اتوار، 10 ستمبر، 2017

عصمت انبیاء کرام

عصمت انبیاء:علماء اہل سنت کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) گناہوں پر قدرت اور اختیار کے باوجود خود خدا کے غلبہ سے گناہوں سے بازرہتے ہیں، صغیرہ اور کبیرہ عمدا نہیں کرتے ‘ البتہ نسیان یا اجتہادی خطا سے بعض اوقات صغیرہ کا صدور ہوجاتا ہے یا تبلیغی مصلحت کی وجہ سے وہ کسی افضل اور اولی کام کو ترک کردیتے ہیں
عصمت کے معنی

ترميم

عصمت کے معنی ایک ایسی داخلی طاقت ہے جو انبیاء کو ترکِ طاعت، فعل معصیت اور بری باتوں سے روکتی ہے شرح عقائد نسفی میں ہے
  • عصمت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا لطف ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقدس بندہ (نبی) کو فعل خیر پر برانگیختہ کرتا اور اسے شر سے بچاتا ہے۔ مع ابقاء اختیار کے تاکہ ابتلاء کے معنی برقرار رہیں۔
  • عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کی قدرت اور اختیار کے باقی رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا اس بندہ میں گناہ پیدا نہ کرنا۔[1]

عصمت کا مفہومترميم

میر سید شریف جرجانی لکھتے ہیں : ہمارے نزدیک عصمت کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) میں گناہ پیدا نہ کرے اور حکماء کے نزدیک عصمت ایک ملکہ (صفت راسخہ ‘ صفت نفسانیہ) ہے جو معاصی کی قباحت اور عبادت کی فضیلت کے علم کی وجہ سے ان کو گناہوں سے روکتی ہے اور عبادت پر برانگیختہ کرتی ہے اور اوامر اور نواہی کی مسلسل وحی کی وجہ سے یہ صفت اور راسخ ہوجاتی ہے ‘ اور انبیاء (علیہم السلام) سے جو سہوا اور بعض کے نزدیک عمدا صغائر صادر ہوتے ہیں یا وہ کسی اولی اور افضل کام کو ترک کردیتے ہیں ‘ اس سے ان کی عصمت پر اعتراض نہیں ہوگا ‘ کیونکہ صفات نفسانیہ ابتداء غیر راسخ ہوتی ہیں، پھر بتدریج راسخ ہوجاتی ہیں (اور راسخ ہونے کے بعد وہ صفات ملکیہ کہلاتی ہیں) اور ایک قوم نے عصمت کی تعریف میں یہ کہا ہے کہ کسی انسان کی روح یا اس کے بدن میں ایسی خاصیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس سے گناہوں کا صدور واقع ہوتا ہے ‘ یہ تعریف اس لیے باطل ہے کہ اگر ان سے گناہوں کا صدور محال ہو تو وہ گناہوں کے ترک پر دنیا میں مدح اور آخرت میں ثواب کے مستحق نہ ہوں ‘ کیونکہ جو چیز محال ہو اس کے ترک سے تعریف ہوتی ہے نہ ثواب ‘ کیونکہ اس کا کرنا قدرت اور اختیار میں نہیں ہے ‘ نیز اس پر اجماع منعقد ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو گناہوں کے ترک سے ثواب ہوتا ہے اور وہ گناہوں کے ترک کرنے کے مکلف ہیں اور اگر ان سے گناہوں کا صدور محال ہوتا تو ان کو مکلف نہ کیا جاتا نہ ثواب دیا جاتا کیونکہ محال کو ترک کرنے کا مکلف نہیں کیا جاتا نہ اس پر ثواب دیا جاتا ہے ‘ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہیے کہ میں تمہاری مثل بشر ہوں ‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے ‘ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو امور بشریت کی طرف راجع ہیں آپ ان میں تمام بشروں کی مثل ہیں اور آپ کا امتیاز صرف وحی سے ہے ‘ اس لیے جس طرح اور بشروں سے گناہوں کا صدور محال نہیں ہے ‘ انبیاء (علیہم السلام) سے بھی گناہوں کا صدور محال نہیں ہوگا۔[2] انبیاء کرام (علیہم السلام) اور عام بشروں میں صرف وحی کے لحاظ سے ہی فرق نہیں ہوتا بلکہ خصوصیات کے لحاظ سے بھی فرق ہوتا ہے ‘ ان کی بشریت مادی کثافتوں سے منزہ ہوتی ہے اور کمال قرب الہی کی وجہ سے ان کا قلب انوار الہیہ کی جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جس قدر خوف خد ان کو ہوتا ہے مخلوق میں سے کسی کو نہیں ہوتا۔

عصمت انبیاء پر دلائلترميم

انبیاء (علیہم السلام) کے معصوم ہونے پر حسب ذیل دلیل ہیں : (1) اگر انبیاء (علیہم السلام) سے گناہ صادر ہو تو ان کی اتباع حرام ہوگی ‘ حالانکہ ان کی اتباع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ Aya-31.png La bracket.png
  • آپ فرما دیجیے : اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ‘ اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
محمد قاسم نانوتوی نے اسی آیت سے عصمت انبیاء کی دلیل پکڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعتِ مطلقہ کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ رسول غلطی نہیں کرتا۔ اگر غلطی کا امکان ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ اطاعت مطلقہ کا حکم نہ دیتا[3]
  • (2) جس شخص سے گناہ صادر ہوں اس کی شہادت کو بلاتحقیق قبول کرنا جائز نہیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ Aya-6.png La bracket.png
  • اے ایمان والو ! اگر فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔
  • اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کی شہادت کو بلا تحقیق قبول کرنا واجب ہے۔
  • (3) فاسق نبوت کا اہل نہیں ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :
  • Ra bracket.png وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ Aya-124.png La bracket.png
  • اللہ نے فرمایا : ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا
  • (4) اگر نبی سے گناہ صادر ہوں تو ان کو (العیاذ باللہ) ملامت کرنا جائز ہوگا اور اس سے نبی کو ایذا پہنچے گی اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کو ایذاء پہنچانا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا Aya-57.png La bracket.png
  • بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ‘ ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے۔
  • (5) انبیاء (علیہم السلام) کے مخلص بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ أُوْلِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ Aya-45.png La bracket.png Ra bracket.png إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ Aya-46.png La bracket.png
  • اور ہمارے بندوں براہیم (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کو یاد کیجئے جو قوت اور نگاہ بصیرت والے ہیں ہم نے ان کو مخلص کردیا۔
  • اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مخلصین کو شیطان گمراہ نہیں کرسکتا :
  • Ra bracket.png قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ Aya-82.png La bracket.png Ra bracket.png إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ Aya-83.png La bracket.png
  • ترجمہ : ابلیس نے کہا : تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا سوا تیرے مخلص بندوں کے
  • (6) گناہ گار لائق مذمت ہے اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی عزت افزائی کی ہے :
  • Ra bracket.png وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ Aya-47.png La bracket.png
  • اور بیشک وہ (سب) ہماری بارگاہ میں ضرور پسندیدہ بندوں میں سے ہیں
  • (7) انبیاء (علیہم السلام) لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں ‘ اگر وہ خود گناہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
  • Ra bracket.png كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ Aya-3.png La bracket.png
  • اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات سخت ناراضی کی موجب ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے
  • حالانکہ اللہ تعالیٰ انبیاء سے راضی ہے ‘ ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا Aya-26.png La bracket.png Ra bracket.png إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا Aya-27.png La bracket.png
  • وہ عالم الغیب ہے ‘ تو وہ اپنے غیب پر کسی کو (بذریعہ وحی) مطلع نہیں فرماتا بجز ان کے جن سے وہ رضی ہے جو اس کے (سب) رسول ہیں۔
  • اس آیت میں واضح فرمایا دیا کہ اللہ تعالیٰ سب رسولوں سے راضی ہے ‘ اور نیکی کا حکم دے کر خود عمل نہ کرنے والے سے وہ راضی نہیں ہے۔
  • (8) اگر معاذ اللہ انبیاء (علیہم السلام) سے گناہوں کا صدور ہوتا تو وہ مستحق عذاب ہوتے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا Aya-23.png La bracket.png
  • اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو لاریب اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا
  • اور امت کا اجماع ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) جہنم سے محفوظ اور مامون ہیں اور ان کا مقام جنت خلد ہے۔
  • (9) انبیاء (علیہم السلام) فرشتوں سے افضل ہیں اور فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتے تو انبیاء (علیہم السلام) سے بطریق اولی گناہ صادر نہیں ہوں گے فرشتوں سے افضلیت کی دلیل یہ ہے کہ فرشتے عالمین میں داخل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو تمام عالمین پر فضیلت دی ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
  • Ra bracket.png إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ Aya-33.png La bracket.png
  • بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم ‘ نوح ‘ آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے
  • (10) اگر انبیاء (علیہم السلام) معصیت کریں ‘ تو ہم پر معصیت کرنا واجب ہوگی کیونکہ ان کی اتباع واجب ہے اور دوسرے دلائل سے ہم پر معصیت کرنا حرام ہے ‘ سو لازم آئے گا کہ ہم پر معصیت کرنا واجب بھی ہو اور یہ اجتماع ضدین ہے۔ [4]


عصمت انبیاء اور فقہاءترميم

عصمت انبیاء کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات اور مذاہب :
  • امام رازی (رح) نے عصمت انبیاء کے متعلق حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں :
  • (1) حشویہ کا مذہب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے عمدا گناہ کبیرہ کا صدور جائز ہے۔
  • (2) اکثر معتزلہ کا مذہب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے عمدا گناہ کبیرہ کا صدور جائز نہیں البتہ عمدا گناہ صغیرہ کا صدور جائز ہے البتہ ان صغائر کا صدور جائز نہیں جن سے لوگ متنفر ہوں۔
  • (3) جبائی کا مذہب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے عمدا کبائر اور صغائر دونوں اصدور جائز نہیں البتہ تاویلا جائز ہے۔
  • (4) انبیاء (علیہم السلام) سے بغیر سہو اور خطا کے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا لیکن ان سے سہو اور خطاء پر بھی مواخذہ ہوتا ہے۔
  • (5) رافضیوں کا مذہب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے کسی گناہ کا صدور ممکن نہیں ہے صغیرہ نہ کبیرہ ‘ سہوا نہ عمدا تاویلا نہ خطا۔ [5]

عصمت انبیاء اورائمہ اربعہترميم

امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، ان کے اصحاب اور جمہور فقہاء اور محدثین کا یہ مذہب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) جس طرح کبائر سے معصوم ہوتے ہیں اسی طرح صغائر سے بھی معصوم ہوتے ہیں، کیونکہ ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم انکے افعال، ان کے آثار اور ان کی سیرتوں کی اتباع کریں اور یہ حکم مطلق دیا گیا ہے اس میں کوئی استثناء نہیں ہے اگر ہم انبیاء (علیہم السلام) سے صغائر کے وقوع کو جائز قرار دیں تو ان کی اقتداء کرنا ممکن نہیں ہوگی، کیونکہ ان کے افعال میں سے ہر فعل اس سے علیحدا نہیں ہے کہ وہ عبادت ہے یا اباحت ہے یا ممنوع ہے یا معصیت ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ حکم دینا صحیح ہوگا کہ وہ ان کے کسی حکم پر عمل کرے کیونکہ ہوسکتا ہے ان کا وہ حکم معصیت ہو۔[6]

عصمت انبیاء اورمحققینترميم

امام رازیترميم

ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سے زمانہ نبوت میں یقینی طور پر کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا ‘ کبیرہ نہ صغیرہ :[7]

علامہ تفتازانیترميم

ہمارا مذہب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اعلان نبوت کے بعد گناہ کبیرہ مطلقا نہیں کرتے ‘ اور صغائر عمدا نہیں کرتے ‘ البتہ ان سے سہوا صغیرہ کا صدور ہوجاتا ہے ‘ لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کرتے اور نہ وہ اس پر برقرار رکھے جاتے ہیں بلکہ ان کو تنبیہ کی جاتی ہے اور وہ متنبہ ہوجاتے ہیں۔ [8]

شریف جرجانیترميم

میر سید شریف جرجانی حنفی لکھتے ہیں : ہمارے نزدیک مختاریہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنے زمانہ نبوت میں مطلقا گناہ کبیرہ سے اور عمدہ صیغرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ [9]

حوالہ جات''ترميم

  1.  شرح عقائد نسفی ص 73
  2.  شرح المواقف ج 8 ص 281۔ 280‘ مطبوعہ منشورات الشریف ایران
  3.  تفسیر معالم العرفان، صوفی عبدالحمید سواتی
  4.  تفسیر تبیان القرآن غلام رسول سعیدی صفحہ 348 تا 350،فرید بکسٹال اردو بازار لاہور
  5.  تفسیر کبیر ج 1 ص 301 مطبوعہ دارالفکر بیروت
  6.  الجامع لاحکام القرآن جزا ص 291-292 مطبوعہ دا الفکر بیروت
  7.  (تفسیر کبیر ج 1 ص 302 مطبوعہ دارالفکر بیروت
  8.  شرح المقاصد ج 2 ص 193، مطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ
  9.  (شرح موافق ص 689‘ مطبوعہ مطبع منشی نو لکثور لکھنو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس