسند الیہ۔
ترکیب: جملہ اسمیہ کی ترکیب اس طرح ہوتی ہے، زَیْدٌمبتدا،عَالِمٌ خبر مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ خبریہ ہوا۔
اور جملہ فعلیہ کی ترکیب اس طرح ہوتی ہے،عَلِمَ فعل زَیْدٌفاعل۔ فعل فاعل مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہوا۔
سبق نمبر ۲
جملہ کے ذاتی و صفاتی اقسام
واضح ہو کہ کوئی جملہ دو کلموں سے کم نہیں ہوتا، یا تو وہ دو کلمے لفظوں میں موجود ہوں۔ جیسےضَرَبَ زَیْدٌیا تقدیراً ہوں ۔ جیسےاِضْرِبْ کہ اَنْتَ اس میں پوشیدہ ہے۔ لفظوں میں موجود نہیں۔
جملہ میں دویا دو سے زیادہ کلمے ہوتے ہیں مگر زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ جب جملہ کے کلمات بہت ہوں تو اسم و فعل کو اس میں سے تمیز کرنا چاہیے۔ اور دیکھنا چاہیے کہ معرب ہے یا مبنی ۔ عامل ہے یا معمول۔ اور یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ کلمات کا تعلق آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسا ہے تاکہ مسند اور مسند الیہ ظاہر ہو جائیں اور جملہ کے صحیح معنیٰ معلوم ہو سکیں۔
جملہ باعتبار ذات کے چار قسم کا ہوتا ہے ۱) اسمیّہ ۲) فعلیہ ۳) شرطیہ ۴) ظرفیہ۔
۱)اسمیّہ: جیسے زَیْدٌ قَائِمٌ
۲)فعلیہ:جیسے قَامَ زَیْدٌ
۳)شرطیہ: جیسے اِنْ تُکْرِمْنِیْ اُکْرِمْکَ
۴) ظرفیہ: جیسے عِنْدِیْ مَالٌ
یہ چاروں قسمیں اصل جملہ کہلاتی ہیں۔
باعتبار صفت کے جملہ چھ قسم کا ہوتا ہے
۱) مبیّنہ:جو پہلے جملہ کو کھول کر بیان کردے۔ جیسے:
اَلْکَلِمَۃُ عَلٰی ثَلٰثَۃِ اَقْسَامٍ اِسْمٌ وَ فِعْلٌ وَ حَرْفٌ
اس مثال میں پہلے جملہ کا مطلب صاف نہیں معلوم ہوتا تھا ۔ کہ وہ کون سی تین قسمیں ہیں۔ دوسرے جملہ نے اس کو بیان کردیاکہ وہ اسم و فعل و حرف ہیں۔
۲) معلّلہ:جو پہلے جملہ کی علّت بیان کردے ۔ جیسا حدیث شریف میں ہے کہ:
لَاتَصُوْمُوْا فِیْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ فَاِنَّھَا اَیَّامُ اَکْلٍ وَشُرْبٍ
تم روزہ نہ رکھو ان پانچ دنوں (عیدین و ایام تشریق) میں اس لیے کہ وہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
اس حدیث شریف کے پہلے جملہ میں پانچ دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی علت دوسرے جملہ میں بیان فرمائی کہ وہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
۳)معترضہ: جو دو جملوں کے درمیان بے جوڑ واقع ہو۔ جیسے قَالَ اَبُوْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی اَلنِّیَّۃُ فِی الْوُضُوْءِ لَیْسَتْ بِشَرْطٍ۔اس کلام میں رَحِمَہُ اللہ تَعَالٰی جملہ معترضہ ہے کہ پہلے اور بعد کے کلام سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔
۴) مستانفہ: وہ جملہ ہے جس سے نیا کلام شروع کیا جائے۔ جیسےاَلْکَلِمَۃُ عَلٰی ثَلٰثَۃِ اَقْسَامٍاس کو جملہ ابتدائیہ بھی کہتے ہیں۔
۵) حالیہ: وہ جملہ ہے جو حال واقع ہو۔ جیسےجَاءَ نِیْ زَیْدٌ وَ ھُوَ رَاکِبٌ۔
۶) معطوفہ: وہ جملہ ہے جو پہلے جملہ پرعطف کیا جائے۔ جیسےجَاءَ زَیْدٌ وَ ذَھَبَ عَمْرٌو سبق نمبر ۳
علاماتِ اسم
الف لام یا جر اس کے شروع میں ہو ،جیسےاَلْحَمْدُ، بِزَیْدٍ تنوین اس کے آخر میں ہو،جیسےزَیْدٌ قَائِمٌ مضاف ہو جیسےغُلَامُ زَیْدٍمصغرہوجیسےقُرَیْشٌ،رُجَیْلٌمنسوب ہو جیسےبَغْدَادِیٌّ،ھِنْدِیٌّ تثنیہ ہو جیسےرَجُلَانِ جمع ہو جیسے رِجَالٌ موصوف ہو جیسے رَجُلٌ کَرِیْمٌ تائے متحرک اس سے ملی ہوئی ہو۔ جیسےضِارِبَۃٌ۔
فائدہ: واضح ہو کہ فعل تثنیہ و جمع نہیں ہوتا اور فعل کے جو صیغے تثنیہ و جمع کہلاتے ہیں وہ فاعل کے اعتبار سے ہیں۔ جیسے فَعَلَا، یَفْعَلَانِ ان دو مردوں نے کیا ۔ وہ دو مرد کریں گے۔ ایسے ہی فَعَلُوْا، یَفْعَلُوْنَ ان سب مردوں نے کیا ۔ وہ سب مرد کرتے ہیں۔ تو کرنے والے دو مرد یا سب مرد ہیں مطلب یہ نہیں کہ کام دو کیے یا سب کام کیے۔ کام تو ایک ہی کیا مگر کرنے والے دو مرد یا سب مرد ہوئے، خوب سمجھ لو۔
علاماتِ فعل
قَدْ: اس کے شروع میں ہو۔ جیسے قَدْضَرَبَ بے شک اس نے مارا ہے۔
سین: شروع میں ہو ۔ جیسے سَیَضْرِبُ قریب ہے کہ مارے گا وہ ۔
سَوْفَ:شروع میں ہو۔ جیسے سَوْفَ یَضْرِبُ قریب ہے کہ مارے گا وہ۔
حرف جزم داخل ہو۔ جیسےلَمْ یَضْرِبْ
ضمیر متصل ہو ۔ جیسےضَرَبْتَ
آخر میں حرف ساکن ہو جیسےضَرَبَتْ
امر ہو۔ جیسے اِضْرِبْ
نہی ہو۔ جیسےلَا تَضْرِبْ
علاماتِ حرف
حرف کی علامت یہ ہے کہ اس میں اسم و فعل کی علامت نہ پائی جاوے اور حقیقت یہ ہے کہ کلام میں حرف مقصود نہیں ہوتا بلکہ محض رابطے کا فائدہ دیتا ہے اور یہ ربط کبھی دو اسموں میں ہوتا ہے۔ جیسےزَیْدٌ فِی الدَّارِیا ایک اسم اور ایک فعل میں ہو۔ جیسے کَتَبْتُ بِالْقَلَمِیا دو فعلوں میں جیسےاُرِیْدُ اَنْ اُصَلِّیْ۔
سبق نمبر ۴
معرب و مبنی
آخری حرف کی تبدیلی کے اعتبار سے کلمہ کی دو قسمیں ہیں۔ ۱) معرب ۲) مبنی۔
معرب: وہ کلمہ ہے جس کا آخری حرف ہمیشہ بدلتا رہتا ہو۔ پس جس کے سبب سے یہ تبدیلی ہوتی ہے اس کو عامل کہتے ہیں۔ اور جو چیز آخری حرف سے بدلتی ہے اس کو اعراب کہتے ہیں۔
اعراب دو قسم کا ہو تا ہے۔حرکتی جیسے ضمہ، فتحہ اور کسرہ۔ حرفی جیسے الف، واؤ، یاء۔ آخری حرف کو محل اعراب کہتے ہیں۔ جیسےجَاءَ زَیْدٌ اس میںجَاءَ عامل ہے اور زید پرضمہ ہے۔رَأَیْتُ زَیْدًا اس میں رَأَیْتُ عامل ہے اور زَیْدًا پر فتحہ ہے۔ اور مَرَرْتُ بِزَیْدٍ میں باء حرف جر عامل ہے اور زَیْدٍپر کسرہ ہے۔ پس زید معرب ہے اور زید کا آخری حرف دال محل اعراب ہے اور ضمہ ، فتحہ اور کسرہ اعراب ہے۔
مبنی: وہ کلمہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہے یعنی عامل کے بدلنے سے اس کے آخری حرف کی حرکت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے جَاءَ ھٰذَا،رَأَیْتُ ھٰذَااورمَرَرْتُ بِھٰذَا ان مثالوں میں ھٰذَا مبنی ہے کہ ہر حالت میں یکساں ہے؎
مبنی آں باشد کہ ماند برقرار
معرب آں باشد کہ گردد بار بار
مبنی و معرب کے اقسام
تمام اسموں میں صرف اسم غیر متمکن مبنی ہے اور افعال میں فعل ماضی اور امر حاضر معروف اور فعل مضارع جس میں نون جمع مؤنث اور نون تاکید کا ہو اور تمام حروف مبنی ہیں۔ اسم متمکن معرب ہوتا ہے بشرطیکہ ترکیب میں واقع ہو۔ ورنہ بلا ترکیب کے مبنی ہوگا۔
متمکن اس لیے کہتے ہیں کہ تمکن کے معنیٰ ہیں جگہ دینا اور چوں کہ یہ اسم اعراب کو جگہ دیتا ہے اس لیے اس کو اسم متمکن کہتے ہیں اور یہ مبنی اصل کے مشابہ بھی نہیں ہوتا۔
فعل مضارع معرب ہے بشرطیکہ نون جمع مؤنث اور نون تاکید سے خالی ہو۔ پس ان قسموں کے علاوہ اور مبنی نہیں ہوتا۔ یعنی ایک تو وہ اسم جو مبنی اصل کے مشابہ نہ ہو اور ایک فعل مضارع جب نون جمع مؤنث اور نون تاکید سے خالی ہو۔
اسم غیرمتمکن وہ اسم ہے جو مبنی اصل کے مشابہ ہو۔ اور مبنی اصل تین ہیں: ۱) فعل ماضی ۲) امر حاضر معروف ۳) تمام حروف
اور یہ مشابہت کئی طرح سے ہوتی ہے۔ یا تو اسم میں مبنی اصل کے معنیٰ پائے جائیں۔ جیسےاَیْنَ میں ہمزۂ استفہام کے معنیٰ پائے جاتے ہیں اور ہمزۂ استفہام حرف مبنی الاصل ہے۔ اور ھَیْھَاتَ میں ماضی کے معنیٰ ہیں اوررُوَیْدًا امر حاضر معروف کے معنوں میں ہے۔ اور ماضی، امر مبنی الاصل ہیں۔ یا جیسے حرف محتاج ہوتا ہے ایسے ہی اسم غیر متمکن میں احتیاج پائی جاتی ہے۔ جیسے اسمائے موصولہ و اسمائے اشارہ کہ یہ صلہ اور مشارٌ الیہ کے محتاج ہیں۔ یا اسم غیر متمکن میں تین حروف سے کم ہوں ۔ جیسےمَنْ، ذَا۔یا اس کا کوئی حصہ حرف کو شامل ہو جیسے اَحَدَ عَشَرَ کہ اصل میں اَحَدٌ وَّ عَشَرٌتھا۔
سبق نمبر ۵
اسم غیر متمکن کے اقسام
اسم غیرمتمکن یامبنی کی آٹھ اقسام ہیں: ۱)مضمرات ۲)اسمائےموصولہ ۳)اسمائے اشارہ ۴)اسمائےافعال ۵)اسمائےاصوات ۶)اسمائے ظروف ۷)اسمائے کنایات ۸) مرکب بنائی۔
۱)مضمرات:مضمرات کی پانچ قسمیں ہیں:۱)مرفوع متصل۲)مرفوع منفصل ۳)منصوب متصل ۴)منصوب منفصل ۵) مجرور متصل۔
ضمیر مرفوع متصل: یعنی فاعل کی وہ ضمیر جو فعل سے ملی ہوئی ہو ۔ چودہ(۱۴) ہیں:
ضَرَبْتُ، ضَرَبْنَا، ضَرَبْتَ، ضَرَبْتُمَا، ضَرَبْتُمْ ، ضَرَبْتِ ، ضَرَبْتُمَا ، ضَرَبْتُنَّ، ضَرَبَ،ضَرَبَا، ضَرَبُوْا، ضَرَبَتْ، ضَرَبَتَا، ضَرَبْنَ
ضمیرمرفوع منفصل:یعنی فاعل کی وہ ضمیر جو فعل سے ملی ہوئی نہ ہو بلکہ اس سے جدا ہو۔وہ چودہ(۱۴) ہیں:
اَنَا، نَحْنُ ، اَنْتَ ، اَنْتُمَا، اَنْتُمْ ، اَنْتِ ، اَنْتُمَا ، اَنْتُنَّ ، ھُوَ ، ھُمَا، ھُمْ، ھِیَ ، ھُمَا،ھُنَّ
تنبیہ: ضمیر مرفوع علاوہ فاعل کے دوسرے مرفوعات کے لیے بھی آتی ہے۔ یہاں آسانی کے لیے صرف فاعل ذکر کیا گیا ۔
ضمیرمنصوب متصل:یعنی مفعول کی وہ ضمیر جو فعل سے ملی ہوئی ہو۔چودہ(۱۴) ہیں:
ضَرَبَنِیْ،ضَرَبَنَا،ضَرَبَکَ،ضَرَبَکُمَا،ضَرَبَکُمْ،ضَرَبَکِ،ضَرَبَکُمَا،ضَرَبَکُنَّ،ضَرَبَہٗ، ضَرَبَھُمَا، ضَرَبَھُمْ، ضَرَبَھَا،ضَرَبَھُمَا،ضَرَبَھُنَّ
ترکیب:ضَرَبَ فعل اس میں ھُوَ ضمیر فاعل نون وقایہ کا ی ضمیر متکلم کی مفعول بہ ۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول بہ سے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہوا۔
ضمیر منصوب منفصل: یعنی مفعول کی وہ ضمیر جو فعل سے ملی ہوئی نہ ہو۔ اس سے جدا ہو۔
اِیَّایَ، اِیَّانَا، اِیَّاکَ، اِیَّاکُمَا، اِیَّاکُمْ، اِیَّاکِ، اِیَّاکُمَا،اِیَّاکُنَّ، اِیَّاہُ، اِیَّاھُمَا، اِیَّاھُمْ ، اِیَّاھَا، اِیَّاھُمَا، اِیَّاھُنَّ۔
تنبیہ: ضمیر منصوب علاوہ مفعول کے دوسرے منصوبات کے لیے بھی آتی ہے۔ یہاں آسانی کے لیے صرف مفعول ذکر کیا گیا۔
ضمیر مجرور متصل:یہ بھی چودہ ہیں اور یہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تو وہ جس پر حرف جر داخل ہو، دوسری وہ کہ جس پر مضاف داخل ہو۔
ضمیر مجرور بحرف جر:لِیْ،لَنَا،لَکَ،لَکُمَا،لَکُمْ،لَکِ،لَکُمَا، لَکُنَّ، لَہٗ، لَہُمَا، لَھُمْ، لَھَا، لَھُمَا، لَھُنَّ۔
ضمیرمجرورباضافت: دَارِیْ، دَارُنَا، دَارُکَ، دَارُکُمَا، دَارُکُمْ، دَارُکِ، دَارُکُمَا، دَارُکُنَّ، دَارُہٗ، دَارُھُمَا، دَارُھُمْ، دَارُھَا، دَارُھُمَا، دَارُھُنَّ۔
فائدہ: کبھی جملہ سے پہلے ضمیر غائب بغیر مرجع کے واقع ہوتی ہے، پس اگر وہ ضمیر مذکر کی ہے تو اس کو ضمیر شان کہتے ہیں۔ اور اگر مؤنث کی ہے تو ضمیر قصہ اور اس ضمیر کے بعد کا جملہ اس کی تفسیر کرتا ہے۔ جیسے اِنَّہٗ زَیْدٌ قَائِمٌ۔ تحقیق شان یہ ہے کہ زید کھڑا ہے۔اور اِنَّھَا زَیْنَبُ قَائِمَۃٌ۔ تحقیق قصہ یہ ہے کہ زینب کھڑی ہے۔
۲)اسمائے موصولہ:
اَلَّذِیْ (وہ ایک مرد کہ)
اَلَّذَانِ (وہ دو مرد کہ)
اَلَّذَیْنِ (وہ دو مرد کہ)
اَلَّذِیْنَ (وہ سب مرد کہ)
اَلَّتِیْ (وہ ایک عورت کہ)
اَلَّتَانِ (وہ دو عورتیں کہ)
اَلَّتَیْنِ (وہ دو عورتیں کہ)
اَللَّاتِیْ (وہ سب عورتیں کہ)
اَللَّوَاتِیْ (وہ سب عورتیں کہ)
مَا، مَنْ، اَیٌّ ، اَیَّۃٌ اور الف لام بمعنی اَلَّذِیْ اسم فاعل اور اسم مفعول میں۔ جیسے اَلضّارِبُ بمعنی اَلَّذِیْ ضَرَبَ اور اَلْمَضْرُوْبُ بمعنی اَلَّذِیْ ضُرِبَ اور ذُوْ بمعنی اَلَّذِیْ قبیلہ بنی طے کی زبان میں جیسےجَاءَ ذُوْ ضَرَبَکَ یعنی اَلَّذِیْ ضَرَبَکَ۔اَیٌّ وَ اَیَّۃٌ معرب ہیں اور بغیر اضافت کے استعمال ان کا نہیں ہوتا۔
فائدہ: اسم موصول وہ اسم ہے جو جملہ کا پورا جزو بغیر صلہ کے نہیں ہوتا۔ اور صلہ جملہ خبریہ ہوتا ہے جس میں ضمیر موصول کی طرف لوٹنے والی ہوتی ہے۔ جیسے جَاءَ الَّذِیْ اَبُوْہُ عَالِمٌ۔ آیا وہ شخص کہ جس کا باپ عالم ہے۔
ترکیب:جَاءَ فعل اَلَّذِیْ اسم موصول اَبُوْ مضاف ہٗ ضمیر مضاف الیہ مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا عَالِمٌ خبر مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ خبریہ ہوکر صلہ ہوا۔ صلہ موصول مل کر فاعل ہوا جَاءَ کا اور جَاءَ فعل اپنے فاعل سے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہوا۔
۳)اسمائے اشارہ :یہ دو قسم پر ہیں: ۱) اشارہ قریب ۲) اشارہ بعید۔
اشارہ قریب یہ ہیں: ھٰذَا (یہ ایک مرد) ھٰذَانِ (یہ دو مرد)ھٰذِہٖ (یہ ایک عورت) ھَاتَانِ(یہ دو عورتیں) ھٰؤُ لَاءِ (یہ سب مرد یا عورتیں)۔
اشارہ بعید یہ ہیں: ذَالِکَ (وہ ایک مرد) ذَانِکَ (وہ دو مرد) تِلْکَ (یہ ایک عورت) تَانِکَ (یہ دو عورتیں) اُو لٰئِکَ (یہ سب مرد یا عورتیں)
فائدہ: جس کی طرف اشارہ کیا جائے اسے مشارٌ الیہ کہتے ہیں۔ جیسے ھٰذَا الْقَلَمُ نَفِیْسٌ اس مثال میں قلم مشارالیہ ہے۔
ترکیب: ھٰذَااسم اشارہ اَلْقَلَمُ مشارالیہ، اشارہ مشار الیہ مل کر مبتدا ہوا۔نَفِیْسٌ خبر۔ مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ خبریہ ہوا۔
۴)اسمائے افعال:وہ اسم جو فعل کے معنی میں ہوں۔ ان کی دو قسمیں ہیں:
۱)بمعنی امر حاضر:جیسے رُوَیْدًا، حَیَّھَلْ، ھَلُمَّ ، دُوْنَکَ، عَلَیْکَ (لازم پکڑ)۔ ھَا (پکڑ)۔
۲)بمعنی فعل ماضی:جیسے ھَیْھَاتَ (دور ہوا) ۔ شَتَّانَ (جدا ہوا)۔ سَرْعَانَ(جلدی کی)۔
۵)اسمائے اصوات:جیسےاُحْ اُحْ (کھانسی کی آواز)، اُفْ (آوازِ درد)، بَخَّ(آوازِ شادی)، نَخَّ (اونٹ بٹھانے کی آواز) ، غَاقْ (آوازِ زاغ) ۔
۶)اسمائے ظروف: ۱)ظرفِ زمان: جیسے اِذْ، اِذَا، مَتٰی، کَیْفَ،اَیَّانَ،اَمْسِ، مُذْ،مُنْذُ ، قَطُّ، عَوْضُ ، قَبْلُ ، بَعْدُ۔
اِذْ: ماضی کے واسطے ہے اگرچہ مستقبل پر داخل ہو۔ اور اس کے بعد جملہ اسمیہ اور فعلیہ دونوں آسکتے ہیں۔ جیسےجِئْتُکَ اِذْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ اوروَ اِذِ الشَّمْسُ طَالِعَۃٌ۔
اِذَا: یہ مستقبل کے واسطے آتا ہے اور ماضی کو بھی مستقبل کے معنی میں کر دیتا ہے۔ جیسےاِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللہِاور اٰتِیْکَ اِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ اور کبھی مفاجات کے واسطے بھی آتا ہے۔جیسےخَرَجْتُ فَاِذَا السَّبُعُ وَاقِفٌ(میں نکلا پس اچانک درندہ کھڑا تھا)۔
مَتٰی: یہ شرط اور استفہام کے لیے آتا ہے۔ جیسے مَتٰی تَصُمْ اَصُمْ (جب تو روزہ رکھے گا میں بھی روزہ رکھوں گا)۔ یہ شرط کی مثال ہے۔ اور مَتٰی تُسَافِرُ (تو کب سفر کرے گا)۔ یہ استفہام کی مثال ہے۔
کَیْفَ: یہ حال دریافت کرنے کے واسطے آتا ہے۔جیسے کَیْفَ اَنْتَ، فِی اَیِّ حَالٍ اَنْتَ(تو کس حال میں ہے)۔
اَیَّانَ: یہ وقت دریافت کرنے کے واسطے آتا ہے۔ جیسےاَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ(کون سا دن ہے جزاء کا)۔
اَمْسِ: جیسےجَاءَ نِیْ زَیْدٌ اَمْسِ ( آیا میرے پاس زید کل)۔
مُذْ و مُنْذُ: یہ دونوں کام کی ابتدائی مدت بتاتے ہیں۔جیسےمَا رَأَیْتُہٗ مُذْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ (میں نے اس کو جمعہ کے دن سے نہیں دیکھا)۔ اور پوری مدت کے لیے بھی آتے ہیں۔
مَا رَأَیْتُہٗ مُذْ یَوْمَیْنِ (میں نے اس کو دو دن سے نہیں دیکھا)۔
قَطُّ: یہ ماضی منفی کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ جیسے مَا ضَرَبْتُہٗ قَطُّ (میں نے اس کو ہر گزنہیں مارا)۔
عَوْضُ: یہ مستقبل منفی کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ جیسےلَا اَضْرِبُہٗ عَوْضُ(میں اسے کبھی نہیں ماروں گا)۔
قَبْلُ وَ بَعْدُ: جبکہ مضاف ہوں اور مضاف الیہ متکلم کی نیت میں ہو۔ نَحْوُ قَوْلِہٖ تَعَالٰی:لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ۔ اَیْ مِنْ قَبْلِ کُلِّ شَیْئٍ وَ مِنْ بَعْدِ کُلِّ شَیْئٍ اورجیسےاَنَا حَاضِرٌ مِنْ قَبْلُ (یعنی مِنْ قَبْلَکَ)۔مَتٰی تَجِیْئُ بَعْدُ (یعنی بَعْدَ ھٰذَا)
۲)ظرفِ مکان: حَیْثُ، قُدَّامُ، خَلْفُ، تَحْتُ، فَوْقُ، عِنْدَ، أَیْنَ، لَدیٰ، لَدُنْ۔
حَیْثُ:یہ اکثر جملہ کی طرف مضاف ہوتاہے۔جیسےاِجْلِسْ حَیْثُ زَیْدٌ جَالِسٌ یعنی اِجْلِسْ مَکَانَ جُلُوْسِ زَیْدٍ۔
قُدَّامُ وَ خَلْفُ:جیسے قَامَ النَّاسُ قُدَّامُ و خَلْفُ یعنی قُدَّامَہٗ و خَلْفَہٗ۔
تَحْتُ وَ فَوْقُ:جیسےجَلَسَ زَیْدٌ تَحْتُ، وَ صَعِدَ عَمْرٌو فَوْقُ۔اِیْ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ وَفَوْقَ الشَّجَرَۃِ مَثَلًا
عِنْدَ: جیسے اَلْمَالُ عِنْدَ زَیْدٍ (مال زید کے پاس ہے)۔
أَیْنَ وَأَنّٰی: خواہ استفہام کے لیے آئیں،جیسےأَیْنَ تَذْھَبُ؟(تو کہاں جاتا ہے؟) أَنّٰی تَقْعُدُ؟ (تو کہاں بیٹھے گا؟) یا شرط کے لیے جیسےأَ نّٰی تَجْلِسْ اَجْلِسْ(تو جہاں بیٹھے گا میں بیٹھوں گا) اور أَنّٰی تَذْھَبْ اَذْھَبْ (جہاں تو جائے گا میں جاؤں گا)۔
اور أَ نّٰی کَیْفَ کے معنی میں بھی آتا ہے جبکہ فعل کے بعد آئے۔ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی: فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ۔ اَیْ کَیْفَ شِئْتُمْ (پس آؤ تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو)۔
لَدٰی وَ لَدُنْ:یہ دونوں عِنْدَ کے معنی میں آتے ہیں۔اورفرق عِنْدَ اوران دونوں میں یہ ہے کہ عِنْدَ میں شے کا قبضہ اور ملک میں ہو نا کافی ہے اور ہر وقت پاس رہنا ضروری نہیں ہے۔ جیسےاَلْمَالُ عِنْدَ زَیْدٍ (مال زید کے پاس ہے۔ خواہ مال خزانے میں ہو یا اس کے پاس حاضر ہو) اور اَلْمَالُ لَدٰی زَیْدٍاس وقت کہیں گے جب مال زید کے پاس حاضر ہو۔ پس عِنْدَ عام ہے اورلَدٰی و لَدُنْ خاص ہیں ۔ خوب سمجھ لو!
فائدہ۱) قَبْلُ ، بَعْدُ ، تَحْتُ ، فَوْقُ ، قُدَّامُ ، خَلْفُ ، حَیْثُ ، قَطُّ،عَوْضُ۔ ضمہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور اَیَّانَ ، کَیْفَ، أَیْنَ فتحہ پر مبنی ہوتے ہیں اور اَمْسِ کسرہ پر مبنی ہو تا ہے باقی ظروف سکون پر۔
فائدہ: ۲)ظروف غیر مبنی جب جملہ یا اِذْ کی طرف مضاف ہوں تو ان کا فتحہ پر مبنی ہونا جائز ہے، کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی:ہٰذَا یَوۡمَ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ ؕ تو یہاں یَوْ مَ کو مفتوح پڑھنا جائز ہے۔ جیسےیَوْمَئِذٍ،حِیْنَئِذٍ۔
۷)اسمائے کنایات:یعنی وہ اسماء جو شے مبہم پر دلالت کریں ۔ جیسے کَمْ ،کَذَا کنایہ ہیں عدد سے اور کَیْتَ ، ذَیْتَ۔ کنایہ ہیں بات سے۔
۸)مرکب بنائی: جیسے اَحَدَ عَشَرَ۔
سبق نمبر۶
معرفہ و نکرہ
اسم کی باعتبار عموم و خصوص کے دو قسمیں ہیں: ۱ )معرفہ ۲) نکرہ
معرفہ: وہ اسم ہے جو خاص چیز کے لیے بنایا گیا ہو۔ اس کی سات قسمیں ہیں:
۱) ضمیر: وہ اسم ہے جو کسی نام کی جگہ بولا جائے۔ جیسے ھُوَ، أَنْتَ ، نَحْنُ۔
۲)علَم: جو کسی خاص شہر یا خاص آدمی یا خاص چیز کا نام ہو۔ جیسے زَیْدٌ، دِھْلِیٌّ، زَمْزَمْ۔
۳) اسمِ اشارہ: یعنی وہ اسم جس سے کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جائے۔ جیسےھٰذَا، ذَالِکَ۔
۴)اسمِ موصول: یعنی وہ اسم جو صلہ کے ساتھ مل کر جملہ کا جزو بن سکے۔ جیسےاَلَّذِیْ، اَلَّتِیْ۔
۵)معرّف باللّام:یعنی وہ اسم جسے نکرہ پر الف لام داخل کر کے معرفہ بنایا گیا ہو۔ جیسےاَلرَّجُلُ۔
۶)وہ اسم جو ان پانچوں قسموں میں سے کسی ایک کی طرف مضاف ہو: مثالیں بالترتیب یہ ہیں:
ضمیر کی طرف مضاف جیسےغُلَامُہٗ ، فَرَسُکَ ، کِتَابِیْ
علم کی طرف مضاف جیسےغُلَامُ زَیْدٍ ، سَاکِنُ الدِّھْلِیْ ، مَاءُ زَمْزَمَ ۔
اسم اشارہ کی طرف مضاف جیسے کِتَابُ ھٰذَا،فَرَسُ ذَالِکَ۔
اسم موصول کی طرف مضاف جیسےغُلَامُ الَّذِیْ عِنْدَکَ،بِنْتُ الَّتِیْ ذَھَبَتْ۔
معرف باللام کی طرف مضاف جیسےغُلَامُ الرَّجُلِ۔
۷)معرفہ بہ نداء:یعنی وہ اسم جو پکارنے کی وجہ سے معرفہ بن جائے۔ جیسےیَا رَجُلُ اس میں یاء حرف نداء ہے اور رجل منادیٰ ہے۔
نکرہ: وہ اسم ہے جو غیر معین یعنی عام چیزوں کے لیے بنایا گیا ہو۔ جیسےفَرَسٌ کہ کسی خاص گھوڑے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر گھوڑے کو عربی میں فَرَسٌ کہتے ہیں اور جبفَرَسُ
زَیْدٍیا فَرَسُ ھٰذَا کہہ دیا تو خاص ہو کر معرفہ بن گیا۔
سبق نمبر۷
عدد اور اس کی تمیز کے قوانین
نحو کی کتا بوں میں جس قدر تفصیل موجود ہے اس کو پڑھانے کے بعد اگر حسب ذیل قواعد زبانی یاد کرا دیے جائیں تو ان شاء اﷲ تعالیٰ تمام عمر عبارت پڑھنے میں غلطی نہ ہوگی۔
قاعدہ نمبر ۱) ایک اور دو کی تمیز نہیں آتی۔
قاعدہ نمبر ۲) تین سے دس تک کی تمیز جمع اور مجرور ہوتی ہے۔ جیسےسَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَۃَ اَیَّامٍ، خَمْسُ نِسْوَۃٍ۔
قاعدہ نمبر ۳) گیارہ سے ننانوے تک کی تمیز مفرد منصوب ہو گی۔ مثلاً اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا،لِیْ تِسْعٌ وَّ تِسْعُوْنَ نَعْجَۃًاور فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشَرَۃَ عَیْنًا۔
قاعدہ نمبر۴)سو اور سو کے بعد تمیز مفرد مجرور ہو گی۔ جیسے فَقِیہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ، لَبِثْتُ مِائَۃَ عَامٍاور یُصَلُّوْنَ عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ۔
فائدہ:اوپر لکھے ہوئے ان چار قواعد کو زبانی یاد کراکے عبارت میں ان کی مشق کرائیں۔ اس کے بعد حسبِ ذیل قواعد یاد کرائے جائیں:
۱)اگر تمیز مذکر ہو تو عدد مؤنث ’’تاء‘‘کے ساتھ اور اگر مؤنث ہو تو عدد مذکر لاتے ہیں۔ جیسےخَمْسَۃُ رِجَالٍ ۔ ثَلٰثُ نِسْوَۃٍ ۔ ثَلٰثُ بَنَاتٍ ۔ تِسْعَۃُ رَھْطٍ۔ یہ قاعدہ تین سے دس تک کے لیے ہے۔ سَبْعَ لَیَالٍ، ثَمَانِیَۃَ اَیَّامٍوغیرہ کی مثال بھی گزر چکی ہے۔ دس کے بعد بیس،تیس، چالیس وغیرہ جملہ دہائیوں میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہیں۔ جیسےعِشْرُوْنَ رَجُلًا،عِشْرُوْنَ اِمْرَأَۃً اور عقود کے ساتھ جب اکائی لگائی جاتی ہے تو واؤ عاطفہ بڑھاتے ہیں۔ جیسے اَحَدٌ وَّعِشْرُونَ(۲۱) اَحَدٌ وَّ ثَلٰثُوْنَ (۳۱) وغیرہ۔
۲)کبھی خلاف قاعدہ جمع لاتے ہیں۔ جیسےوَ لَبِثُوْا فِیْ کَہْفِھِمْ ثَلٰثَ مِأَۃٍ سِنِیْنَ۔
۳)کبھی تمیز مقدم ہوتی ہے اور ممیز مؤخر، پھر یہ موصوف اور صفت کی ترکیب ہے۔ جیسےوَلَہٗ شَرَائِطٌ سِتَّۃٌ۔ اس ترکیب میں شَرَائِطٌ اورسِتَّۃٌ دونوں مرفوع ہوں گے۔
۴)تین سے دس تک کی تمیز اگر سو ہوگی تو خلافِ قیاس یہ تمیز مفرد مجرور ہو گی۔ جیسےثَلٰثُ مِأَۃٍ وَ تِسْعُ مِأَۃٍ۔
نوٹ:یہ چار مذکورہ قواعد صرف ذہن نشین کرادینا کافی ہے۔ لیکن اگر ان قواعد اربعہ کے اوپر جو قواعد مذکور ہیں ان کو زبانی بار بار سناجاوے تاکہ خوب یاد ہوجاویں۔

فن نحو سے تصوّف کا ثبوت

ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج ۱ کے شروع میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ : بَعْدَ مِأَتَیْنِ وَ ثَلَاثِیْنَ سَنَۃً(۲۳۰ سال کےبعد) کسی کی قبر کھودتے وقت امام صاحب کی قبر کھل گئی تو دیکھا گیا کہ کفن بھی پرانا نہ ہوا تھا بالکل تازہ تھا اور جسم مبارک بھی بالکل تازہ تھا ذرا بھی متغیر نہ تھا۔یہاں بتانا یہ ہے کہ سَنَۃً مفرد منصوب ہے کیوں کہ اس پر ثَلٰثِیْنَ کا عمل ہے اورمِأَتَیْنِ (دو سو) کی طاقت کا اس پر عمل نہ ہوا اور ورنہ مفرد مجرور ہوتا۔ تو اس مثال سے یہ سبق ملتا ہے کہ سَنَۃً جو تیس کا صحبت یافتہ ہے اس پر عامل قریب کا فیض ہے اور کئی گنا طاقت دو سو سے متأثر نہ ہوا۔ پس گمراہی کے اسباب اگر قوی ہوں تو گھبرانے کی بات نہیں۔ عامل قریب نیک کی صحبت میں رہو یہ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ آیت کی تفسیر ہے صالحین کے ساتھ رہو تو صالح بن جاؤ گے۔ طلباء کو ذہن نشین کرایئے۔
سبق نمبر۸
مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کے قواعد
اس مضمون کو نحو میر سے شرح جامی تک بار بار پڑھایا جاتا ہے لیکن تجربہ سے معلوم ہوا کہ اکثر یہ قواعد زبانی یاد نہیں رہتے۔ جس سے تمام عمر محض اندازہ سے عبارت پڑھتے ہیں۔اور یقین کے ساتھ عبارت کو صحیح پڑھنے کی قدرت اور استعداد نہیں ہوتی۔ اور یاد نہ ہونے کا سبب اصطلاحات کی مشکلات اور طول مضمون ہوتا ہے۔ اس لیے اصطلاحات کے ساتھ تمام مضامین پڑھانے کے بعد صرف یاد کرانے کے لیے اور عبارت صحیح پڑھنے کے لیے چار ضروری قواعد تحریر کیے جاتے ہیں۔ جن کے یاد کر لینے سے ان شاء اﷲ تعالیٰ تمام عمر مستثنیٰ کے اعراب صحیح پڑھنے کی استعداد پیدا ہو جاوے گی۔
مستثنیٰ کی چار قسمیں
۱) کلام مثبت ۲) کلام منفی ۳)غیر اور سویٰ کا مابعد ۴) ماخلا اور ما عدا وغیرکا مابعد۔ (جبکہ استثناء کے لیے استعمال ہوں)
قاعدہ نمبر۱) کلام مثبت کا مستثنیٰ ہمیشہ منصوب ہوتا ہے۔ جیسےفَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ۔کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ(کلام مثبت وہ کلام ہے جس میں کوئی حرف نفی نہ ہو)۔
ضروری نوٹ:طالب علم کو صرف اس قدر یاد کرایا جاوے کہ جب کلام میں حرف نفی نہ ہو تو یقین کے ساتھ مستثنیٰ پر نصب پڑھیے ۔ خواہ مستثنیٰ متصل ہو یا منقطع۔
کُلُّ اَسْمَاءِ الْأَ نْبِیَاءِ مُمْتَنِعَۃٌ اِلَّا سِتَّۃً، کُلُّ حَیْوَانٍ یُحَرِّکُ فَکَّہُ الْاَسْفَلَ اِلَّا التِّمْسَاحَ۔
کلام مثبت میں مستثنیٰ متصل کی مثال:جَاءَ نِیْ الْقَوْمُ اِلَّا زَیْدًااورمنقطع کی مثال: جَاءَ نِیْ الْقَوْمُ اِلَّا حِمَارًا ہے۔
قاعدہ نمبر ۲) کلام منفی کی دو صورتیں:
(الف): اگر مستثنیٰ منہ مذکور ہے تو مستثنیٰ منہ کا اعراب مستثنیٰ کو علیٰ سبیل بدل دے دیا جائے گا۔ اور مستثنیٰ منہ مبدل منہ ہو گا۔ اور مستثنیٰ اس کا بدل ہوگا۔ اور مبدل منہ اورمبدل کا اعراب ایک ہوتا ہے۔ جیسےمَاجَاءَ نِیْ اَحَدٌ اِلَّا زَیْدٌ۔
نوٹ: بر سبیل استثناء ایسے مستثنیٰ کو منصوب بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جیسے مَاجَاءَ نِیْ اَحَدٌ اِلَّا زَیْدًا۔
(ب): اگر مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو تو علیٰ حسبِ عوامل اعراب ہو گا۔ جیسےمَاجَاءَ نِیْ اِلَّا زَیْدٌ۔ مَا بَقِیَ مِنْھَا اِلَّا کَتِفُھَا۔
قاعدہ نمبر ۳)لفظ غَیْرَ اور سِوٰی سے جب استثناء کیا جائے گا تو غَیْرَ پر وہ اعراب آئے گا جو اِلَّا کے استعمال کے وقت مستثنیٰ پر آتا ہے۔ گویا مستثنیٰ کا اعراب غَیْرَ لے لے گا۔ اور غَیْرَ کے بعد جو مستثنیٰ ہو گا وہ غَیْرَ کا مضاف الیہ ہو کر مجرور ہو جائے گا۔مثال:جَاءَ نِیْ الْقَوْمُ غَیْرَ زَیْدٍ۔
اس مثال میں غَیْرَ منصوب ہے کیوں کہ یہ کلام مثبت ہے اور اس جگہ اگر حرف اِلَّا استعمال ہوتا تو اس کا مابعد لفظ زَیْدًا منصوب ہوتا۔ بعینہ وہ اعراب غَیْرَ پر جاری ہوا۔ اور مابعد غَیْرَ کا مجرور ہو گیا بوجہ مضاف الیہ ہونے کے۔
مثال: جَاءَ نِیْ الْقَوْمُ غَیْرَ حِمَارٍ۔(یہ مستثنیٰ منقطع کی مثال ہے)۔ (الف):مَاجَاءَ نِیْ اَحَدٌ غَیْرُ زَیْدٍ۔ (ب): مَاجَاءَ نِیْ اَحَدٌ غَیْرَ زَیْدٍ۔ (الف) میں علی حسب بدل مرفوع ہے ۔ اور (ب) کی صورت میں بر سبیل استثناء نصب بھی جائز ہے۔
ضروری نوٹ:یہ قاعدہ نمبر ۳(یاد کرانے کے لیے صرف اس قدر یاد کرایا جاوے کہ غَیْرَ کا اعراب وہی ہوتا ہے جو اِلَّا کے بعد مستثنیٰ کا ہوتا ہے۔ ورنہ تفصیل سے سبق محفوظ نہ ہوسکے گا اوردماغ منتشر ہوگا۔ تفصیل کو صرف ذہن نشین کرایا جاوے۔ البتہ زیادہ ذہین اور قوی الحافظہ طالب العلم کو سب یاد کرانا مناسب ہوگا۔ مثال: مَا جَاءَ نِیْ غَیْرُ زَیْدٍ میں مستثنیٰ منہ مذکورنہیں ہے لہٰذا غَیْرَ کا اعراب علیٰ حسب العامل ہو گا۔ جیساکہ اس مثال میں غَیْرُ، مَاجَاءَ کا فاعل ہے۔
قاعدہ نمبر ۴)مَا خَلَا وَ مَاعَدَا وغیرہ کا مستثنیٰ ہمیشہ منصوب ہوتا ہے جیسےاَلَا کُلُّ شَیْیٍٔ مَّاخَلَا اللہَ بَاطِلٌ۔ قَالَ جَابِرٌ: مَا مِنْ اَحَدٍ اِلَّا مَالَتْ بِہِ الدُّنْیَا وَمَالَ بِھَا مَاخَلَا عُمَرَ وَ اِبْنَہٗ عَبْدَاللہ۔
اس مثال میں مَاخَلَا نے اپنے مستثنیٰ کو نصب دیا ہے۔
نوٹ: مَاخَلَا اور مَاعَدَا وغیرہ اگر استثناء کے لیے استعمال نہ ہوں تو پھر یہ افعال ناقصہ کا عمل کریں گے۔ جیسے خَلَا الْبَیتُ زَیْدًا۔ گھر خالی ہوگیا زید سے۔ اس جملہ میںخَلَا فعل ناقص البیت اس کا اسم اور زید اس کی خبر ہے۔
قاعدہ نمبر ۵)کبھی اِلَّا، غَیْرَ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس وقت یہاِلَّاصفتیہ ہوتا ہے۔ استثناء مقصود نہیں ہوتا اس لیے یہ اِلَّا استثنائیہ نہیں ہوتا۔ اس وقت اِلَّا کے ما بعد کو وہی اعراب دیا جاتا ہے جو غَیْرَ کا اعراب ہوتا ہے۔ جیسےلَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ۔اس مثال میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ،لَا اِلٰہَ غَیْرُ اللہِ کے معنی میں ہے اورغیر کا رفع اِلَّا کے ما بعد کو دے دیا گیا۔لیکن اِلَّا غَیْرَ کے معنی میں جب ہوتا ہے جہاں استثناء کی کوئی صورت ممکن نہ ہو۔ نہ اس کو متصل بنا سکیں نہ منقطع بناسکیں۔
حل اصطلاحات: کلام مثبت کو کلام موجب بھی کہتے ہیں اور وہ کلام جس میں حرف نفی ، نہی، استفہام ہو اس کو غیر موجب کہتے ہیں۔اور کلام منفی میں اگر مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو تو مستثنیٰ مفرغ کہتے ہیں اور اگر مذکور ہو تو غیر مفرغ ۔ اسی طرح اگر مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہو تو اس کو مستثنیٰ متصل کہتے ہیں اور اگر اس کی جنس سے نہ ہو تو اس کو منقطع کہتے ہیں۔ جیسے جَاءَ الْقَوْمُ اِلَّا زَیْدًا زید مستثنیٰ متصل ہے کیوں کہ زید قوم میں داخل ہے۔ اور فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ اِلَّا اِبْلَیْسَیہ مستثنیٰ منقطع ہے کیوں کہ ابلیس جن تھا فرشتوں میں داخل نہ تھا۔
تنبیہ:ان اصطلاحات کو یاد کرانے سے پہلے کئی ماہ تک اوپر لکھے ہوئے قواعد کو خوب پختہ یاد کرایا جائے۔جب ان چار مذکورہ قواعد کے یاد ہوجانے پر اطمینان ہو جائے تو پھر ان اصطلاحات کو سمجھادیا جائے۔
وجہ تسمیہ مُفَرَّغْ و غَیْر مُفَرَّغْ: بڑوں کے سامنے چھوٹے اور مخدوم کے سامنے خادم فارغ نہیں ہوتے۔ لہٰذا مستثنیٰ منہ کی موجودگی میں مستثنیٰ غیر مفرغ(غیر فارغ) ہوتا ہے اور مستثنیٰ منہ کی غیر موجودگی میں مستثنیٰ مفرغ (فارغ) ہوتا ہے۔ یعنی معمول بننے سے فراغ ملتا ہے۔
حل اشکال: کلام مثبت میں بعض وقت بعض عبارت منفی کے محذوف ہونے کے سبب اس کا مستثنیٰ منصوب نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس عبارت کو ظاہری اصول پر منصوب پڑھنا بھی صحیح ہے۔
جیسے حدیث میں یہ عبارت ہے:
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَ لَا اِنَّ الدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِیْھَا اِلَّا ذِکْرُ اللہِ وَ مَا وَالَاہُ وَ عَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ
اس عبارت کو دو طرح پڑھنا جائز ہے۔
۱) ذِکْرُ اللہِ کو منصوب پڑھا جائے اور عَالِمٌ اور مُتَعَلِّمٌ کوبوجہ عطف کے نصب کے ساتھ عَالِمًا اور مُتَعَلِّمًا پڑھا جائے ۔
۲) ذِکْرُ اللہِ کو مرفوع پڑھنا اور عَالِمٌ اور مُتَعَلِّمٌ کواس پر عطف کرنا جیسا کہ مشکوٰۃ کی روایت میں ہے۔ رفع کی اس صورت میں اس تاویل کو محذوف سمجھا جائے گا۔
کَأَنَّہٗ قِیْلَ الدُّنْیَا مَذْمُوْمَۃٌ لَا یُحْمَدُ مَافِیْھَا اِلَّا ذِکْرُ اللہِ وَ عَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ
سبق نمبر۹
اسم اِنَّ اور اس کے اخوات اور اسم کَانَ اور جملہ افعالِ ناقصہ کاایک خاص قانون
اِنَّ یا کَانَ کے بعد اگر جار مجرور یا ظرف آئے گا تو اِنَّ اور کَانَ کا اسم مؤخر ہو جائے گا۔ یعنی اِنَّ کا اسم منصوب اور کَانَ کا مرفوع جیسے اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا،اِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَہْلًا، اِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِیَالًا، اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً،اِنَّ لِلہِ مِائَۃَ رَحْمَۃٍ۔ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّاوَ اِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّاوَ اِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّاوَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا،اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃً وَ فِتْنَۃُ اُمَّتِیْ الْمَالُ اور اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃًان تمام مثالوں میں اِنَّ کا اسم منصوب مؤخر ہو گیاہے اور جار مجرور اپنے متعلق محذوف سے مل کر خبر مقدم ہے۔
اور اِنْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ میں بَعْدِیْ ظرف ہے اس لیےکَانَ کا اسم مؤخر مرفوع ہے۔بعض لوگ جو قواعد سے باخبر نہیں ہیں وہ اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقٌّ اور اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃٌاور اِنْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیًّا پڑھتے ہیں جو بالکل غلط ہے اور قواعدنحو سے لاعلمی ہے۔
تنبیہ: اِنَّ اور کَانَ کے بعد جار مجرور یا ظرف کے بعد اِنَّ کا اسم مؤخر ہونا خوب مشق کرادیا جاوے۔ اس قاعدہ کی اکثر و بیشتر ضرورت پیش آتی ہے۔ مذکورہ قاعدہ یاد کرنے کے بعد ان شا ء اﷲ یقین کے ساتھ عبارت کی صحت ہوگی۔
حل اشکال: اسم کے مؤخر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اِنَّ اور کَانَ کا اسم مبتداء کے حکم میں ہوتا ہے اور مبتداء میں استقلال کی شان ہو تی ہے ظرف اور جار مجرور میں بوجہ ضعف مبتداء بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس وجہ سے اِن کو خبر مقدم بنایا جاتا ہے۔ اور اسم کو مبتداء مؤخر بنایا جاتا ہے۔
سبق نمبر۱۰
اِنَّ (بِالْکَسْر) اور اَنَّ (بِالْفَتْح) کے مواقعِ استعمال
چار مقامات پر اِنَّ (بالکسر) آتا ہے:
۱) ابتدائے کلام میں۔ جیسے اِنَّ اللہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ
۲)قول کے بعد۔ جیسے وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ
۳) جواب قسم میں۔ جیسے وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾
۴)جب خبرپرلام تاکیدداخل ہو،جیسے قَالُوۡا رَبُّنَا یَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ ﴿۱۶﴾
اور پانچ مقامات پر اَنَّ (بالفتح) آتا ہے:
۱) وسط کلام میں۔ جیسے شَھِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔
۲) عِلم کے بعد ۔ جیسے وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ۔
۳)ظن کے بعد۔ جیسے یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ۔
۴) حرف ’’لَوْ‘‘ کے بعد۔ جیسےوَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ۔
۵) حرف ’’لَوْلَا‘‘ کے بعد۔ جیسے فَلَوۡ لَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُسَبِّحِیۡنَ۔
فائدہ:ان قواعد کو زبانی یاد کراکے بار بار سنا جاوے اور عبارت میں اس کی تمرین ومشق کرائی جاوے۔
سبق نمبر۱۱
کَمْ کی قسمیں
کَمْ کی دو قسمیں ہیں: ۱) کَمْ استفہامیہ ۲) کَمْ خبریہ۔
کَمْ استفہامیہ کی تمیز مفرد منصوب ہوتی ہے۔ جیسے کَمْ رَجُلًا فِیْ بَیْتِکَ اور کَمْ خبریہ کی تمیز مجرور ہوتی ہے۔جیسےکَمْ مَالٍ اَنْفَقْتُہٗاسی طرح؎
کَمْ عَاقِلٍ عَاقِلٍ اَعْیَتْ مَذَاھِبُہٗ
وَجَاھِلٍ جَاھِلٍ تَلْقَاہُ مَرْزُوْقًا
ترجمہ: بہت سے اہل عقل رزق کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور بہت سے جاہل تم ان کو نہایت فراخیٔ رزق میں پاؤ گے۔
نوٹ: کم استفہامیہ پرمشتمل جملہ انشائیہ ہوتا ہے کیوں کہ استفہام از قسم انشاء ہوتا ہے۔اس کی ترکیب نحوی اس طرح ہے۔
ترکیبِ نحوی۔ کَمْ رَجُلًا فِیْ بَیْتِکَ
کَمْ ممیز۔ رَجُلًا تمیز۔ممیز اپنے تمیز سے مل کر مبتداء ہوا۔ فِیْ بَیْتِکَجار مجرور اپنے متعلق محذوف سے مل کر خبر۔ اور مبتداء اپنی خبر سے مل کر جملہ اسمیہ استفہامیہ ہوا۔
ترکیبِ نحوی۔ کَمْ مَالٍ اَنْفَقْتُہٗ
کَمْ ممیز مضاف۔ مَالٍ تمیز مضاف الیہ۔ مضاف و مضاف الیہ مل کر مفعول بہٖ مقدم۔ اَنْفَقْتُہٗ فعل، فاعل اور مفعول بہ۔ فعل اپنے فاعل، مفعول مقدم اور مفعول مؤخر سے مل کر جملہ فعلیہ خبریہ ہوا۔
کَمْ خبریہ میں متکلم مخبر ہوتا ہے (یعنی خبر دینے والا)۔ اور کم استفہامیہ میں مستخبر ہوتا ہے(یعنی خبر طلب کرنے والا)۔
تنبیہ: اگر کم خبریہ کی تمیزمیں فصل ہوتا ہے تو مِنْ کا لانا واجب ہے۔ جیسےکَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ۔
سبق نمبر۱۲
مَا و اَنْ مصدریہ
یہ دو حروف ایسے ہیں کہ فعل پر داخل ہو کر اسے مصد ر کے معنیٰ میں کر دیتے ہیں۔ اِن کو مَا اور اَنْ مصدریہ کہتے ہیں۔قرآن کریم میں بھی ان کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً مَا مصدریہ کی مثال وَضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ اور اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ان دونوں آیتوں میں ما مصدریہ نے فعل ماضی کو مصدر کے معنیٰ میں کردیا ہے۔
اَنْ مصدریہ کی مثال: وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا اور کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنَ کُفْرًا
سبق نمبر۱۳
حروف ناصبہ کی اقسام
فعل مضارع کو نصب دینے والے حروف چار ہیں:
۱) اَنْ: مثلاً اَنْ تَعْبُدَ اللہَ
۲) لَنْ: مثلاً لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ
۳) کَیْ: مثلاً کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً
۴) اِذَنْ: مثلاً اِذَنْ اُکْرِمَکَ
نوٹ: حرف ناصب اَنْ چھ مقامات پر مقدر ہوتا ہے۔
۱) حتّٰی کے بعد جیسے مَرَرْتُ حَتّٰی اَدْخُلَ الْبَلَدَ
۲) لامِ جحد کے بعد جیسے مَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَھُمْ
۳)اَوْ کے بعد جو اِلَّا یا اِلٰی کے معنیٰ میں ہو۔ جیسےلَاَلْزِمَنَّکَ اَوْ تُعْطِیَنِیْ حَقِّیْ
۴)واؤ صرف کے بعد۔ جیسےلَا تَنْہَ عَنْ خُلْقٍ وَتَاْتِیَ مِثْلَہٗ جس کام کو تو خود کرتا ہے اس سے دوسروں کو نہ روک)
۵)لامِ کَیْ کے بعد۔ جیسے لِیَجْزِیَھُمْ، لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ۔
۶) اُس فاء کے بعد جو مندرجہ ذیل چھ چیزوں کے جواب میں واقع ہو:
۱)امر۔ مثلاً اَسْلِمْ فَتَسْلَمَ
۲)نہی۔ مثلاً وَلَاتَعْصِ فَنُعَذِّبَکَ
۳)نفی۔ مثلاً مَا تَاْتِیْنَا فَتُحَدِّثَنَا
۴)استفہام۔ مثلاً أَیْنَ بَیْتُکَ فَاَزُوْرَکَ
۵) تمنی۔ مثلاً لَیْتَ لِیْ مَالًا فَاُنْفِقَ مِنْہُ
۶) عرض۔ مثلاً اَلَا تَنْزِلُ بِنَا فَتُصِیْبَ خَیْرًا
نوٹ: فاء کے بعد اَنْ مقدر ہونے کے لیے اس کا چھ چیزوں میں سے کسی ایک کے جواب میں واقع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ فاء کا ما قبل مابعدِ فاء کے لیے سبب ہو۔
سبق نمبر۱۴
فاعل مؤنث حقیقی و غیر حقیقی کا قاعدہ
قاعدہ نمبر ۱) فاعل مؤنث حقیقی ہو تو اس کافعل مؤنث لانا واجب ہے۔ جیسےقَامَتْ ھِنْدٌ وَ ھِنْدٌ قَامَتْ۔
قاعدہ نمبر ۲)فاعل مؤنث غیر حقیقی ہو یا جمع مکسر ہو ۔ تو ان کا فعل مذکر اورمؤنث دونوں لاسکتے ہیں۔مثلاً:
طَلَعَ الشَّمْسُ، طَلَعَتِ الشَّمْسُ،وَقَامَ الرِّجَالُ اورقَامَتِ الرِّجَالُ۔
سبق نمبر۱۵
مفعول کی بحث
مفعول مطلق: وہ مصدر ہے جو فعل کے بعد واقع ہو اور وہ مصدر اسی فعل کا ہو۔ جیسےضَرَبْتُ ضَرْبًا۔
مفعول مطلق کی تین قسمیں: ۱)تاکیدی ۲) نوعی ۳) عددی
تاکیدی: جو فعل کی تاکید پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً ضَرَبْتُ ضَرْبًا
نوعی: اس میں نوعیت فعل کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مثلاً جَلَسْتُ جِلْسَۃَ الْقَارِیْ
عددی:اس میں تعداد فعل کا ذکر ہوتا ہے۔مثلاً ضَرَبْتُ ضَرْبَۃً،ضَرَبْتُ ضَرْبَتَیْنِ، ضَرَبْتُ ضَرْبَاتٍ۔
نوٹ:کبھی مفعول مطلق تشبیہ کےلیےبھی آتاہے۔مثلاًمَرَرْتُ بِزَیْدٍ فَاِذَا لَہٗ صَوْتٌ صَوْتَ حِمَارٍ۔
اکثر مفعول مطلق اسی فعل کا مصدر ہوتا ہے۔ کبھی معنیٰ میں اس فعل کے ہوتا ہے۔ جیسےقَعَدتُّ جُلُوْسًا۔اور اکثر فعل ثلاثی کا مصدر بھی ثلاثی ہوتا ہے۔ کبھی فعل ثلاثی کے لیے مفعول مطلق مزید فیہ کا مصدر ہوتا ہے۔
نوٹ:جو مصدر فعل کے عدد کو بیان کرے اس کو اسم مرۃ کہتے ہیں۔اور جو مصدر کی نوعیت کو بیان کرے اس کو اسم نوع کہتے ہیں۔اسم مرۃ کا وزنفَعْلَۃٌ ہے۔ اور اسم نوع کا وزن فِعْلَۃٌ ہے۔
مفعول لہٗ: وہ اسم ہے کہ جس کے سبب سے فعل واقع ہو۔ جیسے ضَرَبْتُہٗ تَاْدِیْبًا
مفعول معہٗ:وہ اسم ہے کہ جو واؤ کے بعد واقع ہو اور وہ واؤ مَعْ کے معنیٰ میں ہو۔ جیسےجَاءَ زَیْدٌ وَ الْکِتَابَ(زید آیا مع کتاب کے۔)
مفعول فیہ:وہ اسم ہے جس میں فعل مذکور واقع ہوا ہو اور اس کو ظرف کہتے ہیں۔ اورظرف کی دو قسمیں ہیں:۱) ظرف زمان۔۲) ظرف مکان۔
۱) ظرف زمان کی مثال جیسےجِئْتُ یَوْمَ الْخَمِیْسِ(میں جمعرات کے دن آیا)۔
۲) ظرف مکان کی مثال جیسے جَلَسْتُ خَلْفَہٗ(میں اس کے پیچھے بیٹھا)
مفعول مالم یُسَمَّ فاعلہٗ:یہ وہ اسم ہے کے جس کے فاعل کا ذکر نہ ہو۔ جیسےضُرِبَ زَیْدٌ۔ ضُرِبَ مَثَلٌ
سبق نمبر۱۶
توابع کی قسمیں
توابع کی پانچ قسمیں ہیں:
۱) مُبَیَّن بیان: مثلاً قَامَ اَبُوْ حَفْصٍ عُمَرُ (ابو حفص مبیّن ، عمر بیان ہے۔)
۲) مبدل منہ و بدل: مثلاً جَاءَ نِیْ زَیْدٌ اَخُوْکَ (زید مبدل منہ، اخوک بدل ہے۔)
۳)موصوف و صفت: جیسےجَاءَ نِیْ رَجُلٌ عَالِمٌ (رجل موصوف ، عالم صفت ہے۔)
۴) مؤکد و تاکید: جیسےجَاءَ نِیْ زَیْدٌ زَیْدٌ (پہلا زید مؤکد اور دوسرا زید تاکید ہے۔)
کَمْ عَاقِلٍ عَاقِلٍ اَعْیَتْ مَذَاہِبُہٗ
وَ کَمْ جَاہِلٍ جَاہِلٍ تَلْقَاہُ مَرْزُوْقًا
اس مثال میں پہلا عاقل تمیز اور مؤکد ہے اور دوسرا عاقل اس کی تاکید ہے۔ اسی طرح دوسرے مصرع میں جاہل کو قیاس کیجیے۔
۵)معطوف علیہ و معطوف:مثلاًقَامَ زَیْدٌ وَعَمْرٌو(زید معطوف علیہ اور عمرو معطوف ہے۔)
نوٹ:۱) جو اعراب متبوع کا ہوتا ہے وہی تابع کا ہوگا۔
نوٹ:۲) مُبَیَّن، بیان میں عموماً نام، کنیت، لقب ہی ہوتے ہیں اس لیے بیان اس کو بنائیں گے جو زیادہ مشہور ہو، مثلاً اگر نام مشہور زیادہ ہے تو کنیت کو مبین اور نام کو اس کا بیان بنائیں گے۔ لیکن اگر لقب یا کنیت زیادہ مشہور ہو تو اس کو بیان بنائیں گے۔
نوٹ:۳) مبدل منہ اور بدل میں بدل ہی مقصود بالذکر ہوا کرتا ہے اور عطف میں معطوف علیہ ومعطوف دونوں مقصود ہوا کرتے ہیں۔چناں چہ حدیث میں جو دعا آئی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ۔اس میں محبتِ حق اور محبتِ اہل حق دونوں مقصود ہیں اور اسی طرح اعمال صالحہ بھی۔
سبق نمبر۱۷
بدل کی اقسام
بدل کی چار قسمیں ہیں:
۱) بدل الکل۲) بد ل البعض ۳) بد ل الاشتمال ۴)بدل الغلط
بدل الکل:وہ بدل ہے جس میں مبدل منہ کا کل مراد ہوتا ہے۔ جیسےجَاءَ نِیْ زَیْدٌ اَخُوْکَ۔
بدل البعض:وہ بدل ہے جس میں مبدل منہ کا کوئی جزء مراد ہوتا ہے۔جیسےضُرِبَ زَیْدٌ رَأْسُہٗ ۔
بدل الاشتمال: وہ بدل ہے جس میں بدل منہ کا نہ کل مراد ہوتا ہے نہ جزء۔ بلکہ مبدل منہ کا کوئی متعلق مراد ہوتا ہے۔ جیسےسُلِبَ زَیْدٌ ثَوْبُہٗ۔
بدل الغلط: وہ بدل ہے جو مبدل منہ کی غلطی ظاہر کرتا ہے، گویا متکلم بدل الغلط سے اپنے کلام کو صحیح کرتا ہےکہ مبدل منہ حقیقۃً غلط ہے اور صحیح یہ ہے۔ مثلاً رَأَیْتُ حِمَارًا زَیْدًا۔
فائدہ:علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ، صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ مبدل منہ ہے اورصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اس کابدل الکل من الکل، بدل الموافق اور بدل المطابق ہے۔
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر بیان القرآن میں تحریر فرمایا ہے، بدل کی ترکیب میں بدل ہی مقصود کلام کا ہوتا ہے۔ پس صراط المستقیم سے منعم علیہم کا راستہ مقصود ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر مبدل منہ نازل فرمانے میں کیا حکمت ہے،جبکہ بقاعدہ نحو بدل ہی مقصود ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مبدل منہ میں منعم علیہم کے راستے کی ایک خاص صفت مذکور ہے اور وہ مستقیم ہونا ہے۔ اس صفت کا پتا مبدل منہ ہی سے معلوم ہورہا ہے۔ طلبہ کو بدل الکل سمجھانے کے لیے قرآن پاک کی یہ مثال یاد کرانی چاہیے تاکہ ا ن کو اہل اﷲ کی صحبت کا بھی شوق پیدا ہو اور صحبتِ اہل اﷲ کا مہتم بالشان ہونا معلوم ہو۔
سبق نمبر۱۸
افعالِ مدح و ذم کا بیان
افعالِ مدح دو ہیں: ۱) نِعْمَ ۲) حَبَّذَا
اسی طرح افعالِ ذم بھی دو ہیں: ۱) بِئْسَ ۲) سَاءَ
مثالیں:۱) نِعْمَ الْعَبْدُ زَیْدٌ۲) حَبَّذَا زَیْدٌ ۳)بِئْسَ الرَّجُلُ زَیْدٌ۴)سَاءَالرَّجُلُ زَیْدٌ
ان کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے:
تمیز: مثلاً نِعْمَ رَجُلًا زَیْدٌ۔ بِئْسَ رَجُلًا زَیْدٌ
اضافت: مثلاً نِعْمَ صَاحِبُ الْقَوْمِ زَیْدٌ۔ بِئْسَ صَاحِبُ الْقَوْمِ زَیْدٌ
الف لام: مثلاً نِعْمَ الْعَبْدُ اَیُّوْبُ۔ سَاءَ الرَّجُلُ زَیْدٌ
نوٹ۱): افعالِ مدح اور افعالِ ذم اپنے استعمال کے جملہ طریقوں میں جملہ انشائیہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مثلاً نِعْمَ الْعَبْدُ زَیْدٌ اس کی تحلیلِ (ترکیب) نحوی یوں ہوگی۔
نِعْمَ فعل مدح اَلْعَبْدُ اس کا فاعل، فعل مع فاعل خبر مقدم، زَیْدٌ مبتداء مؤخر مخصوص بالمدح۔ مبتداء مؤخر اپنی خبر مقدم سے مل کر جملہ انشائیہ ہوا۔اسی طرح حَبَّذَا، بِئْسَ اور سَاءَ کی ترکیب ہو گی۔
بطریق تمیز استعمال ہو تو اس وقت تحلیلِ نحوی اس طرح ہوگی! مثلاً نِعْمَ رَجُلًا زَیْدٌ نعم فعل مدح،ضمیر ہُوَمستتر اس کا فاعل اورممیزرَجُلًا،تمیزنِعْمَفعل مدح اپنے فاعل سے مل کر خبر مقدم، زید مخصوص بالمدح و مبتداء مؤخر، خبرمقدم اپنے مبتداء مؤخر سے مل کر جملہ انشائیہ ہوا۔
اضافت کے طریقہ پر ہو تو اس کی تحلیل نحوی بایں طور ہوگی۔ نِعْمَ فعل مدح، صَاحِبُ مضاف اَلْقَوْمِ مضاف الیہ، مضاف مضاف الیہ مل کر فاعلِ نِعْمَ، فعل فاعل سے مل کر خبر مقدم زَیْدٌمبتداء مؤخر، خبر مقدم اپنے مبتداء مؤخر سے مل کر جملہ انشائیہ ہوا۔
نوٹ۲):کبھی مخصوص بالمدح اورمخصوص بالذم محذوف ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہے: نِعْمَ الْعَبْدُ، فَنِعْمَ الْمَاھِدُوْنَ، بِئْسَ الشَّرابُ۔
سبق نمبر۱۹
افعالِ مقاربہ
افعالِ مقاربہ سات ہیں:عَسٰی، کَادَ، کَرَبَ، اَوْشَکَ، جَعَلَ، طَفِقَ، اَخَذَ۔
ان کو افعالِ مقاربہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ خبر کا مبتداء سے قریب ہونا بیان کرتے ہیں۔ مثلاً کَادَ زَیْدٌ اَنْ یَّخْرُجَ (قریب ہے کہ زید نکلے۔) خروجِ زید کے قرب کو لفظ کَادَ نے ظاہر کیا۔
اس قرب کی تین قسمیں ہیں:
۱) قربِ امیدی: مثلاً عَسٰی زَیْدٌ اَن یَّخْرُجَ امید ہے کہ زید نکلے۔
۲) قربِ یقینی: مثلاً کَادَ زَیْدٌ اَنْ یَّخْرُجَ زید یقینا نکلنے کے قریب ہے۔
۳) قربِ شروعی:مثلاًجَعَلَ یَضْرِبُ خَدَّیْہِ اس نے اپنے رخسار پیٹنے شروع کردیے۔
نوٹ:قربِ امیدی کے لیے عَسٰی اور قربِ یقینی کے لیے لفظ کَادَاستعمال کیا جاتا ہے۔ بقیہ الفاظ عموماً قربِ شروعی کو بیان کرتے ہیں۔ چوں کہ ان افعال میں امید و ترجّی کا مفہوم پایا جاتا ہے،اس لیے ان پرمشتمل جملے انشائیہ ہوں گے۔ البتہ بعض اوقات یہ یقین پر دال ہوتے ہیں۔ ترجّی کا مفہوم ان میں نہیں ہوتا۔ اس وقت ان کا انشائیہ ہونا ضروری نہیں۔
سبق نمبر۲۰
افعالِ تعجب
افعالِ تعجب کے دو صیغے ہیں: ۱) مَااَفْعَلَہٗ ۲) اَفْعِلْ بِہٖ۔ مثلاًمَا اَحْسَنَہٗ وَاَحْسِنْ بِہٖ
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا:
۱) فَمَا اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ اَیْ اَیُّ شَیْیٍٔ اَصْبَرَھُمْ عَلَی النَّارِ۔
۲) اَسْمِعْ بِھِمْ وَ اَبْصِرْاَیْ اَیُّ شَیْیٍٔ اَسْمَعَھُمْ وَ اَبْصَرَھُمْ یعنی قیامت کے دن بڑے سمیع اور صاحب بصارت ہوں گے۔
اس فعل پر مشتمل جملہ کی تحلیلِ نحوی اس طرح ہو گی:
مَا اَحْسَنَہٗ کا مَا بمعنی اَیُّ شَیْیٍٔ مبتداء، اَحْسَنَ فعل با فاعل، ضمیر منصوب متصل اس کا مفعول بہ۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول بہ سے مل کر جملیہ فعلیہ ہو کر مبتداء کی خبر ہوئی، مبتداء خبر مل کر جملہ اسمیہ انشائیہ ہوا۔
اَحْسِنْ بِزَیْدٍکی تقدیراَحْسَنَ زَیْدٌہے۔با اس میں زائدہ ہے،معنی یہ ہیں:زَیْدٌ صَارَ ذَا حُسْنٍ، اَحْسِنْ معنی میں اَحْسَنَ کے ہے۔ فعل ماضی،زَیْدٌ اس کا فاعل، فعل فاعل مل کر جملہ فعلیہ انشائیہ ہوا۔
فائدہ:کبھی اَحْسَنَ کے بجائے حَسُنَ استعمال ہوتا ہے تعجب کے لیے۔ جیسا کہ علامہ محمود نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ:وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا میں حَسُنَ بمعنی مَااَحْسَنَ ہے۔ یعنی افعالِ تعجب سے ہے۔ ترجمہ یہ ہو گا کہ منعَم علیہم بندے کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔ کَاَنَّہٗ تَعَالٰی قَالَ: مَااَحْسَنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا۔
سبق نمبر۲۱
اسم فاعل، اسم مفعول، صفت مشبہ، مصدر
اسم فاعل فعل معروف کا اور اسم مفعول فعل مجہول کا، اور صفت مشبہ فعل لازم کا عمل کرتے ہیں۔ اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول پر داخل شدہ الف لامالَّذِیْ اسم موصول کے معنی میں ہوتا ہے،چناں چہ اَلضَّارِبُ کی تقدیراَلَّذِیْ ضَرَبَ ہے اور اَلْمَضْرُوْبُ کی تقدیر اَلَّذِیْ ضُرِبَ ہوتی ہے۔
مصدر اپنے فعل کا سا عمل کرتا ہے اگر فعل لازمی کا مصدر ہوتا ہے تو صرف فاعل پر تمام ہوجاتا ہے۔ اور اگر فعل متعدی کا مصدر ہے تو مفعول پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ اور یہ معروف و مجہول دونوں طرح کا ہوتا ہے۔
فائدہ:قرآن مجید میں سورۃ مدثر میں ارشاد ہے: ھُوَ اَھْلُ التَّقْویٰ وَ اَھْلُ الْمَغْفِرَۃِ۔ اس کی تفسیر میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اَھْلُ التَّقْویٰ کی تفسیر ھُوَ اَھْلُ اَنْ یُتَّقٰی اور اَھْلُ الْمَغْفِرَۃِکی تفسیر ھُوَ اَھْلُ اَنْ یُغْفَرَ فرمائی اور فرمایا کہ علماءِ نحو نے لکھا ہے کہ مصدر بھی مجہول و معروف ہوتا ہے۔
نوٹ: اسم فاعل اور اسم مفعول کے لیے چھ چیزوں میں سے ایک چیز کا مقدم ہونا ضروری ہے۔ البتہ مصدر کے عمل کے لیے یہ شرط نہیں ہے اور صفت مشبہ اسم مفعول کی شرط سے مبرّیٰ ہے۔ اور وہ چھ چیزیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱) مبتداء: مثلاً زَیْدٌ قَائِمٌ اَبُوْہُ۔
۲) موصوف: مثلاً مَرَرْتُ بِرَجُلٍ ضَارِبٌ اَبُوْہُ بَکْرًا
۳) موصول: مثلاً جَاءَ نِیْ الْقَائِمُ اَبُوْہُ۔ (اَلْقَائِمُ کا الف لام اَلَّذِیْ کے معنی میں ہے)
۴) ذوالحال: مثلاً جَاءَ نِیْ زَیْدٌ رَاکِبًا غُلَامُہٗ
۵) ہمزۂ استفہام: مثلاً أَضَارِبٌ زَیْدٌ عَمْرًوا
۶)حرف نفی: مثلاً مَا قَائِمٌ زَیْدٌ
اس صورت میں قَائِمٌ،ضَارِبٌ وغیرہ معنی میں قَامَ، ضَرَبَ کے ہیں۔ اور اسم مفعول معنی میں فعلِ مجہول یعنی ضُرِبَ وغیرہ کے ہو گا۔ اور صفت مشبہ جیسے حَسَنٌ بمعنی حَسُنَ فعل ماضی کے ہو گا۔ مثلاً زَیْدٌ حَسُنَ وَجْھَہٗ۔
سبق نمبر۲۲
حروفِ تنبیہ
حروفِ تنبیہ تین ہیں:
۱) اَ لَا : جیسے اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ
۲) اَمَا: جیسے اَمَا زَیْدٌ قَائِمٌ
۳) ھَا: جیسے فَیَقُوۡلُ ہَآؤُمُ اقۡرَءُوۡا کِتٰبِیَہۡ
سبق نمبر۲۳
اَمَّا ۔ اِمَّا
اَمَّا اور اِمَّا صورتاً یہ دونوں لفظ ایک طرح کے ہیں لیکن حقیقتاً معنوی لحاظ سے ان میں بہت فرق ہے۔ چناں چہ اَمَّا (بفتح الہمزۃ) تفسیر کے لیے آتا ہے اور اس کے جواب میں فاء بھی داخل ہوتی ہے جبکہ اِمَّا (بکسر الہمزۃ) تردید کے لیے آتا ہے۔ اس کی پہچان اس طرح سے ہوتی ہے کہ ایک اِمَّا کے بعد دوسرا اِمَّا بھی آرہا ہوگا یا صرف اَوْ آرہا ہو گا۔ جبکہ اَمَّا کے بعد فاء آتی ہے۔ مثلاً اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِااللہ اور ھٰذَا الْعَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْ فَرْدٌ
سبق نمبر۲۴
استفہام کی قسمیں
استفہام کی دو قسمیں ہیں:
۱)استفہامِ انکاری: مثلاً أَفَعُمْیَاوَانِ أَنْتُمَا۔ کیا تم دونوں اندھی ہو؟
۲) استفہامِ تقریری: مثلاً أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہٖ۔ کیا تم دونوں اسے نہیں دیکھتی ہو؟
عُمْیَاوَانِ تثنیہ ہے اور اس کا واحدعُمْیٰی ہے۔
نوٹ: استفہامِ تقریری کو استفہامِ اثباتی بھی کہتے ہیں۔
سبق نمبر۲۵
لفظ سُوْءْ کا قاعدہ
لفظ سُوْءْ جب مضاف ہو گا تو اس کا سین مضموم ہوگا مثلاًسُوْءُ الدَّارِاور جب مضاف الیہ ہو گا تو اس کا سین مفتوح ہوگا۔
نوٹ:لیکن یہ قاعدہ اکثری ہے کلیّہ نہیں ہے۔ جیساکہ اس کی تصریح صاحبِ روح المعانی نے کی ہے۔
سبق نمبر۲۶
غیر منصرف اور اس کے قواعد
منصرف: منصرف وہ اسم ہے جس میں اسبابِ منع صرف میں سے کوئی سبب نہ ہو۔ اور اس پر تینوں حرکتیں اور تنوین آتی ہو۔ جیسے زَیْدٌ۔
غیر منصرف: غیر منصرف وہ اسم ہے جس میں اسبابِ منع صرف میں سے دو سبب ہوں یا ایک سبب ایسا ہو جو دو سببوں کے قائم مقام ہو۔ اور جس پر تنوین اور کسرہ نہ آتا ہو۔
اسبابِ منع صرف نو ہیں: ۱)عدل ۲) وصف ۳)تانیث ۴) معرفہ۵) عجمہ ۶)جمع ۷) ترکیب ۸) وزنِ فعل۹)الف و نون زائدتان۔
فائدہ:غیر منصرف پر جب الف لام داخل ہو یا وہ مضاف ہوں تو حالت جری میں کسرہ دیا جاتا ہے۔ جیسے مَرَرْتُ بِالْمَسَاجِدِ اور صَلَّیْتُ فِیْ مَسَاجِدِھِمْ۔
عبارت کافیہ کی یہ ہے: فِیْ جَمِیْعِ الْبَابِ بِاللَّامِ وَ الْاِضَافَۃِ یَنْجَرُّ بِالْکَسْرِ۔(ترجمہ: جہاں کہیں الف لام اور اضافۃ ہو،وہاں غیر منصرف مکسور ہوگا۔
غیر منصرف کے نو اسباب میں سے دو سبب پائے جانے کی مثالیں:
عُمَرُ میں دو سبب ہیں عدل و معرفہ
ثُـلَاثُ میں دو سبب ہیں وصف و عدل
طَلْحَۃُ میں دو سبب ہیں معرفہ و تانیث
زَیْنَبُ میں دو سبب ہیں معرفہ و تانیث
إِبْرَاہِیْمُ میں دو سبب ہیں عجمہ و معرفہ
مَسَاجِدُ میں دو سبب ہیں جمع منتہی الجموع
بَعْلَبَکَّ میں دو سبب ہیں ترکیب و معرفہ
أَحْمَدُ میں دو سبب ہیں وزن فعل و معرفہ
عُثْمَانُ میں دو سبب ہیں الف نون زائدتان و معرفہ
سَکْرَانُ میں دو سبب ہیں الف نون زائدتان و وصف
ان اسباب میں سے دو سبب جب کسی اسم میں پائے جائیں گے تو وہ غیر منصرف ہو گا۔ البتہ مندرجہ ذیل سبب قائم مقام دو سببوں کے ہوتے ہیں۔ وہ تنہا ہی اسم کو غیر منصرف بنا دیں گے۔
۱) جمع منتہی الجموع:مثلاً مَسَاجِدُ، مَصَابِیْحُ
۲)تانیث بالف ممدودہ: مثلاً حَمْرَاءُ، بَیْضَاءُ
۳)تانیث بالف مقصورہ:مثلاً کُبْرٰی ، صُغْرٰی
نوٹ: الف ممدودہ، الف مقصورہ اگر تانیث کے لیے نہ ہوں تو اس وقت ان کی وجہ سے یہ غیر منصرف نہ ہوں گے۔ جیسے اَسْمَاءٌ، اَبْنَاءٌ میں الف ممدودہ تانیث کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ اسم اور ابن کے جمع ہیں۔ تو جمع بنانے کے لیے یہ الف ممدودہ ان کو غیر منصرف نہ کر سکے گا۔ بلکہ یہ منصرف ہوں گے۔ البتہ اگر ان میں تانیث پیدا کردی جاوے تو غیر منصرف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اَسْمَاءُکسی مؤنث کا نام رکھ دیا جائے جیسے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کا نام ’’اسماء‘‘تھا۔ اس حالت میں اسماء کے اندر الف ممدودہ تانیث کے سبب قائم مقام دو سبب کا ہوجاوے گااور غیر منصرف بن جاوے گا۔ نیز اس لفظ میں علمیت مزید برآں ہے۔
فائدہ:اَشْیَاءُ غیر منصرف ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :لَاتَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَاءَ کیوں کہ یہ شَیْیءٌ کی جمع نہیں ہے بلکہ قلب مکانی ہے۔ خلاف قیاس اس کو غیر منصرف پڑھا جاتا ہے۔علم الصیغہ میں اس کی اصل شَیْئَاءُ بتائی گئی ہے۔ جیسے نِعْمَۃٌ کی جمع نَعْمَاءُ ہے تو یہ دراصلشَیْئَاءُ تھا۔ اس حقیقت کے پیش نظر اَشْیَاءُ غیر منصرف ہے۔
فائدہ: تانیثِ لفظی کے لیے علمیت شرط ہے۔جیسےطَلْحَۃُ غیر منصرف ہے۔ اس میں تانیثِ لفظی اور علم دو سبب موجود ہیں۔
فائدہ:اگر تانیثِ معنوی سہ حرفی ہو تو متحرک الاوسط ہونا شرط ہے۔جیسےسَقَرَ غیرمنصرف ہے۔ اس میں تانیثِ معنوی مع اپنی شرط متحرک الاوسط اور علَم موجود ہے۔
اور ہِنْدٌمنصرف ہے کیوں کہ متحرک الاوسط نہیں ہے۔ اسی طرح مؤنث معنوی سے اگر کسی مذکر کا نام رکھ دیا جائےتو غیر منصرف ہونے کے لیے زائد علی الثلاث حروف کی شرط ہے۔ جیسےعَقْرَبْ اگر کسی مذکر کا نام رکھ دیا جاوے تو یہ بھی غیر منصرف ہوجاوے گا۔
عَقْرَبْ منصرف ہے
عَقْرَبْ مؤنثِ معنوی سماعی ہے۔ لیکن علم نہیں ہے علَم جنس ہے اس میں صرف ایک شرط ہے۔ تانیث معنوی مع شرط زائد علی الثلاث، لیکن علم نہ ہونے سے یہ منصرف ہے۔ البتہ اگر کسی مذکر کا نام رکھ دیا جاوے تو یہ غیر منصرف ہوجاوے گا۔ اور لفظ ’’قَدَمْ‘‘ جوکہ تانیث معنوی اور متحرک الاوسط ہونے کی شرط سے غیر منصرف تھا کسی مذکر کا نام رکھنے سے منصرف ہو جاوے گا۔ جیسے کسی انسان کا نام قَدَمْ رکھ دیا جاوے تو یہ منصرف ہو جاوے گا، تانیث ختم ہوجاوے گی۔
نوٹ:لفظ عَقْرَبْ مشکوٰۃ کی حدیث میں موجود ہے:
فَلَدَغَتْہُ عَقْرَبٌ فَنَاوَلَھَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری روایت بھی پیش کی ہے، جس سے اس کا منصرف ہونا واضح ہوتا ہے:
و فی الحدیث اِذَا وَجَدَ اَحَدُکُمْ عَقْرَبًا وَھُوَیُصَلِّیْ فَلْیَقْتُلْھَا بِنَعْلِہِ الْیُسْریٰ
کافیہ کے حاشیہ میں عبارت یہ ہے:
فَعَقْرَبٌ اِذَا سُمِّیَ بِہٖ مُذَکَّرًا اِمْتَنَعَ صَرْفُہٗ لِلْعَلَمِیَّۃِ
پس عقرب اگر مذکر کا نام رکھ دیاجاوے تو یہ علمیت کے سبب سے غیر منصرف ہوجاوے گا۔
فائدہ: جمع منتہی الجموع کا وزن ایک ہی سبب سے غیر منصرف ہو جاتا ہے۔ جیسے مَسَاجِدُ، مَصَابِیْحُ، پس مَقَابِرُ، مَظَاہِرُ،مَخَارِجُ، مَنَابِرُ، مَنَادِیْلُ، قَنَادِیْلُ، مَقَادِیْرُ، عَصَافِیْرُ سب غیر منصرف ہوں گے۔
جمع منتہی الجموع کےاوزان:مَفَاعِلُ جیسےمَسَاجِدُ،مَفَاعِیْلُ جیسےمَفَاتِیْحُ۔ فَعَائِلُ جیسے رَسَائِلُ،اَفَاعِلُ جیسے اَکَابِرُ۔
مذکورہ جمع کا یہ وزن قائم مقام دو سبب کے ہوتا ہے۔ لہٰذا ان اوزان کے اسماء غیر منصرف ہوں گے۔
فائدہ: وزنِ فعل کا مطلب یہ ہے کہ کسی اسم کا وزن فعل کے وزن پر ہو۔ چناں چہ اسم تفضیل کا وزن بھی غیر منصرف ہوتا ہے۔ جیسےاَسْوَدُ، اَحْمَرُ ، اَفْضَلُ ، اَنْوَرُ ، اَکْبَرُ۔
اسم تفضیل میں ایک سبب تو وزن فعل ہے۔ دوسرا سبب وصف کا ہے۔ مزید برآں علمیت بھی کبھی ہوتی ہے۔ جیسے اَحْمَدُ۔یا کسی کا نام اَکْبَرُ یا اَصْغَرُرکھ دیا جاوے۔
فائدہ:وصف کے لیے شرط ہے کہ وصف اصلی ہو، وصف عَلَم نہ ہو۔ پس اگر کسی خاص قسم کے سانپ کا نام اسود رکھ دیا جاوے تو یہ غیر منصرف ہی رہے گا۔ کیوں کہ اصل موضوع ’’اَسْوَدُ‘‘ کا وصف کے لیے ہے بعد میں سانپ کا نام رکھ دیا گیا۔ لہٰذا بعد میں اس اصلی وصف کو علمیت سے تبدیل کرکے زائل نہیں کیا جاسکتا۔ پس ہر حال میں اَسْوَدُ غیر منصرف رہے گا۔ برعکساَرْبَعُ کے۔ کہ یہ منصرف رہے گا۔ اگرچہ اس کو وصف کے لیے استعمال کیا جاوے۔ جیسے مَرَرْتُ بِنِسْوَۃٍ اَرْبَعٍ۔یہاں اَرْبَعٌ کو عورتوں کے لیے وصف بنایا گیا ہے مگر اَرْبَعٌ وصف کے لیے وضع نہیں کیا گیا اس لیے اس کی یہ وصفیت اصلی نہیں ہے۔
فائدہ:جملہ اسماء انبیاء علیہم السلام غیر منصرف ہیں، سوائے چھ ناموں کے۔کُلُّ اَسْمَاءِ الْاَنۡۢبِیَاءِ مُمْتَنِعَۃٌ اِلَّا سِتَّۃٌ:
مُحَمَّدٌ وَ صَالِحٌ و شُعَیْبٌ و ھُوْدٌ وَ لُوْطٌ و نُوْحٌ
شرح جامی میں دو اور پیغمبروں کے نام بھی منصرف بتائے ہیں،عُزَیْرٌ وشِیْثٌ
فائدہ:عدل وہ اسم ہے جو اپنے اصل سے ہٹا کر استعمال کیا جاوے جیسےعُمَرُ، زُفَرُ، اُخَرُ۔ غیر منصرف ہیں ایک سبب علم ہے۔ دوسرا عدل ہے۔ یعنی یہ الفاظ اپنے اصل سے ہٹا کر بنائے گئے ہیں۔ جیسے کہ یہ عَامِرٌ ، زَافِرٌ، اَلْآخَرُ یا اٰخَرٌ سے عدول کیے گئے ہیں، یعنی منتقل کر لیے گئے ہیں۔
عدل کی دو قسمیں ہیں:عدلِ تحقیقی، عدلِ تقدیری۔
عدلِ تحقیقی: وہ ہے کہ جس کی واقعی کوئی اصل ہو جیسے ثُلٰثُ کہ دراصلثَلٰثَۃٌ ثَلٰثَۃٌ تھا۔
عدلِ تقدیری: وہ کہ جس کا اصل کچھ نہ ہو، محض مان لیا گیا ہو۔ جیسے عُمَرُ کہ اہل عرب اس کو غیرمنصرف پڑھتے ہیں مگر علمیت کے سوا دوسرا سبب نہ تھا۔ تو اس کے استعمال کے لحاظ سے اس کی اصل عَامِرٌ مان لی گئی۔ اور اس کے سوا اہل عرب کے پاس چارہ نہ تھا۔ اسی طرح زُفَرُ، اُخَرُ ہے۔اُخَرُ،اُخْرٰی کی جمع ہے جس کے معنیاَشَدُّ تَأَخُّرًا ہے لیکن دوسرے معنی کے لیے عدول کیا گیا ہے اور اگر علم نہ ہو تو زُفَر سردار کے معنی میں ہے اور عَامِرٌ کے معنی گھر آباد کرنے والا ہے۔
فائدہ:عجمہ وہ اسم ہے جو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں علم ہو اور تین حرف سے زائد ہو۔ جیسےإِبْرَاہِیْمُ۔یا تین حرف ہوں مگر متحرک الاوسط ہو۔جیسےشَتَرَ۔ایک قلعہ کا نام ہے۔ پس إِبْرَاہِیْمُ اور شَتَرَ غیر منصرف ہیں۔ اور نُوْحٌ منصرف ہو گیا کیوں کہ یہ عجمی لفظ تو ہے مگر تین حرف سے زائد بھی نہیں اور ساکن الاوسط بھی ہے۔
فائدہ:الف و نون زائدتان اگر اسم کے آخر میں ہوں تو شرط یہ ہے کہ وہ اسم علم ہو۔جیسے عُثْمَانُ،عِمْرَانُ،سَلْمَانُ۔یہ علم ہونے کے سبب سے غیر منصرف ہیں۔ اور سَعْدَانٌ منصرف ہے کیوں کہ یہ علم نہیں، بلکہ جنگلی گھاس کا نام ہے۔
اور اگر الف و نون زائدتان صفت کے آخر میں ہوں تو شرط یہ ہے کہ اس کی مؤنث فَعْـلَانَۃٌ کے وزن پر نہ آتی ہو۔ جیسے سَکْرَانُ غیر منصرف ہے۔ اس لیے کہ اس کی مؤنث سَکْرَانَۃٌ کے وزن پر نہیں آتی۔ اور نَدْمَانٌمنصرف ہے کیوں کہ اس کی مؤنث نَدْمَانَۃٌ کے وزن پر آتی ہے۔
علمی لطیفہ: جس طرح کسی لفظ میں دو سبب سے وہ غیر منصر ف ہو جاتا ہے اور اس کو کسرہ نہیں آتا۔ صرف فتحہ اور ضمہ آتا ہے۔ اسی طرح لافظ میں یعنی انسان میں اگر دو سبب جمع ہو جاویں یعنی اِیمان اور تقویٰ تو یہ بھی زیر نہیں کھاتا، پیش پیش فاتح رہتا ہے۔
سبق نمبر۲۷
تاکید کی قسمیں
تاکید کی دو قسمیں ہیں: لفظی،معنوی
تاکید ِلفظی:وہ ہے جس میں لفظ مکرر لایا جائے جیسےجَاءَ زَیْدٌ زَیْدٌ (زید آگیا زید)
تاکید ِمعنوی: آٹھ لفظوں سے ہوتی ہے:
نَفْسٌ،عَیْنٌ ،کِلَا،کِلْتَا،کُلٌّ، اَجْمَعُ، اَکْتَعُ، اَبْصَعُ
نَفْسٌ،عَیْنٌ:یہ دو لفظ واحد، تثنیہ اور جمع تینوں کی تاکید کے لیے آتے ہیں۔ بشرطیکہ ان کے صیغوں اور ضمیروں کو بد ل دیا جائے۔ جیسےجَاءَ زَیْدٌ نَفْسُہٗ، جَاءَ زَیْدَانِ اَنْفُسُھُمَا، جَاءَزَیْدُوْنَ اَنْفُسُھُمْ۔
کُلٌّ،اَجْمَعُ:واحداورجمع کےلیےآتے ہیں۔جیسےجَاءَالْقَوْمُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ، فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ۔
سبق نمبر۲۸
حال اور ذوالحال
حال: وہ اسم ہے جو فاعل کی صورت ظاہر کرے کہ فاعل سے جب یہ فعل صادر ہوا تو وہ کس صورت میں تھا۔ جیسےجَاءَ زَیْدٌ رَاکِبًا (زید آیا اس حال میں کہ وہ سوار تھا)۔
یا مفعول کی حالت ظاہر کرے۔ جیسےجِئْتُ زَیْدًا نَائِمًا(میں زید کے پاس اس حالت میں آیا کہ وہ سو رہا تھا)۔
یا فاعل اور مفعول دونوں کی حالت ظاہر کرے۔ جیسےکَلَّمْتُ زَیْدًا جَالِسَیْنِ۔ (میں نے زید سے اس حالت میں بات کی کہ ہم دونوں بیٹھے ہوئے تھے)
فاعل اور مفعول کو ذوالحال کہتے ہیں۔ اور وہ اکثر معرفہ ہوتا ہے۔ اگر ذوالحال نکرہ ہو
تو حال کو مقدم کرتے ہیں۔ جیسے جَاءَ نِیْ رَاکِبًا رَجُلٌ۔
کبھی حال جملہ ہوتا ہے۔ جیسےجَاءَ نِیْ زَیْدٌ وَ ھُوَ رَاکِبٌ۔کبھی ذوالحال چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی ضمیر ہوتا ہے۔ جیسےزَیْدٌ اَکَلَ جَالِسًااس میں اَکَلَ کی ضمیر ھُوَ ذوالحال ہے جو مستتر ہے۔
حال اور تمیز کا فرق
حال وہ ہے جو فاعل اور مفعول کی ہیئت بیان کرتا ہے اور تمیز وہ اسم ہے جو عدد کا ابہام دور کرتا ہے یا وزن کاا بہام دور کرتا ہے یا پیمانہ کا ابہام دور کرتا ہے۔
مثال نمبر ۱) رَأَیْتُ اَحَدَعَشَرَ کَوْکَبًا (دیکھے میں نےگیارہ ستارے)
مثال نمبر ۲) اِشْتَرَیْتُ رِطْلًا زَیْتًا (خریدا میں نے ایک رطل زیتون کا تیل)
مثال نمبر۳) بِعْتُ قَفِیْزَیْنِ بُرًّا (بیچے میں نے دو قفیز گندم کے)
فائدہ:بعض طلباء حال اور تمیز کا فرق نہیں جانتے اس فرق کو خوب ذہن نشین کرا دیا جاوے۔
قاعدہ:حال کبھی جملہ اسمیہ ہو تا ہے جیسےلَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی اس وقت واؤ کاداخل ہونا واجب ہے اور جیسےکُنْتُ نَبِیًّا وَ اٰ دَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَ الطِّیْنِ دونوں مثالوں میں واؤ موجود ہے۔
اور حال کبھی جملہ فعلیہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں فعل اگر ماضی ہے تو اس پر قد داخل کرنا ضروری ہے جیسےجَاءَ زَیْدٌ قَدْ خَرَجَ غُلَامُہٗ اور اگر فعل مضارع مثبت ہو تو پھر ضمیر کافی ہے۔ جیسےجَاءَ زَیْدٌ یَسْعٰی (زید دوڑتا ہوا آیا) اس میں ھُوَضمیر ذوالحال ہے اور فعل یَسْعٰی حال ہے۔
فائدہ:علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ فَاِنَّ الْحَالَ قَدْ یَجِیْیُٔ فِیْ مَعْرِضِ التَّعْلِیْلِ (پس تحقیق حال کبھی علت بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے) جیسےوَلَمۡ یُصِرُّوۡاعَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ اور یہ لوگ اپنی خطایا پر اصرار نہیں کرتے۔ لِاَنَّھُمْ یَعْلَمُوْنَ قُبْحَ فِعْلِھِمْ کیوں کہ یہ اپنی خطایا کے قبیح ہونے کا علم رکھتے ہیں۔(یعنی ناراضگی حق تعالیٰ کا انجام جہنم ہے۔)
تمیز:وہ اسم نکرہ ہے جو کسی مبہم شییٔ کے بعد اس کا ابہام (پوشیدگی) دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جیسےوَ فَجَّرْنَاالْاَرْضَ عُیُوْنًا۔ (ہم نے زمین کو از روئے چشموں کے جاری کیا) اور مثالیں پہلے گزر چکی ہیں۔
فائدہ:تمیز صرف فعلوں کا معمول نہیں بلکہ اسمِ تام کا بھی معمول ہوتی ہے۔ جیسےخَاتَمُ فِضَّۃٍ (چاندی کی انگوٹھی) اضافت کے سبب یہ تمیز مجرور ہوتی ہے۔
سبق نمبر۲۹
فوائد و قواعد متفرقہ
۱) حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے: تَھَادَوْا تَحَابُّوْا اس کے پڑھنے میں اکثر غلطی ہوجاتی ہے پہلا صیغہ امر ہے باب تفاعل سے اور دوسرا صیغہ مضارع ہے بحذف احدی التائین اور اس کے آخر سے نون جمع کا جواب امر میں واقع ہونے کی بناء پر گر گیا ہے۔
۲) سورۃ مزّمل میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ھُوَ خَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًابظاہر ھُوَ خَیْرٌ ہونا چاہیے تھا لیکن یہ ھُوَ مبتدا نہیں ہے بلکہ اس سے ماقبل تَجِدُوْہُ میں جو ضمیر منصوب متصل ہے اس کی تاکید ہے اور مؤکد منہ حالت نصبی میں ہے اس لیے تاکید بھی محلاً منصوب ہے۔ اور خَیْرًا، تَجِدُوْہُ کا مفعول ثانی ہے۔ اس بناء پر منصوب ہے۔
۳) اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْکَ مَالًا وَّ وَلَدًا۔ اس میں بظاہر اشکال یہ ہے کہ یہاں اَقَلَّ منصوب کے بجائے مرفوع ہونا چاہیے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اَنَا مبتدا نہیں ہے کہ اَقَلَّ کو اس کی خبر قرار دے کر مرفوع پڑھا جائے۔ بلکہ یہ تاکید ہے تَرَنِ کی یاء متکلم کی۔ اور یہ یاء متکلم ضمیر منصوب متصل ہے، جو مفعول بہ ہے اور اَقَلَّ فعل تَرَ کا مفعول ثانی ہے۔
۴) لَیْسَ یَتَحَسَّرُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ اس حدیث پاک میں لَیْسَ فعل پر کیسے داخل ہوگیا۔ حالاں کہ وہ فعل ناقص ہے جو کہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوا کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لَیْسَ کے اندر ضمیر شان ہے جوکہ لَیْسَکا اسم ہے اور آیندہ کا پورا جملہ اس کے لیے خبر واقع ہو رہا ہے۔
۵)سَلَاسِلًا وَ اَغْلَالًا اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ سَلَاسِلًا تو غیر منصرف ہے ۔ اس پر تنوین کیسے آگئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے اگلے لفظ اَغْلَالًا کی رعایت سے اس کو منصرف بنا کر اس پر بھی اجراءِ تنوین کردیا گیا۔ اور یہ رعایت، کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے کرلی جاتی ہے۔
۶)لفظ نُوْحٌ با وجودیکہ یہ علم اور عجمہ ہے لیکن منصرف پڑھا جاتا ہے اس لیے کہ عجمہ کے لیے یہ شرط ہے کہ اگر سہ حرفی ہے تو متحرک الاوسط ہو جیسےشَتَرُ یا پھر چار حرفی ہو جیسے اِبْرَاہِیْمُ اور نُوْحٌ سہ حرفی تو ہے لیکن متحرک الاوسط نہیں ہے اس لیے منصرف رہے گا۔
۷) اِیَّاکَ وَ الْاَسَدَ اس کی تقدیر یہ ہے بَعِّدْ نَفْسَکَ مِنَ الْاَسَدِ یا اِتَّقِ نَفْسَکَ مِنَ الْاَسَدِاگر جمع کا صیغہ اِیَّاکُمْ ہو تو تقدیری عبارت بَعِّدُوْا نُفُوْسَکُمْ یا اِتَّقُوْا نُفُوْسَکُمْ ہو گی۔ (اس کو حرف تحذیر کہا جاتا ہے)
۸)لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ اس کی تقدیر اُلِبُّ لَکَ اِلْبَابَیْنِ اور اُسْعِدُکَ اِسْعَادَیْنِ ہے۔ یہاں تثنیہ تکثیر کے لیے ہے۔یعنی میں باربار آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔ اِلْبَاب مصدر بواسطہ لام متعدی ہوتا ہے۔ اور اِسْعَادْ مصدر متعدی بنفسہ ہے۔ یہ لَبَّیْکَ اس طرح ہوا کہ فعل کو حذف کرکے مصدر کو اس کے قائم مقام کیا۔ پھر مصدر سے زوائد کو حذف کر کے ثلاثی مجرد میں لے گئے اس کے بعد حرف جر لام کو حذف کیا۔ اور مصدر کو کاف ضمیر مفعول کی طرف مضاف کردیا لَبَّیْکَ ہو گیا۔
۹) مبتدا ہمیشہ معرفہ ہوتا ہے۔مگر نکرہ موصوفہ کو بھی مبتدا بنانا جائز ہے جیسےوَلَعَبْدٌ مُؤمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ۔
۱۰) اَصْبَحَ زَیْدٌ اَیْ دَخَلَ زَیْدٌ فِی الصَّبَاحِ،اَمسٰی زَیْدٌ اَیْ دَخَلَ زَیْدٌ فِی الْمَسَاءِ،اَضْحٰی زَیْدٌ اَیْ دَخَلَ زَیْدٌ فِی الضُّحٰی۔
اس سے مراد یہ اوقات ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی یہ افعال صَارَ کے معنیٰ میں ہوتے ہیں۔
۱۱) رُبَّ۔کا مابعد مجرور ہوتا ہے کیوں کہ یہ حرف جر ہے۔ یہ تقلیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس پر مَا داخل ہوتا ہے مثلاً رُبَمَا اور فعل ماضی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
کبھی رُبَّ کےعوض واؤ آتا ہے۔ مثلاً وَ بَلْدَۃٍ لَیْسَ بِھَا اَنِیْسٗ۔
رُبَّ اصل میں تو تقلیل کے لیے آتا ہے۔ لیکن کبھی تکثیر کے لیے بھی آتا ہے۔ جیسے رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ اس کا ترجمہ بسا اوقات سے کرتے ہیں۔ یہ لفظ تشدید اور بغیر تشدید دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں تخفیف کے ساتھ مستعمل ہے۔
رُبَّ ہمیشہ صدر کلام میں آتا ہے۔اور مجرور اس کا نکرہ موصوفہ ہوتا ہے۔جیسے
رُبَّ ھَجْرٍ جَمِیْلٍ خَیْرٌ مِنْ مُّخَالَطَۃٍ مُوْذِیْۃٍ
۱۲) واؤ قسمیہ: مثلاً وَاللہِ ، وَ الرَّحْمٰنِ۔
تاء بھی قسم کے لیے آتی ہے لیکن وہ صرف لفظ اَللہُ کے لیے خاص ہے۔ جیسے تَااللہِ چنانچہ تَا لرَّحْمٰنِ کہنا جائز نہیں۔
۱۳) لٰکِنَّ۔ استدراک کے لیے ہے، ایسے دو جملوں کے درمیان استعمال ہوتا ہے جو معنوی اعتبار سے متغائر ہوں۔ مثلاً غَابَ زَیْدٌ وَلٰکِنَّ بَکْرًا حَاضِرٌ
۱۴) حروف ایجاب پانچ ہیں: اِیْ ، نَعَمْ ، بَلٰی، اَجَلْ، جَیْر، اِنَّ
۱۵) حروف تفسیر دو ہیں: اَیْ ، اَنْ
۱۶) حروف تنبیہ تین ہیں: اَلَا، اَمَا، ھَا
۱۷) حروف تحضیض چار ہیں: ھَلَّا، اَ لَّا ، لَوْلَا ، لَوْمَا
۱۸) حروف استفہام دو ہیں:أ(ہمزہ)،ھَلْ،مَا
۱۹) حرف شرط دو ہیں:اِنْ،اِذَا۔یہ حروف ماضی پر داخل ہو کر اسے مستقبل کے معنی میں کر دیتے ہیں۔
۲۰) حرف ردع:کَلَّا۔یہ مخاطب کو زجر و توبیخ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔مثلاًفَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَھَانَنِ کَلَّا اَیْ لَا یَتَکَلَّمُ بِھٰذَا فَاِ نَّہٗ لَیْسَ کَذٰلِکَ۔
مگرکبھی کَلَّا تحقیق کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی اور قَدْکبھی تَقْرِیْبُ الْمَاضِیْ اِلَی الْحَالِ کے لیے ہوتا ہے۔ جیسے: قَدْ رَکِبَ الْاَمِیْرُ اورکبھی تقلیل کے لیے بھی ہوتا ہے۔مثلاً اِنَّ الْکَذُوْبَ قَدْ یَصْدُقُ اورکبھی تحقیق کے لیے ہوتا ہے جیسے قَدْ یَعْلَمُ اللہُ الْمُعَوِّقِیْنَ۔
۲۱) تنوین: اس کی پانچ قسمیں ہیں:
۱) تنوین تمکن: مثلاً زَیْدٌ
۲) تنوین تنکیر:مثلاً صَہٍ اَیْ اُسْکُتْ سُکُوْتًا فِیْ(اَیِّ) وَقْتٍ مَّا
۳) تنوین عوض: مثلاً حِیْنَئِذٍ اَیْ حِیْنَ اِذْ کَانَ کَذَا
۴) تنوین مقابلہ: مثلاً مُسْلِمَاتٍ
۵) تنوین ترنّم: مثلاً اَقَلِّی اللَّوْمَ عَاذِلَ وَ الْعِتَابَنْ۔
۲۲) کبھی اسماء منصوب بنزع الخافض ہو تے ہیں۔ یعنی وہاں فِیْ مقدر ہوتا ہے جیسے جَلَسْتُ مَسْجِدًا اَیْ فِیْ مَسْجِدٍ۔
۲۳) کبھی ظرف کا نام مظروف کے نام سے رکھتے ہیں۔ جیسےنَھْرٌ جَارٍحالاں کہ پانی جاری ہے۔ اس کوتَسْمِیَۃُ الظَّرْفِ بِاسْمِ الْمَظْرُوْفِ کہتے ہیں۔ اور اسی طرح سبب کا نام مسبب کے نام سے۔ علت کا نام معلول کے نام سے۔ اور اس کے برعکس۔ اسی طرح صفت کا موصوف کے نام سے اورموصوف کا صفت کے نام سے رکھتے ہیں۔
صطلاح میں یہ مجازِمرسل کہلاتا ہے۔ حدیث میں قولِ صحابی ہے:
اِذَا اَکَلْتُ اللَّحْمَ فَانْتَشَرْتُ
یہاں تسمیۃ الجزء باسم الکل ہے، ورنہ انتشار جزوی تھا۔
۲۴) کبھی تعریف کو ذم کے عنوان سے مؤکد کرتے ہیں۔اس کا نام تَاکِیْدُ الْمَدْحِ بِمَا یَشْبَہُ الذَّمَّ ہے۔ جیسےوَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ حالاں کہ ایمان کوئی جرم نہیں ہے۔
کبھی ذم کو تعریف و مدح کے عنوان سے مؤکد کرتے ہیں جیسے ذُقۡ ۚۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ۔یہ فرعون کو خطاب ہے۔ عزیز و کریم اہانت کی تاکید ہے کیوں کہ وہ زندگی میں اپنے کو عزیز و کریم سمجھتا تھا اس چیز کو اصطلاحًا تَاکِیْدُ الذَّمِّ بِمَا یَشْبَہُ الْمَدْحَ سے تعبیر کرتے ہیں۔
۲۵)جِئْتُ وَ زَیْدًا میں زَیْدًا مفعول معہ ہے۔ جیسےجَاءَالْبَرْدُ وَ الْجُبَّاتِ۔یہی واؤ علامت، مفعول معہ کی ہے۔ لیکن اگر ضمیر فاعل منفصل ہو تو اس صورت میں اسے منصوب اور مرفوع دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ جیسے جِئْتُ اَنَا وَ زَیْدٌ اور وَ زَیْدًا بھی پڑھ سکتے ہیں۔
۲۶)اسماءِ افعال: بعض فعلِ ماضی کے معنی میں ہوتے ہیں۔ مثلاً ھَیْھَاتَبمعنی بَعُدَاوربعض امرحاضرکےمعنی میں ہوتے ہیں۔ مثلاً رُوَیْدَ زَیْدًا۔بمعنیاَمْھِلْہُ۔ حَیَّھَلْ بمعنی اِیْتِ ہے۔ یہ کبھی بغیر ھَلْ کے بھی آتا ہے۔ جیسےحَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔
۲۷) مَا وَ لَا الْمُشَبَّھَتَانِ بِلَیْسَ: اگر مَا کے بعد اِنْ آجائے یا اِلَّا کی وجہ سے نفی کے معنی ختم ہو جائیں یا خبر مقدم ہوجائے، تو ان کا عمل باطل ہو جاتا ہے۔ جیسے مَااِنْ زَیْدٌ قَائِمٌ، مَا قَائِمٌ اِلَّا زَیْدٌ، مَاقَائِمٌ زَیْدٌ۔
۲۸)اسمائے ظروفِ زمان و مکان: اگر ان کا مضاف الیہ محذوف منوی ہو تو مبنی علی الرفع ہوتے ہیں۔جیسے اَمَّا بَعْدُ، قَبْلُ،فَوْقُ، تَحْتُ
۲۹) صفتِ مشبہ: مصدر فعل لازم سے مشتق ہوتا ہے۔جیسےجَمِیْلٌ، کَرِیْمٌ،حَسَنٌ، سَھَلٌ، صَعَبٌ، شَدِیْدٌ۔
۳۰)عَلَّامَۃٌ،فَھَّامَۃٌیہ مبالغہ کا وزن ہےاس میں تاء تانیث کےلیے نہیں ہے۔
۳۱) اگر فَعِیْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہو تو مؤنث و مذکر کے لیے یکساں طور پر صفت بنتا ہے، بشرطیکہ موصوف مذکور ہو۔ جیسےزَیْدٌ قَتِیْلٌ اَیْ مَقْتُوْلٌ اوراَلْمَرْأَۃُ جَرِیْحٌ اَیْ مَجْرُوْحَۃٌ۔
۳۲)کبھی مصدر پر میم داخل ہوتا ہے۔ اس کو مصدر میمی کہتے ہیں۔ جیسےمَصِیْرٌ، مَقِیْلٌ، مَسِیْرٌ وغیرہ۔
۳۳) ذُوْ:یہ ہمیشہ مضاف بہ اسم ظاہر ہو تا ہے۔ واحد کے لیے ذُوْ اور تثنیہ کے لیے ذَوَا اور جمع کے لیے ذَوِی۔ استعمال ہوتا ہے۔ (اور اُولُوْا اس کی جمع من غیر لفظہ ہے)
۳۴) اسم جمع اسے کہتے ہیں جس کا واحد نہ آتا ہو۔ جیسے خَیْلٌ، قَوْمٌ، رَھْطٌ
۳۵)اَھْلًا وَ سَھْلًااَیْ اَتَیْتَ اَھْلًا وَطَیْتَ سَھْلًا تھایہاں فعل حذف ہے۔
۳۶) شبہ جمع وہ ہوتا ہے جو جمع کا معنی دے اور اس کے واحد و جمع میں تاء سے تمیز ہو۔ مثلاً وَرَقٌ، وَرَقَۃٌ، ثَمَرٌ، ثَمَرَۃٌ۔
۳۷)ایَّانَ: ظرف زمان ہے۔استفہام کے لیے آتا ہے۔ مثلاً
اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ۔ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّینِ
کَیْفَ: استفہام حال کے لیے آتا ہے۔
قَطُّ:ماضی منفی کی تاکید کے لیے اور عَوْضُ مستقبل منفی کی تاکیدکےلیےآتا ہے۔
۳۸) لَعَمْرُکَ،لَعَمْرِیْ: قسم کے لیے ان الفاظ کے استعمال میں لفظ خالق محذوف مانیں تاکہ غیر اﷲ کی قسم کھانا لازم نہ آئے مثلاً لَعَمْرِیْ میںلَخَالِقُ عَمْرِیْ۔ عمر کو قسم کے لیے لاتے ہیں تو عین کو مفتوح پڑھتے ہیں۔
۳۹) الف لام کی چار قسمیں ہیں:جنسی، استغراقی، عہدِ خارجی، عہدِ ذہنی۔
الف لام جنسی:وہ ہوتا ہے جس کے مدخول سے مراد اس کی ماہیت ہو۔ جیسےاَلرَّجُلُ خَیْرٌ مِّنَ الْمَرْأَۃِ۔ یعنی ماہیتِ رجل ماہیتِ مرأۃ سے بہتر ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ رجل کا ہر فرد مرأۃ کے ہر فرد سے بہتر ہے۔
الف لام استغراقی: جبکہ الف لام کے مدخول کے تمام افراد مراد ہوں۔ جیسے
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾
یہاں پر تمام افراد مراد ہیں۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ آگے ایمان و عملِ صالح والے افراد کا استثناء کیا گیا ہے۔ اگر یہاں جمیع انسان مراد نہ ہوں تو وہ استثناء صحیح نہ ہو گا۔
الف لام عہدِ خارجی:جبکہ الف لام کے مدخول کے بعض افراد مراد ہوں جو خارج میں معین ہوں۔ جیسے فَعَصٰی فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ اس میں رسول کی ذاتِ گرامی معین ہے۔ (یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد ہیں)
الف لام عہدِ ذہنی:جبکہ الف لام کے مدخول کے بعض ایسے افراد مراد ہوں جو خارج میں معین نہ ہوں بلکہ ذہن میں (بصورتِ نکرہ) ہوں۔ جیسے وَ اَخَافُ اَنۡ یَّاۡکُلَہُ الذِّئۡبُ ۔
۴۰) لَا کی تین قسمیں ہیں:
لَاءِنافیہ۔ جیسے لَا رَیْبَ فِیْہِ اور کبھی لَیْسَ کے معنی دیتا ہے۔ جیسے لَا رَجُلٌ قَائِمًا۔
لَاءِ زائدہ تاکیدیہ جیسے لِئَلَّا یَعْلَمَ اَھْلُ الْکِتَابِ۔
سبق نمبر۳۰
مؤنثاتِ سماعیہ
۱) اعضائے انسانی کے نام:عَیْنٌ (آنکھ)۔ اُذُنٌ (کان)۔ خَدٌّ (رخسار)۔ثَدْیٌ (پستان)۔ کَتِفٌ(کندھا)۔عَضُدٌ(بازو)۔یَدٌ(ہاتھ)۔کَفٌّ(ہتھیلی)۔وَرِکٌ(سرین)۔فَخِذٌ (ران)۔ سَاقٌ (پنڈلی)۔ رِجْلٌ(پاؤں)۔ قَدَمٌ (گام)۔ عَقِبٌ (ایڑی)۔ سِنٌّ (دانت)۔ کَبِدٌ (جگر)۔کَرِشٌ (اوجھ)۔ اِسْتٌ (مقعد)۔ اِصْبَعٌ (انگلی)۔
۲)حیوانوں کے نام: عَقْرَبٌ (بچھو)۔ ثَعْلَبٌ (لومڑی)۔اَرْنَبٌ(خرگوش)۔ اَفْعٰی (اژدھا)۔ فَرَسٌ (گھوڑا)۔ عَنْکَبُوْتٌ (مکڑی)۔
۳) قدرتی اشیاء: اَرْضٌ (زمین)۔ رِیْحٌ (ہوا)۔ نَارٌ (آگ)۔ لَظٰی(شعلہ)۔ مِلْحٌ (نمک)۔ ذَھَبٌ(سونا)۔ ضَرَبٌ(شہد)۔عَیْنٌ وَیَنْبُوْعٌ(چشمہ)۔ شَمْسٌ (سورج)۔ یَمِیْنٌ (دایاں)۔ شِمَالٌ (بایاں)۔
۴) مصنوعی اشیاء: دَارٌ(گھر)۔ دَلْوٌ (ڈول)۔ عَصَا (لاٹھی)۔ فُلْکٌ(کشتی)۔ ذِرَاعٌ (گز)۔ فَأسٌ(تیر)۔قَوْسٌ(کمان)۔مِنْجَنِیْقٌ(گوپھیا)۔خَمْرٌ(شراب)۔بِئْرٌ(کنواں)۔دِرَعٌ (زرہ)۔ فَرْشٌ (بچھونا)۔ کَأْسٌ(پیالہ)۔مُوْسٰی (استرہ)۔ سَرَاوِیْلٌ (ازار)۔
۵) دوزخ کے نام: جَھَنَّمُ ،سَعِیْرٌ ، سَقَرٌ ، جَحِیْمٌ۔
۶) متفرقات: نَفْسٌ(جان)۔ غَوْلٌ (مصیبت)۔ فِرْدَوْسٌ (باغ)۔عَرُوْضٌ (میزان شعر)۔ حَرْبٌ (لڑائی)۔ ضَبْعٌ (بجّو)۔ یہ سب واجب التانیث ہیں۔
اور مندرجہ ذیل الفاظ جائز التانیث ہیں۔
عُنُقٌ(گردن)۔ قَفَا (گدی)۔ لِسَانٌ (زبان)۔رَحْمٌ (بچہ دانی)۔ بَیْتٌ(گھر)۔ قِدْرٌ (ہانڈی)۔ سِلْمٌ (صلح)۔ صَلَاحٌ (بہتری)۔ حَالٌ (وقت)۔ضُحٰی (چاشت)۔ مِسْکٌ (مشک)۔ سَـمَاءٌ (آسمان)۔ ثَرٰی (خاک نمناک)۔ طَرِیْقٌ وَ سَبِیْلٌ (راستہ)۔ سِکِّیْنٌ (چھری)۔ سَرْطَانٌ(کیکڑا)
تنبیہ: پہلی قسم کی مؤنثات کی طرف جب کوئی فعل یا اسم اسناد کیا جائے یا کوئی ضمیر ان کی طرف راجع ہوتو اس عامل یا ضمیر کا مؤنث لانا واجب ہوتا ہے۔ جیسےوَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ اور دوسری قسم کی مؤنثات میں کلمہ کی تذکیر و تانیث اختیاری ہے جیسے ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ۔ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الرُّشۡدِ لَا یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا۔
سبق نمبر۳۱
افعالِ قلوب
یہ سات فعل ہیں:
۱) حَسِبَ ۲) ظَنَّ ۳) خَالَ۔ شک کے لیے ۔
۴) عَلِمَ ۵) رَأیٰ ۶) وَجَدَ۔ یقین کے لیے۔
۷) زَعَمَ۔ شک اور یقین دونوں میں مشترک ہے۔
ان کو افعال قلوب اس لیے کہتے ہیں کہ ان کا تعلق دل سے ہے اور ہاتھ پاؤں کو ان کے صدور میں کچھ دخل نہیں ہوتا۔ اور چوں کہ ان میں شک و یقین کے معنی پائے جاتے ہیں اس لیے ان کو افعالِ شک و یقین بھی کہتے ہیں۔
یہ افعال مبتداء اور خبر پر آتے ہیں اور دونوں کو بوجہ مفعولیت کے نصب دیتے ہیں۔ جیسےحَسِبْتُ الْجُوْدَ خَیْرًا۔ظَنَنْتُ زَیْدًا عَالِمًا۔خِلْتُ الدَّارَ خَالِیَۃً۔عَلِمْتُ زَیْدًااَمِیْنًا۔رَأَیْتُ اللہَ اَکْبَرَ مِنْ کُلِّ شَیْیٍٔ۔وَجَدَکَ عَائِلًا۔ زَعَمْتُ اللہَ غَفُوْرًا۔
تنبیہ: افعالِ قلوب کے دو مفعولوں میں سے جب ایک کا ذکر کیا جائے تو دوسرے کا ذکر کرنا واجب ہوتا ہے کیوں کہ یہ دونوں مفعول بمنزلۂ ایک مفعول بہ کے ہوتے ہیں۔ مگر ظَنَّ بمعنی اِتَّھَمَ اور عَلِمَ بمعنیعَرِفَ اوررَأٰی بمعنی اَبْصَرَ اور وَجَدَ  بمعنی اَصَابَ کے ہوں تو صرف ایک مفعول کو نصب آئے گا اور اس وقت یہ افعال قلوب سے نہ ہوں گے۔ جیسے ظَنَنْتُ زَیْدًا (اِتَّھَمْتُہٗ)۔ عَلِمْتُ بَکْرًا (ای عَرَفْتُ شَخْصَہٗ)۔ وغیرہ۔
اور جب یہ مبتداء خبر کے بیچ میں آئیں یا دونوں سے مؤخر ہوں تو اس وقت ان کا عمل زائل ہوجاتا ہے۔ جیسے زَیْدٌ ظَنَنْتُ قَائِمٌ۔ زَیْدٌ قَائِمٌ ظَنَنْتُ۔
ایسا ہی جب ہمزۂ استفہام یا مَانفی یا لام ِابتداء کے پہلے واقع ہوں تو اس وقت بھی عمل باطل ہوتا ہے۔
فائدہ:صَیَّرَ، اِتَّخَذَ، جَعَلَ، خَلَقَ، تَرَکَ افعالِ تصییر کہلاتے ہیں۔ یعنی وہ فعل جو ایک چیز کو اس کے اصلی حال سے پھیر دے۔ یہ بھی دو اسموں پر آتے ہیں اور دونوں کو نصب دیتے ہیں۔ صَیَّرَتِ الطِّیْنَ خَزْفًا، اِتَّخَذَ اللہُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلًا،جَعَلَ الْاَرْضَ فِرَاشًا، اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا، تَرَکْتُہٗ حَیْرَانًا۔
سبق نمبر۳۲
جملہ انشائیہ کی تقسیم
جملہ انشائیہ وہ جملہ ہے کہ جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ سکیں۔ کیوں کہ انشاء کے معنی ہیں ایک چیز کا پیدا کرنا۔ جھوٹ یا سچ سے اس کا تعلق نہیں ہوتا۔''
جملہ انشائیہ کی دس قسمیں ہیں۔ جیسا کہ ذیل کی مثالوں سے ظاہر ہو گا:
۱) امر: جیسے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ۔ (نماز کا پابند رہ)۔
۲)نہی: جیسے لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ ۔ (اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو)۔
۳)استفہام:جیسے أَاِنَّکَ لَاَنۡتَ یُوۡسُفُ۔ (کیا آپ ہی یوسف ہیں؟)۔
۴)تمنّٰی:جیسے یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا۔ (کاش کہ میں مٹی ہوتا)۔
۵)ترجّی:جیسے لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیْبٌ۔ (شاید کہ قیامت قریب ہو)۔
۶)عقود: وہ جملہ جو کسی معاملہ کے انعقاد کے متعلق ہوں۔ جیسےاِشْتَرَیْتُ، نَکَحْتُ وغیرہ۔



اگرچہ ان میں فعل ماضی ہے مگر بسبب حاضری فریقین کذب کا احتمال باقی نہیں رہتا۔
۷) نِدَاء:جیسےیٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ (اے یحییٰ کتاب کو مضبوط پکڑ)۔
۸)عرض:وہ جملہ جس میں کسی چیز کی درخواست نرمی سے کی جائے جیسےاَلَا تَنْزِلُ بِنَا فَتُصِیْبَ خَیْرًا (آپ ہمارے یہاں کیوں نہیں ٹھہرتے کہ آپ کی بہتری ہو)۔
۹) قسم: جیسےتَاللہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصۡنَامَکُمۡ (خدا کی قسم میں تمہارے بتوں پر ضرور اپنا داؤ چلاؤں گا)۔
۱۰)تعجب:جیسے قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ ۔ (انسان ہلاک ہو بڑا ہی ناشکرہ ہے)۔
نوٹ: قرآن پاک میں جہاں جملہ خبریہ آیا ہے اس میں جملہ انشائیہ پوشیدہ ہوتا ہے، مثلاً جنت کی خبروں سے جنت کی طلب اور اس کے اعمال کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح جہنم کی خبروں سے پناہ مانگنا اور اس کے اعمال سے احتراز مقصود ہوتا ہے۔
سبق نمبر۳۳
دو مختلف ابواب کے خواص ثلاثی مجرد کو مزید فیہ بنانے کے فوائد
۱) باب تفعیل کے فوائد:
تعدیہ:جیسےفَرِحَ زَیْدٌ۔ (زید خوش ہوا) باب تفعیل میں لانے سے متعدی ہو گیا۔ جیسے فَرَّحْتُہٗ۔ (میں نے اس کو خوش کیا)۔
تکثیر:مفعول کی تکثیر مرادہے۔ جیسےقَطَّعْتُ الْحَبْلَ(میں نے رسی کے بہت سے ٹکڑےکر دیے)۔
نسبت:مفعول کی نسبت اصل فعل کی طرف مقصود ہو جیسے کَفَّرْتُہٗ۔ (میں نے اس کو کفر کی طرف منسوب کیا اور اس کو کافر قرار دیا)۔
سلب: کسی چیز سے ماخذ کو دور کرنا۔ جیسے قَشَّرْتُ الْعُوْدَ۔ (میں نے لکڑی سے اس کا چھلکا دور کیا)۔
اتخاذ: کسی اسم کو ماخذ بنانا۔ جیسےخَیَّمَ الْقَوْمُ (لوگوں نے خیمے لگائے)۔
۲)باب مُفَاعَلَۃٌ کے فوائد:
(نوٹ: اس باب کے عین کلمہ پر ہمیشہ فتح پڑھنا چاہیے)
اشتراک: دو شخصوں کا باہم مل کر کوئی کام کرنا جن میں ہر ایک فاعل بھی ہو اور مفعول بھی۔ جیسےضَارَبَ زَیْدٌ خَالِدًا (زید نے خالد کو، خالد نے زید کو مارا۔ یعنی دونوں نے ایک دوسرے کی پٹائی کی)۔
موافقت مجرد:جیسےسَافَرَ زَیْدٌ۔ (زید نے سفر کیا)۔ یہاں سَافَرَ معنی میںسَفَرَ کے ہے اور ھَاجَرَ زَیْدٌ۔(زید نے ہجرت کی)۔ یہاں ھَاجَرَ معنی میں ھَجَرَکے ہے۔
موافقت باب تفعیل:جیسے ضَاعَفْتُ الشَّیْیَٔ (میں نے اس کو دو چند کر دیا)۔ یعنی ضَعَّفْتُہٗ۔
موافقت باب افعال:جیسے بَاعَدْتُّہٗ (میں نے اس کو دور کیا)۔ بمعنیاَبْعَدْتُّہٗ۔
۳)باب افعال کے فوائد:
تعدیّہ:جیسے خَرَجَ زَیْدٌ سے اَخْرَجْتُہٗ (میں نے اس کو نکالا)۔
دخول: ماخذ میں آنا۔ جیسےاَمْسٰی زَیْدٌ (زید شام میں داخل ہوا)۔
قصد: جیسے اَعْرَقَ (عراق کا قصد کیا)۔
مبالغہ:جیسے اَسْفَرَ الصُّبْحُ (صبح خوب روشن ہو گئی)۔
وجدان:جیسے اَبْخَلْتُ زَیْدًا (میں نے زید کو بخیل پایا)۔
صیرورت:جیسے اَلْبَنَ الْبَقَرُ (گائے دودھ والی ہو گئی)۔
عرض:جیسےاَبَعْتُ الْفَرَسَ(میں نے گھوڑے کو منڈی میں برائے فروخت پیش کیا)۔
موافقت مجرد:جیسےاَقَلْتُ الْبَیْعَ (میں نے بیع کو فسخ کردیا)۔ اَیْ قُلْتُہٗ۔
سلب:جیسے اَشْکَیْتُہٗ(میں نے اس کی شکایت دور کی)۔
حینونت:جیسے اَحْصَدَ الزَّرْعُ (کھیتی کاٹنے کا وقت آ پہنچا)۔
۴)باب تفعّل کے فوائد:
تکلف:جیسے تَشَجَّعَ زَیْدٌ (زید بتکلف بہادر بنا)۔
تَجَنُّبْ:جیسے تَأَثَّمَ (اس نے گناہ سے پرہیز کیا)۔
باب تفعیل کے اثر کو قبول کرنا(مطاوعت فَعَّلَ): جیسے عَلَّمْتُہٗ فَتَعَلَّمَ(میں نے اس کو سکھایا پس وہ سیکھ گیا)۔
اتخاذ:جیسے تَأَبَّطَ الصَّبِیَّ زَیْدٌ (زید نے بچہ کو بغل میں لیا)۔
تدریج:جیسےتَجَرَّعَ خَالِدٌ (خالد نے گھونٹ گھونٹ کرکے (تدریجاً) پانی پیا)۔
انتساب:جیسے تَبَدّٰی (بادیہ کی طرف منسوب ہوا)۔
صیرورت:جیسے تَمَوَّلَ عَمْرٌو (عمرو مال دار ہو گیا)۔
طلب: جیسے تَعَجَّلَ الشَّیْیَٔ (اس نے کسی چیز میں عجلت چاہی)۔
۵)باب تفاعل کے فوائد:
اشتراک: جیسے تَشَاتَمَا (دونوں نے ایک دوسرے کو گالی دی)۔
تدریج:جیسے تَوَارَدَ الْقَوْمُ (لوگ ٹھہر ٹھہر کر آئے)۔
مطاوعت فَاعَلَ: (باب مفاعلۃ کا اثر قبول کرنا) جیسے بَاعَدْتُّہٗ فَتَبَاعَدَ(میں نے اس کو دور کیا تو وہ دور ہو گیا)۔
تخیَّلَ (وہ صفت ظاہر کرنا جو درحقیقت موجود نہ ہو): جیسے تَمَارَضَ۔ (اس نے اپنے آپ کو مریض ظاہر کیا)۔
موافقت مجرد:جیسے تَعَالَی اللہُ تَعَالٰی بمعنی عَلَا کے ہے۔
۶)باب افتعال کے فوائد:
مطاوعت فَعَلَ:جیسےجَمَعْتُہٗ فَاجْتَمَعَ (میں نے اس کو جمع کیا پس وہ جمع ہو گیا)۔
اتخاذ:جیسے اِحْتَجَرَ الْفَارُ (چوہے نے بل بنا لیا)۔
مبالغہ: جیسےاِکْتَسَبَ (اس نے کسب میں مبالغہ کیا)۔
طلب:جیسے اِکْتَدَّ فُلَانًا (اس نے فلاں سے مشقت طلب کی)۔
موافقت تَفَاعَلَ:جیسے اِخْتَصَمَ بمعنی تَخَاصَمَ۔
۷)باب انفعال کے فوائد
مطاوعت اَفْعَلَ:جیسےاَغْلَقَ الْبَابَ فَانْغَلَقَ (اس نے دروازہ بند کیا تو وہ بند ہو گیا)۔
مطاوعتفَعَّلَ:جیسے کَسَرْتُہٗ فَانْکَسَرَ (میں نے اس کو توڑا تو وہ ٹوٹ گیا)۔
نوٹ: باب انفعال ہمیشہ لازم آتا ہے متعدی نہیں اور ہمیشہ ایسے معانی کے لیے آتا ہے جن کا تعلق اعضائے ظاہری ہی سے ہو۔
۸)باب استفعال کے فوائد:
طلب ماخذ:جیسے اِسْتَغْفَرَاللہَ (اس نے اﷲ سے مغفرت طلب کی)۔
وجدان:جیسےاِسْتَکْرَمْتُہٗ (میں نے اس کو کرم سے متصف کیا)۔
تحوّل:جیسےاِسْتَحْجَرَ الطِّیْنُ(مٹی پتھربن گئی)اس میں قلب ماہیت کی خاصیت ہے۔
تکَلُّفْ:جیسے اِسْتَجْرَئَ (اس نے بتکلف جرأت دکھائی)۔
مطاوعت اَفْعَلَ:جیسےاَقَمْتُہٗ فَاسْتَقَامَ(میں نےاس کو سیدھا کیاپس وہ سیدھا ہو گیا)
موافقت مجرد: جیسے اِسْتَقَرَّ بَ بمعنی قَرَّ ہے۔
۹)باب اِفْعَوْعَلَ کے فوائد:
مبالغہ: جیسےاِحْدَوْدَبَ (بہت کبڑا ہو گیا)۔
موافقت مجرد:جیسے اِحْلَوْلٰی التَّمَرُ۔ بمعنی حَلَا۔
۱۰) اِفْعَوَّلَ و اِفْعَالَّ:
مبالغہ کے لیے مستعمل ہے۔ جیسےاِجْلَوَّذَ (بہت تیز دوڑا)۔ اِحْمَارَّ (اس کی سرخی تیز ہو گئی)۔ یہ وزن الوان و عیوب کے لیے مخصوص ہے۔
۱۱)تَفَعْلَلَ:
مطاوعت فَعْلَلَ:جیسےدَحْرَجْتُہٗ فَتَدَحْرَجَ (میں نے اس کو لڑھکایا پس وہ لڑھک گیا)۔
۱۲)اِفْعِلَّالٌ جیسےاِقْشِعْرَارٌ مبالغہ کے لیے آتا ہے۔ جیسےاِقْشَعِرَّ (وہ سخت خوف یا ڈر یا سردی کے باعث کانپ گیا)۔
فائدہ: واضح رہے کہ ان ابواب مزید فیہ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہر مجرد سے ان کو بنایا جائے بلکہ یہ سب سماعی چیزیں ہیں جن کا مدار سماع اور لغت کی کتب پر ہے۔
سبق نمبر۳۴
مرکب کے چار اقسام
ترکیب اگر اضافت کے ساتھ ہے تو اس کو مرکب اضافی، اگر صفت موصوف کی ہو تو اس کو مرکب توصیفی کہتے ہیں۔
اور اَحَدَ عَشَرَ سے تِسْعَۃَ عَشَرَ تک کے اعداد کو مرکب بنائی کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا ہر دو جزو مبنی ہوتا ہے۔ اور جز اول مبنی علی الفتح ہوتا ہے ۔ سوائے اِثْنَا عَشَرَ کے کہ اس کا جز اول معرب ہے اور بَعْلَبَکَّ اورحَضَرَ مَوْتَ مرکب منع صرف کہلاتے ہیں۔ مرکب کی ان چار قسموں کو مرکب غیر مفید کہتے ہیں، کیوں کہ ان سے سامع کو کوئی خبر یا طلب معلوم نہیں ہوتی۔
سبق نمبر۳۵
اسمائے غیر متمکنہ کی آٹھ اقسام
اسم متمکن وہ اسم ہے جو اعراب کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے اور اسم غیر متمکن وہ اسم ہے جو اعراب کو قبول نہیں کرتا۔
اسمائے غیر متمکنہ:
یعنی جو اسم اعراب کو قبول نہیں کرتے ان کی آٹھ قسمیں ہیں:
۱)ضمائر ۲)اسمائے اشارات ۳)اسمائے موصولہ ۴)اسمائے افعال ۵)اسمائے اصوات ۶)اسمائے ظروف ۷)اسمائے کنایات ۸) مرکب بنائی
ضمائر کی پانچ اقسام: ۱) مرفوع متصل ۲) مرفوع منفصل ۳) منصوب متصل۴)منصوب منفصل ۵) مجرور متصل
فاعل کے لیے ضمیر مرفوع اور مفعول کے لیے ضمیر منصوب استعمال کرتے ہیں۔
سبق نمبر۳۶
اسمائے متمکنہ کی سولہ اقسام
واضح رہے کہ ان کا یاد رکھنا عربی عبارت کی صحت اور اس کی تفہیم کے لیے بہت ضروری ہے۔
۱) جب اسم مفرد منصرف صحیح ہو۔ جیسے زَیْدٌ۔ یا
۲) قائم مقام صحیح ہو۔ جیسے دَلْوٌ۔ یا
۳) جمع مکسر منصرف ہو۔ جیسے رِجَالٌ۔
تو ان کے اوپر حالت رفعی میں ضمہ اور نصبی میں فتحہ اور جرّ ی میں کسرہ ہو گا۔ جیسے
حالت رفعی:جَاءَ نِیْ زَیْدٌ وَ دَلْوٌ وَ رِجَالٌ۔
حالت نصبی:رَأَیْتُ زَیْدًا وَ دَلْوًا وَرِجَالًا۔
حالت جرّی:مَرَرْتُ بِزَیْدٍ وَ دَلْوٍ وَ رِجَالٍ۔
۴) جب اسم جمع مؤنث سالم ہو تو اس کا اعراب حالتِ رفعی میں ضمہ، حالت نصبی میں اور جرّی میں کسرہ ہو گا۔ جیسےھُنَّ مُسْلِمَاتٌ،رَأَیْتُ مُسْلِمَاتٍ،مَرَرْتُ بِمُسْلِمَاتٍ۔
۵) اسم غیر منصرف پر حالت رفعی میں ضمہ اور حالت نصبی میں اور جرّی میں فتحہ ہوتا ہے۔ تفصیل غیرمنصرف میں لکھی جاچکی ہے، جیسے حالت رفعی میںجَاءَ عُمَرُ وَ طَلْحَۃُ وَزَیْنَبُ وَ اِبْرَاہِیْمُ وَ مَعْدِیْکَرُبُ وَ اَحْمَدُ وَ عِمْرَانُ اور حالت نصبی و جرّی میں رَأَیْتُ عُمَرَ وَ مَرَرْتُ بِعُمَرَ اور اسی طرح سب کو قیاس کر لیا جاوے۔
۶) اسماء ستہ مکبّرہ ہیں: اَبٌ، اَخٌ،حَمٌ ،ھَنٌ،فَمٌ ،ذُوْمَالٍ۔
حالت رفعی میں واؤ کے ساتھ اور نصبی میں الف کے ساتھ اور حالت جرّی میں یاء کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں جیسے حالت رفعی میں جَاءَ أَبُوْکَ وَ أَخُوْکَ اور حالت نصبی میں رَأَیْتُ أَبَاکَ وَ أَخَاکَ اور حالت جرّی میںمَرَرْتُ بَأَبِیْکَ وَ بِأَخِیْکَ۔
۷) ساتویں قسم تثنیہ ہے، جیسے رَجُلَانِ۔
۸) کِلَا وَکِلْتَا جب یہ مضاف ہوں کسی ضمیر کی طرف۔
۹)اِثْنَانِ وَاِثْنَتَانِ حالت رفعی میں الف کے ساتھ اور نصبی اور جرّی میں’’یَا‘‘ ماقبل مفتوح کے ساتھ، جیسے حالت رفعی میں جَاءَ رَجُلَانِ وَکِلَاھُمَا وَاِثْنَانِ اور نصبی وجرّی میں رَأَیْتُ رَجُلَیْنِ وَکِلَیْھِمَا وَاِثْنَیْنِ، وَمَرَرْتُ بِرَجُلَیْنِ وَبِکِلَیْھِمَا وَبِاِثْنَیْنِ۔
۱۰) جمع مذکر سالم ، جیسے مُسْلِمُوْنَ۔
۱۱) أُولُوْا۔
۱۲)عِشْرُوْنَ سے تِسْعُوْنَ تک۔
حالت رفعی میں ان سب کا اعراب ’’واؤ‘‘ ماقبل مضموم ہوگا، اور نصبی وجرّی میں ’’یا‘‘ماقبل میں مکسور ہوگا۔جیسےحالت رفعی میںجَاءَمُسْلِمُوْنَ وَأُولُوْا مَالٍ وَعِشْرُوْنَ رَجُلًا،اور حالت نصبی وجرّی میں رَأَیْتُ مُسْلِمِیْنَ وَأُولِیْ مَالٍ وَعِشْرِیْنَ رَجُلًا اور مَرَرْتُ بِمُسْلِمِیْنَ وَبِأُولیْ مَالٍ وَبِعِشْرِیْنَ رَجُلًا۔
۱۳) اسم مقصور ہے اور اسم مقصور وہ اسم ہے جس کے آخر میں الف مقصورہ ہو،جیسے مُوْسٰی۔
۱۴) غیر جمع مذکر سالم جب مضاف ہو یاء متکلم کی طرف، جیسے غُلَامِیْ۔
حالت رفعی میں ان کے اندر ضمہ مقدر ہوگا، اور حالت نصبی میں فتحہ مقدر ہوگا، اور جرّی میں کسرہ مقدر ہوگا، اور تینوں حالتوں میں ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ ہوگی،جیسےجاءَ مُوْسٰی رَأَیْتُ مُوْسٰی، مَرَرْتُ بِمُوْسٰی، اسی طرح غُلَامیْ حالت رفعی میں جَاءَ غُلَامِیْ، اور نصبی وجرّی میںرَأَیْتُ غُلَامِی وَمَرَرْتُ بِغُلَامِیْ استعمال ہوتا ہے۔
۱۵)اسم منقوص، یہ وہ اسم ہے جس کے آخر میں ماقبل یاء مکسور ہو، جیسےقَاضِی۔
حالت رفعی میں ضمہ مقدر ہوگا، جیسےجَاءَ الْقَاضیْ اور حالت نصبی میں فتحہ ظاہر ہوگا، جیسےرَأَیْتُ الْقَاضِیَ اور حالت جرّی میں کسرہ مقدر ہوگا، جیسے مَرَرْتُ بِالْقَاضِیْ۔
۱۶)وہ جمع مذکر سالم جو مضاف ہو یاء متکلم کی طرف، جیسے مُسْلِمِیَّ،یہ اصل میں مُسْلِمُوْنَ تھا، نون اضافت سے گرگیا اور ’’یاء‘‘ متکلم سے مضاف ہوکر واؤ کو ’’یاء‘‘ سے تبدیل کرکے دونوں ’’یاء‘‘ کا ادغام ہوگیا، حالت رفعی میں ضمہ مقدر ہوگا،جیسےہٰؤلَائی مُسْلِمِیَّ اور حالت نصبی وجرّی میں ماقبل مکسور ہوگا، جیسےرَأَیْتُ مُسْلِمِیَّ وَمَرَرْتُ بِمُسْلِمِیَّ۔
سبق نمبر۳۷
مشتقات
فعل سے جو اسماء مشتق ہوتے ہیں وہ کل دس ہیں۔
۱) مصدر ۲)اسم مرّہ ۳) اسم نوع ۴) ظرف زمان وظرف مکان ۵) اسم آلہ
۶) اسم فاعل ۷) اسم مفعول ۸) صفت مشبہ ۹) اسم تفضیل۱۰) مبالغہ۔
مصدر: ثلاثی مجرد کے مصدر قیاسی نہیں ان کے چند اوزان ہیں جن کی شناخت کا مدار سماع پر ہے چناں چہ اکثر وبیشتر:
۱)جو پیشہ کے معنی دیتے ہیں وہ فِعَالَۃٌ کے وزن پر آتے ہیں، جیسے زِرَاعَۃٌ، تِجَارَۃٌ، حِیَالَۃٌ وغیرہ۔
۲)جو امتناع کے معنی دیتے ہیں وہ فِعَالٌ کے وزن پر آتے ہیں، جیسے إِبَاءٌ، شِرَاءٌ، جِمَاعٌ۔
۳)جو اضطرار کے معنی دیتے ہیں ان کا وزن فَعَلَانِ ہوتا ہے،جیسےغَلَیَانِ،جَوَلَانِ، خَلَقَانِ۔
۴)جو بیماری ومرض کے معنی دیں وہ فُعَالٌ کے وزن پر آتے ہیں،جیسےصُدَاعٌ، زُکَامٌ، دُوَارٌ۔
۵)جن سے سیر کے معنی ظاہر ہوں وہ فَعِیْلٌ کے وزن پر آتے ہیں، جیسےرَحِیْلٌ، زَمِیْلٌ۔
۶)جن سے آواز کے معنی مراد لیے جائیں ان کا وزن فُعَالٌ یا فَعِیْلٌ ہوتا ہے،جیسے صُرَاخٌ، زَئِیْرٌ۔
۷)جن سے کسی رنگ کے معنی ظاہر ہوں، ان کا وزن فُعْلَۃٌ ہوتا ہے، جیسےحُمْرَۃٌ،زُرْقَۃٌ، خُضْرَۃٌ۔
اور اگر مذکورہ بالا معانی نہ ظاہر کریں تو اکثر:
۱)فَعُلَ کا مصدر فُعُوْلَۃٌیا فَعَالَۃٌ کے وزن پر آتا ہے،جیسےسُہُوْلَۃٌ،نَبَاھَۃٌ، فَصَاحَۃٌ۔
۲)فَعِلَ لازمی کا مصدر فَعْلٌ کے وزن پر آتا ہے، جیسے فَرْحٌ، عَطْشٌ،یَلْجٌ۔
۳)اور فَعَلَ لازمی کا مصدر فُعُوْلٌ کے وزن پر آتا ہے، جیسے قُعُوْدٌ، خُرُوْجٌ۔
۴)اور فَعِلَ، فَعُلَ متعدی کا مصدر فَعْلٌ کے وزن پر آتا ہے، جیسے فَھْمٌ، نَصْرٌ۔
مصادر غیر ثلاثی:یہ سب کے سب قیاسی ہیں اور حسب ذیل احکام کی رو سے ان کا استعمال ہوتا ہے۔
فَعَّلَ:فَعَّلَ کا مصدر تَفْعِیْلٌ آتا ہے، جیسے فَرَّحَ تَفْرِیْحًا، اورکبھی تَفْعِلَۃٌکے وزن پر بھی آتا ہے، جیسے وَسَّعَ تَوْسِعَۃً، وَقَدَّمَ تَقْدِمَۃً، اور اگر مہموز اللام ہو تو تَفْعِلَۃٌ کے وزن پر زائد اور تَفْعِیْلٌ کے وزن پر کم آتا ہے، جیسےتَنْبِئَۃٌ، تَوْطِئَــۃٌ، تَھْنِـیَۃٌ، اور اگر ناقص ہو تو صرف تَفْعِلَۃٌ کا ہی وزن آتا ہے، جیسے حَلّٰی تَحْلِیَۃٌ، وزَکّٰی تَزْکِیَۃٌ اور اگر اجوف ہو تو صرفتَفْعِیْلٌ کے وزن پر آتا ہے، جیسے قَوَّمَ تَقْوِیْمٌ اور سَوَّدَ تَسْوِیْدٌ۔
فَاعَلَ: کا مصدر فِعَالٌ وَمُفَاعَلَۃٌ آتا ہے، جیسے قَاتَلَ قِتَالًاوَمُقَاتَلَۃً،البتہ جہاں فاء کلمہ یاء ہو، وہاں مُفَاعَلَۃٌ کا وزن مخصوص ہے، جیسےیَامَنَ مُیَامَنَۃً اور یَاوَمَ مُیَاوَمَۃً۔
أَفْعَلَ:کا مصدر إِفْعَالٌ ہے، جیسے أَکْرَمَ إِکْرَامًا، اگر عین کلمہ میں حرف علت ہو تو اس کی حرکت ماقبل کو نقل کرکے الف سے بدل دیتے ہیں، پھر دو الف جمع ہونے کے باعث ایک کو محذوف کرکے اس کے عوض آخر میں تاء بڑھادیتے ہیں،جیسےأَمَاتَ إِمَاتَۃً، أَغَاثَ إِغَاثَۃً، أَشَارَ إِشَارَۃً۔
تَفَعَّلَ: کا مصدر تَفَعُّلٌ ہے،جیسے تَقَدَّمَ تَقَدُّمًااور جب لام کلمہ حرف علت ہو تو یاء سے بدل کر ماقبل کو کسرہ دیتے ہیں، جیسے تَأَنّٰی تَأَنِّیًا۔
اِفْتَعَلَ: کا مصدر اِفْتِعَالٌ ہے، جیسے اِشْتَرَکَ اِشْتِرَاکًا
اِفْعَلَّ: کا مصدر اِفْعِلَالٌ ہے، جیسے اِحْمَرَّ اِحْمِرَارًا
اِنْفَعَلَ: کا مصدر اِنْفِعَالٌ ہے، جیسے اِنْطَلَقَ اِنْطِلَاقًا
اِسْتَفْعَلَ: کا مصدر اِسْتِفْعَالٌ ہے، جیسے اِسْتَغَفَرَ اِسْتِغْفَارًا لیکن اگر عین کلمہ حرف علت ہو تو الف سے بدل کر حذف کردیتے ہیں اور آخر میں تاء بڑھادیتے ہیں،جیسے اِسْتَقَامَ اِسْتِقَامَۃً
اِفْعَوَّلَ: کا مصدر اِفْعِوْعَالٌ ہے، جیسے اِحْدَوْدَبَ اِحْدِیْدَابًا
فَعْلَلَ:کا مصدر فَعْلَلَۃٌ اور فِعْلَالٌ ہے، جیسےدَحْرَجَ دَحْرَجَۃً وَدِحْرَاجًا، دوسرا وزن صرف مضاف ہونے کی صورت میں قیاسی ہوتا ہے ورنہ سماعی،جیسےوَسْوَسَ وَسْوَسَۃً یا وِسْوَاسًا۔
تَفَعْلَلَ: کا مصدر تَفَعْلُلٌ ہے، جیسے تَدَحْرَجَ تَدَحْرُجًا
اِفْعَنْلَلَ: کا مصدر اِفْعِنْـلَالٌ ہے، جیسے اِحْرَنْجَمَ اِحْرِنْجَامًا
اِفْعَلَّلَ: کا مصدر اِفْعِلَّالٌ ہے، جیسے اِقْشَعَرَّ اِقْشِعْرَارًا
فعل مجہول کے مصدر کے لیے کوئی مخصوص وزن نہیں جو فعل معروف کا مصدر ہوتا ہے بس وہی فعل مجہول کا مصدر شمار ہوتا ہے جیسے ضُرِبَ ضَرْبًاجس طرح معروف میں کہا جاتا ہے: ضَرَبَ ضَرْبًا۔
سبق نمبر۳۸
مصدر میمی
ثلاثی مجرد سے مصدر میمی مَفْعَلٌ کے وزن پر آتا ہے۔
مَنْظَرٌ، مَضْرَبٌ، مَرْمٰی، اس قاعدہ سے سات الفاظ مستثنی ہیں،مَرْجِعٌ، مَسِیْرٌ، مَصِیْرٌ، مَشِیْبٌ، مَرْفِقٌ، مَقِیْلٌاور مَجِیْیٌٔ۔
مثال واوی سے مَفْعِلٌ کے وزن پر آتا ہے خواہ مضارع کا عین کلمہ مکسور ہو یا مفتوح، جیسےمَوْرِدٌ، مَوْعِدٌ، مَوْجِلٌ۔
ثلاثی مجرد کے علاوہ دوسرے ابواب سے مضارع مجہول کے وزن پر آتا ہے اور
 بجائے علامت مضارع کے میم مضموم لگاتے ہیں، جیسےمُنْحَدَرٌ، مُصْطَبَرٌ، مُزْدَحَمٌ۔
نوٹ:اسم ظرف کا وزن مَفْعَلٌ ہے لیکن مصدر میمی بن جانے کے بعد ظرف کا مفہوم باقی نہیں رہتا۔
سبق نمبر۳۹
اسمِ مرّہ واسم نوع
اسم مرہ وہ مصدر ہے جو فعل کے صرف ایک دفعہ ہونے کو ظاہر کرے۔اسم نوع وہ مصدر ہے جو فعل کی ہیئتِ وقوع بتائے۔اسم مرّہ ثلاثی مجرد سےفَعْلَۃٌ کے وزن پر آتا ہے، جیسےضَرَبْتُ ضَرْبَۃً وَأَخَذْتُ أَخْذَۃً۔
ثلاثی مجرد کے علاوہ دوسرے ابواب میں اسم مرّہ بنانے کے لیے باب کے اصل مصدر پر ’’تاء‘‘بڑھانی پڑتی ہے، جیسے اِلْتَفَتُّ اِلْتِفَاتَۃً اِنْطَلَقْتُ اِنْطِلَاقَۃً۔
ثلاثی وغیرہ کے مصادر کے آخر میں جب ’’تاء‘‘ آجائے تو اسم مرّہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کا لانا ضروری ہے جو وحدت کے معنی دے، جیسےضَرَبْتُہٗ ضَرْبَۃً وَاحِدَۃً، قَاتَلْتُہٗ مُقَاتَلَۃً لَاغَیْرَ، مَاالْتَفَتُّ إِلَیْہِ إِلَّا الْتِفَاتَۃً، أَجَبْتُہٗ إِجَابَۃً فَقَطْ۔
اسم نوع ثلاثی مجرد سے فَعْلَۃٌ کے وزن پر آتا ہے جیسے وَقَفَ وَقْفَۃَ الْأَسَدِ وَمَشٰی مَشْیَۃَ الْمُخْتَالِ۔
ثلاثی مجرد کے علاوہ دوسرے ابواب سے اسم مرّہ ہی کے وزن پر آتا ہے، جیسے حَسَنُ الْاِنْطِلَاقَۃِ وَقَبِیْحُ الْمُعَاشَرَۃِ۔
سبق نمبر۴۰
ظرفِ زمان وظرفِ مکان
ظرفِ زمان وہ ہے جو فعل واقع ہونے کے وقت کو بتائے اور ظرفِ مکان وہ ہے جو
فعل واقع ہونے کی جگہ کو بتائے۔
ظرفِ مکان وظرفِ زمان دونوں مَفْعَلٌ کے وزن پر آتے ہیں جبکہ ان کے مضارع کا عین کلمہ مفتوح ہو، جیسے مَطْبَخٌ، مَذْبَحٌ۔
اور جب عین کلمہ مکسور ہو تو مَفْعِلٌ کے وزن پر آتے ہیں، جیسے مَجْلِسٌ، مَنْزِلٌ، اس قاعدہ سے مندرجہ ذیل الفاظ مستثنی ہیں اگر چہ ان کا مضارع مضموم العین ہے مگر پھر بھی یہ مَفْعِلٌ کے وزن پر آتے ہیں، جیسےمَسْجِدٌ، مَشْرِقٌ، مَغْرِبٌ، مَطْلِعٌ، مَجْزِزٌ، مَرْفِقٌ، مَغْرِقٌ، مَسْکِنٌ، مَنْسِکٌ، مَنْبِتٌ، مَسْقِطٌ۔
مثال سے ظرفِ زمان وظرفِ مکان ہمیشہ مَفْعِلٌ کے وزن پر آتا ہے، اور ناقص سے ہمیشہ مَفْعَلٌ کے وزن پرآتا ہے جیسے مَوْعِدٌ، مَوْجِلٌ، مَطْوِیٌّ، مَرْمِیٌّ،اور ثلاثی مجرد کے علاوہ دیگر ابواب سے مصدر میمی کے مانند، جیسےأَدْخَلَ سے مَدْخَلٌ۔
نوٹ:مَفْعَلَۃٌ کا وزن کسی چیز کی کثرت کو ظاہر کرتا ہے، جیسےمَقْبَرَۃٌ جہاں قبریں زیادہ ہوں، مَأْبَلَۃٌ جہاں اونٹ بکثرت ہوں، مَفْعَاۃٌ جہاں سانپ زیادہ ہوں، مَسْبَعَۃٌ جہاں درندے کثرت سے ہوں۔
سبق نمبر۴۱
اسمِ آلہ
اسمِ آلہ اس اوزار کو بتاتا ہے جس سے کوئی کام لیا جاتا ہے،یہ صرف ثلاثی مجرد متعدی سے بنتا ہے، البتہ مِصْفَاۃٌ (صَفَا) سے، مِرْقَاۃٌ (رُقِیٌّ) سے،مِزْمَارٌ (زُمْرٌ) سے مستثنی ہیں۔اسمِ آلہ کے تین وزن ہیں مِفْعَلٌ جیسےمِبْرَزٌ، مِفْعَالٌ جیسےمِفْتَاحٌ، مِفْعَلَۃٌ جیسےمِکْنَسَۃٌ۔
وہ اسمِ آلہ جو اسم جامد ہو اس میں فعل سے اشتقاق کا اعتبار نہیں اور وہ اسم آلہ جو فعل سے مشتق نہ ہوسکے اس کے لیے کوئی ضابطہ نہیں مختلف اوزان پر آتا ہے، جیسے قَدُوْمٌ، سِکِّیْنٌ، فَأْسٌ وغیرہ۔
سبق نمبر۴۲
اسمِ فاعل اسمِ مفعول
اسمِ فاعل اس ذات کو بتاتا ہے جس سے فعل کا صدور ہو، یہ ثلاثی مجرد سےفَاعِلٌ کے وزن پر آتا ہے، جیسےضَارِبٌ، قَاتِلٌ، نَاصِرٌ ثلاثی مجرد کے علاوہ دیگر ابواب سے مضارع معروف کے وزن پر آتا ہے اس صورت سے کہ علامت مضارع کو میم مضموم سے بدلا جاتا ہے اور ماقبل آخر کو کسرہ دیا جاتا ہے، جیسے مُکْرِمٌ، مُتَقَدِّمٌ۔
اور اسمِ مفعول اس ذات کو بتاتا ہے جس پر فعل واقع ہوا ہو یہ ثلاثی مجرد سےمَفْعُوْلٌ کے وزن پر آتا ہے جیسےمَضْرُوْبٌ، مَأْخُوْذٌ اور ثلاثی مجرد کے علاوہ دیگر ابواب سے مضارع مجہول کے وزن پر اس صورت سے کہ علامت مضارع کو میم مضموم سے بدلا جاتا ہے اور ماقبل آخر کو فتح دیا جاتا ہے، جیسےمُکْرَمٌ، مُدَحْرَجٌ۔
تنبیہ: قیاس تو یہی چاہتا ہے کہ اسم فاعل اور اسم مفعول کا اشتقاق اپنے ہی فعل سے ہو خواہ وہ مجرد ہو خواہ مزید، لیکن بعض الفاظ شاذ ہونے کے سبب اس قیاس کے ماتحت نہیں آتے، جیسے أَمْحَلَ سے مَاحِلٌ، أَمْلَحَ سےمَالِحٌ، أَیْفَعَ سے یَافِعٌ، أَحَبَّہٗ سے مَحْبُوْبٌ، أَجَنَّہٗ سے مَجْنُوْنٌ، أَحَمَّہٗسے مَحْمُوْمٌ وغیرہ۔
ثلاثی مجرد کے علاوہ دیگر ابواب سے اسم مفعول، مصدر میمی اور ظرفِ زمان ومکان ایک ہی وزن پر آتے ہیں، فرق قرائن معنویہ کے ذریعہ کرلیا جاتا ہے۔
سبق نمبر۴۳
صفتِ مشبّہ
صفتِ مشبہ اس ذات کو بتاتا ہے جس میں معنی مصدری بطور ثبوت یعنی پائے داری کے پائے جاتے ہوں، جیسےجَمِیْلٌ ثلاثی مجرد سے اس کے اوزان سماعی ہیں، جیسےحَسَنٌ، کَرِیْمٌ، لَیِّنٌ سَھْلٌ، صَعْبٌ ہاں اگر فعل، لون، عیب یا حلیہ پر دلالت کرے تو صفت مشبہ کے لیے وزن أَفْعَلُ کا ہے جیسے أَسْوَدُ،أَعْرَجُ، أَبْلَجُ۔.
اور ثلاثی مجرد کے علاوہ دیگر ابواب سے اسم فاعل کے وزن پر آتا ہے، صفت مشبہ صرف ابواب لازمہ سے آتی ہے۔
سبق نمبر۴۴
اسمِ تفضیل
اسمِ تفضیل اس ذات کو بتاتا ہے جس میں اوروں کی نسبت مصدری معنی کی زیادتی پائی جاتی ہو، اس کو افعل التفضیل بھی کہتے ہیں، اس میں مذکر کے لیےأَفْعَلُ کا وزن مقرر ہے اور مؤنث کے لیے فُعْلٰی اور یہ صرف ثلاثی مجرد کے ابواب سے بنتا ہے۔
رہے وہ مادے جو رنگ، عیب، حلیہ پر دلالت کرتے ہیں ان سے اسم تفضیل کا صیغہ نہیں آتا بلکہ اسی وزن پر صفت کا صیغہ آتا ہے۔
اور وہ ابواب یا مادے جن سے اسم تفضیل کا صیغہ أَفْعَلُ کے وزن پر نہیں آسکتا ان سے اگر اسمِ تفضیل کے معنی ظاہر کرنے ہوں تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ لفظ أَشَدُّ یا أَ کْثَرُ یا انہی جیسے الفاظ کےبعداس کامصدر منصوب استعمال کرتے ہیں،جیسےأَشَدُّ سَوَادًا،أَشَدُّ اسْتِخْرَاجًا۔
اسمِ تفضیل معروف اور ثلاثی مجرد سے بنتا ہے لیکن بعض الفاظ شُذُوْذًا(شاذ ونادر) مجہول اور ابواب غیر ثلاثی مجرد سے بھی آتے ہیں،مثلاً اَلْعُوْدُ أَحْمَدُ میں أَحْمَدُ حَمِدَسے اور حَاتِمٌ أَعْطٰی مِنْ عَمْرٍو میںأَعْطٰی أُعْطِیَ سے اور ھٰذَا السَّفَرُ أَخْصَرُ مِنْ ذٰلِکَ میں أَخْصَرُ اُخْتُصِرَسے بنتے ہیں۔
کبھی اسمِ تفضیل اسمِ جامد سے بھی آتا ہے جیسے مَابِالْبَادِیَۃِأَنْوَأُ مِنْہُ میںأَنْوَأُ، نَوْءٌ سے ماخوذ ہے، خَیْرٌ وَشَرٌّ در اصل أَخْیَرُ وَ أَشَرُّ تھے کثرت استعمال سے دونوں جگہ سے ہمزہ گرگیا، کبھی مع ہمزہ کے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
سبق نمبر۴۵
اوزانِ مبالغہ
مبالغہ وہ ہے جو کسی فاعل میں مصدری معنی کی زیادتی بتلائے، اس کے مشہور وزن یہ ہیں:
۱) فَعَّالٌ جیسے عَلَّامٌ وَنَصَّارٌ ۲)فَعَّالَۃٌجیسے عَلَّامَۃٌ وَفَھَّامَۃٌ۔
۳) فِعِّیْلٌ جیسےصِدِّیْقٌ وَ سِکِّیْرٌ ۴)مِفْعِیْلٌ جیسےمِسْکِیْنٌ وَ مِعْطِیْرٌ
۵)مِفْعَالٌ جیسے مِکْسَالٌ وَمِقْدَامٌ ۶)فُعَلَۃٌجیسےضُحَکَۃٌ وَضُجَعَۃٌ
۷) فَعِلٌ جیسے شَرِۃٌ وَحَذِرٌ ۸) فَعِیْلٌ جیسے رَحِیْمٌ وَعَظِیْمٌ
۹) فَعُوْلٌ جیسے کَذُوْبٌ وَوَدُوْدٌ ۱۰) فَاعِلَۃٌ جیسے رَاوِیَۃٌ
۱۱) فُعْلٌ جیسے غُفْلٌ ۱۲)فَعُوْلَۃٌ جیسے فَرُوْقَۃٌ
۱۳) مِفْعَلٌ جیسے مِحْرَبٌ۱۴)فَاعُوْلٌ جیسے فَارُوْقٌ
۱۵)فُعَّالٌ جیسے کُبَّارٌ
مبالغہ کے اوزان سب سماعی ہیں اور وہ صرف ثلاثی مجرد سے آتے ہیں البتہدَرَّاکٌ، أَدْرَکَ سے،اورمِعْطَاءٌأَعْطٰیسے،مِھْوَانٌ أَھَانَ سے، مِحْسَانٌ أَحْسَنَ سے،مِتْـلَافٌ أَتْلَفَ سے،مِمْلَاقٌ أَمْلَقَ سے،مِحْلَافٌ أَحْلَفَ سے،سَمِیْعٌ أَسْمَعَ سے، نَذِیْرٌ أَنْذَرَ سے اور زُھُوْقٌ أَزْھَقَسےشاذ ہیں۔
فائدہ: بعض اوزانِ مبالغہ کے ساتھ تاء لاحق ہوتی ہے تو وہ تاء تانیث نہیں ہوتی بلکہ تاکیدِ مبالغہ کے لیے آتی ہے، جیسے عَلَّامَۃٌ (بہت بہت جاننے والا)، فَرُوْقَۃٌ (بہت بہت فرق کرنے والا)، مِجْزَامَۃٌ (بہت بہت کاٹنے والا)۔
جب فَعِیْلٌ، فَاعِلٌ کے معنی میں ہو تو مذکر ومؤنث میں فرق ہوگا خواہ موصوف کا ذکر ہو یا نہ ہو، جیسے رَجُلٌ نَصِیْرٌ ، اِمْرَأَۃٌ نَصِیْرَۃٌ، وَجَاءَ نَصِیْرٌ وَنَصِیْرَۃٌاوراگرفَعِیْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہو اور موصوف بھی ساتھ ساتھ مذکور ہو تو مذکر ومؤنث میں ایک ہی حالت ہوگی جیسے زَیْدٌ قَتِیْلٌ وَأَتَتِ الْمَرْأَۃُ جَرِیْحًا اور بغیر موصوف کے فرق ہوگا، جیسے جَاءَ حَبِیْبٌ وَحَبِیْبَۃٌ۔
اور اگر فَعُوْلٌ بمعنی فَاعِلٌ ہوتو موصوف کے ساتھ مذکر ومؤنث میں ایک ہی حالت ہوگی،جیسے یَحْیٰی الْبَتُوْلُ، مَرْیَمَ الْبَتُوْلُ، اور اگر موصوف نہ ہو تو فرق ہوگا، جیسے جَاءَ بَتُوْلٌ وَبَتُوْلَۃٌ۔
اور اگر فَعُوْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہو تو مؤنث ومذکر میں فرق وامتیاز ہوگا، خواہ موصوف مذکور ہو یا نہ ہو، جیسے ھٰذَا رَسُوْلٌ وَتِلْکَ رَسُوْلَۃٌ۔
سبق نمبر۴۶
مذکر ومؤنث
مذکر علامتِ تذکیر سے بے نیاز ہے البتہ مؤنث کے لیے تین علامتیں مقرر ہیں۔
۱)تاء، جیسے ظُلْمَۃٌ، قُوَّۃٌ، نِعْمَۃٌ، قُدْمَۃٌ
۲)الف مقصورہ، جیسے عُذْرٰی، فُضْلٰی، کُبْرٰی، عُظْمٰی
۳)الف ممدودہ، جیسے حَمْرَاءُ، سَوْدَاءُ، بَیْضَاءُ، زَرْقَاءُ
یہ تینوں علاماتِ تانیث، آخرِ اسم میں زائد کی جاتی ہیں اور یہ اسم کو مؤنث بنادیتی ہیں لیکن وہ اسماء جو مردوں کے نام ہو ان کے آخر میں اگرچہ علاماتِ تانیث ہوں لیکن وہ مذکر ہی رہتے ہیں،جیسے طَلْحَۃٌ، نَخْلَۃٌ، اَرْطٰی، خَضْرَاءُ وغیرہ۔
مؤنث کی دو قسمیں ہیں:
۱) مؤنثِ لفظی۲) مؤنثِ معنوی
مؤنثِ لفظی: وہ ہے جس میں علامتِ تانیث ظاہر میں لگی ہوئی ہو جیسے کہ اوپر کی مثالوں میں گزر چکا ہے۔
مؤنثِ معنوی: وہ ہے جس کو اہل زبان نے مؤنث مانا ہو لیکن اس میں کوئی ظاہری علامتِ تانیث نہ ہو اس کی چار قسمیں ہیں:
۱) عورتوں کے نام، جیسے مریم، زینب وغیرہ۔
۲) وہ اسماء جو عورتوں کے لیے ہی مخصوص ہوں، جیسے أُخْتٌ، أُمٌّ وغیرہ۔
۳) شہروں اور قبیلوں کے نام، جیسے شام، مصر، قریش، وغیرہ۔
۴) ان اعضاء جسمانی کے نام جو دو دو ہوں، جیسےعَیْنٌ، رِجْلٌ، أُذُنٌ لیکن یہ آخر کا حکم اکثری ہے کیوں کہ صَدْعٌ، مِرْفَقٌ، حَاجِبٌ، خَدٌّ وغیرہ یہ مؤنث نہیں ہیں، ان کے علاوہ کچھ اور الفاظ بھی ہیں جن کو اہل لغت نے جمع کیا ہے ان کی تعداد تو بہت ہے لیکن یہاں چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
اُذُنٌ، أَرْضٌ، أَرْنَبٌ، أَرْوٰی، اِسْتٌ، اِصْبَعٌ، أَفْعٰی، بِئْرٌ، جَحِیْمٌ،
جَھَنَّمُ، حَرْبٌ، دَارٌ، زِرَاعٌ، رَجُلٌ، رَحْمٌ، رَخٰی، رِیْحٌ، سَقَرٌ،
سِنٌّ، سَاقٌ، شَمْسٌ، شِمَالٌ ضَبْعٌ، عُرُوْضٌ، عَصَا، عَقْبٌ، عَیْنٌ،
فَأسٌ، فَخِذٌ، فَلَکٌ، قَدَمٌ، قَوْسٌ، کَأسٌ، کَتِفٌ، کَرْشٌ، کَفٌّ، نَارٌ،
نَعْلٌ، نَابٌ، وَرِکٌ، یَدٌ، یَمَنٌ۔
ہوا کے جو اسم ہیں وہ بھی مؤنث مانے جاتے ہیں، جیسے: صَبَا، قَبُوْلٌ، جُنُوْبٌ، دَبُوْرٌ، شِمَالٌ، حَیْفٌ، حَرُوْرٌ، سَمُوْمٌ، وغیرہ۔
ان کے علاوہ بعض ایسے اسماء بھی ہیں جن میں تذکیر وتانیث دونوں صورتیں جائز ہیں، ان میں مشہور یہ ہیں:
إِبِطٌ، إِِزَارٌ، حَالٌ، حَانُوْتٌ، خَمْرٌ، دِرْعٌ، دَلْوٌ، رُوْحٌ، زُقَاقٌ،
سَبِیْلٌ، سَرٰی، سَرَاوِیْلُ، سِلَاحٌ، سِکِّیْنٌ، سَلَمٌ، سُلَّمٌ، سَمَاءٌ،
سُوْقٌ، صَاعٌ، ضُحٰی، طَرْسٌ، طَرِیْقٌ، عِجْزٌ، عَضُدٌ، عُقَابٌ،
عَقْرَبٌ، عُنُقٌ، عَنْکَبُوْتٌ، فِرْدَوْسٌ، فَرَسٌ، فَھَرٌ، قِدْرٌ، قُفَاءٌ،
قَمِیْصٌ، کَیْدٌ، لِسَانٌ، مِسْکٌ، مِلْحٌ ، مِنْجِنِیْقٌ، مُوْسٰی، نَفْسٌ، وَرَاءٌ۔
حروف تہجی بھی حکم میں انہیں الفاظ کے ہیں۔
سبق نمبر۴۷
مثنّٰی (قواعد تثنیہ)
مثنّٰی وہ اسم ہے جو دو پر دلالت کرے، کسی اسم واحد کو جب مثنّٰی بنانا چاہتے ہیں تو حالت رفعی میں اس کے آخر میں الف بڑھاتے ہیں اور حالت نصبی وجری میں یاء ماقبل مفتوح اور آخر میں نون مکسور زائد کرتے ہیں، جیسےجَاءَ الرَّجُلَانِ، رَأَیْتُ الرَّجُلَیْنِ، وَ مَرَرْتُ بِالرَّجُلَیْنِ۔
کوئی علم اگر مرکبِ اضافی ہو تو اس کے جزء اول (مضاف) کو مثنّٰی لاتے ہیں، جیسے عَبْدَ الْمَلِکِ اور اگر مرکب بنائی یا اضافی ہو تو ان کو اپنی حالت پر رکھتے ہیں، البتہ مذکر ہونے کی صورت میں ان سے پہلے ذُوْ اور مؤنث ہونے کی صورت میںذَوَاتَا بڑھاتے ہیں، جیسے ذَوَا مَعْدِیْکَرَبَ، ذَوَاتَا بَعْلَبَکَّ۔
جن کا تثنیہ نہیں آتا وہ یہ ہیں:بَعْضُ، أَجْمَعُ، جَمْعًا، کُلٌّ، أَحَدٌ، عَرِیْبٌ، اسماء اعداد اور وہ اسم تفضیل جو مِنْ کے ساتھ استعمال ہو،جیسے اَلْیَدَانُ أَفْضَلُ مِنَ الرِّجْلَیْنِ۔
تثنیہ اسمِ منقوص: اسمِ منقوص وہ اسمِ معرب ہے،جس کے آخر میں یاء ماقبل مکسور ہو، جیسےالقاضي اور اگر اسم میں یاء حذف ہو تو تثنیہ بناتے وقت لوٹ آتی ہے، جیسے رامٍ رَامِیَانِ، رَاعٍ رَاعِیَانِ۔
تثنیہ اسمِ مقصور: اسمِ مقصور وہ اسمِ معرب ہے، جس کے آخر میں ہمزہ ہو اور اس سے پہلے الف زائدہ ہو، جیسےصَفْرَاءُ،خَضْرَاءُ اس میں الف اگر تانیث کے لیے ہو،جیسے خَضْرَاءُ میں تو تثنیہ بناتے وقت ہمزہ کو واؤ سے بدل دیا جاتا ہے،جیسےخَضْرَا وَانِ یہ جب ہے کہ الف سے پہلے واؤ نہ ہو ورنہ ہمزہ کو باقی رکھتے ہیں تاکہ دو واؤ جمع نہ ہوجائیں، جیسے عَشْوَاءُسےعَشْوَ اءَانِ۔
اگر ہمزہ اصلی ہو تو بھی لزوماً باقی رکھی جاتی ہے جیسے لَأْ لَاءٌسے لَأْ لَاءَ انِ،قُرَّاءٌ سے قُرَّاءَ انِ۔
اگر ہمزہ نہ اصلی ہی ہو نہ تانیث کے لیے تو اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں خواہ اس کو واؤ سے بدلیں خواہ اس کو بجنسہ رکھیں،جیسے سَمَاءٌ سے سَمَاءَ انِ اور سَمَاوَانِ۔
تثنیہ اسماء محذوف اللّام: وہ اسماء جن کا لام کلمہ محذوف ہو اور اس کے عوض کچھ نہ ہو تو تثنیہ بناتے وقت ان کا لام کلمہ واپس آئے گا، جیسےأَبٌ کہ دراصلأَبَوٌ تھا بحالت تثنیہ أَبَوَانِ اسی طرح أَخَوَانِ، حِمْیَرَانِ، غَدَوَانِ وغیرہ۔
البتہ فَمٌ، وَ یَدٌ میں واؤ واپس نہیں آئے گا بلکہ کہیں گے فَمَانِ وَ یَدَانِ۔
اور وہ اسماء جن میں محذوف کی جگہ کچھ ہو تو ان کو اپنی صورت پر باقی رکھ کر تثنیہ بنایا جائے گا، جیسےسَنَۃٌ، اِبْنٌ، اِسْمٌ کہ ان کا تثنیہ سَنَتَانِ، اِبْنَانِ، اِسْمَانِ ہے۔
سبق نمبر۴۸
جمع
جمع کی دو قسمیں ہیں:
۱) جمع سالم ۲) جمع مکسر
جمع سالم: وہ ہے جس میں واحد کا وزن سالم رہے جو کچھ زیادہ ہو وہ آخر میں ہو،جیسےضَارِبٌ سے ضَارِبُوْنَ۔
جمع مکسر:وہ ہے جس میں واحد کا وزن باقی نہ رہے بلکہ بگڑ جائے اور متغیر ہو جائے، جیسے ضَارِبٌ سے ضُرَّابٌ
پھر جمع سالم کی بھی دو قسمیں ہیں:
۱) جمع مذکر سالم۲) جمع مؤنث سالم
جمع مذکر سالم: جمع مذکر سالم وہ ہے کہ بحالت رفعی اس کے آخر میں واؤ ماقبل مضموم ہو اور بحالت نصبی وجرّی یاء ماقبل مکسور اور دونوں کے بعد نون،جیسےجَاءَ مُسْلِمُوْنَ، رَأَیْتُ مُسْلِمِیْنَ، مَرَرْتُ بِمُسْلِمِیْنَ، اس وزن پر جمع بنانے کے لیے یہ شرط ہے کہ اسم، تاء تانیث، سے خالی ہو اور مفردو مرکب نہ ہو، لہذا طَلْحَۃْ اگرچہ مذکر علم ہے لیکن تاء تانیث کی وجہ سے اس کی جمع واؤ نون سے نہیں آئے گی، اسی طرح مَعْدِیْکَرَبْ اوربَعْلَبَکَّ وغیرہ یَا عَبْدَ الْمَلِکِ اور تَأَبَّطَ شَرّاً کہ یہ مرکب ہیں نہ مفرد، اگر ان کی جمع بنانی ہو تو لفظ ذُوْ کی کی ان کلمات کی طرف اس کی اضافت کریں گے، جیسے ذُوْ مَعْدِیْکَرَبْ وذُوْ بَعْلَبَکَّ وَذُوْ تَأَبَّطَ شَرًّا۔
بعض ایسے بھی ہیں جن کی جمع، جمع مذکر سالم کے وزن پر آتی ہے اگر چہ اس کی شرطیں ان میں نہیں پائی جاتیں، مثلاً أَرْضُوْنَ، عَالِمُوْنَ، عِلِّیُّوْنَ، أَھْلُوْنَ، بَنُوْنَ، سِنُوْنَ اسی طرح ہر وہ کلمہ ثلاثی جس کا لام کلمہ حذف کردیاگیا ہو اس کی عوض میں تاء لائی گئی ہو اس کی جمع بھی واؤ نون کے ساتھ آتی ہے،جیسے عِضُوْنَ، ثَبُوْنَ، مِئُوْنَجمع ہے عِضَۃٌ، ثِبَۃٌ، مِأَۃٌ کی۔
جمع مؤنث سالم: جمع مؤنث سالم وہ ہے کہ جس کے آخر میں الف اور لمبی تاء زیادہ کی جائے، جیسے ثَمَرَاتٌ، شَجَراتٌ، اگر مفرد کے آخر میں پہلے ہی سے تاء ہو تو جمع بنانے کے لیے اس کو حذف کردیتے ہیں، جیسے طَالِبَۃٌ سےطَالِبَاتٌ، مُسْلِمَۃٌ سے مُسْلِمَاتٌ ۔
مندرجہ ذیل اسماء سے اس وزن پر جمع آتی ہے:
۱) ہر وہ اسم جس کے آخر میں تاء تانیث ہو،جیسے ثَمَرَۃٌسےثَمَرَاتٌ،شَجَرَۃٌ سے شَجَرَاتٌ، البتہ اِمْرَأَۃٌ، شَاۃٌ، قُلَّۃٌ، أُمَّۃٌ، مِلَّۃٌ، شُفْعَۃٌاس سے مستثنی ہیں۔
۲) ہر وہ اسم جو مؤنث کا علم ہو، جیسے زَیْنَبْ سے زَیْنَبَاتْ، مَرْیَمْ سےمَرْیَمَاتْ۔
۳) ہر وہ مصدر جو تین سے زائد حرف رکھتا ہو، جیسے تعریفات، امتیازات، اختیارات۔
۴)ہر وہ اسم جس کے آخر میں الف تانیث ہو، خواہ مقصورہ ہو یا ممدودہ، جیسےصَحْرَاءْ سے صَحْرَاوَاتْ،حُمّٰی سے حُمَیَاتْ اسماء مقصورہ وممدودہ میں الف کی تبدیلی یا بقاء کے متعلق وہی صورتیں اختیار کی جائیں گی جن کا ذکر مثنّٰی میں آچکا ہے، مذکورہ اسماء کے علاوہ اس وزن پر جمع آنا سماعی ہے،جیسےسَمَاوَاتْ، أَرْضِیَّاتْ، سِجِلَّاتْ، شِمَالَاتْ، أُمَّہَاتْ، سُرَارَقَاتْ، خُمَامَاتْ۔
رہے الفاظ عجمی، تو ان میں سے بعض کی جمع تو اسی وزن پر آتی ہے جیسےتِلْغِرَافَاتْ اور بعض کی جمع جمع مکسر آتی ہے، جیسے: اَسَاکِلْ، قَنَامِلْ، بِطَارِقَۃْ، کَرَادِلَۃْ۔
تنبیہ: اگر کوئی کلمہ ثلاثی ہو اور اس کا عین کلمہ صحیح اور وہ فَعَلٌ یا فَعَلَۃٌکے وزن پر ہو تو اس کی جمع مؤنث سالم بناتے وقت عین کلمہ پر فتح دینا ضروری ہے،جیسےثَمَرَۃٌ سے ثَمَرَاتْ، رَحْمَۃٌ 
سے رَحَمَاتٌ۔
اور اگر وہ فِعْلٌ یا فُعْلٌ کے وزن پر ہو تو عین کلمہ کو فتح دینا یا ساکن رکھنا یا فاء کلمہ کے مثل اس پر حرکت لانا سب جائز ہے،جیسے کِسْرَۃٌ سے کِسَرَاتٌ،کِسْرَاتٌ، کِسِرَاتٌ، حُجْرَۃٌ سے حُجَرَاتٌ، حُجْرَاتٌ، حُجُرَاتٌ۔
اگر کلمہ اجوف ہو تو بحالت جمع، عین کلمہ ساکن ہی رہے گا، خواہ فاء کلمہ پر کوئی بھی حرکت ہو، جیسے جَـوْزَۃٌ سے جَوْزَاتْ، بَیْعَۃٌ سے بَیْعَاتْ، اور اگر ناقص ہو تو وہ صحیح کا سا حکم رکھتا ہے، جیسے: رَمْیَۃٌ سے رَمْیَاتٌ، رَقْوَۃٌسے رُقُوَاتٌ، رُقَوَاتٌ، رُقْوَاتٌ ۔
ہاں اگر فاء کلمہ مکسور ہو اور لام کلمہ واوی ہو تو عین کلمہ کو فتح دینا یا ساکن رکھنا جائز ہے، لیکن فاء کلمہ کے مثل حرکت دینا جائز نہیں۔حَبْرَاوَاتٌ شاذ ہے۔
اسی طرح اگر فاء کلمہ مضموم ہو اور لام کلمہ یائی ہو تو بھی عین کلمہ کو حرکت میں فاء کلمہ کے ہم شکل کرنا جائز نہیں البتہ فتح دینا جائز ہے، اور ساکن رکھنا بھی، اگر کلمہ مدغم ہو تو جمع بناتے وقت فکِّ ادغام نہیں ہوگا، جیسے ضَمَّۃٌسے ضَمَّاتٌ، عِزَّۃٌ سے عِزَّاتٌ ۔
جمع مکسَّر
جمع مکسر تین طریق سے بنائی جاتی ہے:
۱) کبھی صرف تبدیلی حرکت سے،جیسے أَسَدٌ سے أُسُدٌ۔
۲) کبھی حروف کے حذف سے،جیسے رَسُوْلٌ سے رُسُلٌ۔
۳) کبھی حرف کی زیادتی سے،جیسے رَجُلٌ سے رِجَالٌ۔
جمع مکسر کی دو قسمیں ہیں:
۱) جمع قلت ۲) جمع کثرت۔
جمع قلت:وہ ہے جس سے تین سے دس تک کی تعداد معلوم ہو، اس کے چار وزن ہیں:
۱) أَفْعَالٌ، جیسے ظفر سے أَظْفَارٌ ۲)أَفْعُلٌ، جیسے نَفْس سے أَنْفُسٌ
۳)أَفْعِلَۃٌ، جیسے رَغِیْفٌ سے أَرْغِفَۃٌ ۴)فِعْلَۃٌ، جیسے فَتٰی سے فِتْیَۃٌ پھر أَفْعَالٌ اور أَفْعُلٌ کی دوسری جمع بھی آتی ہے، جس کو جمع منتہی الجموع کہتے ہیں، أَفْعَالٌ کی جمع أَفَاعِیْلُ کے وزن پر آتی ہے،جیسےأَظْفَارُ کی جمعأَظَافِیْرُ، اور أَفْعُلٌ کی جمع أَفَاعِلُ کے وزن پر آتی ہے جیسےأَضْلُعُ کی جمعأَضَالِعُ گویا منتہی الجموع سے مراد وہ وزن ہے جس میں الف جمع کے بعد دو حرف متحرک ہوں، یا اگر تین ہو تو بیچ میں یاء ساکن ہو،جیسے مَسَاجِدُ، مَنَابِرُ،یا قَنَادِیْلُ، مَصَابِیْحُ۔
تنبیہ: جمع قلت پر جب الف لام استغراق کا داخل ہو یا اس کی اضافت اس چیز کی طرف ہو جو کثرت پر دلالت کرے وہ کثرت کا فائدہ دیتی ہے، جیسےأَیُّھَا الشُّیُوْخُ لَاتَکُوْنُوْا کَالْفِتْیَۃِ اِحْفِظُوْا أَنْفُسَکُمْ۔
جمع کثرت: وہ ہے جو تین سے زیادہ إلی غیر النہایۃ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
جمع سالم کی ہر دو قسمیں بعض کے نزدیک جمع قلت کے معنی کو مفید ہوتی ہیں اور بعض کے قول پر مطلق جمع کے معنی کو ظاہر کرتی ہیں بلالحاظ قلت وکثرت کے۔
سبق نمبر۴۹
جمع کثرت کے قیاسی اوزان
۱) فُعَلٌ جمع فُعْلَۃٌ، جیسے عُلَبٌ جمع عُلْبَۃٌ، صُوَرٌ جمع صُوْرَۃٌ، صُرَرٌجمع صُرَّۃٌ۔
۲) فِعَلٌ جمع فِعْلَۃٌ، جیسےقِطَعٌ جمع قِطْعَۃٌ لیکن کبھی فِعْلَۃٌ کی جمع فُعَلٌبھی آتی ہے جیسے لُحٰی جمع لِحْیَۃٌ، حُلٰی جمع حِلْیَۃٌ۔
۳)فَعَالِلُ ہر رباعی کی جمع، جیسے بَلَابِلُ جمع بُلْبُلٌ، حَنَادِسُ جمع حِنْدِسٌاور خماسی مجرد ومزید کی جمع بھی، جیسے سَفَارِجُ جمع سَفَرْجَلٌ، خَدَارِسُجمع خَنْدَرِیْسٌ۔
۴)فَوَاعِلُ ہر اس ثلاثی کی جمع جس کے فاء کے بعد واؤ یا الف زائد ہو،جیسےجَـوَاہِرُ جمع جَوْہَرٌ، خَوَاتِمُ جمع خَاتَمٌ۔
۵)فَعَائِلُ ہر اس مؤنث کی جمع جس کا تیسرا حرف مدہ ہو،جیسے صَحَائِفُجمع صَحِیْفَۃٌ، رَسَائِلُ جمع رِسَالَۃٌ۔
۶)أَفَاعِلُ أَفْعَلُ (بتثلیث الہمزۃ) کی جمع، جیسے أَصَابِعُ أُصْبُعٌ کی جمع،أَنَامِلُ أُنْمُلَۃٌ کی جمع، أَجَادِلُ أَجْدَلُ کی جمع۔
۷) أَفَاعِیْلُ أُفْعُوْلُ اور أَفْعُوْلَۃٌ کی جمع، جیسے أَسَالِیْبُ أُسْلُوْبٌ کی جمع،أَرَاجِیْزُ أَرْجُوْزَۃٌ کی جمع۔
۸)فَعَالِیْلُ ہر اس رباعی کی جمع جس کے حرف آخر سے پہلے مدہ ہو، جیسےقَرَاطِیْسُ جمع قِرْطَاسٌ، عَصَافِیْرُ جمع عُصْفُوْرٌ۔
۹) مَفَاعِلُ مِفْعَلٌ اور مِفْعَلۃٌکی جمع، جیسےمَبَاضِعُ جمع مِبْضَعٌ، مَکَانِسُجمع مِکْنَسَۃٌ۔
۱۰)مَفَاعِیْلُ مِفْعَالُ، مِفْعِیْلُ،مَفْعُوْلٌ کی جمع،جیسےمَفَاتِیْحُ جمعمِفْتَـاحٌ، مَسَـاکِیْنُ جمع مِسْکِیْنٌ، مَقَادِیْرُ جمع مَقْدُوْرٌ۔
سبق نمبر۵۰
اسم جمع وشبہ جمع
اسم جمع وہ ہے جو جمع کے معنی دے اور اسی مادہ سے اس کے لیے کوئی مفرد نہ ہو، جیسےخَیْلٌ، قَوْمٌ، رَھْطٌ، جَیْشٌ۔
شبہ جمع وہ ہے جو جمع کے معنی دے اور اس کے واحد وجمع میں تاء سے تمیز ہو،جیسے وَرْقٌ کہ اس کا مفرد وَرْقَۃٌ ہے، تَمْرٌ کہ اس کا واحد تَمْرَۃٌ ہے، اور اسی قبیل سے وہ جس کے واحد وجمع میں یاء نسبتی سے فرق وامتیاز ہو، جیسےاَلرُّوْمِيْ رومیوں میں سے ایک، اَلْمَجُوْسِيْ مجوسیوں میں سے ایک، البتہ پہلا غیر ذوی العقول کے لئے ہے اور دوسرا ذوی العقول کے لئے۔
اسم جمع وشبہ جمع ہر دو کی جمع مفردات کے طرز پر آتی ہے، جیسے قَوْمٌ کی جمعأَقْوَامٌ، ثَوْبٌ کی جمع أَثْوَابٌ، رِفْقَۃٌ کی جمع أَرْفُقٌ، نَجْمٌ کی جمع أَنْجُمٌ اوررُوْمْ کی جمع أَرْوَامٌ۔
سبق نمبر۵۱
صفت
صفت وہ اسم ہے جو کسی ذات کی حالت کو بتائے اس کی پانچ قسمیں ہیں:
۱) اسم فاعل ۲) اسم مفعول ۳) صفت مشبہ ۴) اسم تفضیل ۵) اوزان مبالغہ۔
صفت کی تانیث
صفت کی تانیث بنانے کے لیے اس کے آخر میں تاء لگادی جاتی ہے، جیسےصَادِقٌ صَادِقَۃٌ، کَاذِبٌ کَاذِبَۃٌ، لیکن وہ صفت جو فَعْلَانُ کے یا أَفْعَلُکے وزن پر ہو، یا اسم تفضیل ہو اس کی تانیث کے احکام مخصوص ہیں۔
۱) جو صیغہ صفت فَعْلَان کے وزن پر ہو اس کی مؤنث فَعْلٰی کے وزن پر آتی ہے، جیسےعَطْشَانٌ سے عَطْشٰی، سَکْرَانٌ سے سَکْرٰی، ظَمْاٰنٌسے ظَمْاٰی، مگر بعض کلمات ایسے ہیں کہ ان کی مؤنث تاء ہی کے ساتھ آتی ہے، مثلاً اَلْیَانِ، حُبْلَانِ، خَمْصَانِ، سَخْنَانِ، صَرْحَانِ، ضَرْجَانِ، قَشْرَانِ، مَصَّانِ، نَصْرَانِ اور بعض ایسے ہیں جن کی مؤنث فَعْلٰی کے وزن پر بھی آتی ہے اور تاء کے ساتھ بھی، جیسے عَطْشَانُ سے عَطْشٰیاور عَطْشَانَۃٌ، غَضْبَانُ سے غَضْبٰی اور غَضْبَانَۃٌ۔
۲) جو صیغہ صفت أَفْعَلُ کے وزن پر ہو اس کی مؤنث فَعْلَاءُ کے وزن پر آتی ہے، جیسے أَبْیَضُ سے بَیْضَاءُ، أَسْمَرُ سے سَمْرَاءُ۔
۳)اسم تفضیل کے لیے مؤنث کا صیغہ فُعْلٰی ہے جیسےأَ کْرَمُ سےکُرْمٰی،أَصْغَرُ سے صُغْرٰی، پھر اگر کلمہ ناقص واوی ہو تو واؤ کو یاء سے بدل دیتے ہیں، جیسے أَحْلٰی سے حُلْیَا،أَدْنٰی سے دُنْیَا۔
بعض صفات کے صیغے ایسے بھی ہیں جن میں تذکیر وتانیث کا کوئی فرق نہیں۔ یہ حسب ذیل چھ ہیں:
۱) فَعَّالَۃٌ: جیسےرَجُلٌ فَھَّامَۃٌ، اِمْرَأَۃٌ فَھَّامَۃٌ۔
۲) مِفْعَالٌ: جیسے رَجُلٌ مِفْضَالٌ، وَامْرَأَۃٌ مِفْضَالٌ اور مِیْقَانَۃٌ شاذ ہے۔
۳) مِفْعِیْلٌ: جیسے رَجُلٌ مِعْطِیْرٌ وَامْرَأَۃٌ مِعْطِیْرٌ۔
۴) مِفْعَلٌ: جیسے رَجُلٌ مِغْشَمٌ وَامْرَأَۃٌ مِغْشَمٌ۔
۵) فُعْلَۃٌ وفُعَلَۃٌ:جیسے رَجُلٌ ضُحْکَۃٌ، اِمْرَأَۃٌ ضُحْکَۃٌ، اگر آپ عین کلمہ کو فتح دیدیں تو فاعلی معنی دے گا، مثلاً ضُحَکَۃٌ(بہت ہنسنے والا)،ھُمَزَۃٌ (بہت عیب لگانے والا)، ھُزَاۃٌ (بہت ٹھٹھا کرنے والا)۔
۶) فَعُوْلٌ بمعنی فَاعِلٌ اور فَعِیْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ، کبھی تاء کے ساتھ مؤنث آتا ہے، باوجود موصوف کے معروف ہونے کے، جیسےخَاتِمَۃٌ، سَعِیْدَۃٌ،عَاقِبَۃٌ حَمِیْدَۃٌ، کبھی فعیل بمعنی فاعل مؤنث بغیر تاء کےآتا ہے، جیسےاِمْرَأَۃٌ عَقِیْمٌ، یُحْیِي الْعِظَامَ وَھِيَ رَمِیْمٌ۔
واضح رہے کہ وہ صفات جو عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہوتی ہیں ان کے ساتھ اکثر تاء تانیث لاحق نہیں ہوتی یہ جب ہے کہ حدوث کے معنی ان سے مراد نہ لیے جائیں، جیسے طَالِقٌ، مُرْضِعٌ، حَامِلٌ،وغیرہ، ہاں اگر حدوث کے معنی ملحوظ ہوں تو تانیث کی تاء لاحق ہوگی، جیسے أَرْضَعَتْ فَھِی مُرْضِعَۃٌ۔
صفت کی جمع
صفت کا صیغہ اگر ذوی العقول کے لیے ہو، چاہے مذکر ہو یا مؤنث، اس کی جمع، جمع سالم کی شکل میں آتی ہے، جیسے رِجَالٌ صَادِقُوْنَ، وَنِسَاءٌ صَادِقَاتٌ، اور وہ صیغہ صفت کا جو بروزن أَفْعَلُ، فَعْلَاءُ، فَعْلَانٌ، فَعْلٰی ہو یا اسم فاعل ناقص ہو یا فَعِیْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہو تو ان کے احکام مخصوص ہیں، جو زیر بیان آئیں گے۔
۱) وہ صیغہ صفت جو بروزن اَفْعَلُ فَعْلَاءُ ہو تو اس کی جمع قیاساً فُعْلٌ کے وزن پر آتی ہے، جیسے أَحْمَرُ کی جمع حُمْرٌ، أَعْوَجَ کی جمع عُوْجٌ، اور کلمہ اجوف یائی ہو تو فاء کلمہ کو کسرہ دیتے ہیں، جیسے أَغْیَدُ کی جمع غِیْدٌ، أَبْیَضُکی جمع بِیْضٌ، أَھْیَفُ کی جمع ھِیْفٌ۔
۲) جب صفت فَعْلَانٌ، فَعْلٰی کے وزن پر ہو تو اس کی جمع فُعَالٰی یا فِعَالٌکے وزن پر آتی ہے، جیسے سُکَارٰی، حُیَارٰی، سُکْرَانُ و حَیْرَانُ کی جمع اور جِیَاعٌ وغِضَابٌ، جُوعَانُ و غَضْبَانُ کی جمع ہے۔
صفات کی جمع کے بقیہ اوزانِ قیاسیہ چھ ہیں:
۱)فُعَّالٌ اور فَعَلَۃٌ کے وزن پر اس اسم کی جمع آتی ہے جوفَاعِلٌ کے وزن پر ہو اور اس کا دوم کلمہ صحیح ہو، جیسےزَائِرٌ، صَائِمٌ، کی جمع زُوَّارٌ وَصُوَّامٌ اورکَاتِبٌ وظَالِمٌ کی جمع کَتَبَۃٌ وَظَلَمَۃٌ، فَعَلَۃٌ کا وزن زیادہ تر اس فاعل کی جمع کے لیے ہے جو اجوف ہو اور کسی صنعت وحرفت کےمعنی دیتاہو،جیسےسَاقَۃٌ، بَاعَۃٌ، حَاکَۃٌ کہ دراصلسَوَقَۃٌ، بَیَعَۃٌ، حَیَکَۃٌتھے۔
۲)فُعَّلٌ کا وزن بھی فاعل کی جمع کے لیے ہے، جیسےسَاجِدٌ وَجَائِعٌ وَنَائِمٌ کی جمع سُجَّدٌ، وَنُوَّمٌ،وَجُوَّعٌ ہے۔
۳)فَوَاعِلُ فَاعِلَۃٌ کی جمع ہے،جیسےصَوَاحِبُ وَضَوَارِبُ،صَاحِبَۃٌ وَضَارِبَۃٌ کی جمع اور فَوَاعِلُ ہی کے وزن پر ہر اس فاعل کی جمع آتی ہے جواُنَاثٌ کی صفات سے ہو، جیسے عَوَاقِرُ، حَوَامِلُ، طَوَالِقُ، عَاقِرٌ، حَامِلٌاور طَالِقٌ کی جمع ہے۔
۴)فُعَلَاءُ فَعِیْلٌبمعنی فَاعِلٌ کی جمع ہے، جیسے کُرَمَاءُ، عُلَمَاءُ، کَرِیْمٌ وَعَالِمٌ کی جمع ہے۔
۵)أَفْعِلَاء فَعِیْلٌ کی جمع ہے جو مضاعف یا معتل اللام ہو، جیسےغَنِیٌّ کی جمعأَغْنِیَاءُ، قَوِیٌّ کی جمع أَقْوِیَاءُ، مذکر اسم تفضیل کی جمع أَفْعَلُوْنَ کے وزن پر آتی ہے، جیسے أَعْظَمُوْنَ أَکْرَمُوْنَ اور جمع مکسر أَفَاعِلُ کے وزن پر،جیسےأَصَاغِرُ أَکَابِرُ، مؤنث اسم تفضیل کی جمع فُعْلَیَاتٌ کے وزن پر،جیسےعُظْمَیَاتٌ کُرْمَیَاتٌ، اور جمع مکسر فُعَلٌ کے وزن پر،جیسےصُغَرٌ،کُبَرٌ،صیغہ منتہی الجموع کی صرف جمع سالم آتی ہے جیسے ضَوَارِبَاتٌ کی جمع ضَوَارِبُ، أَفَاضِلُوْنَ کی جمع أَفَاضِلُ
سبق نمبر۵۲
نسبت
کسی کلمہ کے آخر میں یائے مشدد کا کسرہ کے بعد لاحق کرنا تاکہ یہ الحاق مدلول کلمہ کے ساتھ کسی چیز کی وابستگی ظاہر کرے نسبت کہلاتا ہے، جب اسم منسوب الیہ ثلاثی مکسور العین ہو تو بوقت نسبت عین کو فتح دیا جائے گا، جیسے فَخِذٌ سے فَخِذیٌّ، مَلِکٌ سے مَلِکِیٌّ اور اگر منسوب الیہ رباعی مکسور العین ہو تو افصح یہی صورت ہے کہ اس کے عین پر بدستور کسرہ رہے، جیسے مَشْرِقْ سے مَشْرِقِیْ، مَغْرِبْ سے مَغْرِبیْ، یَثْرِبْ سے یَثْرِبیْ۔
جس لفظ کے آخر میں تائے تانیث ہو نسبت کے وقت اس کا حذف لازم ہے، مثلاً نَاصِرَۃٌ کی طرف نسبت میں نَاصِرِیٌّ کہیں گے، جس اسم کے آخر میں الف مقصورہ ہو اس کی طرف نسبت کرنے کے قواعد حسب ذیل ہیں:
۱) الف مقصورہ اگر تیسرے حرف کی جگہ ہو تو بوقت نسبت وہ واؤ سے بدل جاتا ہے،جیسے عَصَا سے عَصَوِیٌّ، فَتٰی سے فَتَوِیٌّ۔
۲) اگر الف مقصورہ چوتھا حرف ہو اور اصلی ہو تو پھر بھی اس کی واؤ سے تبدیلی زیادہ تر زیر عمل ہے،جیسے مَرْمٰی سے مَرْمُوْیٌّ، اور حذف بھی روا ہے،جیسے مَرْمِیٌّ اور اگر اصلی نہ ہو بلکہ زائد ہو خواہ تانیث کے لیے خواہ الحاق کے لیے تو اس میں مختار صورت حذف کی ہے، یعنی حُبْلِیٌّ،ذِفْرِیٌّکہیں گے، اور اس کی تبدیلی واؤ سے بھی جائز ہے، مثلاً کہیںحُبْلَوِیٌّ، ذِفْرَوِیٌّ، ہا ں الف تانیث کو جب واؤ سے بدل دیں تو اکثر اس سے پہلے الف زائد کردیتے ہیں، جیسے طُوْبَاوِیٌّ، دُنْیَاوِیٌّ۔
۳) الف مقصورہ اگر ایسے اسم میں واقع ہو کہ جس کا دوسرا حرف متحرک ہو تو وہ حذف ہوتا ہے جیسےبَـرَدٰیْ سے بَرْدِیْ، اسی طرح اگر کلمہ میں پانچویں جگہ ہو تو بھی حذف ہوجاتا ہے، جیسےمُصْطَفٰی سے مُصْطَفِیٌّ بعضوں نے یہاں واؤ سے بھی تبدیلی جائز رکھی ہے، گویا مُصْطَفَوِیْ بھی کہتے ہیں۔
اگر اسم کے آخر میں الف ممدودہ تانیث کے لیے ہو تو اس کی طرف نسبت کے قواعد:
۱) الف ممدودہ تانیث کے لیے ہونے کی صورت میں بوقت نسبت واؤ سے تبدیل ہوجاتا ہے، جیسےصَفْرَاءُ سے صَفْرَاوِیٌّ۔
۲) الف ممدودہ کا ہمزہ اگر اصلی ہو تو بحال خود رہتاہے، جیسے قُرَّاءٌ سےقُرَّاءِیٌّ، اِبْتِدَاءٌ سے اِبْتِدَاءِیٌّ۔
۳) اگر اصلی نہ ہو تو اس کا بحال رکھنا بھی جائز ہے اور اس کی واؤ سے تبدیلی بھی روا ہے، مثلاً رِدَاءٌ سے رِدَائِیُّ بھی کہہ سکتے ہیں اور رِدَاوِیُّ بھی سَمَاءٌسے سَمَائِیُّ بھی کہنا روا ہے اور سَمَاوِیُّ بھی۔
اسم منقوص کی طرف نسبت کرنے کے اصول:
۱) یاء اگر تیسری جگہ ہو تو اس کو واؤ سے بدل کر اس کے ماقبل کو فتح دیتے ہیں،جیسے عَمْیٌ سے عَمَوِیٌ،حَیٌّ سے حَیَوِیٌّ۔
۲) اگر چوتھی جگہ ہو تو حذف بھی جائز ہے،جیسےقَاضٍ وَمَاضٍ سے قَاضِیُّ ومَاضِیُّ اور واؤ سے تبدیلی بھی، مگر اس صورت میں ماقبل کو فتح ضرور دیا جائے گا یعنی کہاجاویگا۔
۳) اگر کوئی کلمہ فَعِیْلٌ کے وزن پر ہو اور اس کے آخر میں حرف صحیح ہو تو اس کا وزن اپنی حالت پر باقی رہتا ہے، جیسےمَسِیْحٌ سے مَسِیْحیٌّ، صَلِیْبٌسے صَلِیْبِیٌّ، حَدِیْدٌ سے حَدِیْدِیٌّ، اگر وہ کلمہ ناقص ہے تو ایک یاء کو حذف کرکے دوسرے کو واؤ سے بدل دیں گے، اور ماقبل کو فتح دیں گے،جیسے غَنِیٌّ، عَلِیٌ سے غَنَوِیٌّ عَلَوِیٌّ، اگر فَعِیْلَۃٌ کے وزن پر ہو تو مضاعف ومعتل نہ ہونے کی صورت میں یاء کو حذف کرکے ماقبل کو فتح دیا جائے گا،مثلاً مَدِیْنَۃٌ کی طرف نسبت کرنے میں مَدَنِیٌّ اور فَرِیْضَۃٌ کی طرف نسبت کرنے میں فَرَضِیٌّکہیں گے، البتہ بعض جگہ یاء کا باقی رکھنا شاذ ہے،جیسےطَبِیْعِیٌّ، سَلِیْقِیٌّ۔
اگر مضاعف یا معتل العین ہو تو کچھ حذف نہیں ہوتا، جیسے طَوِیْلَۃٌ عَزِیْزَۃٌمیں کہیں گے طَوِیْلِیُّ، عَزِیْزِیُّ، فُعَیْلٌ و فُعَیْلَۃ کا وہی حکم ہے جو فَعِیْلٌ وفَعِیْلَۃٌ کا بیان ہوا جیسےعُقَیْلٌ سے عُقَیْلِیُّ، قُصَیٌّسےقُصَوِیُّ، قُلَیْلَۃٌسےقُلَیْلِیُّ،أُمَیْمَۃٌسے أُمَیْمِیُّ۔
اگر کسی اسم کے آخر میں چوتھی یا پانچویں جگہ واؤ ہو اور اس سے پہلے ضمہ ہو تو بوقت نسبت واؤ کو حذف کردیا جائے گا، جیسےقَلَنْسُوَۃٌ سے قَلَنْسِیٌّ،تَرْقُوَۃٌ سے تَرَقِیُّ، ورنہ واؤ باقی رہے گا، جیسے عَدُوٌّ سے عَدَوِیٌّ، دَلْوٌ سےدَلْوِیٌّ۔
اگر کسی اسم کے آخر میں یاء مشدد ہو اور اس سے پہلے دو سے زیادہ حرف ہوں تو یاء کا حذف کرنا ضروری ہے،جیسےشَافِعِیْ کی طرف نسبت کرتے ہوئےشَافِعِیٌّاور اَسْکَنْدَرِیَّۃٌ کی طرف نسبت کرتے ہوئےاَسْکَنْدَرِیٌّکہتے ہیں۔
اگر یاء سے پہلے ایک ہی حرف ہو جیسےحَیٌّ تو دوسرے حرف کو فتح دے کر تیسرے کو واؤ سے بدل دینا واجبی ہوتا ہے، جیسے حَیٌّ سے حَیَوِیٌّ۔
اگر دوسری یاء واؤ سے بدلی ہوئی ہو تو بوقت نسبت پھر واؤ ہوجائے گی، جیسےطَیٌّ سے طَوَوِیٌّ۔
اگر کوئی کلمہ محذوف الآخر ہو اور صرف دو حرف باقی رہے ہوں تو بحالت نسبت حرف محذوف پھر لوٹ آئے گا، جیسے أَبٌ وأَخٌ سے أَبَوِیٌّ و أَخَوِیٌّ،لفظ أُخْتٌ و بِنْتٌ کی طرف نسبت کرنے میں تاء کوئی رکھا جاتا ہے، جیسے أُخْتِیٌّ و بِنْتِیٌّ بعض تاء کو حذف کردیتے ہیں، اور کہتے ہیںأَخَوِیٌّ وَبَنَوِ یٌّ اور اِبْنَۃٌ کی نسبت کہا جاتا ہے اِبْنِیُّ وَبَنَوِ یُّ۔
یَدٌ ودَمٌ الفاظ میں محذوف کو لوٹانا فصیح تر ہے، گویا کہا جائے گا یَدَوِیٌّ،دَمَوِیٌّ،اور بغیر واؤ کے نسبت کرنے کو بھی جائز رکھا ہے یعنی کہا جائے گایَدِیٌّ، دَمِیٌّ۔
اگر کسی کلمہ میں محذوف کے عوض ہمزہ وصل ہو جیسےاِبْنٌ واِسْمٌ میں تو عوض (ہمزہ) کا حذف اور محذوف کا لوٹانا جائز ہے، مثلاً بَنَوِ یُّ وَسَمَوِیُّکہہ سکتے ہیں اور اِبْنِیُّ وَاِسْمِیُّ کہنا بھی اسی طرح روا رکھا گیا ہے۔
اگر محذوف کے عوض تاء تانیث لائی گئی ہو تو بوقت نسبت اس کو حذف کرکے محذوف کو لایا جائے گا، جیسےسَنَۃٌ سے سَنَوِیُّ، لُغَۃٌ سے لُغَوِیُّ،زِنَۃٌ سے وَزَنیُّ اور صِلَۃٌ سے وَصَلِیٌّ ۔
اگر تثنیہ وجمع کی طرف نسبت مقصود ہو تو ان کو مفرد کی شکل میں لاکر نسبت کی جائے گی، جیسےعِرَاقِیْنَ سے عِرَاقِیٌّ، مُسْلِمِیْنَ سے مُسْلِمِیٌّ، یہی حال ان کا ہے جو تثنیہ وجمع کے ساتھ لاحق ہیں، جیسےاِثْنَیْنِ سے اِثْنَیٌّ وَثَنَوِیٌّ،عِشْرِیْنَ سے عِشْرِیٌّ، أَرْبَعِیْنَ سے أَرْبَعِیٌّ۔
اگر ایسی جمعیں ہیں جن کا مفرد نہیں، جیسے أَبَابِیْلْ وعَبَادِیْدْ، یا اگر مفرد ہے تو اسی لفظ سے نہیں، جیسےنِسَاءٌ، تو ہر دو حالت میں بوقت نسبت ان کو اپنے حال پر رکھا جائے گا، جیسے مُخَالِطِیٌّ، مُنَاجِذِیٌّ، نِسَائِیٌّ ۔
بعض صرفیین کے نزدیک جمع مکسر کی طرف نسبت کرنے میں اس کو بحال خود رکھا جائے گا، مفرد کی طرف اس کو نہیں لوٹائیں گے، جیسے أَنْبَارٌ سےأَنْبَارِیٌّ، أَنْصَارٌ سے أَنْصَارِیٌّ، أَھْوَازٌ سے أَھْوَازِیٌّ۔
مرکب بنائی میں نسبت کے وقت اس کا آخری جزء حذف کرکے اس کے جزء اول کی طرف نسبت کرتے ہیں، جیسےبَعْلَبَکَّ وَ مَعْدِیْکَرَبَ کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں بَعْلَبَیٌّ،مَعْدِیٌّک بھی بغیر حذف کیے ہوئے پورے مرکب کی طرف نسبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں: بَعْلَبَکِّیْ، مَعْدِیْکَرَبِیْ۔
مرکب اضافی میں کہیں تو جزء اول کی طرف نسبت کرتے ہیں جیسے اِمْرَأُ الْقَیْسْ سے اِمْرَاِیٌّ، دِیْرُ الْقَمَرِ سے دِیْرَانِیُّ، اور کہیں جزء آخر کی طرف، جیسےعَبْدُ الْأَشْہَلِ سے أَشْھَلِیُّ، أَبُوْ بَکْرٍ سے بَکْرِیٌّ، عَبْدُ مُنَافْ سے مُنَافِیُّ، کبھی پورے مرکب اضافی کی طرف نسبت کرتے ہیں، جیسے عَیْنُ إِبْلِیْ سے عَیْنُ إِبِلِیْ، وَادِیُ آشْ سے وَادِیُ آشِیٌّ، عَیْنُ حُوْرٍ سے عَیْنُ حُوْرِیٌّ۔
مرکب اسنادی میں نسبت جزء اول کی طرف کی جاتی ہے، جزء ثانی کو حذف کردیا جاتا ہے،جیسےتَأَبَّطَ شَرًّا سے تَأَبَّطِیٌّ، ذَرَ حَیًّا سے ذَرِیٌّ۔
ذیل میں ان اسماء کی فہرست دی جاتی ہے جو قواعدِ نسبت کے خلاف مستعمل ہیں:
حَضَرَمَوْتَ سے حَضْرَمِيٌّ
سَلِیْقَۃ سے سَلِیْقِيٌّ
أُمَیَّۃ سے أُمَوِيّ
خَزِینَۃ سے خُزَیْنِيّ
سُلَیْمَۃُ الْأَزْدٌ سے سُلَیْمِيٌّ
بَادِیَۃ سے بَدَوِيّ
دَہْرٌ سے دَھْرِيٌّ
سَلیم سے سَلَمِيّ
بَحْرَیْن سے بَحْرَانِيّ
دَیْر سے دَیْرَانِيّ
شَامٌ سے شَآمٍ
بَھْرَاءٌ سے بَھْرَانِيّ
دَارَیَا سے دَارَانِيّ
شَعْرٌ کَثِیْرٌ سے شَعْرَانِيّ
تِھَامَۃٌ سے تِھَامِيٌّ یا تَھَامٌ
رَبٌّ سے رَبَّانِيّ
صَدْرٌ کَبِیْرٌ سے صَدْرَانِيّ
تَیْمُ اللَّاتِ سے تَیْمَلِيّ
رَقبَۃ عَظیمۃ سے رَقَبَانِيّ
صَنْعَاء سے صَنْعَانِيّ
ثَقِیْفٌ سے ثَقَفِيٌّ
رَامْھَرْمُزْ سے رَامِيٌّ
طَبِیْعَۃٌ سے طَبِیْعِيّ
جُمَّۃٌ عَظِیْمَۃٌ سے جَمَّانِيٌّ
رُدَیْنَۃٌ سے رُدَیْنِيٌّ
طَیْء سے طَائِيٌّ
جُذَیْمَۃٌ سے جُذَمِيٌّ
رُوْحٌ سے رُوْحَانِيٌّ
عُمیْرَۃُ کَلْبٍ سے عُمَیْرِيٌّ
جَلَوْلَا سے جَلُولِيٌّ
رُوْحَائُ سے رُوْحَانِيٌّ
بَنِيْ عُبَیْدَۃ سے عَبْدِيّ
بَنِیْ الْحَبْلٰی سے حَبَلِيٌّ
رَ یْ سے رَازِيٌّ
عَبْدُ شَمْسٍ سے عَیْشَمِيٌّ
حَرُوْرَائُ سے حَرُوْرِيٌّ
رُبَابٌ سے رُبِيٌّ
عَبْدُ الدَّارِ سے عَبْدَرِيٌّ
حَرَمِیْنَ سے حَرَمِيٌّ
سَھْلٌ سے سَھْلِيٌّ
عَبْدُ قَیْسٍ سے عَبْقَسِيٌّ
عَبْدُ اللّٰہِ سے عَبْدَلِيٌّ
ہجر سے ہَاجِرِيٌّ
کُنْتَ سے کُنْتِيٌّ
فَرَاھِیَۃٌ سے فَرْہَوْوِيٌّ
لِحیَۃ عظیمۃ سے لِحْیَانِيٌّ
ھُذَیْلٌ سے ھُذَلِيٌّ
فَقْمُ کَنَانَۃٍ سے فَقْمِيٌّ
أَنْباط سے نَبَاطِيٌّ یانَبَاطٍ
ملیح خزاعۃ سے مُلَحِيٌّ
قُوَیْمٌ سے قَوْمِيٌّ
یَمَنْ سے یمَانٍ
نَاصِرَۃ سے نَصْرَانِيّ
قُرَیْشٌ سے قَرَشِيٌّ
اِمْرُؤُ الْقَیْسْ سے مَرْقَسِيٌّ
مَرْو الشَّاہْجَہَانِيٌ سے مَرْوَرِيٌّ
سبق نمبر ۵۳
تصغیر
بغرض اظہار قلت یا حقارت اسم میں ایک خاص تغیر کرنے کو تصغیر کہتے ہیں، ثلاثی مجرد سے تصغیر فُعَیْلٌ کے وزن پر آتی ہے، جیسے عَبْدٌ سے عُبَیْدٌ، رَجُلٌ سے رُجَیْلٌ۔
ثلاثی مزید، رباعی اور خماسی سے جبکہ چوتھا حرف مدہ نہ ہو تو تصغیر فُعَیْلِلٌکے وزن پر آتی ہے، جیسےجَعْفَرٌ سے جُعَیْفِرٌ، سَفَرْجَلٌ سے سُفَیْرِجُ۔
اگر مدّہ ہو تو فُعَیْلِیْلٌ کے وزن پر، جیسےمِضْرَابٌ سے مُضَیْرِیْبٌ،قِرْطَاسٌ سے قُرَیْطِیْسٌ،اگر اسم کے آخر میں تاء تانیث ہو یا الف نون زائد تان، تو علامت تانیث یا الف نون سے جو حرف ملحق ہوگا وہ جوں کا توں اپنی حالت پر رہے گا، جیسے ثَمْرَۃٌ سے ثُمَیْرَۃٌ، بُشْرٰی سے بُشَیْرٰی ،سَمْرَاءُ سے سُمَیْرَاءُ، سَکَرَانُ سے سُکَیْرَانُ، غَضْبَانُ سےغُضَیْبَانُ۔
اگر مؤنث معنوی ثلاثی ہو تو تصغیر میں(ۃ) ظاہر کی جاتی ہے،جیسے أَرْضٌ سےأُرَیْضَۃٌ، شَمْسٌ سے شُمَیْسَۃٌ، البتہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ التباس کا خطرہ نہ ہو، مثلاً خَمْسٌ کی جب تصغیر بنائی جائے گی جو معدود مؤنث کے لیے ہے تو خُمَیْسٌ کہیں گے، نہ خُمَیْسَۃٌ ورنہ خَمْسَۃٌ کی تصغیر کا شبہ ہوگا جو معدود مذکر کے لیے ہے۔
اگر کسی کلمہ میں حرف علت ہو اور تعلیل ہوچکی ہو تو تصغیر بناتے وقت وہ اپنے اصل کی طرف لو ٹ جائے گا،مثلاًبابٌ کی تصغیر بُوَیْبٌ اور نَابٌ کی تصغیرنُیَیْبٌ ہوگی، کیوں کہ الف پہلے میں واؤ سے اور دوسرے میں یاء سے بدلا ہوا ہے، بایں وجہ کہ ان کی جمعیں اَبْوَابٌ وَاَنْیَابٌ ہیں اور کھلا اصول ہے کہ جمع تکسیر اسماء کو اصل کی جانب لوٹا لاتی ہے، ہاں اگر الف کی اصلیت کا پتا نہ چل سکے کہ وہ واؤ سے بدلا ہوا ہے یا یاء سے، تو ماقبل ضمہ کا اعتبار کرتے ہوئے تصغیر میں واؤ لاتے ہیں جیسےعَاجٌ سے عُوَیْجٌ،یہی حکم اس واؤ کا یا یاء کا ہے جو بدلے ہوئے ہوں،جیسےمُوْسِرٌ سے مُیَیْسِرٌ، مِیْزَانٌ سے مُوَیْزِنٌ، البتہ عَیْدٌ کی تصغیر سے عُیَیْدٌ سے شاذ ہے کیوں قیاس عُوَیْدٌ کو چاہتا ہے۔
اگر واؤ اور یاء بدلے ہوئے نہ ہوں تو ان میں تغیر نہ ہوگا، جیسےسُوْرٌ سےسُوَیْرٌ، بَیْتٌ سے بُیَیْتٌ، اگر اسم مصغر کا دوسرا حرف الف زائد ہو، جیسےخَالِدٌ،ضَارِبٌ تو اجماعاً واؤ سے بدل جائے گا، جیسے خَالِدٌ سے خُوَیْلِدٌ،ضَارِبٌ سے ضُوَیْرِبٌ۔
اگر اسم مصغر کا تیسرا حرف الف ہو یا واؤ ہو تو اس کو یاء سے بدل کر یاء تصغیر میں مدغم کردیتے ہیں،جیسے عَصٰی سے عُصَیٌّ، دَلْوٌ سے دُلَیٌّ، عَجُوْزٌسے عُجَیْزٌ، کِتَابٌ سے کُتَیْبٌ، اگر واؤ متحرک ہو اور لام کلمہ نہ ہو تو اس کو یاء سے بدلنا یا باقی رکھنا دونوں صورتیں جائز ہیں، جیسےجَدْوَلٌ سے جُدَیْلٌیا جُدَیْوَلٌ، أَدْوَرٌ سے أُدَیَّرٌ، اگر تیسرا حرف یاء ہو تو وہ یاء تصغیر میں مدغم ہوجاتی ہے، جیسےنَصِیْرٌ سے نُصَیِّرٌ، جَمِیْلٌ سے جُمَیِّلٌ، اگر چوتھا حرف واؤ ہو یا الف تو ان کو یاء سے بدل دیا جاتا ہے، جیسے عَصْفُورٌسے عُصَیْفِیْر اورسُلْطَانٌ سے سُلَیْطِیْنٌ۔
اگر اسم تفضیل ناقص ہو، جیسےحُلٰی وشُحٰی تو تصغیر کے بعد فتح ہوگا،جیسےھُوَ أُحَیْلٌ مِّنَ الْعَسَلِ۔
اگر کسی اسم میں آخر سے کچھ حذف ہوکر دوحرف بچ رہے ہوں تو تصغیر میں حذف شدہ حرف واپس آئے گا، جیسے أَبٌ سے أُبَیُّ، أَخٌ سے أُخَیُّ، دَمٌسے دُمَیُّ، اگر حذف شدہ حرف کے عوض شروع میں ہمزہ وصل کا اضافہ ہوا ہو جیسے اِبنٌ میں تو تصغیر میں عوض حذف ہوگا اور محذوف لوٹ آئے گا، جیسے اِبْنٌ سے بُنَیَّ۔
اگر محذوف حرف کے عوض ہمزہ نہ ہو بلکہ تاء ہو تو اس کی تصغیر میں عوض باقی رہے گا اور محذوف بھی لوٹ آئے گا، جیسے زِنَۃٌ سے وُزَیْنَۃٌ اورعِدَۃٌ سے وُعَیْدَۃٌ، أُخْتٌ وِبِنْتٌ کی تصغیر أُخَیَّۃٌ وَبُنَیَّۃٌ۔
مثنی اور جمع سالم کی تصغیر اس طرح آئے گی مثلاً مُؤْمِنَانِ کی تصغیرمُوَیْمِنَانِ،مُؤمِنُونَ کی مُوَیْمِنُوْنَ، مُؤْمِنَاتٌ کی مُوَیْمِنَاتٌ، اور جمع قلت کی اس طرح کہ مثلاً أَرْغِفَۃٌ کی تصغیر أُرَیْغِفَۃٌ ہوگی۔
سبق نمبر۵۴
ہمزہ لکھنے کے اصول
ہمزہ جب شروع میں آتا ہے تو الف کی صورت میں لکھا جاتا ہے، جیسےأَسْمَاءٌ، إِکْرَامٌاور اگر ابتداء میں آئے اور کسی حرف کے ساتھ متصل ہو تو بھی الف ہی کی شکل میں لکھا جاتا ہے،جیسے بِأَجْمَلَ وَلِأَفْضَلَ،مگر لِئَلَّا وَلِئَنْ میں اس کی وہی ہیئت ہے جو وسط کلمہ میں ہوتی ہے اور یہ کثرت استعمال کے باعث ہے۔
اگر ہمزہ وصل بعد فاء یا واؤ کے واقع ہو تو اس کو حذف کردیا جاتا ہے بشرطیکہ اس کے بعد بھی ہمزہ ہو، جیسےفَأْتِنِی، وَأْذِنْ لِی۔
اگر ہمزہ درمیان میں واقع ہو اور ساکن ہو تو ماقبل کی حرکت کے موافق حرفِ علت سے لکھا جائے گا، جیسے بَأْسٌ، بُؤسٌ، بِئْسٌ۔
اور جب ہمزہ وصل کے بعد بدلا ہوا ہو پھر اثنائے کلام میں اصل کی طرف لوٹا دیاگیا ہو تو وہ اس حرف کی شکل میں لکھا جائے گا جس کی طرف وہ بدلا گیا ہے، جیسے یَارَجُلٌ اِئْذَنْ، اور ھٰذَا الَّذِيْ اِؤتَمَنْتَ عَلَیْہِ ۔
ہمزہ متحرک درمیان میں آنے والا اپنی حرکت کے موافق حرف کی شکل میں لکھا جائے گا، چاہے اس سے پہلے ساکن ہو یا متحرک، جیسے لُؤْمٌ، رَؤُفٌ، سَأَلَ، اگر مفتوح ہو اور بعد ضمہ یا کسرہ کے واقع ہو تو ماقبل کی حرکت کے موافق حرف کی صورت میں لکھا جائے گا، جیسے سُؤَالٌ، رِئَالٌ، مُؤَنَّثٌ۔
اگر ہمزہ الف اور یاء کے درمیان واقع ہو تو اس کو ہمزہ اور یاء دونوں کی صورت میں لکھنا جائز ہے، جیسے بِقَاءِ یْ، یَا بِقَائِیْ، رَاءِ یْ یا رَائِیْ۔
اگر ہمزہ الف اور ضمائر میں یاء کے علاوہ کسی اور کے درمیان واقع ہو اور مکسور یا مضموم ہو تو اپنی حرکت کے موافق حرف کی شکل میں لکھا جائے گا، اور مفتوح ہو تو ہمزہ کی صورت میں، جیسے بَقَاؤُہُ، بَقَائَہُ بَقَاءِ ہٖ۔
اگر ہمزہ کلمہ کے آخر میں ہو اور اس کا ماقبل ساکن ہو تو ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا، جیسے جُزْءٌ،شَیْءٌ، فَیْءٌ، اور اگر ماقبل متحرک ہو تو اس کی حرکت کے موافق حرف کی شکل میں لکھا جائے گا، جیسے ھَیُوْءٌ، لَکَاظِمِیءٌ۔
اگر ہمزہ طرف میں واقع ہو اور اس کے ساتھ تاء تانیث لاحق ہو اور ہمزہ سے پہلے حرف صحیح ساکن ہو تو ہمزہ الف کی شکل میں لکھا جائے، جیسےنَشْأَۃٌ، اور اگر متحرک ہو تو ماقبل کی حرکت کے موافق حرف کی صورت میں لکھا جائے گا، جیسے فِئَۃٌ، لُؤْلُؤَۃٌ، اگر ماقبل معتل ہو تو یاء کے بعد یاء کی شکل میں اور الف اور واؤ کے بعد ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا۔ جیسے خَطِیْئَۃٌ، بَرِیْئَۃٌ، قِرَاءَ ۃٌ، صَلَاءَ ۃٌ، مُرُوْئَۃٌ، سُوْءَ ۃٌ۔
سبق نمبر۵۵
ابدال کے قواعد
ایک حرف کی جگہ دوسرے حرف کو رکھنے کا نام ابدال ہے، ذیل میں وہ حروف درج ہیں جو کسی حرف سے بدلے ہوئے ہوتے ہیں:
و:الف جب ضمہ کے بعد واقع ہو تو وہ واؤ سے بدل جاتا ہے، جیسےضَارِبٌسے مجہول ضُوْرِبَ، قَاتَلَ سے قُوْتِلَ، یا ء ساکن جب ضمّہ کے بعد آئے تو وہ واؤ سے بدل جاتی ہے، جیسے أَیْقَنَ مُوْقِنٌ، أَیْسَرَ سے مُوْسِرٌ۔
الف: واؤ یا یاء جب متحرک ہوں اور ان کا ماقبل مفتوح ہو تو وہ الف سے بدل جاتے ہیں، جیسے قَالَ، غَزَا، بَاعَ، رَمٰی، لٰکِنْ اس قاعدہ کے لیے یہ شرائط ہیں کہ یہ واؤ،یاء، فاء کلمہ کی جگہ نہ ہوں، مدہ زائدہ سے پہلے، الف تثنیہ سے پہلے، اور یاء مشدد سے پہلے، اور نون تاکید سے پہلے نہ ہوں، ناقص کے عین کلمہ کی جگہ نہ ہوں، جس کلمہ میں یہ واقع ہوں وہ فَعْلَانٌ، فَعْلٰیکے وزن پر نہ ہو، اور نیز ایسے لفظ کے ہم معنی نہ ہو جس میں تعلیل نہیں ہوئی۔
ی: واؤ اور یاء جب ایک کلمہ میں جمع ہوں اور ان میں سے پہلا ساکن ہو تو واؤ کو یاء کرکے یاء کو یاء میں مدغم کردیتے ہیں،جیسےطَیٌّ، مَیِّتٌ، مَرْمِیٌّ کہ یہ در اصل طَوِیٌّ، مَیْوِتٌ، مَرْمُوْیٌ تھے۔
واؤ ساکن جب کسرہ کے بعد واقع ہو تو اس کو یاء سے بدل دیتے ہیں، جیسےمِوْزَانٌ سے مِیْزَانٌ، مِوْعَادٌ سے مِیْعَادٌ۔
ہمزہ: واؤ یا یاء جب الف زائد کے بعد طرف میں واقع ہوں تو ہمزہ سے بدل جاتے ہیں، جیسے عَجُوزٌ سے عَجَائِزُ، قَلَاوَۃٌ سے قَلَاءِوُ، صَحِیْفَۃٌسے صَحَائِفُ۔
ت:واؤ یا یاء اگر باب افتعال کے فاء کلمہ میں واقع ہوں تو وہ تاء سے بدل جاتے ہیں، جیسے اِتَّقٰی، اِتَّسَرَ۔
د: باب افتعال کے فاء کلمہ میں اگر دال یا ذال یا زاء واقع ہو تو تاء کو دال سے بدل لیتے ہیں،جیسے اِدَّانَ، اِذْدَّکرَ، اِزْدَانَ، کہ یہ دراصل اِذْتَانَ، اِذْتَکَرَاور اِزْتَانَ تھے، اِذْدَکَرَ میں دال کو ذال سے اور ذال کو دال سے بدلنا جائز رکھا گیا ہے، گویا اِدَّکَرَ بھی کہہ سکتے ہیں اور اِذَّکَرَ بھی۔
ط: باب اِفْتِعَالْ کے فاء کلمہ میں اگر صَادْ، ضَادْ، طَاءْ، ظَاءْ، واقع ہوں توتَاءْ کو طَاءْ سے بدل دیتے ہیں، جیسے اِصْطَبَرَ،اِضْطَرَبَ، اِطَّرَدَ، اِظْطَلَمَمیں ظَاءٌ کو طَاءٌ یا طَاءْ کو ظَاءْ سے بدلنا دونوں صورتیں جائز ہیں گویااِطَّلَمَ بھی کہہ سکتے ہیں اور اِظَّلَمَ بھی۔
سبق نمبر۵۶
نداء اور منادیٰ کے قوانین
منادیٰ وہ اسم ہے جو حرف نداء کے ذریعہ پکارا جائے، جیسے یَاعَبْدَ اللہِ أَیْ أَدْعُوْ عَبْدَ اللہِ،یعنی حرف نداء قائم مقام أَدْعُوْ ہے۔
حرف نداء پانچ ہیں:
۱) یَا ۲) أَیا ۳) ھَیَا ۴) أَیْ (بفتح الہمزۃ) ۵)أَ(الہمزۃ المفتوحۃ)۔
نوٹ: کبھی حرف نداء کو حذف کردیا جاتا ہے لیکن اس میں یاء پوشیدہ ہوتا ہے، جیسےیُوْسُفُ أَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا، اور یُوْسُفُ أَیُّھَا الصِّدِّیْقُ، یعنی اے یوسف اے صدق مجسّم۔
منادیٰ کی حسب ذیل قسمیں ہیں:
۱)منادیٰ مفرد معرفہ: مبنی ہوتا ہے علامت رفع پر، جیسے ضمہ،جیسے یَازَیْدُ، یَا اَللہُ، یَارَجُلُ۔
نوٹ: رَجُلٌ اگر چہ نکرہ ہے لیکن ہر نکرہ معینہ حرف نداء داخل ہونے کے بعد معرفہ ہوجاتا ہے، اس لیےیَارَجُلٌ میں منادی معرفہ ہے اور مبنی علی الرفع ہے، اور جیسے یَازَیْدَانِ،یَا زَیْدُوْنَ،یہ دونوں بھی علامت رفع پر مبنی ہیں۔
قاعدہ:۱)کبھی منادیٰ معرفہ کو لامِ استغاثہ داخل ہونے کے سبب کسرہ دیا جاتا ہے،جیسےیَا لِزَیْدٍ اور کبھی الحاق ھَاءْ کے سبب فتحہ دیا جاتا ہے، جیسےیَازَیْدَاہُ۔
۲) منادیٰ کی دوسری قسم: اگر منادی مضاف ہو یا مشابہ مضاف ہو تو اس کو نصب دیا جاتا ہے، جیسے یَاعَبْدَ اللہِ، یَا طَالِعًا جَبَلًا، یہ منادی مشابہ مضاف کی مثال ہے۔
۳)منادیٰ کی تیسری قسم: نکرہ غیرہ معینہ جیسے کوئی اندھا کہے: یَارَجُلًا خُذْ بِیَدِیْ،یعنی کوئی آدمی ہے جو میرا ہاتھ پکڑلے۔
۴)منادیٰ کی چوتھی قسم: منادیٰ معرّف باللام،جیسے یَا أَیُّھَا الرَّجُلُ، یَا أَیَّتُھَا الْمَرْأَۃُ، اور یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔
۵)منادیٰ کی پانچویں قسم: منادیٰ مرخم: وہ منادیٰ ہے جس کے آخری حرف کو تخفیف کے لیے حذف کردیا جائے،جیسے یَامَالِکُ سے یَامَالُ، اور جیسےیَامَنْصُوْرُ سے یَامَنْصُ (اس میں دو حرف کو حذف کیا گیا ہے) اورجیسےیَاعُثْمَانُ سے یَاعُثْمُ۔
قاعدہ:کبھی اظہارِ حزن وغم کے لیے بھی حرف ندا استعمال کیا جاتاہے،جیسےیَازَیْدَاہُ،وَا زَیْدَاہُ، یَا اَسَفٰی عَلیٰ یُوْسُفَ ، ہائے یوسف افسوس ۔

نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

اس کتاب کا تعارف
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے کلام کی فصاحت اور بلاغت اور اس کے اصل مفہوم کو عربی عبارت کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔عربی عبارت صحیح پڑھنا تب ہی ممکن ہے جب عربی گرامر یعنی نحو کے قواعد زبانی یاد ہوں۔ قواعد کی جو تفصیل بڑی بڑی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہیں وہ عموماً کتابوں تک ہی محدود رہتی ہیں۔اسی لیے عربی زبان کی کتاب پڑھتے وقت یا وعظ کہتے وقت ان قواعد کے زبانی یاد نہ ہونے سے عربی عبارت اعتماد سے نہیں پڑھی جاتی۔
شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تسہیل قواعد النحو‘‘میں نحو کے ضروری قواعد اس طرح جمع کیے ہیں جو آسانی سے یاد ہوجائیں اور اصطلاحات مشکل محسوس نہ ہوں تاکہ عربی عبارت کو اعتماد کے ساتھ صحیح پڑھا جاسکے۔ جو قواعد بڑی کتابوں میں چار پانچ صفحات میں ہوتے تھے ان کو چند سطروں میں سمو دیا گیا ہے۔ اس رسالے میں نئی نئی مثالیں قرآن وحدیث سے پیش کی گئی ہیں تاکہ قرآن و حدیث کا علم بھی حاصل ہواور قواعد کا استعمال بھی آجائے۔









5 تبصرے:

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس