منگل، 20 مارچ، 2018

شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن حجر عسقلانیؒ کے بعد اگر کوئی "شیخ الاسلام" لقب کا مستحق ہے تو وہ ہے عصرِ حاضر کے عظیم محقق، مفسر، محدث اور فقیہ "حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب"
 ان کو حدیث، تفسیر، فقہ اور اسلامی معیشت کے فروغ میں کافی اہمیت حاصل ہے..

نوٹ:- ہر صاحب کا میرے نقطہ نظر سے اتفاق ہونا لازمی نہیں.
==================================

*شیخ الاسلام حضرت جسٹس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ و رعاہ* کا مختصر تعارف اور انکی علمی ، دینی و ملی خدمات
___________________________________

یہ وہ شخصیت ہے :-
 جن کی تواضع کی سند محدث عصر علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ *"مسکین ابن مسکین"* فرما کر دیا کرتے تھے اور کبھی *"الشیخ الشاب"* فرما کر محبت کا اظہار کرتے تھے
جب معارف السنن کا سیٹ بطور انعام دیا تو اس کی پہلی جلد پر جلی حروف میں لکھا

 *"أقدم ھذا الکتاب باجزائه الستة إلى اخي في الله الأستاذ الزكي العالم الزكي الشاب التقى محمد تقي إعجابا بنبوغة فى كتابات مجلة الشهرية البلاغ خصوصاً في رده على كتاب خلافت و ملوكيت ردا بليغا ناجحاً حفظه ووفقه لامثال أمثاله وهو الموفق"*

جن کے بارے میں مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے تھے کہ
*" دیکھنا تقی ایک  دن مجھ سے بھی آگے نکل جائے گا"*

جنہیں شیخ عبد الفتاح ابوغدہ
*" تفاحۃ الہند و باكستان "*
کے لقب سے یاد کرتے تھے
اور ایک مرتبہ از راہِ محبت فرمایا
*" لوکنتَ تفاحۃ لاكلتُك "*

جنہیں الشیخ الدکتور یوسف القرضاوي نے
*" الشیخ القاضي المحدث الفقيه الاريب الأديب الكامل "*
 جیسے القابات سے نوازا ۔۔۔

شیخ یاسین الفادانی المکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام اسناد آپ کو دیکر آپ کے نام کتابی شکل میں شائع کی ہے جس کا نام
*" الفیض الرحمانی باجازۃ فضیلۃ الشيخ محمد تقی العثماني "*
ہے ۔۔
اس کتاب کے مقدمے میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے
*" حضرت الشیخ الأجل الابر الفائق في كل فن على أقرانه والسامي في أندية الخير على اخدانه محمد تقي العثماني "*

جن کو شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ
*" مجھے تو خود تمہیں خط لکھنے کو کھاج (خواہش) اٹھے "*

جن کو مفتی سیاح الدین کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
*" الولد سر لأبيه " کا مقولہ آپ کے حق میں بالکل صحیح ثابت ہوا*

مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کاروان زندگی میں لکھتے ہیں
*" مولانا تقی عثمانی صاحب کی راقم کے دل میں جو قدر و منزلت ہے اس سے اس کے احباب بخوبی واقف ہیں اور ان کو بھی غالباً اس کا احساس ہے"*

شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ
*" آپ ہمارے پاکستان کے علی میاں  ہیں "*

دار العلوم دیوبند میں آپ کے استقبالیہ جلسے میں منتظم نے کہا کہ *"مفتی صاحب پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ہیں"*

یہ ہیں
*شیخ الاسلام جسٹس حضرت الحاج مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ عنہ ورعاہ*

ایں سعادت بزور بازو نیست

غور کیا جائے تو بات ایسی ہی ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی ایک منفرد صفات کے حامل اِنسان ہیں،
جو دِینی علوم کے ساتھ ساتھ دُنیوی فنون پر بھی دسترس رکھتے ہیں،
جو تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر میں بھی کمال درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں،
وہ لوگوں کے ظاہری اور دنیوی جھگڑوں کے فیصلے تو کرتے ہی رہے ہیں،
ساتھ ساتھ باطنی اور روحانی امراض کا علاج بھی کرتے ہیں،
وہ دِینی علوم کی تدریس بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی مہارت کے ساتھ جدید فنون کے لیکچر بھی دیتے ہیں،
غرض وہ عالم بھی ہیں،
مفتی بھی ہیں،
وہ مفسر بھی ہیں
اور محدث بھی ہیں ۔۔
وہ مقرر بھی ہیں اور محرر بھی ہیں،
وہ پیر بھی ہیں اور مدرس بھی ہیں،
وہ جسٹس بھی ہیں اور لیکچرار بھی ہیں،
کبھی وہ تفسیر قرآن لکھتے نظر آتے ہیں تو کبھی بخاری شریف پڑھاتے نظر آتے ہیں،
کبھی وہ اُمت کے مسائل جدیدہ حل کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی روحانی مریضوں کا علاج کرتے نظر آتے ہیں،
غرض ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ان کی خدماتِ جلیلہ کو کما حقہ بیان کریں۔ لیکن یہ بات تو اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی کی دنیائے عالم میں مقبولیت کی بڑی وجہ اُن کا دِینی علوم کے ساتھ دُنیوی فنون میں ماہر ہوکر مزید اس میں آگے سے آگے بڑھنا اور اپنی ان خدمات کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے ۔۔۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے ممبر اور کئی غیر سودی بینکوں کے معاملات کے نگران بھی ہیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی تحریک پاکستان کے عظیم رہنماء اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے برادرِ صغیر ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔

آپ نے اپنی اِبتدائی تعلیم دیوبند پھر
 مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں مولانا احتشام الحق تھانوی صاحبؒ کے قائم کردہ مدرسہ اشرفیہ میں حاصل کی
اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا اِمتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

آپ نے اپنے وقت کے تقریباً تمام جید علماء سے حدیث کی اِجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود اُن کے والد مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے علاوہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ شامل ہیں۔

مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے ایک بڑے شیخ اور عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔
آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے میں ان کی شخصیت سے اتنے متأثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ پھر آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ جب کہ کچھ عرصہ کے بعد مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کی طرف سے بھی تجدید اجازت ہوئی۔

مفتی محمد تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ جامعہ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ گزشتہ پندرہ سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درسِ بخاری دے رہے ہیں، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کا لقب عطا کیا ہے۔

شہید جنرل محمد ضیاء الحقؒ نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی بورڈ ’’اِسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کی بنیاد رکھی، مفتی محمد تقی عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے ہیں۔
آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ ’’اللہ کی حدود اور ان کی سزاؤوں‘‘ پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔
آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے تک پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ رہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔
آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔
آپ نے بحیثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔
2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ’’ربا‘‘ یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے، جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے، مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجددادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔

اس وقت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اورگنائزیشن کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبہ اس وقت عوامی سطح پر سامنے آیا جب آپ نے محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔

9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے ذریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اِسلامی ریاست پر امریکہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے ممالک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا اور حکومتی مؤقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹی وی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتویٰ دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا۔

آپ کی تصنیفات کے نام:-

آسان ترجمۂ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں،
علوم القرآن،
مقدمہ معارف القرآن،
تکملہ فتح الملہم،
انعام الباری شرح صحیح بخاری،
درسِ ترمذی،
تقریر ترمذی،
حجیت حدیث،
حضور ﷺ نے فرمایا،
آسان نیکیاں،
فتاویٰ عثمانی،
فقه البیوع،
عدالتی فیصلے،
فقہی مقالات،
احکامِ اعتکاف،
ضبط ولادت،
احکام الذبائح،
ہمارا معاشی نظام،
اسلام اور جدید معیشت و تجارت،
سود پر تاریخی فیصلہ،
غیر سودی بینکاری متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ،
 اسلام اور جدید معاشی مسائل،
اسلامی بینکاری کی بنیادیں،
موجودہ عالمی معاشی بحران اور اسلامی تعلیمات،
اسلامی بینکاری تاریخ و پس منظر،
ہمارا تعلیمی نظام،
اسلام اور سیاست حاضرہ،
اسلام اور جدت پسندی،
دینی مدارس کا نصاب و نظام،
ہمارے عائلی مسائل،
ملکیت زمین اور اس کی تجدید،
نفاذِ شریعت اور اس کے مسائل،
حکیم الامت کے سیاسی افکار،
اسلام اور سیاسی نظریات،
اصلاحی خطبات،
اصلاحی مواعظ،
اصلاحی مجالس،
نشری تقریریں،
اصلاح معاشرہ،
فرد کی اصلاح،
موجودہ پرآشوب دور میں علماء کی ذمہ داریاں،
ذکر و فکر،
ارشاداتِ اکابر،
مواعظ عثمانی،
حدود آرڈیننس ایک علمی جائزہ،
حقوق العباد و معاملات،
خاندانی اختلافات کے اسباب اور ان کا حل،
خاندانی حقوق و فرائض،
معاشرتی حقوق و فرائض،
اپنے گھروں کو بچائیے،
قتل اور خانہ جنگی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات،
اسلام اور ہماری زندگی،
اکابر دیوبند کیا تھے،
تقلید کی شرعی حیثیت،
پرنور دعائیں،
تراشے،
بائبل کیا ہے،
بائبل سے قرآن تک،
عیسائیت کیا ہے؟،
قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا مؤقف،
جہانِ دیدہ،
دنیا میرے آگے،
سفر درسفر،
حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق،
تبصرے،
نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں،
میرے والد میرے شیخؒ،
مأثر عارفیؒ، تذکرے،
نقوشِ رفتگان،
البلاغ مفتی اعظم نمبر،
البلاغ حضرت عارفیؒ نمبر
اور بھی کئی کتابیں ہیں ۔۔۔ جنکی فہرست فی الوقت میسر نہیں ہو سکی۔۔۔
بہر حال

*سوچا تھا تیری سادگی پہ لکھوں گا اک غزل*
*پر افسوس تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس