پیر، 29 جنوری، 2018

تقلید کی ضرورت اور تقلید آئمہ کے وجوب پرامت کااجماع

تقلید کی ضرورت اور تقلید ائمہ اربعۂ کے وجوب پر امت کا اجماع:
(سوال ۱۶) کیا فرماتے ہیں مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب اس مسئلہ میں کہ ہمارے شہر بھروچ میں ایک شخص نے اہل حدیث
مذہب قبول کر لیا ہے اور وہ نماز میں ہر رکعت میں رفع یدین کرتا ہے اور جہری نماز میں جہر سے آمین کہتا ہے تو ہمارے حنفی بھائی اس کو بدعتی کہتے ہیں تو رفع الیدین کرنا اور آمین کہنا سنت ہے یا بدعت؟ برائے مہربانی سے بقاعدئہ محدثین سے جواب عطاء فرمائیے بحوالہ کتاب سے۔
(۲)اس اہل حدیث بھائی کا کہنا ہے کہ نماز میں رفع الیدین کرناا اور خلفائے راشدین کی سنت سے ثابت ہے اور یہ مسئلہ حنفی مذہب کی کتاب ہدایہ جلد نمبر ۱ ص:۳۷۹ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک رفع الدین کیا ہے اور آمین بالجہر کا مسئلہ بھی ہدایہ جلد نمبراص: ۳۶۲ میں موجود ہے تو آمین اور رفع الیدین کرنا سنت ہے یا بدعت برائے مہربانی سے بحوالۂ کتاب جواب عنایت فرمایئے۔ از بھروچ۔
نوٹ:۔ بعداز تحقیق معلوم ہوا ہے کہ سائل خود ہی غیر مقلدبن چکا ہے۔ اس لئے جواب میں اسی کو مخاطب کیا گیا ہے۔
(الجواب)حامداً ومصلیاً و مسلماً وباﷲ التوفیق۔سوال کی عبارت بعینہ وہی ہے جو اوپر لکھی گئی ہے ۔ سائل تقلید اورمذہب حنفی چھوڑ کر غیر مقلد(لا مذہب) بن گیا ہے۔ علم کا حال یہ ہے کہ بارہ تیرہ سطر کے سوال میں ہیس۲۰ سے پچیس۲۵ املاء کی غلطیاں ہیں ۔ جب اردو زبان میں اس کا اتنہائے علم یہ ہے کہ اردونہ صحیح لکھنا آتا ہے نہ پڑھنا تو قرآن اور احادیث کی عربی کتابیں کیا سمجھ سکتے ہیں ؟
’’قیاس کن زگلستان من بہار مرا‘‘
حجۃ الا سلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں :۔ وانما حق العوام ان یومنوا ویسلمواو یشتغلوا بعباد تہم ومعا یشتھم ویتر کوا العلم للعلماء فالعامی لویزنی و یسرق کان خیراًلہ من ان یتکلم فی العلم فانہ من تکلم فی اﷲ وفی دینہ من غیر اتقان العلم وقع فی الکفر من حیث لا یدری کمن یرکب لجۃ البحر وھو لا یعرف السباحۃ۔
یعنی عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لا کر اپنی عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علماء کے حوالے کر دیں ۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے بھی زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے کیونکہ جو شخص دینی علوم میں بصیرت اور پختگی نہیں رکھتا وہ اگر اﷲ تعالیٰ اور اس کے دین کے مسائل میں بحث کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ایسی رائے قائم کرے جو کفر ہو اور اس کو اس کا احساس بھی نہ ہو کہ جو اس نے سمجھا ہے وہ کفر ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تیرنا نہ جانتا ہو ۔ اور سمندر میں کود پڑے۔
(احیاء العلوم ص ۳۵ ج۳)
عام مسلمانوں کو شرعی حکم معلوم کر کے ان پر عمل کرنا ضروری ہے باریکیوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے حدیث میں ہے ۔ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ یا رسول اﷲ آپ مجھے علمی دقائق بتلایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند سوالات کئے (۱)تو خدا کی معرفت حاصل کر چکا؟(۲)تو نے اﷲ کے کتنے حقوق ادا کئے ؟(۳)تجھے موت کا علم ہے ؟(۴)تو موت کی تیاری کر چکا ؟ آخر میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تو جا اولاً بنیاد مضبوط کر پھر آ تو میں تجھے علمی وقائق سے باخبر کر وں ۔
(جامع بیان العلم ص ۱۳۳)
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ہے :۔ اتخذ الناس رؤ ساً جھا لا ً فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلو ا واضلوا (مشکوٰۃ شریف ص۳۳ کتاب العلم)
یعنی:۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ(ایسا زمانہ آئے گا کہ ) لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے اور ان سے مسائل دریافت کریں گے وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
ان حالات میں تقلید اور مذاہب حقہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) چھوڑ کر غیر مقلد(لا مذہب) بن جانا اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرنا اور مجتہدین کی تقلید کو باطل اور شرک سمجھنا اور مذہب حقہ کو ناحق کہنا اور ائمہ دین کو قرآن و احادیث کے مقابلہ میں اپنی رائے پر عمل کرنے والا بتلانا حرام اور موجب گمراہی ہے ۔ ایسے لوگوں کو تو ’’ اہل حدیث‘‘ کہنا بھی نازیبا ہے ۔ جس طرح فرقۂ ضالہ منکرین حدیث کو ’’ اہل قرآن‘‘ کا نام دینا مناسب اور جائز نہیں اسی طرح سائل کا اپنے کو اہل حدیث کہنا اور کہلوانا اپنی ذات اور قوم کو دھوکا دینا اور گمراہ کرنا ہے غیر مقلدین کے پیشوا مولانا محمد حسین بٹالوی ؒ ’’ اشاعت السنہ جلد نمبر ۱۱ شمارہ نمبر ۱۰ کے ص ۲۱۱ میں تحریر فرماتے ہیں ، غیر مجتہد مطلق کے لئے مجتہدین سے فرار و انکار کی گنجائش نہیں ، اور اسی اشاعت السنہ کے جلد نمبر ۱۱ شمارہ نمبر ۱۱ کے ص ۵۳ میں وضاحت فرماتے ہیں :۔
’’پچیس۲۵ برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ بالآخر اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہوجاتے ہیں اور بعض لا مذہب ، جو کسی دین و مذہب کے پابند نہیں رہتے او ر احکام شریعت سے فسق و خروج تو اس آزادی (غیر مقلدیت) کا ادنیٰ کرشمہ ہے ، ان فاسقوں میں بعض تو کھلم کھلا جمعہ، جماعت اور نماز ، روزہ چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔ سود شراب سے پرہیز نہیں کرتے اور بعض جو کسی مصلحت دنیاوی کے باعث فسق ظاہری سے بچتے ہیں وہ فسق خفی میں سر گرم رہتے ہیں ۔ ناجائز طور پر عورتوں کو نکاح میں پھنسا لیتے ہیں ۔ کفر وارتداد اور فسق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت موجود ہیں مگر دینداروں کے بے دین ہوجانے کا بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ کم علمی کے باوجود تقلید چھوڑ بیٹھتے ہیں (بحوالہ سبیل الرشاد ص ۱۰ اور کلمۃ الفصل ص ۱۰ اور تقلید ائمہ ص ۱۶۔۱۷ مولانا اسماعیل ؒ سنبھلی۔
اسی طرح فرقہ ٔ اہل حدیث کے مجدد جناب نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی اپنی جماعت اہل حدیث کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ۔ فقد نبت فی ھذہ الزمان فرقۃ ذات سمعۃ وریاء تدعی انفسھا علم الحدیث والقران والعمل والعرفان۔ (الحطہ فی ذکر صحاح السۃ ص ۶۷۔۶۸)
یعنی اس زمانہ میں ایک فرقہ شہرت پسند ریا کار ظہور پذیر ہوا ہے جو باوجود ہر طرح کی خامی کے اپنے لئے قرآن وحدیث پر علم و عمل کا مدعی ہے حالانکہ اس کو علم و عمل اور معرفت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ آگے اسی مضمون کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔ فیا للعجب این یسمون انفسھم الموحدین المخلصین وغیرھم بالمشرکین وھم اشد الناس تعصباً وغلواً فی الدین۔ یعنی بڑے تعجب کی بات ہے کہ غیر مقلدین کیونکر خود کو خالص موحد کہتے ہیں اور مقلدین کو (تقلید ائمہ کی وجہ سے) مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہیں حالانکہ غیر مقلدین خود تو تمام لوگوں میں سخت متعصب اور غالی ہیں ۔ پھر اسی مضمون کے ختم پر لکھتے ہیں ۔ فما ھذا دین الا فتنۃ فی الا رض وفساد کبیر یعنی یہ طریقہ (جو غیر مقلدین کا ہے ) کوئی دین نہیں یہ تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم ہے (بحوا لۂ تقلید ائمہ ص ۱۷۔۱۸)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ عقد الجید میں تحریر فرماتے ہیں ۔
’’باب تاکید الا خذ بمذاھب الا ربعۃ والتشدید فی ترکھا والخروج عنھا :۔ اغلم ان فی الا خذ بھذہ المذاھب الا ربعۃ مصلحۃ ً عظیمۃً وفی الاعراض عنھا کلھا مفسدۃ کبیرۃ ۔
ترجمہ:۔ باب سوم، ان چار مذہبوں کے اختیار کرنے کی تاکید اور ان کو چھوڑنے اوران سے باہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اعلم ۔ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کے اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض و رو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔ (عقد الجید مع سلک مردارید ص ۳۱)
او ر اسی کتاب میں آپ تحریر فرماتے ہیں :۔ وثا نیاً قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اتبعو ا السواد الا عظم ولما اندر ست المذاھب الحقۃ الا ھذہ الا ربعۃ کان اتباعھا اتبا عاً للسواد الا عظم ۔ ترجمہ:۔ اور مذہب کی پابندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا انے فرمایا ہے کہ سواداعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے اور ان سے باہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے باہر نکلنا ہے ۔ (جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تاکیدی ارشاد کی خلاف ورزی لازم آتی ہے) (عقذ الجید مع سلک مروارید ص ۳۳)
ملاحظہ فرمایئے! حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سوا داعظم فرما رہے ہیں اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم سے خارج بتلارہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور درحقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ۔ اتبعوا السواد الا عظم ۔(مشکوٰۃ شریف ص ۳۰) باب مجمع بہار الا نوار ص ۱۴۳ ج۳)
دوسری حدیث میں ہے ۔ علیکم بالجماعۃ۔ تم پر ضروری ہے کہ جماعت کے سات وابستہ رہو۔(مشکوٰۃ شریف ص ۳۱)
تیسری حدیث:۔ان اﷲ لا یجمع امتی علی ضلالۃ۔ اﷲ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع (متفق) نہیں کرے گا ۔(مشکوٰۃ شریف ص ۳۰ ایضاً)
چوتھی حدیث:۔ لن تجتمع امتی علی الضلالۃ۔(۱) ترجمہ۔ میری امت (کے علماء و صلحاء) کبھی بھی گمراہی پر متفق نہیں ہوں گے۔
پانچویں حدیث:۔ وید اﷲ علی الجماعۃ ومن شذ شذ فی النار، یعنی (جس مسئلہ میں مسلمانوں میں اختلاف ہوجائے تو جس طرف علماء و صلحاء کی اکثریت ہو ان کے ساتھ وابستہ ہوجائو اس لئے کہ ) جماعت پر خدا کا ہاتھ ہے یعنی اس کی مددشامل حال ہوتی ہے اور جو ان سے الگ رہا (اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائی ) وہ جہنم میں تنہا ڈالا جائے گا۔(مشکوٰۃ شریف ص۳۰ایضاً)
چھٹی حدیث:۔ان الشیطان ذئب الا نسان کذئب الغنم یا خذ الشاذۃ والقاصیۃ والناحیۃ وایاکم والشعاب وعلیکم بالجماعۃ والعماۃ۔ شیطان انسانوں کا بھیڑیا ہے جس طرح کہ بکریوں کا بھیڑیا ہوتاہے (اور وہ ) ایسی بکریوں کو پھاڑ کھاتا ہے جو ریوڑ سے نکل کر الگ پڑ گئی ہو یا چرتے چرتے دور نکل گئی ہو یا جو غفلت کی وجہ سے ایک کنارے رہ گئی ہو… (اسی طرح تم بھی اپنے کو جماعت سے الگ ہونے سے بچائو) اور جماعت عامہ (سواد اعظم) میں اپنے آپ کو شامل رکھو ورنہ ہلاک ہوجائو گے۔(مشکوٰۃ شریف ص۳۱ ایضاً)
ساتویں حدیث:۔ من فارق الجماعۃ شبراً فقد خلع ربقۃ الا سلام عن عنقہ ۔ جس نے ایک بالشت کے برابر بھی جماعت سے علیٰحدگی اختیار کی (یعنی چند مسائل میں قلیل مدت کے لئے بھی ان سے علیٰحدگی اختیار کی) تو بے شک اس نے اپنی گردن میں سے اسلام کی رسی نکال ڈالی۔(مشکوٰۃ شریف ص ۳۱ اایضاً)
آٹھویں حدیث:۔ اثنان خیر من واحد وثلاثۃ خیر من اثنین واربعۃ خیر من ثلاثۃ فعلیکم بالجماعۃ ۔ الخ ۔یعنی دو ایک سے بہتر ہیں ۔ تین دو سے بہتر ہیں ۔ اور چار تین سے (جب یہ فضیلت ہے ) تو جماعت کو لازم پکڑے رہو (یعنی ان میں شامل ہوجائو) اس لئے کہ خدا تعالیٰ میری امت کو ہدایت پر ہی متفق کرتا ہے۔(موائد العوائد ص ۱۲۲)
نویں حدیث:۔من خرج من الطاعۃ وفارق الجماعۃ مات میتۃ ً جا ھلیۃً (نسائی عن ابی ہریرۃ)
دسویں حدیث:۔مارآہ المسلمون حسنا ً فھو عند اﷲ حسن ، (احمد فی کتاب السنۃ بحوالہ المقاصد الحسنۃ ص ۳۶۸)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ جو اپنے دور کے بلند پایہ محدث بے مثال فقیہہ زبردست اصولی جامع المعقول والمنقول اور مجتہد تھے ۔ جن کو غیر مقلدین کے پیشوا مولانا صدیق حسن خان صاحب ؒ بھی رئیس المجتہدین اور سردار تسلیم کرتے تھے اور آپ کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں ۔’’اگر وجود اور در صدر اول درزمانۂ ماضی بودامام الائمہ و تاج المجتہدین شمردہ می شود۔
ترجمہ:۔ اگر شاہ صاحب کا وجود صدر اول (پہلے زمانہ ) میں ہوتا تو اماموں کے امام اور مجتہدین کے سردار شمار ہوتے ۔ اتنے بڑے درجہ کے عالم تقلید کے متعلق کیا فرماتے ہیں وہ ملاحظہ کیجئے ۔ لان الناس لم یزالوامن زمن الصحابۃ الیٰ ان ظھرت المذاھب الا ربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبرا نکارہ‘ ولو کان ذلک باطلاً لا نکرہ‘۔
ترجمہ:۔ کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے اس پر کسی بھی معتمد علیہ شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید باطل ہوتی تو وہ حضرات (صحابہ و تابعین) ضرور نکیر فرماتے:۔(عقد الجید مع سلک مردارید ص ۲۹)
نیز آپ امام بغوی ؒ کا قول بطور تائید نقل فرماتے ہیں :۔
ویجب علیٰ من لم یجمع ھذہ الشرائط تقلید ہ ‘ فیما یعن لہ ‘ من الحوادث۔
ترجمہ:۔اور اس شخص پر جو ان شرائط (یعنی اجتہاد کی شرائط) کا جامع نہیں اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان حوادث(مسائل) میں جو اس کو پیش آویں (عقد الجید ص ۹)
اور فرماتے ہیں :۔ وفی ذلک (ای التقلید) من المصالح مالا یخفی لا سیما فی ھذہ الا یام التی قصرت فیھا الھمم جداً واشربت النفوس الھویٰ واعجب کل ذی رأ ی برأ یہ۔
ترجمہ:۔ اور اس میں (یعنی مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے میں ) بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں خاص کر اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں بہت پست ہوگئی ہیں اور نفوس میں خواہشات نفسانی سرایت کر گئی ہیں اور ہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کرنے لگا ہے ۔(حجۃ اﷲ البالغۃ مترجم ص ۳۶۱ ج۱واصحاب الرائی باب الفرق بین فعل الحدیث فصل فی مسائل فضلت فیھا الا نعام)
اور فرماتے ہیں :۔ وبعد المأ تین ظھرت فیھم التمذھب للمجتھدین باعیا نھم وقل من کان لا یعتمد علیٰ مذہب مجتھد بعینہ وکان ھذا ھو الواجب فے ذلک الزمان۔
ترجمہ:۔اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہد کی پیروی (یعنی تقلید شخصی)کارواج ہوا اور بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی خاص مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ رکھتے ہوں (یعنی عموماً تقلید شخصی کارواج ہوگیا) اور یہی طریقہ اس وقت رائج تھا۔(انصاف مع ترجمہ کشاف ص ۵۹)
اور فرماتے ہیں :۔ وھذہ المذاھب الا ربعۃ المدو نۃ المحررۃ قد اجتمعت الا مۃ او من یعتد بھا منھا علیٰ جواز تقلید ھا الیٰ یومنا ھذا۔ اور یہ مذاہب اربعہ جومدون و مرتب ہوگئے ہیں پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کر لیا ہے ( اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے(اس کی مخالفت جائز نہیں بلکہ موجوب گمراہی ہے ) (حجۃ اﷲ البالغۃ ج۱ ص ۳۶۱ فصل فی مسائل ضلت فیھا لا قدام)۔
اور فرماتے ہیں :۔وبالجملۃ فالتمذھب للمجتہدین سراً الھمہ اﷲ تعالیٰ العلماء جمعھم علیہ من حیث یشعرون اولا یشعرون،۔
ترجمہ:۔ الحاصل ان مجتہدین (امام ابو حنیفہ ؒ امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبل ؒ) کے مذہب کی پابندی (یعنی تقلید شخصی) ایک راز ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے علماء کے دلوں میں الہام کیا ہے اور اس پران کو متفق کیا جائے وہ تقلید کرنے کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں (یعنی تقلید کی حکمت اور خوبی ان کو معلوم ہو یا نہ ہو)(انصاف عربی ص ۴۷، انصاف مع کشاف ص ۶۳)
اور فرماتے ہیں ۔انسان جاھل فی بلاد الھند و بلاد ما وراء النھر ولیس ھناک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتب ھذہ المذاہب وجب علیہ ان یقلد لمذھب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذہبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقۃ الشریعۃ ویبقی سدیً مھملاً۔
ترجمہ:۔کوئی جاہل عامی انسان ہندوستان اور ماوراء النہر کے شہروں میں ہو(کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے ) اور وہاں کوئی شافعی، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ ہی کے مذہب کے تقلید کرے اور اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کر دے اس لئے کہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنے گردن سے نکال پھینکنا ہے اور مہمل و بیکار بن جانا ہے (انصاف عربی ص ۵۳ مع ترجمہ کشاف ص ۷۰۔۷۱)
حضرت شاہ صاحب ؒ کو باوجود مجتہد ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تقلید کر نے پر مامور کیا گیا اور دائرئہ تقلید سے خروج کی ممانعت کی گئی ۔ چنانچہ آپ فیوض الحرمین میں تحریر فرماتے ہیں :۔ واستفدت منہ صلی اﷲ علیہ وسلم ثلثۃ امور خلاف ماکان عندی وما کانت طبعی تمیل الیہ اشد میل فصارت ھذہ الا ستفادۃ من براھین الحق تعالیٰ علی ۔ الی قولہ ۔ وثا نیھما الو صاۃ بالتقلید بھذہ المذاھب الا ربعۃ الا اخرج منھا ۔الخ۔
ترجمہ:۔ مجھے آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ایسی تین باتیں حاصل ہوئیں کہ میرا خیال پہلے ان کے موافق نہ تھا اور اس طرف قلبی میلان بالکل نہ تھا یہ استفادہ میرے اوپر برہان حق بن گیا۔ ان تین امور میں سے دوسری بات یہ تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں مذاہب اربعہ کی تقلید کروں اور ان سے باہر نہ جائوں (فیوض الحرمین ص ۶۴۔ ۶۵) (مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیو بند)اور فرماتے ہیں :۔وعرفنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان فی المذہب الحنفی طریقۃً انیقۃً ھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ ، حضور اقدس ا نے مجھے بتایا کہ مذہب حنفی میں ایک ایسا عمدہ طریقہ ہے جو دوسرے طریقوں کی بہ نسبت اس سنت مشہورہ کے زیادہ موافق ہے جس کی تدوین او ر تنقیح امام بخاری رحمہ اﷲ اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں ہوئی (فیوض الحر مین ص ۴۸)
حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کے مذکورہ فرامین عالیہ کا خلاصہ یہ ہے۔
(۱)صحابہ ؓ اور تابعین ؒ کے مبارک زمانہ میں نفس تقلید کا رواج و دستور بلا خلاف جاری و ساری تھا۔
(۲)مذاہب اربعہ (حنفی ، مالکی ، شافعی، حنبلی) کا اتباع سواداعظم کا اتباع ہے ( جواز روئے حدیث واجب ہے ) اور مذآہب اربعہ کے دائرہ سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے (جو گمراہ کن ہے )
(۳)دوسری صدی کے بعد تقلید شخصی (مذاہب اربعہ میں سے صرف ایک کی تقلید) کی ابتدا ہوچکی تھی۔
(۴)مذاہب اربعہ میں سے ایک مذہب کی تقلید یعنی تقلید شخصی منجانب اﷲ ایک الہامی راز ہے۔
(۵)مذاہب اربعہ کی تقلید پر امت کا اجماع ہے ۔
(۶)غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے۔
(۷)تقلید شخصی میں دینی مصالح و فوائد ہیں ۔
(۸)مجھے مذاہب اربعہ کے دائرہ میں رہنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی ہے۔
(۹)مذہب حنفی مطابق سنت ہے اس کی شہادت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ۔
(۱۰)عوام (یعنی غیر مجتہد) کے لئے تقلید چھوڑنا حرام ہے ، بلکہ دائرۂ اسلام سے نکل جانے کا پیش خیمہ ہے (جس کا اعتراف انہیں کے جماعت کے پیشوا مولانا محمد حسین بٹالویؒ نے کیا ہے جسے ہم پہلے نقل کر چکے ہیں ۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔
غیر مقلدین کی دھوکہ دہی سے عوام الناس اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ محدثین انہیں کے طبقۂ خاص سے تعلق رکھتے تھے (یعنی غیر مقلد تھے) اور یہ حضرات مذاہب اربعہ میں سے کسی کے پابند نہ تھے ۔ حالانکہ یہ بات سر تا سر غلط ہے ، تمام محدثین عظام سوائے معدودے چند کے سب مقلد تھے ۔ مثلاً ملاحظہ کیجئے ۔
امام بخاریؒ، باوجود مجتہد ہونے کے صحیح قول کے مطابق مقلد تھے اور شافعی تھے ۔ غیر مقلدین کے پیشوا جناب نواب صدیق حسن خان صاحبؒ بھوپالی نے اپنی کتاب ’’ الحطۃ فی ذکر صحاح الستۃ‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ امام بخاری ؒ کو امام ابو عاصمؒ نے جماعت شافعیہ میں ذکر کیا ہے ۔ وقد ذکرہ ابو عاصم ؒ فی طبقات اصحابنا الشافعیۃ نقلاً عن السبکی ، اور اسی کتاب کے ص ۱۲۷ فصل نمبر ۶ میں امام نسائی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :۔ کان احدا علام الدین وارکان الحدیث امام اھل عصرہ ومقدمھم بین اصحاب الحدیث وجرحہ وتعدیلہ معتبر بین العلماء وکان شافعی المذہب۔ یعنی : امام نسائی دین کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ، حدیث کے ارکانوں میں سے ایک رکن، اپنے زمانہ کے امام اور محدثین کے پیشوا تھے ان کی جرح و تعدیل علماء کے یہاں معتبر ہے اور آپ شافعی المذہب تھے (حطہ ص۱۲۷)
امام ابو دائود کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ۔ فقیل حنبلی وقیل شافعی امام ابو دائود حدیث اور علل حدیث کے حافظ، تقویٰ وپرہیز گاری، علم و فقہ صلاح و اتقان میں عالی مقام رکھتے تھے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ آپ شافعی تھے یا حنبلی، بعض حنبلی کہتے ہیں ۔ اور بعض شافعی (۱۳۵ حطہ فی ذکر صحاح الستتہ) اس کے علاوہ امام مسلم ؒ، امام ترمذیؒ، امام بیہقیؒ، امام دار قطنیؒ، امام ابن ماجہ ؒ یہ سب مقلد تھے اور صحیح قول کے مطابق شافعی تھے ۔ امام یحییٰ بن معین،محدث یحییٰ بن سعید القطان محدث یحییٰ بن ابی زائدہ ، محدث وکیع بن جراح۔ امام طحاوی ، امام زیلعی یہ سب مقلد تھے اور حنفی تھے ۔ علامہ ذہبی۔ ابن تیمیہ، ابن قیم ابن جوزی، شیخ عبدالقادر جیلانی یہ حنبلی تھے۔
کیا ان محدثین عظام و علمائے کبار کو یہ معلوم نہ تھا کہ تقلید شرک بدعت اور حرام ہے حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی بنناناجائز اور بدعت ہے غرض سوائے معدودے چند (دائود ظاہری ابن حزم وغیرہ) کے تمام محدثین ، علماء، مشائخ، عارفین ائمہ اربعہ ہی کی تقلید کرتے چلے آئے ہیں ۔ ہندوستان ہی میں دیکھ لیجئے کہ جس قدر علماء کبار،مشائخ عظام اور اولیاء اﷲ گذرے ہیں وہ سب کے سب تقلید کے پابند تھے اور تقریباً سب ہی امام ابو حنیفہؒ کے مقلد تھے مثلاً ۔شیخ علی متقی صاحب کنزالعمال المتوفی ۰۹۷۵؁ھ شیخ عبدالاول جو نپوری صاحب، فیض الباری شرح بخاری، شیخ عبدالوہاب برہا نپوری متوفی ۱۰۰۱؁ء شیخ محمد طاہر پٹنی گجراتی صاحب مجمع بحار متوفی ۹۸۷؁ھ محدث ملا جیون صدیقی متوفی ۱۱۳۰؁ھ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی صاحب اشعۃ اللمعات متوفی ۱۰۵۲؁ھ پھر ان کی اولاد میں محدث شیخ نور الحق صاحب تیسیرالقاری فارسی شرح بخاری متوفی ۱۰۷۳؁ھ ، محدث شیخ فخر الدین شارح بخاری و شارح حصن حصین ۔ شیخ الا سلام محدث شیخ سلام اﷲ شارح مؤ طامسمیٰ بہ محلی متوفی ۱۲۲۹؁ھ شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی، شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی متوفی ۱۱۷۶؁ھ شاہ عبدالعزیز متوفی ۱۲۳۹؁ھ شاہ عبدالقادر محدث و مفسر قرآن دہلوی متوفی ۱۲۳۲؁ھ شاہ عبدالغنی محدث دہلوی متوفی ۱۲۹۶؁ھ شاہ اسحاق محدث دہلوی متوفی ۱۲۶۲؁ھ شاہ اسماعیل شہید متوفی ۶۲۴۶؁ھ شاہ قطب الدین صاحب مظاہر حق متوفی ۱۲۸۹؁ھ شاہ اسماعیل شہید متوفی ۶۲۴۶؁ھ شاہ قطب الدین صاحب مظاہر حق متوفی ۱۲۸۹؁ھ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی متوفی ۱۲۳۳؁ھ شاہ محمد یعقوب محدث دہلوی متوفی ۱۲۸۲؁ھ قاضی محب اﷲ بہاری متوفی ۱۱۱۱۹؁ھ جنہوں نے ۱۱۰۹؁ھ میں اصول فقہ کی مشہور کتاب مسلم الثبوت تصنیف فرمائی۔ محدث کبیر قاضی ثناء اﷲ پانی پتی متوفی ۰۱۲۲۲۵؁ھ، الشیخ الا مام العلامہ نور الدین احمد آبادی گجراتی حنفی صاحب نور القاری شرح بخاری متوفی ۰۱۱۵۵؁ھ، شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی حنفی متوفی ۱۰۹۹۸؁ھ محدث مفتی عبدالکریم نہرو انی گجراتی صاحب نہر الجاری شرح بخاری متوفی ۱۰۱۴۱؁ھ الشیخ المحدث محی الدین عبدالقادر احمد آبادی گجراتی متوفی ۱۰۳۸؁ھ الشیخ المحدث خیر الدین بن محمد زاہد السورتی متوفی ۰۱۲۰۶؁ھ بحر العلوم علامہ عبدالعلی لکھنوی صاحب شرح مسلم الثبوت وغیرہ متوفی ۰۱۲۲۵؁ھ۔ جامع معقول و منقول ابو الحسنات علامہ عبدالحئی لکھنوی صاحب تصا نیف کثیرہ متوفی ۰۱۳۰۴؁ھ محدث مولانا احمد علی سہانپوریء محشی بخاری متوفی ۰۱۲۹۷؁ھ متکلم اسلام مولانا قاسم نانو توی بانی ء دارالعلوم دیو بند متوفی ۰۱۲۹۸؁ھ، فقیہ لاثانی ، محدث کبیر عارف باﷲ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ متوفی ۰۱۳۲۳؁ھ مولانا محمد یعقوب نانو توی مجددی متوفی ۱۳۰۲؁ھ محدث مولانا فخر الحسن گنگوہی متوفی ۱۳۱۷؁ھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیو بندی متوفی ۰۱۳۹۹؁ھ المحدث الکبیر امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری متوفی ۱۳۵۲؁ھ محدث مولانا خلیل احمد مہاجر مدنی صاحب بذل المجہود شرح ابو دائود متوفی ۰۱۳۴۶؁ھ محدث مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب فتح الملہم شرح صحیح مسلم متوفی ۱۳۶۹؁ھ وغیرہ وغیرہ۔
علماء سندھ:۔
محدث شیخ ابو الحسن سندھی متوفی ۱۱۸۷؁ھ شیخ ہاشم سندی، ابو الطیب سندھی م ۰۱۱۴۰؁ھ ، شیخ محمد معین سندھی م ۰۱۱۸۰؁ھ شیخ محمد عابد سندھی م ۱۲۵۷؁ھ شیخ حیات سندھی م ۰۱۱۶۳؁ھ رحمہم اﷲ وغیرہ ۔ جنہوں نے صحاح ستہ او رکتب حدیث پر حواشی لکھے ۔ اور مدینہ منورہ جا کر حدیث کا درس دیا۔
اولیاء ہند:۔
امام ربانی شیخ سید احمد مجدد الف ثانی نقش بندیؒ م ۰۹۷۱؁ھ عارف باﷲ محدث …مرزا مظہر جان جاناں ؒ م ۰۱۱۹۵؁ھ ، اولیاء ہند کے سرتاج خواجہ معین الدین چشتیؒ (سن وفات میں چند اقوال ہیں ۰۶۳۲؁ھ ۰۶۳۳؁ھ، ۰۶۳۶؁ھ ۱۰۶۳۷؁ھ) خواجہ قطب الدین بختیار کا کی ؒ م ۰۶۳۳؁ھ یا ۰۶۳۴؁ھ خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ م ۰۶۶۴؁ھ یا ۰۶۶۸؁ھ خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ متوفی ۰۷۳۵؁ھ خواجہ علائو الدین صابر کلیری ؒ م ۰۶۹۰؁ھ وغیرہ وغیرہ ہزار ہا محدثین۔ و مفسرین ، فقہاء، مشائخ مقلدین گذرے ہیں ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نز ہۃ الخواطر، حدائق حنفیہ ، انوار الباری کے مقدمہ کا حصہ دوم ، تذکرئہ محدثین ۔
ائمۂ اربعہ کی تقلید اور تقلید کا ائمۂ اربعہ میں منحصر ہوجانا اور جمہور اہل سنت و الجماعت کا مذاہب اربعہ میں مجتمع ہونا خدا کی نعمت عظمیٰ ہے ۔ ہر زمانہ میں محدثین اور علماء حقہ اس کی تصریح کرتے رہے ہیں کہ جو تقلیدکا منکر ہو اور غیر مقلد بن کر شتر بے مہار کی طرح زندگی بسر کرتا ہو اور اپنی خواہشات پر عمل پیرا ہو وہ اہل بد عت میں سے ہے ۔ اہل سنت میں سے نہیں شیعہ تقلید ائمۂ اربعہ کے منکر ہیں اور مذاہب اربعہ کو بدعت کہتے ہیں ۔ اسی طرح غیر مقلدین بھی ان کے نقش قدم پر چل کر تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں ( یہ غیر مقلدین اور بھی دیگر مسائل میں شیعہ و روافض کے ہم مشرب ہیں مثلاً روافض صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین کو معیار حق تسلیم نہیں کرتے اسی طرح غیر مقلدین بھی صحابہ کے معیار حق ہونے کے منکرہیں ، روافض ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کو تسلیم نہیں کرتے اسی طرح غیر مقلدین بھی ایک مجلس میں طلاق ثلثۃ کے وقوع کے منکر ہیں ، روافض نے بیس ۲۰ ررکعت تراویح کو بد عت کہا تو غیر مقلدین بھی بیس ۲۰ رکعت تراویح کو بدعت عمری کہتے ہیں ، روافض جمعہ کے دن اذان اول کو جو منارہ پر دی جاتی ہے ۔ بدعت کہتے ہیں اسی طرح غیر مقلدین بھی اس اذان کو بدعت عثمانی قرار دیتے ہیں ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے خلافت کے زمانہ میں عورتوں کی آزادی و بے احتیاطی دیکھی تو صحابہ کے مشورے سے عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی ممانعت کا فیصلہ فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی یہ حالت دیکھتے تو وہ خود بھی روک دیتے ۔ اس فیصلہ کو شیعہ و روافض نے قبول نہیں کیا اسی طرح غیر مقلدین نے بھی منظور نہیں کیا ۔ واﷲ اعلم)
غرض سوائے شیعہ اور چند علماء غیر مقلدین کے تقریباً تمام ہی علماء نے تقلید کو ضروری قرار دیا ہے ۔
اور اپنی اپنی تصا نیف میں اس پر بحث کی ہے ۔ چنانچہ شرح مسلم الثبوت میں ہے ۔ بل یجب علیھم اتباع الذین سبروا ای تعمقوا وبو بو ا ای او ردوا ابواباً لکل مسئلۃ علٰیحدۃً فھذ بوا مسئلۃ کل باب ونقحوا کل مسئلۃ عن غیر ھا وجمعوا بینھما بجامع وفرقوا بفارق وعللو ای او ردوا لکل مسئلۃ علتہ وفصلو ا تفصیلاً وعلیہ بنی ابن الصلاح منع تقلید ۔ غیر الا ئمۃ الا ربعۃ الا مام الھمام امام الائمۃ اما منا الکوفی رحمہ اﷲ والا مام مالک رحمہ اﷲ ، والا مام الشافعی رحمہ اﷲ ،والاامام احمد رحمھم اﷲ تعالیٰ وجزا ھم عنا احسن الجزاء لان ذالک المذکور لم یدر فی غیر ھم ۔
ترجمہ:۔ بلکہ ان عوام پر ان حضرات کی پیروی اور اتباع واجب ہے ۔ جنہوں نے نظر عمیق سے کام لیا اور ابواب قائم کر کے ہر مسئلہ کو اس کے مناسب باب میں درج کیا ، اور ہر مسئلہ کی تنقیح اور چھان بین کی اورجمع کیا اور تفریق کی (یعنی ہر مسئلہ کو جمع کیا اور ہر مسئلہ کو دوسرے مسئلہ سے جدا کیا )۔ اور ہر مسئلہ کی علت بیان کی اور پوری پوری تفصیل کی (یہ بات تفصیلی طور پر صحابہ کی اقوال میں نہیں ہے ۔ اس لئے عوام کے لئے عمل کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ مغالطہ میں پڑ جائیں گے بناء علیہ اصول حدیث کے واضع محدث یگانہ علامہ ابن صلاح رحمہ اﷲ نے ائمۂ اربعہ کے سوا دوسروں کی تقلید کی ممانعت فرمائی کہ امور مذکورہ مذاہب اربعہ کے سوا اور کسی مذہب میں موجود نہیں ہیں اﷲ تعالیٰ ان ائمہ اربعہ کو ہم سب کی طرف سے بہترین جائے خیر عطا فرمائے۔
(فواتح الر حموت شرح مسلم الثبوت للعلامہ بحر العلومؒ متوفی ۰۱۲۲۵؁ھ ص۶۲۹)
علامہ ابن نجیم مصری متوفی ۰۹۷۰؁ھ ’’ الا شباہ والنظائر‘‘ میں ارقام فرماتے ہیں ۔ وما خالف الائمۃ الا ربعۃ فھو مخالف للا جماع ۔ یعنی (کسی شخص کا ) کوئی فیصلہ ائمہ اربعہ کے خلاف ہو تو وہ اجماع کے خلاف ہے (اس لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا) (ص۱۳۱)
حافظ حدیث علامہ ابن ہمام رحمہ اﷲ متوفی ۸۶۱؁ھ نے ’’ التحریری فی اصول الفقہ‘‘ میں تصریح فرمائی ہے ۔ وعلی ھذا ما زکر بعض المتأ خرین منع تقلید غیر الاربعۃ لا نضباط مذا ھبہم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمو مھا ولم ید رمثلہ فی غیر ھم الآن لا نقراض اتباعھم وھو صحیح۔
یعنی: اور اسی بنیاد پر بعض متاخرین نے ذکر کیا ہے کہ ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی ، اس لئے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان ہی چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر ص ۵۵۲)
اورنگ زیب عالمگیرؒ کے استاذ علامہ، زبردست فقیہ ، اصولی ، جامع المعقول والمنقول شیخ احمد المعروف بہ ملاجیون صدیقی(متوفی ۰۱۱۳۰؁ھ ’’ تفسیرات احمدیہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ۔ قدو قع الا جماع علی ان علی ان الا تباع انما یجوز للآربع۔ الیٰ قولہ وکذا لا یجوز الا تباع لمن حدث مجتھداً مخالفاً لھم ۔ یعنی اس پر اجماع منعقد ہوگیا ہے کہ اتباع(تقلید) صرف ائمہ اربعہ ہی کی جائز ہے ، اسی بنا پر جو مجتہد (اس زمانہ میں ) نیا پیدا ہوا اور اس کا قول ان ائمہ اربعہ کے خلاف ہو تو اس کی اتباع بھی جائز نہیں ۔
 (تفسیرات احمدیہ ص ۳۴۶)مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیو بند)
چند سطروں کے بعد مزید توضیح فرماتے ہیں :۔ والا نصاف ان انحصار المذاھب فی الا ربعۃ واتبا عھم فضل الھی وقبولیۃ من عند اﷲ لا مجال فیہ للتو جیھات والا دلۃ ۔ یعنی:۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ مذاہب کا چار میں منحصر ہوجانااور ان ہی چار مذاہب کی اتباع کرنا فضل الٰہی ہے اور منجانب اﷲ قبولیت ہے اس میں دلائل اور توجیہات کی حاجت نہیں ہے (تفسیرات احمدیہ ص ۳۴۶، وداؤ دو سلیمان اذ یحکمان فی الحرث آیت کے ماتحت ، سورئہ انبیاء پ ۱۷)
او رمشہور محدث و مفسر وفقیہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی ، متوفی ۱۲۲۵؁ھ ’’ تفسیر مظہری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔ فان اھل السنۃ والجماعۃ قد افترق بعد القرن الثلثۃ اوالا ربعۃ علیٰ اربعۃ المذاھب ولم یبق فی فروع المسائل سویٰ ھذہ المذاھب الا ربعۃ فقد انعقد الا جماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم وقد قال اﷲ تعالیٰ ومن یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولیٰ ونصلہ جہنم۔
یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے بعد فروعی مسائل میں اہل سنت و الجماعۃ کے چار مذہب رہ گئے کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ اور جو شخص مؤ منین (یعنی اہل سنت و الجماعت) کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر ہولے گا تو ہم اس کو وہ جو کچھ کرتاہے کرنے دیں گے ۔ اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے ۔(تفسیر مظہری ص ۶۴ ج۲، سورئہ آل عمران پ ۳ تحت الآیۃ ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباًباً من دون اﷲ)
امام ابراہیم سرخسی مالکی مرعی ’’ الفتوحات الو ھبیہ شرح اربعین نوویہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔ اما فیما بعد ذالک کما قال ابن الصلاح فلا یجوز تقلید غیر الا ئمۃ الا ربعۃ مالک ؒ وابی حنیفۃ والشافعی واحمد لان ھو لاء عرفت قواعد مذاھبھم واستقرت احکا مھا وخد مھا تا بعوھم وخررو ھا فرعاً فرعاً وحکماً حکماً۔
یعنی:۔ اس زمانہ کے بعد (صحابہ کے دور کے بعد) جس طرح کہ ابن صلاح ؒ نے بھی فرمایا ہے ائمۂ اربعہ امام مالک ؒ ،امام ابوحنیفہ ؒ، امام شافعی ؒ، امام احمد بن حنبل ؒ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اس لئے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے قواعد معروف ہیں اور ان کے احکام مستقر ہوچکے ہیں اور ان حضرات کے خدام نے ان کے بعد ان مذاہب کی خدمت کی ہے (اور چار چاند لگائے ہیں ) اور تمام احکام کو فر عاً فرعاً لکھ دیا ہے اور ہر ایک کا حکم بھی بیان کر دیا ہے ۔
(الفتوحات الو ہبیہ ص۱۹۹)
محدث ابن حجر مکی ؒ(متوفی ۰۸۵۲؁ھ فتح المبین فی شرح الا ربعین ‘‘ میں فرماتے ہیں اما فی زماننا فقال ائمتنا لا یجوز تقلید غیر الائمۃ الا ربعۃ الشافعی وما لک وابی حنیفۃ واحمد رضوان اﷲ علیھم اجمعین ۔ یعنی ہمارے زمانہ میں ائمہ مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ شافعی ؒ، امام مالک ؒ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام احمد رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہی کی تقلید جائز ہے ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (ص۱۹۶)
سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلوی رحمہ اﷲ کتاب ’’ راحۃ القلوب‘‘ میں تحریر فرماتے  ہیں کہ :۔ حضرت خواجہ سید العابدین زبدۃ العارفین ۔ فرید الحق والشرع شکر گنج رحمہ اﷲ علیہ نے بتاریخ ۱۱۔ ماہ ذی الحجہ ۰۶۵۵؁ھ فرمایا کہ ہر چار مذہب بر حق ہیں ۔ لیکن بالیقین جاننا چاہئے کہ مذہب امام اعظم کا سب سے فاضل تر ہے اور دوسرے مذہب ان کے پس رئو ہیں او ر امام ابو حنیفہ افضل المتقدمین ہیں اور الحمد ﷲ کہ ہم ان کے مذہب میں ہیں (بحوالۂ حدائق حنفیہ ص ۱۰۴)
علامہ جلال الدین محلی ’’ شرح جمع الجوامع‘‘ تحریر فرماتے ہیں :۔ یجب علی العامی وغیرہ ممن لمن یبلغ مرتبۃ الا جتھاد التزام مذھب معین من مذاھب المجتھدین ۔ یعنی واجب ہے عامی اور غیرعامی پر جو کہ درجہ ٔ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو مجتہدین کے مذاہب میں سے ایک مذہب معین کو عمل کے لئے اپنے اوپر لازم کر لینا۔‘‘
(بحوالہ نور الہدایہ ترجمہ شرح الوقایہ ص ۱۰)مقدمہ۔
شارح مسلم شیخ محی الدین نووی ؒ ’’ روضۃ الطالبین ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔’’ اما الا جتھاد المطلق فقالوا اختتم با لأئمۃ الاربعۃ حتیٰ او جبوا تقلید واحد من ھو لاء علی امتہ ونقل امام الحرمین الا جماع علیہ ‘‘یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا ۔ حتی کہ ان تمام مقتدرد محقیقین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر (ائمہ اربعہ ہی تقلید کے واجب ہونے پر) اجماع نقل کیا ہے (بحوالہ نور الہدایہ ص ۱۰)
’’ نہایۃ المراد شرح مقدمہ ابن عماد ‘‘ میں ہے ۔ وفی زماننا ھذا قد انحصرت صتحۃ التقلید فی ھذہ المذاھب الا ربحۃ (الیٰ قولہ) ولا یجوز الیوم تقلید غیر الائمۃ الا ربعۃ فی قضاء والا افتاء ۔ یعنی ہمارے اس زمانہ میں تقلید ان مذاہب اربعہ میں منحصر ہوگئی ہے ۔ اور آج ائمہ اربعہ کے سواء کسی اور امام کی تقلید جائز نہیں ہے نہ تو قاضی کو اختیار ہے کہ مذاہب اربعہ سے ہٹ کر فیصلہ کرے او ر نہ مفتی مجاز ہے کہ مذاہب اربعہ کے خلاف فتویٰ دے۔
(بحوالہ نور الہدایہ ترجمہ شرح وقایہ ص ۱۵)
امام عبدالوہاب شعرانی ’’ میزان الشریعۃ الکبریٰ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔ وکان سیدی الخواص رحمہ، اﷲ تعالیٰ اذا سألہ انسان عن التقلید بمذھب معین الا ن ھل ھو واجب ام لا یقول لہ‘ یجب علیک التقلید بمذھب ما دامت لم تصل الیٰ شھود علی الشریعۃ الا ولیٰ من الو قوع فی الضلال وعلیہ عمل الناس الیوم۔
یعنی: میرے سردار علی خواص رحمہ اﷲ سے جب پوچھا جاتا کہ اس وقت مذہب معین کی تقلید واجب ہے یا نہیں ؟ توفرماتے کہ تجھ پر مذہب معین کی تقلید واجب ہے جب تک تجھے کمال ولایت و نظر کشف و شہود سے مرتبۂ اجتہاد حاصل نہ ہو اس وقت تک معین امام کی دائرۂ تقلید سے قدم باہر نہ نکالنا (کہ یہ موجب گمراہی ہے ) اور اسی پر آج لوگوں کا عمل ہے ۔(میزان کبریٰ)
مشہور فقیہہ قرآن و حدیث کے ماہر سید احمد طحطاوی متوفی ۰۱۳۳۳؁ھ فرماتے ہیں :۔ فعلیکم یا محشر المؤ منین باتباع الفرقۃ الناجیۃ المسماۃ باھل السنۃ والجماعۃ فان نصرۃ اﷲ فی موافقتھم وخذ لانہ وسخطہ، ومقتہ فی مخالفتھم وھذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی المذاھب الاربعۃ ھم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون ومن کان خارجاً من ھذہ المزاہب الا ربعۃ فے ذلک الزمان فھو من اہل البدعۃوالنار۔
یعنی! اے گردہ مسلمانان! تم پر نجات پانے والے فرقہ کی جو اہل سنت و الجماعت کے نام سے موسوم ہے پیروی کرنا واجب ہے اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد اہل سنت و الجماعت کے ساتھ موافقت کرنے میں ہے اور اہل سنت و الجماعت کی مخالفت کرنے میں اپنی ذات کو خدا تعالیٰ کے غضب اور نارضگی کا مورد نبانا ہے ۔(اﷲ اپنی پناہ میں رکھے ) اور یہ نجات پانے والا گروہ(یعنی اہل سنت و الجماعت) آج مجتمع ہوگیا ہے ۔ چار مذاہب میں ہے ۔ اور وہ حنفی ، مالکی‘ شافعی اور حنبلی ہیں ۔ اور جو شخص اس زمانہ میں ان چار مذاہب سے خارج ہے وہ اہل بدعت اور اہل نار سے ہے (ا ہل سنت میں داخل نہیں )(طحطاوی علی الدر المختار ج۴ ص ۱۵۳) کتاب الذبائح)
حضرت شاہ اسحاق محدث دہلوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :۔
(سوال ) ’’شصت ویکم ۔ مذاہب اربعہ بدعت حسنہ اندیا سیئہ ، کدام سیئہ۔
(الجواب)اتباع مسائل مذاہب اربعہ بد عت نیست نہ سیئہ نہ حسنہ بلکہ اتباع آنہا سنت است… الخ (مائۃ مسائل ص ۹۲۔ ۹۳)
ترجمہ:۔(سوال ) اکسٹھواں ۶۱:۔ مذاہب اربعہ بدعت حسنہ میں داخل ہیں یا بدعت سپئہ میں اگر بد عت سیئہ ہے تو کس قسم کی بدعت سیئہ ہے ؟
(جواب)مذاہب اربعہ کے مسائل کی اتباع کرنا نہ بدعت حسنہ ہے نہ بد عت سیئہ بلکہ مذاہب اربعہ کے مسائل کا اتباع سنت ہے ۔ اس لئے مذاہب اربعہ میں جو اختلاف ہے ، وہ اختلافات یا تو خود صحابہ ؓ میں موجود تھے (اور ائمہ اربعہ ان کے خوشہ چیں ہیں اس لئے ان میں بھی اختلافات ہوئے ) اور صحابہ کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ أصحابی کا لنجوم فبأ یھم اقتدیتم اھتدیتم ۔ یعنی میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں تم جس کی بھی اقتداء (پیروی کرو گے ہدایت پالو گے اور مذاہب اربعہ میں خلاف،قیاس و حجت کے اختلاف سے واقع ہوا(اور یہ مسلم ہے کہ ) قیاس نص سے ثابت ہے (تو قیاس پر عمل کرنا بعینہ ) اتباع نص ہوا ۔ اور نیز مذاہب اربعہ میں اختلاف حدیث کے ظاہری الفاظ اور استنباط حدیث پر بھی ہے اور ظاہر حدیث کو قابل عمل سمجھتے ہے اور بعض استنباط حدیث پر عمل کرتے ہیں چنانچہ بخاری اور مسلم و غیرہ میں ایک حدیث آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت بنی قریظہ کی طرف صحابہ کو روانہ فرمایا تو یہ حکم فرمایا کہ کوئی عصر کی نماز سوائے بنی قریظہ کے نہ پڑھے۔ بعض صحابہ نے راستہ میں اس بناء پر نماز عصر ادا کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس تاکید سے یہ تھا کہ وہاں پہنچنے میں دیر نہ کریں نہ کہ نماز کو وقت سے ٹلا دینا مقصود تھا اور بعض صحابہ نے حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل کیا اور راستہ میں نماز نہ پڑھی ۔ لیکن جب آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قصہ معلوم ہوا تو اس پر کچھ ناگواری ظاہر نہ فرمائی (تو معلوم ہوگیا کہ) دونوں طرح عمل جائز ہے ۔
مذاہب اربعہ کے اختلاف کی صورت ایسی ہے تو بد عت کس طرح ہوجائے گی ۔
(امداد المسائل ترجمہ مأ تہ مسائل ص ۱۰۱۔۱۰۲)
اور ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں ۔
(سوال ۶۲) مقلد ایشاں رابد عتی گو یند یانہ؟
(الجواب)ہر گز مقلد ایشاں رابد عتی نخواہند گفت زیر اکہ تقلید ایشاں تقلید حدیث شریف است باعتبار الظاہر ادا الباطن پس متبع حدیث رابدعتی گفتن ضلال و موجب نکال است(مأ تہ مسائل ص ۹۳)
ترجمہ:۔(سوال ) مذاہب اربعہ کے مقلدین کو بدعتی کہیں گے یا نہیں ؟
(الجواب)مذاہب اربعہ کے مقلد کو بدعتی نہیں کہیں گے اس لئے مذاہب اربعہ کی تقلید بعینہ حدیث کے ظاہر و باطن کی تقلید ہے او رمتبع حدیث کو بدعتی کہنا گمراہی اور بدبختی ہے ۔(امداد المسائل ترجمہ مأتہ مسائل ص۱۰۲)
امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اﷲ تحریر فرماتے ہیں :
بے شائبہ تکلف و تعصب گفتہ میشود کہہ نورانیت ایں مذہب حنفی بنظر کشفی درنگ دریاے عظیم می نمایدو سائرمذہب ورنگ خیاض و جدال بنظرمی درآیند و بظا ہر ہم کوملاحظہ نمود ہ می اآید سوادا اعظیم ازاہل السلام تابعان ابی حنفیہ اند علیہم الرضوان وایں مذہب با وجود کثرت متا بعان دراصول و فروع از سائر مذاہب متمیز است و دراستنباط طریق علیٰحدہ دار دوایں معنی مبنیٰ از حقیقت است عجب معاملہ است امام ابو حنیفہؒدر تقلید سنت از ہمہ پیش قدم است واحادیث مرسل رادررنگ احادیث مسندشایان متابعت میداندو برارائی خود مقدم میدارد وہچنیں قول صحابہ رابواسطہ شرف صحبت خیر البشر علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام برارایٔ خود مقدم سید اردو دیگراں نہ چنیں اند مع ذلک مخالفان اور اصاحب رائے میدانند و الفاظ کہ مبنی از سوئے ادب اند باو منتسب می ساز ند با وجود آنکہ ہمہ کمال علم و وفوردرع تقویٰ او معترف اندحضرت حق سبحانہ، وتعالیٰ ایشان راتو فیق دہاد کہ ارز اس دین وریکس اسلام ازکار نہ نمایندو سواد اعظم اسلام راایذا نکندیریدون ان یطفؤ ا نور اﷲ با فواھھم۔جماعۃ کہ این اکا بردین را اصحاب رائے میدانند اگر ایں اعتقاد دار ندکہ ایشاناں برائے خود حکم می کروندو متا بعت کتاب وسنت نمی نمود ندپس سواد اعظم از اہل اسلام بزعم فاسد ایشاں ضال ومتبدع باشند بلکہ از جرگہ ٔ اہل اسلام بیرون بودند ایں اعتقاد نکند مگر جاہلے کہ از جہل خود بے خبراست یا زندیقی کہ مقصودش ابطال شطر دین است ناقصی چند احادیث چند رایاد گرفتہ اندو احکام شریعت را منحصردراں ساختہ مادرایٔ معلوم خود رانفی می نمایندو آنچہ نزد ایشاں ثابت نہ شدہ منتفی می سازند۔چوں آں کر مے کہ درسنگے نہاں است زمینو اسمان او ہماں است، دای ہزاروای ازتعصبہائے بارد ایشاں واز نظر ہائے فاسد ایشاں ۔(مکتوبات امام ربانی ج۲ ص ۱۰۷۔۱۰۸)
بلا تکلف و تعصب کہا جاسکتا ہے کہ اس مذہب حنفی کی نورانیت کشفی نظر میں دریائے عظیم کی طرح دکھائی دیتی ہے او ر دوسرے تمام مذاہب حوضوں اور نہروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں ۔ اور ظاہر میں بھی جب ملاحظہ کیا جاتا ہے تو اہل اسلام کا سواد اعظم یعنی بہت سے لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے تابعدار ہیں ۔ یہ مذہب باوجود بہت سے تابعداروں کے اصول وفروع میں تمام مذہبوں سے الگ ہے اور استنباط میں اس کا طریقہ علیحدہ ہے اور یہ معنی حقیقت کا پتہ بتاتے ہیں ۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام ابو حنیفہؒ سنت کی پیروی میں سب سے آگے ہیں ۔ حتی کہ احادیث مرسل کو احادیث مسند کی طرح متابعت کے لائق جانتے ہیں اور اپنی رائے پر مقدم سمجھتے ہیں ۔ اور ایسے ہی صحابہ کے قول کو حضرت خیر البشر علیہ الصلوٰۃو التسلیمات کے شرف صحبت کے باعث اپنی رائے پر مقدم جانتے ہیں دوسروں کا ایسا حال  نہیں ۔ پھر بھی مخالف ان کو صاحب رائے کہتے ہیں ۔اور بہت بے ادبی کے الفاظ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ حالانکہ سب لوگ ان کے کمال علم و ورع و تقویٰ کا اقرار کرتے ہیں ۔ حق تعالیٰ شانہ‘ ان کو توفیق دے کہ دین کے سردار اور اسلام کے رئیس سے انکار نہ کریں اوراسلام کے سواد اعظم کو ایذاء نہ دیں یریدون ان یطفئوا نور اﷲ بافواھم (یہ لوگ اﷲ کی نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں ) وہ لوگ (غیر مقلدین) جو دین کے ان بزرگوں (امام ابو حنیفہ ؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد ؒ) کو صاحب رائے جانتے ہیں اگر یہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ بزرگوار صرف اپنی رائے پر ہی عمل کرتے تھے اور کتاب و سنت کی متابعت چھوڑ دیتے تھے تو ان کے فاسد خیال کے مطابق اسلام کا ایک سواد اعظم گمراہ اوربدعتی بلکہ گردہ اسلام سے باہر ہے اس قسم کا اعتقاد وہ بے قوف جاہل کرتا ہے جو اپنی جہالت سے بے خبر ہے ۔ یا وہ زندیق جس کا مقصود یہ ہے کہ اسلام کا نصف حصہ باطل ہوجائے ان چند ناقصوں نے چند حدیثوں کو یاد کر لیا ہے اور شریعت کے احکام کو انہی پر موقوف رکھا ہے اور اپنی معلومات کے سوا سب کی نفی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے نزدیک ثابت نہیں ہوا (یعنی جو ان کے علم سے باہر ہے ) اس کا انکار کرتے یں ۔ بیت ۔ وہ کیڑا جو پتھر میں پنہاں ہے وہی اس کا زمین و آسمان ہے۔یعنی جو کیڑا پتھر میں چھپا ہوا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی جگہ میری زمین و آسمان ہے (اور خیال کرتا ہے کہ بس اتنی ہی بڑی دنیا ہے)حالانکہ اصل زمین و آسمان تو اس نے دیکھا تک نہیں ۔ اسی قسم کے لوگ بیہودہ تعصب اور فاسد خیالوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔(ترجمۂ مکتوبات امام ربانی ج۲ ص ۱۷۸ ص۱۷۹ مکتوب نمبر ۵۵)
حضرت شاہ محمد ہدایت علی نقشبندی مجددی حنفی جیپوری رحمہ اﷲ تحریر فرماتے ہیں :۔
’’ تقلید ائمۂ شریعت اس پر واجب نہیں جو علم تفسیر ، فقہ وحدیث میں کامل ہو اور مرتبۂ اجتہاد واستنباط مسائل پر قادر ہونا سخ و منسوخ و محاورۂ عرب سے واقف ہو ، اگر اس قدر استعداد نہیں رکھتا ہے تو تقلید ائمہ اس پر واجب ہے ۔ اوریہ سب (علوم) اس میں موجود ہوں اور پھر بھی ائمہ کی تقلید کرے تو احسن ہے ۔ لیکن اس وقت میں دیکھا جاتا ہے کہ علم تفسیرحدیث فقہ اصول تو کیا قرآن شریف یا حدیث شریف بلا اعراب (زبر، زیر ، پیش) کے صحیح نہیں پڑھ سکتے ۔ استنباط مسائل کی عقل(اور سمجھ) تو بہت بلند ہے ۔ لیکن ائمہ ٔ شریعت کی تقلید نہیں کرتے اور تقلید کو شرک کہتے ہیں ان کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے ۔ یہ نہیں جانتے کہ ہندوستان میں علم تفسیر، حدیث، فقہ و اصول کے پیشر و شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ، شاہ ولی اﷲ صاحب ؒ شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ وغیرہ باوجود مخزن علوم کے سب حنفی ہیں ۔ تو کیا زمانہ ٔ موجودے کہ علماء علم فہمید واتقیٰ میں زیادہ ہیں ؟(نہیں )ہر گز نہیں جوائمہ کے مقلد کو مشرک کہتے ہیں لیکن جاہلوں کو اپنا مقلد بنا لیتے ہیں اکثر لوگ جو اردو بھی نہیں جانتے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث ہیں ۔ یعنی غیر مقلد ۔ ان سے اگر یہ سوال کیا جائے کیا تم جو اپنے کو عامل بالحدیث کہتے ہو تم نے یہ مسائل قرآن و حدیث سے اخذ کئے ہیں یا کسی مولوی صاحب سے سن کر عمل کیا ہے ؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ فلاں مولوی صاحب سے سن کر عمل کیا ہے تو پھر یہ تقلید نہ ہوئی تو اور کیا ہوا؟الخ (درلاثانی ج۲ ص ۶۱۔۶۲)
نیز آپ ’’احسن التقویم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔’ ’اور ائمۂ مجتہدین رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین کے تقلید جو علم عربی ، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، استنباط مسائل و محاورۂ عرب، علم ناسخ و منسوخ سے پورا واقف نہ ہو اور تبحر علمی نہ رکھتا ہو واجب ہے اسی واسطے حکم حق تعالیٰ ہے ۔ فاسئلوا اھل الذکران کنتم لا تعلمون، او رجو شخص ان علوم مذکورہ صدر  سے ناواقف ہے یا ان میں کامل نہیں ہے اس پر تقلید ائمہ دین واجب ہے ۔ اور باوجود ان علوم میں کمال رکھنے کے پھر بھی کوئی تقلید کرے تو احسن ہے۔ زمانہ ٔ اخیر میں جمیع علوم دین میں کامل ذات حضرت شاہ عبدالحق صاحبؒ محدث دہلویؒ، وحضرت شاہ ولی اﷲ صاحب ؒ وحضرت شاہ عبدالعزیز صاب ؒ وحضرت مجدد الف ثانی ؒ و حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ و حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی ؒ وغیر ہم رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین ہوئے فی زماننا ان کے مقابلہ میں کوئی عالم تبحر علمی میں عشر عشیر بھی نہیں ہے اور نہ کوئی عالم خواہ وہ کسی گردہ کا ہوا ان کے مقابل تو کیا بیان کر سکتا ہے اپنے کو نصف یا ثلث حصہ میں بھی نہیں کہہ سکتا۔ اگر کوئی کہے تو مسلمان اس کو دیوانہ یا ’’ انا خیر منہ ‘‘(یہ ابلیس لعین کامقولہ ہے) کہنے والے کا برادر ضرور جانیں گے۔ لیکن یہ سب بزرگوار حنفی ہوئے ہیں جن کی کتابوں سے ان کا حنفی ہونا ثابت ہے ۔ یہ ہماری شامت اعمال ہے کہ مسلمانوں میں بعض بعض ان علوم میں منتہی تو کیا مبتدی بھی نہیں لیکن ائمہ مجتہدین کی تقلید کو برا کہتے یں لیکن وہ جو اپنی تحقیقات اتما م میں ناتمام باتیں سمجھ چکے ہیں ان باتوں میں اور مسلمانوں کو اپنا مقلد بنانے کو تیار ہیں ۔بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا‘‘(احسن التقویم ص ۱۳۷، ۱۳۸)
حضرت علامہ عبدالحق حقانی (صاحب تفسیر حقانی) رحمہ اﷲ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’ عقائد الاسلام ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ۔’’ دوم:۔ اگر ہرشخص ان مسائل میں اپنی اپنی رائے کو دخل دیا کرے تو ایک فساد عظیم دین میں پیدا ہوجائے۔صحابہ رضی اﷲ عنہم آنحضرت ا سے پوچھ لیا کرتے تھے پھر جب بعد میں نئے نئے واقعات پیش آئے اور قرون ثلثہ ہوچکے اور فتنہ وفساد دین میں شروع ہوا ۔ تب ان بزرگان دین نے قرآن و حدیث میں تتبع کر کے فقہ کو مرتب کیااور مسائل جزئیہ کو اپنے موقع پر لکھ دیا سو اس زمانہ سے اب تک تمام امت مسائل جزئیہ میں انہیں چاروں کی مقلد ہے ۔ پھر اب جو کوئی نئی راہ نکالے تو وہ سوادا عظم کو چھوڑتا ہے ۔ افسوس کہ بعض احباب آج کل عوام کو فتنہ میں ڈال رہے ہیں اور مجتہدین خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ پر طعن کرتے ہیں کہ ان کے اقوال احادیث کے مخالف اور بے سند ہیں حالانکہ یہ طعن بالکل غلط ہے ۔ کس لئے کہ ان کی کوئی بات اور کوئی قول مخالف اور بے سند نہیں ہاں اور وہ سند نمہیں نہ ملے تو تمہارا قصو ر ہے ان کے اجتہاد کے قبولیت کی یہ بڑی دلیل ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہزار برس سے زیادہ سے آج تک مسلمانوں میں اس کو جاری رکھا ۔ اگر یہ تقلید گمراہی ہوتی تو نعوذ باﷲ امت گمراہ شمار کی جاتی پھر اس امت کا خیر ہونا اور جس قدر فضائل قرآن واحادیث میں وارد ہیں سب غلط ہوجاتے۔‘‘(عقائد الا سلام ص ۱۱۲،ص ۱۱۳)
اور آپ ’’ شرح سفر السعادت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔’’ خانہ ٔ دین چہار است ہر کہ راہے ازیں راہ ہائی ودرے ازیں درہائے اختیار نمودہ براہ ہے دیگر رفتن و درے دیگر گرفتن عبث دیا وہ باشدو کا رخانہ ٔ عمل را از ضبط و ربط بیرون افگندن وازراہ مصلحت بیرون افتادن است ’’ یعنی ۔ دین کے گھر چار ہیں جس شخص نے کوئی راہ ان راہوں میں سے اور کوئی دروازہ ان دروازوں میں سے اختیار کیا تو اس کا دوسری راہ اور دوسرا دروازہ اختیارکرنا بیہودہ اور عبث ہے اور کارخانۂ عمل کو مضبوطی اور استقامت سے دور کرنا ہے اور مصلحت سے باہر جاناہے ۔(شرح سفر السعادت ص۲۱)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی قدس سرہ ‘ نرے اہل حدیث حضرات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :۔فاما ھذہ الطبقۃ الزین ھم اھل الحدیث والا ثرفان الا کثرین منھم ان ما کدھم الروایات وجمع الطرق وطلب الغریب والشاذ من لاحدیث الذی اکثرہ موضوع ’’اومقلوب لا یرا عون المتون ولا یتفہمون المعانی ولا یستنبطون سرھا ولا یستخر جون رکھازھا وفقھھا وربما عابوا الفقھاء وتنا ولوھم بالطعن واد عوا علیھم مخالفۃ السنن ولا یعلمون انھم عن مبلغ ما اوتوہ من العلم قاصرون وبسوء القول فیہم الآثمون۔
ترجمہ:۔ طبقۂ اہل حدث واثر کا حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کی کوشش (صرف) روایتوں کا بیان کرنا ہے اور سندوں کا اکٹھا کرنا اور ان احادیث سے غریب اور شاذ کو تلاش کرنا ہے ۔ جن کا اکثر حصہ موضوع یا مقلوب ہے یہ لوگ نہ الفاظ حدیث کا لحاظ کرتے ہیں ۔ اور نہ معانی کو سمجھتے ہیں اور نہ مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور نہ اس کے دفینے اور فقہ کو نکالتے ہیں ۔ اور بسااوقات فقہاء پر عیب لگاتے ہیں اور ان پر طعن کرتے ہیں اور ان پر سنن و احادیث کی مخالفت کا دعویٰ کرتے ہیں (اور الزام لگاتے ہیں ) حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ جس قدر علم فقہاء کو دیا گیا ہے وہ خود اس کے حصول سے قاصر ہیں ۔اور فقہاء کو برا بھلا کہنے سے گنہگار ہوتے ہیں ۔(انصاف مع ترجمہ کشاف ص۵۳۳)
مسائل شرعیہ ٔ کی فہم کے لئے نری حدیث دانی کافی نہیں :
مسائل شرعیہ اور احکام فقہیہ سمجھنے کے لئے نری حدیث دانی (احادیث کا یاد کرلینا)اورجمود علی الظاہر کافی نہیں ، فقہ اور اصول فقہ سے واقفیت اور تفقہ فی الدین کا حصول بھی نہایت ضروری ہے اس کے حصول کے بغیر اصل حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہے ۔جن لوگوں نے قرآن و حدیث کے ظاہر پر جمود کیا تو باوجود عالم اور محدث ہونے کے ان سے احکام شرعیہ میں اس قسم کے فتاویٰ ومسائل منقول ہوئے جو ظاہر البطلا ن ہیں ۔ اس کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔
(۱)حدیث کی مشہور کتاب کنز العمال میں ایک روایت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے’’ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ایک روز میں ، عطاء ،طائوس اور عکرمہ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نماز پڑھ رہے تھے ایک شخص نے آکر مسئلہ دریافت کیا کہ جب میں پیشاب کرتا ہوں تو ماء دافق(یعنی منی) نکلتا ہے کیا ا س سے غسل واجب ہوگا ؟ ہم نے کہا وہی ماء دافق نکلتا ہے جس سے بچہ پیدا ہوتا ہے کہا ہاں ۔ ہم نے کہا جب تو غسل واجب ہے ، وہ شخص اناﷲ پڑھتا ہوا چلا گیا۔ حضرت ابن عباس جلدی جلدی نماز سے فارغ ہوئے ۔ اور عکرمہ سے کہا اس شخص کو بلائو جب وہ آیا تو پہلے ہم سے پوچھا کیا تم نے قرآن سے فتویٰ دیا ہم نے کہا نہیں ۔ فرمایا حدیث سے دیا ؟ہم نے کہا نہیں فرمایا صحابہ کے اقوال سے ؟ ہم نے کہا نہیں پھر فرمایا آخر کس کے قول پر فتویٰ دیا؟ہم نے کہا اپنی رائے سے یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ولذلک یقول رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد، یعنی اس بناپررسول اﷲا نے فرمایا کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے ۔ پھر اس سائل سے پوچھا کہ پیشاب کے بعد جو چیزنکلتی ہے اس کے نکلنے کے وقت تمہارے دل میں شہوت یعنی عورت کی خواہش ہوتی ہے ؟ کہا نہیں پھر فرمایا عضو تناسل میں استرخاء یعنی ڈھیلا پن ہوتا ہے کہا نہیں ۔ فرمایا اس صورت میں تمہارے لئے وضو کافی ہے۔ انتہیٰ(کنز العمال ج۵ ص ۱۱۸)
علماء محققین نے لکھا ہے کہ ابن عباسؓ نے جب دیکھا کہ ماء دافق کے لفظ سے ان محدثین کو دھوکا ہوا اور صرف ظاہری معنی کا اعتبار کر کے انہوں نے فتویٰ دے دیا اور علت غسل پر غور نہیں کیا تو سمجھ گئے کہ ان میں کوئی فقیہ نہیں اگرفقیہ ہوتے تو علت غسل کی تشخیص ضرور کرتے پھر جب دیکھاکہ علت غسل یعنی خروج منی کے لوازم نہیں پائے جاتے اس لئے فتویٰ دیا کہ وہ منی نہیں ہے لہذا غسل بھی واجب نہیں اس سے ظاہر ہے کہ فقیہ کی جو تعریف و مدح حدیث میں وراد ہے اس کو اعلیٰ درجہ کی سمجھ اور موشگافیاں درکار ہیں اور مجاہد اور عطاء او رطائوس اور عکرمہ جیسے اکابر محدثین کو (جوتقریباً کل محدثین کے اساتذہ اور سلسلۂ شیوخ میں ہیں ) فقیہ نہیں سمجھا اس وجہ سے کہ انہوں نے علت کی تشخیص نہیں کی ۔ اور کمال افسوس سے فرمایا کہ اسیب ناء پر (کہ فقیہ اور سمجھ دار لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور فتویٰ کے لئے ظاہری نصوص کو کافی سمجھتے ہیں ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیہ کی تعریف کی کہ شیطان کے مقابلہ میں ایک فقیہ ہزار عابد سے بڑھ کر ہے ۔ اسلئے کہ شیطان کا مقصود اصلی یہی ہے کہ لوگوں سے خلاف شرع کام کرائے اور بچارے عابد کو عبادت میں اتنی فرصت کہاں کہ معانی نصوص اور مواقع اجتہاد میں غور خوض کر کے خود ایسا حکم دے کہ خدا اور رسول کے حکم کے مطابق ہو ۔ جسیے محدثین کو ضبط اسانیداور تحقیق رجال وغیرہ فنون حدیث کے اشتغال میں اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ تو خاص فقیہ کا کام ہے کہ ہر مسئلہ میں تمام آیات واحادیث متعلقہ کو پیش نظر رکھ کر اپنی طبیعت وقار سے کام لیتا رہے اور ان میں موشگافیاں کر کے کوشش کرتا ہے کہ شارع کی غرض کیا ہے ۔کسی نے خوب کہا ہے ۔’’ہر مردیو ہر کارے‘‘(حقیقہ الفقہ ج۱ ص ۹ مطبوعہ حیدرآباد)
(۲)علامہ ابن جوزی تبلیس ابلیس میں فرماتے ہیں : روی عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نھی ان یسقیٰ الرجل ماء ہ‘ زرع غیرہ فقال جماعۃ ممن حضر قد کنا اذا فضل ماء فی بسا تیننا سرحناہ الی جیراننا ونحن نستغفر اﷲ فما فھم القاری ولا السامع ولا شعر وان ان المراد وطی الحبالیٰ من البسایا ۔یعنی! بعض محدثین نے یہ روایت بیان کی کہ منع فرمایا رسول اﷲا نے اس بات سے کہ آدمی اپنے پانی سے دوسرے کے کھیت کو سیراب کرے حاضرین مجلس میں سے ایک جماعت نے کہا کہ بارہم کو ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب ہمارے باغ میں پانی زیادہ ہوگیا تو ہم نے اپنے پڑوسی کے باغ میں وہ پانی چھوڑ دیا اب ہم اپنے اس فعل سے استغفار کرتے ہیں …حالانکہ اس حدث کا مقصد یہ ہے کہ حاملہ لونڈیوں سے وطی نہ کی جائے مگر اس کو نہ شیخ نے سمجھا اور نہ حاضرین فمجلس کی نظر اس طرف گئی۔ یہ ہے عدم تفقہ کا ثمرہ(اتلبیس ابلیس ص۱۶۶)
(۳)علامہ ابن جوزی اپنی کتاب میں علامہ خطابی کا قول نقل کرتے ہیں ۔قال الخطابی وکان بعض مشائخنا یروی الحدیث عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم نھی عن الحق قبل الصلوٰۃ یوم الجمعۃ باسکان اللام قال واخبرنی انہ بقی اربعین سنۃ لا یحلق رأسہ قبل الصلوٰۃ قال فقلت لہ‘ انما ھو الہق جمع حلقۃ وانماکرہ الا جتماع قبل الصلوٰۃ للعلم والمذاکرۃ وامر ان یشتغل بالصلوٰۃ وینصت للخطبۃ فقال قد فرجت عنی ۔ یعنی !ایک شیخ نے یہ حدیث بیان کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ جمعہ کے روز نماز سے پہلے حجامت بنوائی جائے اور اس کے بعد کہا کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے میں نے چالیس ۴۰ سال سے کبھی جمعہ سے پہلے سر نہیں منڈایا ہے ۔علامہ خطابی کہتے ہیں ۔میں نے کہا حضرتحلق بسکون لا م نہیں بلکہ حلق بفتح لام وکسرحا ہے جوحلقۃ کی جمع ہے ۔اورحدیث کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ سے پہلے علم اور مذاکرہ کے حلقے درست نہیں اس لئے کہ یہ نماز پڑھنے اور خطبہ سننے کا وقت ہے یہ سن کر وہ شیخ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ تم نے مجھ پر بہت آسان کردی۔(تلبیس ابلیس ص۱۶۶)
(۴)ایک نرے محدث صاحب نے حدیث بیان کی ۔ نھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان یتخذ الروح عرضا اور حدیث کی یہ تشریح کی کہ رسول اﷲا نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ہوا کے لئے دریچہ (کھڑکی) کو عرضا ً بنایاجائے ۔ حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ومقصد نہیں ہے ۔ حدیث میں لفظ روح بضم الراء ہے اور محدث صاحب نے بفتح الراء سمجھا ۔ اور غرضاً کو عرضاً بعین مہملہ پڑھا اور مندرجہ بالا نتیجہ اخذ کیا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲا نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کسی جاندار (کو باندھ کر) تیر(و بندوق وغیرہ) کانشانہ بنایا جائے ۔یہ ہے فقہ فی الدین حاصل نہ ہونے کا ثمرہ۔(مقدمہ مسئلم شریف ص۱۸ج۱ نیز ج۲ ص ۱۵۳)
(۵)کشف بزدوی میں لکھا ہے کہ ایک محدث کی عادت تھی کہ استنجاء کے بعد وتر پڑھا کرتے تھے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو دلیل پیش فرمائی کہ حدیث شریف میں ہے من استجمر فلیو تر کہ جو شخص استنجاء کرے وہ اس کے بعد وتر پڑھے۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ استنجاء کے لئے جو ڈھیلے استعمال کئے جائیں وہ وتر(طاق عدد) ہوں ۔ یعنی تین یا پانچ یا سات۔
اسی بناء پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔نضر اﷲ عبداً سمع مقالتی وحفظھا ووعاھا وادا ھا فرب حامل فقہ غیر فقیہ ورب حامل فقہ الیٰ من ھو افقہ منہ ۔ الخ اﷲ ترو تازہ رکھے اس بندے کو جو میری حدیث سنے پھر اس کو یادرہے اور اس کی حفاظت کرے پھر دوسروں تک اس کو پہنچاوے اس لئے کہ بسا اوقات جس کو حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے ۔(مشکوٰۃ شریف ص۳۵)
(۶)غیر مقلدوں کے پیشوا علامہ دائو د ظاہری نے لا یبولن احدکم فی الماء الدائم (تم میں سے کوئی ٹھہیرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے) کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ ماء راکدمیں پیشاب کرناتو منع ہے اور پشاب کرنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا ۔لیکن اگر کسی الگ برتن میں پیشاب کر کے وہ برتن پانی میں الٹ دیا گیا ۔تو پانی ناپاک نہ ہوگا ۔اسی طرح اگر کوئی شخص پانی کے کنارے پیشاب کرے اور پیشاب بہہ کر پانی میں چلاجائے تب بھی پانی ناپاک نہ ہوگا۔ اس لئے کہ حدیث میں صرف ماء راکد میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے اور ان تینوں صورتوں میں ماء راکد میں پیشاب نہیں کیا لہذا پانی ناپاک نہ ہوگا۔امام نوویؒشارح مسلم شریف نے شرح مسلم میں علامہ دائود ظاہری کے اس فتویٰ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے ۔ھذہ من اقبح ما نقل عنہ فی الجمود علی الظاھر یہ فتویٰ دائود ظاہری کے ’’ جمود علی الظاہر ‘‘ کے غلط مسائل میں سے (ایک مسئلہ ) ہے ۔
(نووی شرح مسلم ج۱ ص ۱۳۹)(فضل الباری شرح البخاری ج۲ ص ۷۲) مطبوعہ پاکستان)
(۷)غیر مقلدین کے دوسرے پیشوا حافظ ابن حزم (جو بڑے محدث ، مفسر اور متکلم ہیں ) نے قرآن کی آیت واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ (اور جب تم زمین میں سفر کرو تواس میں کوئی گناہ نہ ہوگا کہ تم نماز میں قصر کرو ۔(سورۂ نساء پ۴) کے ظاہر کو دیکھ کر کہہ دیا کہ مدت سفر کوئی چیز نہیں اپنے گھر سے صرف ایک میل کے ارادے سے بھی جائے تو قصر کرے محلی میں اس مسئلہ پر بہت زور دیا ہے ان کو یہ خیال نہ ہوا کہ پھر جتنے لوگ مسجد میں جاکر نماز پڑھیں وہ سب ہی قصر کیا کریں کیونکہ صرف فی الارض صادق آگیا ، آیت میں تو ایک میل آدھ میل کی بھی کوئی تحدید نہیں ۔(فضل الباری شرح بخاری ج۲ ص ۷۳ مطبوعہ پاکستان)
(۸)زمانۂ حال کے غیر مقلدین کے شیخ الا سلام اور محدث مولانا عبدالجلیل سامرودی صاحب اپنے ایک رسالہ ’’ اظہار حقیقت از آئنہ حقیقت‘‘ میں در مختار و شامی کا حوالہ دے کر رقم طراز ہیں واحناف کے نزدیک چویا یہ سی روزہ کی حالت میں وطی (صحبت) کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، انزال ہویا نہ ہو ، بلکہ غسل بھی نہیں آتا۔ درمختار میں ہے ۔ اذا ادخل ذکرہ‘ فی بھیمۃ ٍ او میتۃٍ من غیر انزال ج۲ ص ۲۰۳ مصری قدیم،نقل فی البحر وکذا الزیلعی وغیرہ الا جماع علیٰ عدم الفساد مع انزال (ص۱۶)
درمختار و شامی کی عبارت کا مفہوم سمجھے بغیر ہی لکھ دیا گیا ۔(۱) روزہ نہیں ٹوٹتا (۲)انزال ہو یا نہ ہو (۳)بلکہ غسل بھی نہیں آتا۔حالانکہ مذکورہ تینوں دعویٰ بالکل غلط اور جہالت وکج فہمی کا واضح ثبوت ہیں ۔درمختار و شامی کی عبارت کا سرے سے یہ مطلب ہے ہی نہیں ۔ اس لئے مسئلہ کی مکمل تفصیل اور وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو ۔فتاویٰ رحیمیہ ج ۲ ص ۲۰)اردو غیر مقلدوں کے شیخ الا سلام جب درمختار وشامی کی آسان عبارت سمجھنے سے قاصر ہیں تو قرآن و حدیث و تفسیر کیا سمجھیں گے؟ ان کے شیخ الا سلام، علامہ او ر محدث کی یہ حالت ہے تو دوسروں کی کیا حالت ہوگی ؟
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
ایک لطیفہ یاد آگیا ۔ ایک نیم فارسی داں نے ایک مرتبہ اپنے ایک دوست کو دشمن کے ہاتھ پیٹتے ہوئے دیکھ اتو آگے بڑھ کر اپنے دوست کو دونوں ہاتھ پکڑ لئے جس کی وجہ سے وہ اپنا بچائوں نہ کر سکا اور دشمن نے موقع غنیمت سمجھ کر اتنا ماراکہ حالت خراب ہوگئی ایک شخص نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا ارے تو نے یہ کیا بیہودہ حرکت کی کہ دوست کے ہاتھ پکڑ کر اس کو خوب پٹوایا۔ اس نیم فارسی خاں نے کہا کیا آپ نے گلستان میں شیخ سعدی کی نصیحت نہیں پڑھی۔
دوست آنست کہ گیردوست دوست
درپر یشاں حالی و در ماند گی!
کہ سچا دوست وہ ہے جو دوست کو تکلیف اور پریشانی میں دیکھے تو اس کے ہاتھ پکڑ لے اس لئے اس وقت میں نے دوست کے ہاتھ پکڑ لئے ، اس شخص نے کہا (خدا تجھ پر رحم کرے) اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جب دوست کو تکلیف اور پیشانی میں دیکھے تو اس کی مدد کرے اور اس کو تکلیف سے نجات دلائے نہ کہ اس کے ہاتھ پکڑ کر خوب پٹوائے۔اور جیسے کہ مرزا مظہر جان جاناں ؒ نے اپنے خادم کو حکم فرمایا کہ پانی کی صراحی اٹھالائو مگر پیٹ پکڑ کر (ان کی مراد تو یہ تھی کہ صراحی کی پیٹ پکڑ کر لانا ، گردن پکڑ کرنہ لانا ۔ اس میں احتمال ہے کہ گردن علیٰحدہ ہوجائے اور ٹوٹ جائے )مگر نا سمجھ خادم نے یہ کیا کہ ایک ہاتھ سے تو صراحی کی گردن پکڑ کر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے اپنا پیٹ پکڑا۔ مرزا صاحبؒ نے اس نامعقول حرکت کو دیکھا تو ان کے سر میں درد ہوگیا کیونکہ بہت ہی لطیف الطبع اورنازک مزاج تھے۔ یہ ہے کلام کی ظاہری سطح پر عمل کرنے اور فہم ورائے سے کام نہ لینے کی آفت ، یہی حالت اس زمانہ کے اہل حدیث (غیر مقلدین ) کی ہے علم میں ناقص ،فہم دین سے کورے ، اور تفقہ فی الدین کی نعمت عظمیٰ سے محروم،ان نقائص کے ہوتے ہوئے الٹی سیدھی چند حدیثیں یاد کر کے ’’ ہمہ داری اور مجتہد‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر سلف صالحین، ائمہ دین اور حضرات مجتہدین امام ابو حنیفہؒ وغیرہ کو قرآن و حدیث سے ناواقف، قرآن و حدیث  کے مقابلہ میں اپنی رائے پر عمل کرنے والا کہتے ہیں ۔ اور مطلقاً رائے اور اجتہاد کی مذمت کرتے ہیں ۔ حالانکہ رائے کی دوقسمیں ہیں ایک وہ رائے ہے جو نص کے مقابلہ میں ہو ۔ جیسا کہ ابلیس کی رائے تھی ۔ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین(اعراف پ ۸ آیت نمبر ۱۲) آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس (یعنی آدمؑ) کو مٹی سے آگ افضل ہے اور اس کا اٹھائو طبعاً علو یعنی بلندی کی طرف ہوتا ہے! اور مٹی مفضول ہے اور اس کا جھکائو طبعاً بجانب سفل (نیچے) ہے تو افضل وعالی مفضول و سافل کو کیوں سجدہ کرے گا ۔ یہ ابلیس کی رائے تھی جو اﷲ کے حکم کے مقابلہ میں تھی یہ تو بلاشک وشبہ مذموم اور خام ہے۔اور ایک رائے وہ ہی جو نص کے مقابلہ میں نہیں بلکہ نص کا مطلب وہ مراد واضح کرنے کے لئے استعمال کی جائے یہ مذموم نہیں بلکہ محمود ہے چنانچہ بنی قریظہ کے واقعہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔لا یصلین احدکم العصرالا فی بنی قریظۃ۔ تم میں سے کوئی شخص نماز عصر بنی قریظہ کے علاوہ کہیں نہ پڑھے۔ راستہ میں جب صحابہ ؓ نے دیکھا کہ وہاں جاتے جاتے عصر کا وقت نکل جائے گا ۔ تو صحابہ میں دو جماعتیں ہوگئیں ۔ا یک جماعت نے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہوئے راستہ میں عصر کی نماز پڑھنے سے انکار کر دیا اور وہیں پہنچ کر نماز عصر ادا کی۔ اور دوسری جماعت نے کہاکہ حضور اکرم ا کا اصلی مقصود یہ ہی کہ جہاں تک ہوسکے اس قدر عجلت سے جائو کہ عصر کی نماز ادا کرنے کی نوبت منزل مقصود پر پہنچ کر آئے۔ یہ مقصد نہیں کہ بہر صورت نماز وہیں پہنچ کر پڑھو چاہے نماز قضاء ہوجائے۔ یہ اجتہاد کیا اور راستہ ہی میں نماز پڑھ لی۔ بعد میں حضور اکرم کی خدمت اقدس میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر ملامت نہیں فرمائی۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جماعت نے اپنی رائے پر عمل کیا یہ رائے نص کے خلاف اور مقابلہ میں نہیں تھی۔ بلکہ نص کے مطلب و مراد کو واضح کرنے کے لئے استعمال ہوئی تھی ۔ اس لئے مذموم قرار نہیں پائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر نکیر نہیں فرمائی اور بقول ------علامہ ابن قیمؒ یہ جماعت فقہاء کی تھی ۔
دین کا مدار دو چیزوں پر ہے:
دین کا مدار دو چیزوں پر ہے ایک نقل صحیح (روایت اور ایک فہم صحیح(روایت) لہذا ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جو شریعت(یعنی کتاب و سنت )کے الفاظ کی محافظ ہوا اور پھر وہ الفاظ حضرات فقہاء کو پہنچا دے۔ یہ جماعت محدثین کی ہے اور ایک ایسی جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے جو شریعت کے اصول و فروع کلمات و جزئیات غرض و مقاصد کی توضیح و تشریح کرے اور خدا ورسول ا کے کلام کی صحیح صحیح مراد امت کو سمجھادے۔یہ جماعت فقہاء اور مجتہدین کی ہے(دور صحابہ میں بھی یہ دو جماعتیں تھیں غیر مقلدین کے محقق علامہ ابن قیم جوزی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔
تبلیغ کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک تبلیغ الفاظ کی ۔اور ایک تبلیغ معنی و مراد کی ، اسی وجہ سے علماء امت دو قسموں میں منقسم ہوگئے۔ ایک قسم حفاظ حدیث کی کہ جنہوں نے الفاظ حدیث کو یاد کیا اور ان کو پرکھا صحیح اور موضوع الگ الگ کر کے بتلایا یہ حضرات امت کے امام اور مقتدا ہیں او ر اسلام کی سواری ہیں ان بزرگوں نے دین کی یاد گاروں اور اسلام کے قلعوں کی حفاظت کی اور شریعت کی نہرو کو خراب و برباد ہونے سے محفوظ رکھا۔ دوسری قسم فقہاء اسلام اور اصحاب فتاویٰ کی ہے۔(ان ہی کی فتاویٰ پر امت کا دارو مدار ہے ) یہی جماعت اجتہاد اور استنباط، حلال وحرام کے قواعد ضبط کرنے کے لئے مخصوص ہے ۔ حضرات فقہاء زمین میں ایسے ہیں جیسے کہ آسمان میں روشن ستارے، انہی کے ذریعہ تاریک رات میں بھٹکے ہوئوں کو راستہ ملتا ہے اور انہی کے ذریعہ الجھے ہوئے مسائل سلجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لوگوں کو ان حضرات کی اپنی ضروریات زندگی سے زیادہ ضرورت ہے ۔ اور لوگوں پر فقہاء کی فرمانبرداری والدین کی فرمانبرداری سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد خداوندی ہے ۔ یآایھا الذین امنوا اطیعوا اﷲ واطیعو االرسول واولی الامر منکم۔ اے ایمان والوں خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کر و اور اولوالا مر (فقہاء کرام وغیرہ ) کی اطاعت کرو یعنی قرآن و سنت کا جو مطلب ومراد وہ حضرات بیان کریں اس پر عمل کرو ۔(اعلام الموقعین ج۱ ص۹)
تفقہ فی الدین اﷲ عزوجل کی نعمت عظمیٰ ہے اﷲ تعالیٰ اس نعمت سے اپنے مخصوص محبو ب بندوں ہی کو نوازتا ہے حضور اقدس ا کا فرمان ہے ۔ من یرد اﷲ بہ خیر ایفقھہ فی الدین۔ خدا تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے ا س کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے ۔(مشکوٰۃ شریف ص ۳۲) فرمان خدا وندی ہے ۔ یؤت الحکمۃ من یشآء ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا ً کثیراً دین کا فہم (یعنی علم فقہ و تفقہ فی الدین ) جس کو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں اور (سچ تو یہ ہے کہ) جس کو دین کا فہم مل جاوے ۔ اس کو بڑے خیر کی چیز مل گئی۔
(ترجمۂ بیان القرآن پ ۳ سورۂ آل عمران) تفسیرات احمد یہ ص ۱۱۸)۔
جس کو یہ نعمت (دین کا فہم و تفقہ فی الدین ) حاصل ہوتی ہے وہ صحیح طریقہ پر لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے اور لوگوں کے الجھے ہوئے مسائل سلجھاتا ہے ۔ اور امت کو شیطانی پھندوں اور چالبازیوں سے بچا کر راہ راست پر لے چلتا ہے اسی بنا پر شیطان فقیہ سے بہت گھبراتا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ۔ فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد ایک فقہیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔(مشکوٰۃ شریف ص ۳۴)غیر مقلدین جو کہ تفقہ فی الدین کی نعمت سے محروم ہیں وہ بھی فقیہ سے خوف کرتے ہیں اور اس کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اور فقہ و فقیہہ کو نیست و نابود کرنے کی تمنا کرتے ہیں ۔ غیرمقلدوں کے شیخ الا سلام مولانا عبدالجلیل سامرودی صاحب ’’ بوئے غلین ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’اگر دنیا میں اصول فقہ اور فقہ کا وجود نہ ہوتا تو آج کی دن کسی آر یہ سماج و دیگر مذاہب نکلنے سے پیشتر کبھی فرقہ بندی نہیں ہوتی ’’ اور لکھتے ہیں ‘‘ اگر آپ لوگوں کو خدا کی طرف داری کرنا ہے تو تمامی کتب مذاہب سے دست برادار ہوجائو ‘‘ اور لکھتے ہیں ’’ کوئی بادشاہ ہوعادل و عامل کتاب وسنت پر پھر وہ تمامی کتب فقہ و دیگر مذاہب کی کتابیں حضرت عمر فاروقؓ کی طرح ایک خندق کھود کر دفن کر دے یا جلا دے تب تو اشاعت کتاب و سنت کی خوب ہی ہوسکتی ہے ‘‘ یہ دشمنی کا سبب علم فقہ کی قدرو قیمت سے نا واقفیت ہے مشہور ہے ۔والجاھل لا ھل العلم اعداء جہلاء علماء کے دشمن ہوتے ہیں ۔ حالانکہ فقہ اور فقیہ کی حدیث میں بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔حدیث(۱) لکل شیئی عماد و عماد ھذا الدین الفقہ، ہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ ہے ۔(بیہقی، دارقطنی)فتاوی سراجیہ ص۱۵۸) کتاب الفوائد)
(۲)عن ابی ھریرۃر ضی اﷲ عنہ الناس معادن کمعا دن الذھب والفضۃ خیارھم فی الجاھلیۃ خیارھم فی الا سلام اذا فقھوا روہ مسلم (مشکوٰۃ شریف ص ۳۲)لوگ سونے چاندی کے کان کی طرح ہیں ۔جو لوگ زمانہ ٔ جاہلیت میں کریم الا خلاق ہونے کی وجہ سے مقتدا، پیشوا اور اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں جب کہ فقہ فی الدین حاصل کریں ۔(یعنی احکام کو علیٰ وجہ البصیرت جانتے ہوں اور فروعات کے استنباط کی قوت رکھتے ہوں ۔
ایک اور حدیث میں ہے عن معاویۃ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ من یرد اﷲ بہ خیراً یفقھہ فی الدین متفق علیہ۔حضرت معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول خدا ا نے کہ جس کے ساتھ خدائے پاک خیرکا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں فقاہت نصیب کرتاہے ۔ یعنی اس کو فقیہ فی الدین بناتا ہے ۔ روایت کی اس کو بخاری و مسلم نے(بحوالہ مشکوٰۃ ص ۳۲)کتاب العلم۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان ہے ۔ انما مثل الفقھاء کمثل الاکف۔ بے شک فقہاء کی مثال ہتھیلی کے مانند ہے ۔ یعنی جس طرح انسان ہتھیلی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح لوگ فقہ اور فقیہ کے محتاج ہیں ۔ (مفید المفتی ص۹)
اور ایک حدیث میں ہے ۔مجلس فقہ خیر من عبادۃ ستین سنۃً،فقہ کی ایک مجلس (یافقہ کے درس میں شریک ہونا)ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے رواہ الطبرانی فی معجم الکبیر،
فقیہ فی الدین کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ایک خاص موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے لئے دعا فرمائی ۔اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل ، اے اﷲ ابن عباس کو دین کی سمجھ اور علم تفسیر عطا فرماط۔(ترجمان السنۃ ۴ ص ۲۵۸)
فہم حدیث فقہاء کا حصہ ہے یہ نرے محدث کا کام نہیں بلکہ بسا اوقات تفقہ کے حصول کے بغیر نری حدیث دانی فتنہ اور بڑی سے بڑی غلطی میں واقع ہونے کا سبب ہوجاتا ہے جس کی چند مثالیں اوپر ملاحطہ فرما چکے ہیں ۔امام مسلمؒ اپنی شہرئہ آفاق کتاب صحیح مسلم شریف میں حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ماانت بمحدث قوماً حدیثاً لا تبلغہ عقولھم الا کان لبعضھم فتنۃ۔ جب تم لوگوں سے ایسی حدیث بیان کرو گے کہ جس کی مراد تک ان کے عقل و فہم کی رسائی نہ ہوسکے تو یہ حدیث بعض لوگوں کے لئے ضرور فتنہ کا سبب بنے گی۔
(مسلم شریف ص۶ ج۱ مقدمہ کتاب المسلم)
امام ترمذی رحمہ اﷲ ،ترمذی شریف میں فیصلہ فرماتے ہیں وکذا لک قال الفقھاء وھم اعلم بمعانی الحدیث، اسی طرح فقہاء رحمہم اﷲ نے فرمایا ہے اور وہی حضرات حدیث کی مراد اور مقصد سب سے بہتر سمجھنے والے ہیں ۔
(ترمذی شریف ص ۱۱۸ج۱)
امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاریؒ اور امام مسلم ؒ کے استاذ امام سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں ۔ الحدیث مضلۃ الا للفقھاء (تفقہ فی الدین کے بغیر ) حدیث گمراہ کرنے والی ہے سوائے فقہاء کے یعنی جس کوفقہ فی الدین حاصل نہیں ۔ وہ حدیث کی صحیح مراد تک نہ پہنچ سکے گا ۔ اور اپنی ناقص رائے سے الٹا سیدھا مطلب ا خد کرے گا اور گمراہ ہوگا ۔ دیکھئے شیعہ، روافض، خوارج ، معتزلہ، قادیانی اور دیگر فرق باطلہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں مگر گمراہ ہوتے ہیں ۔
امیر المؤمنین حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے حضور اقدس ا کی خدمت اقدس میں عرض کیا اگر کوئی حادثہ پیش آجائے اور اس کا صریح حکم نہ ملے تو میں کیا کروں ؟آن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔شاوروا الفقہاء العابدین ولا تمضوافیہ رأی خاصۃ رواہ البطرانی فی معجمہ الا وسط ۔ورجالہ موثقون من اھل الصحیح معارف السنن شرح ترمذی للشیخ محمد یوسف بنوریؒ (ج۳ ص ۲۶۵) یعنی! جماعت فقہاء اور جماعت عابدین(جن کو کمال ولایت او رنظر کشف وشہود سے اجتہاد کا مرتبہ حاصل ہوا سے مشورہ کرو ۔
حاصل کلام یہ کہ فقہاء کی رہبری کے بغیر اور ان کے مسلک کے خلاف جو قدم اٹھے گا وہ غلط ہی ہوگا اسی بناء پرغیر مقلدین تراویح کی بیس ۲۰ رکعت اور طلاق ثلثہ کے سلسلہ میں ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔
قرآن پاک میں بھی تفقہ فی الدین کے حصول کا امر ہے ۔ فلو لا نفرمن کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھو ا فی الدین۔ سوایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہربڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت ۔(جہاد میں ) جایا کرے تاکہ(یہ) باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں (سورئہ توبہ پ۱۱)
اورحدیث میں ہے ۔ عن ابی سعید الخدریؓ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان الناس لکم تبع وان رجالا یا تونکم من اقطار الارض یتفقھون فی الدین فاذا اتو ھم فاستو صوابھم خیرا ۔ (رواہ الترمذی) ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اے میرے صحابہ !) لوگ تمہارے تابع ہیں ۔ دور درازے سے تمہارے پاس تفقہ فی الدین حاصل کرنے کے لئے آئیں گے ۔ جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ نرمی، محبت اور بھلائی کے ساتھ پیش آنا۔یہ میری تم کو وصیت ہے ۔(مشکوٰۃ شریف ص۳۴ کتاب العلم، فصل ثانی)
بہت ہی سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ نبی کریم ا ان لوگوں کے نرمی، بھلائی اور محبت کا معاملہ کرنے کی صحابہ کو وصیت فرمارہے ہیں ۔ جو فقہ فی الدین کے حصول کے لئے آئیں اور غیر مقلدین فقہ اور فقیہہ سے اظہار نفرت کرتے ہیں اور کتب فقہ کو جلا دینے اور دفن کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ معاذ اﷲ ۔ حالانکہ جو حقیقی محدث ہوگا۔ اس کی شان یہ ہوگی کہ وہ فقیہہ کا احترام اور ا س کی قدر کرے گا ۔ اور ا س کے ساتھ محبت رکھے گا ۔ اس کے بھی ایک دونمونے ملاحظہ ہوں ۔
(۱)امام اعمش رحمہ اﷲ جو مشہور محدث ہیں ۔ اورجلیل القدر محدثین جیسے امام شعبہ امام سفیان ثوری، امام سفیان بن عیینہ۔ امام ابو حنیفہ ؒ وغیرہ کے استاذ اور شیخ ہیں ۔اتفاق سے امام اعمش ؒ کی خدمت میں کوئی اہم مسئلہ پیش کیا گیا ۔آپ نے بلا کسی خفت اور جھجک کے فرمایا ۔ انما یحسن جواب ھذا النعمان بن ثابت واظنہ، انہ، بورک فی العلم ۔ اس مسئلہ کا جواب امام ابو حنیفہؒ اچھی طرح دے سکتے ہیں اور میرا گمان یہ ہے کہ ان کے علم میں خدا د ادبرکت ہے (الخیرات الحسان (۳۱)
(۲)امام اعمشؒ کا ایک اور واقعہ ہے : عبداﷲ بن عمرو کا بیان ہے کہ میں امام اعمش کی مجلس میں تھا، اس مجلس میں امام ابو حنیفہؒ بھی تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے امام اعمش سے مسئلہ دریافت کیا آپ ساکت و خاموش رہے۔ پھر امام ابو حنیفہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور فرمایا اس مسئلہ کا کیا جواب ہے ؟ آپ نے اس کا تسلی بخش جواب دیا ۔ امام اعمشؒ نے تعجب سے پوچھا آپ نے یہ مسئلہ کس حدیث سے مستنبط کیا ؟ جواب میں ارشاد فرمایا اس حدیث سے جو آپ نے مجھے اپنی سند سے بیان کی تھی، اس حدیث سے یہ مسئلہ اس طرح مستبط ہوتا ہے۔ امام اعمش ؒ یہ سن کر بے ساختہ بول اٹھے۔ نحن الصیاد لۃ وانتم الا طباء ، ہم(محدثین کی جماعت) عطار یعنی دوا فروش ہیں اور تم (یعنی قہاء ) طبیب ہو۔ ہم صرف حدیث یاد کرلیتے ہیں ۔صحیح وضعیف کو پہنچانتے ہیں ۔ لیکن ان احادیث سے احکام مستنبط کرنا تو یہ تمہارا (یعنی فقہاء کا )کام ہے ۔ جس طرح عطار ہر قسم کی دوائیں اور جڑی بوٹیاں جمع کرتا ہے ۔ اصلی و نقلی کو پہچانتا ہے ۔ لیکن دوائوں کی کیا خاصیت ہے ان کے کیا کیا فائدے ہیں ۔ طریقۂ استعمال کیا ہے یہ سب باتیں اطباء جانتے ہیں نہ کہ عطار، اسی طرح محدثین احادیث یاد کر لیتے ہیں لیکن استنباط احکام فقہاء کرتے ہیں ۔پس جو فرق اطباء اور عطار میں ہے وہی فرق محدثین اور فقہاء میں ہے ۔(کتاب جامع بیان العلم و فضلہ ج۱ ص ۱۳۱)(الخیرات الحسان ص۶۱)
(۳)ایسا ہی ایک اور واقعہ ہے ۔امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام اعمش نے تنہائی میں مجھ سے ایک مسئلہ دریافت فرمایا۔میں نے جواب دے دیا ۔خوش ہو کر کہنے لگے من این قلت ھذا یا یعقوب؟ اے یعقوب(یہ امام ابو یوسف کا نام ہے ) یہ مسئلہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا ؟ میں نے کہا بالحدیث الذی حدثتنی انت ثم حدثتہ‘۔ اس حدیث سے جو آپ نے مجھے بیان کی تھی پھر میں نے وہ حدیث ان کو سنائی فقال لی یا یعقوب انی لا حفظ ھذا الحدیث من قبل ان یجمع ابواک ما عرفت تاویلہ الی الا ن کہنے لگے۔ اے یعقوب! یہ حدیث مجھے اس وقت سے یاد ہے جب کہ تمہارے والدین یکجا جمع بھی نہ ہوئے تھے ۔ لیکن آج ہی اس حدیث کی مراد معلوم ہوئی ۔
(کتاب جامع بیان العلم و فضلہ ص۱۳۱)(العلم والعماء ص ۲۲۵)
امام اعمش سے بھی بلند درجہ کے محدث امام عامر شعبی ؒ (جو جلیل القدر تابعی ہیں اور جنہیں پانچ سو صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل ہے ) فرماتے ہیں ۔ انا لسنا بالفقھاء و لکننا سمعنا الحدیث فروینا ہ للفقہاء۔ ہم (یعنی محدثین کی جماعت) فقیہ و مجتہد نہیں ہیں ہم تو احادیث سنتے ہیں (اور یاد کرلیتے ہیں )پھر فقہاء سے بیان کر دیتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ)آپ نے غور فرمایا۔ محدثین کی یہ شان ہوتی ہے وہ فقہاء کے فضل کا بے تکلف اعتراف کرتے ہیں اور بوقت ضرورت ان کی طرف رجوع بھی کرتے ہیں ۔لیکن اس زمانہ کے ’’ اہل حدیث‘‘ جو عربی سے نابلد، فہم و بصیرت سے کو سوں دور،مشکوٰۃ شریف مؤطا امام مالکؒوغیرہ کتب احادیث کا اردو ترجمہ دیکھ کر حدیث دانی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ائمۂ ھدیٰ کو قرآن و حدیث کے خلاف عمل کرنے والا کہتے ہیں اپنے آپ کو ان سے افضل اور بڑا محدث سمجھتے ہیں انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اسی موقع کے لئے شاعر نے خوب کہا ہے ۔شعر
انقلاب چمن دہر کی دیکھی تکمیل
آج قارون بھی کہہ دیتا ہے حاتم کو بخیل
بوحنیفہ کو کہے طفیل دبستان جاہل
مہ تاباں کو دکھانے لگی مشعل قندیل
حسن یوسف میں بتانے لگا آبرص سو عیب
لگ گئے چیونٹی کو پر کہنے لگی ہیچ ہے فیل
شرک ، توحید کو کہنے لگے اہل تثلیث
لوح محفوظ کو کہتی ہے محرف انجیل
سادی موسیٰ عمران کو کہے جادوگر
شیخ کی کرتے ہیں اسکول کے بچے تجہیل
اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں !
طوق زریں ہے گدھے کے لئے عزت کی دلیل
غیر مقلدین کے اس تعصب وجہالت کا اعتراف ان کے مقتدابھی کرتے ہیں چنانچہ ان کے ایک پیشوا قاضی عبدالوہاب خانپوری اپنی کتاب ’’ التوحید والسنۃ فی رد اھل الا لحاد والبدعۃ‘‘ ص ۲۶۲ پرتحریر فرماتے ہیں :۔’’ پس اس زمانہ کے جھوٹے اہل حدیث، مبتدعین ،مخالفین سلف صالحین جو حقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ مفت میں شیعہ وروافض کے وارث و خلیفہ بنے ہوئے ہیں ، جس طرح شیعہ ، ملحدو زنادقہ نیز منافقین کی حمایت کے لئے باب ودہلیز اور مدخل رہے ا ن کا (غیر مقلدین کا ) حال بھی بالکل اہل تشیع جیسا ہے ‘‘(بحوالہ تقلید ائمہ ص ۱۸)
اسی طرح مشہور اہل حدیث مولانا وحید الزم تحریر فرماتے ہیں :۔ اہل حدیث گو امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعی ؒ کی تقلید کو حرام کہتے ہیں ۔ لیکن ابن تیمیہ، ابن قیم ، شوکانی ، نواب صدیق صاحب کی اندھا دھند تقلیدکرے ہیں (اسرار اللغۃ ص ۲۴ پارہ ہشتم)
اس صورت حال میں ہمارے غیر مقلدین بھائیوں کے لئے مناسب یہی ہے کہ خواہشات نفسانی پر عمل ترک کر کے ائمۂ مجتہدین کی تقلید کریں ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں :۔ خانہ ٔ دین ایں چہار ست دہرکہ راہے ازیں راہہائے ودرے ازیں درہائے اختیار نمودہ براہ دیگر رفتن ودردیگر گرفتن عبث ویادہ باشد‘‘ یعنی : دین کے گھر چار ہیں (یعنی مذاہب اربعہ ) جو شخص ان راستوں کے علاوہ کسی اور راستہ کو اور ان دروازوں کے سوا کسی اور دروازے کو اختیار کر ے گاتو وہ بے کار اور عبث کام ہوگا۔(شرح سفر السعادت ص ۲۱)
حضرت شاہ ولی اﷲمحدث دہلویؒ فرماتے ہیں :۔’’ بالجملہ ایں چہار امام اندکہ عالم راعلم ایشاں احاطہ کردہ است امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ، ‘‘ یعنی یہ چار امام ایسے ہیں کہ ان کا علم سارے عالم کو گھیر ے ہوئے ہے۔اور وہ امام ابو حنیفہ، امام مالک ؒ، اما م شافعی اور امام احمد رحمہم اﷲ ہیں ۔(شرح مؤطا ص۶)
شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ ائمۂ اربعہ کے متعلق فرماتے ہیں ۔
آں امامان کہ کردند اجتہاد
رحمت حق بر روان جملہ باد،
بوحنیفہؒ بد امام با صفا
آں سراج امتان مصطفیٰ
باد فضل حق قرین جان او
شاد باد ارواح شاگردان او
صاحبش بو یوسفؒ قاضی شدہ
وز محمدؒ ذوالمنن راضی شدہ
شافعی ، ادریسؒ ، مالک ؒ با زفرؒ
یافت ذیشان دین احمد زیب و فر
احمد حنبلؒ کہ بود او مرد حق،
درہمہ چیز از ہمہ بردہ سبق
روح شاہ در صدر جنت شاد باد،
قصری دین از علم شاں آباد باد‘‘
مندرجہ بالا فاری اشعار کا کسی شاعر نے مندرجہ ذیل اشعار میں ترجمہ کیا ہے ۔
مجتہد دین کے جو گذرے ہیں امام روح پر سب کے ہو رحمت صبح و شام
بوحنیفہؒ تھے امام با صفا
شمع جملہ امتان مصطفیٰ
جان پر اس کی خدا کا فضل ہو
خوش کر لے حق اس کے ہر شاگرد کو،
یوسفؒ اس کا ہمنشین قاضی ہوا،
اور محمدؒ سے خدا راضی ہوا ،
تھے زفرؒ ، مالکؒ ، ۱مام شافعیؒ
جن سے زینت دین احمد ﷺ کو ملی!
احمد حنبلؒ کہ تھے وہ مرد حق
لے گئے ہر علم میں سب سے سبق
روح ان سب کی جناں میں شاد ہو
علم سے ان کے ، دین کا محل آباد ہو (پند نامہ)
فتاوی رحیمیہ جلد1

6 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ہاں عبارت میں بد ترین خیانت کی گئی ہے شعبی رحمہ اللہ کا قول کسی اور سیاق میں تھا جسے اپنے تقلیدی سیاق میں لانے کے لیئے "لام" کا اضافہ کیا اور آگے کی عبارت بھی حذف کردی جس سے معنی کچھ کا کچھ ہوگیا۔
    میری گزارش ہے اللہ کے لیے توبہ کریں۔۔۔۔
    لکھا ہے :"محدث امام عامر شعبی ؒ (جو جلیل القدر تابعی ہیں اور جنہیں پانچ سو صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل ہے ) فرماتے ہیں ۔ انا لسنا بالفقھاء و لکننا سمعنا الحدیث فروینا ہ للفقہاء۔ ہم (یعنی محدثین کی جماعت) فقیہ و مجتہد نہیں ہیں ہم تو احادیث سنتے ہیں (اور یاد کرلیتے ہیں )پھر فقہاء سے بیان کر دیتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ)"
    جبکہ وہاں عبارت یہ ہے" انا لسنا بالفقهاء ولكنا سمعنا الحديث فرويناه, الفقهاء من إذا علم عمل"
    ص66 ج1۔
    ذہبی رحمہ اللہ نے سیر میں اسے یوں نقل کیا ہے" إنا لسنا بالفقهاء، ولكنا سمعنا الحديث فرويناه، ولكن الفقهاء من إذا علم، عمل"
    خطیب بغدادی نے اقتضاء العلم العمل ص79 میں اور ابن عساکر ج25 ص368 میں تذکرہ والی سند سے ہے
    قَالَ الشَّعْبِيُّ،: «إِنَّا لَسْنَا بِالْفُقَهَاءِ، وَلَكِنَّا سَمِعْنَا الْحَدِيثَ فَرَوَيْنَاهُ، وَلَكِنَّ الْفُقَهَاءَ مَنْ إِذَا عَلِمَ عَمِلَ»
    تاریخ دمشق میں لیث سے شعبی کا ایک قول یوں مروی ہے "فقال الشعبي يا معشر العلماء يا معشر الفقهاء لسنا بفقهاء ولا علماء ولكنا قوم قد سمعنا حديثا فنحن نحدثكم بما سمعنا إنما الفقيه من ورع عن محارم الله عز وجل والعالم من خاف الله"
    اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :"ہم فقہاء تھوڑی ہیں بلکہ ہم نے حديث سنی تو اسے ہم نے روایت کردیا بلکہ فقھاء تو وہ ہیں جس نے جانا تو عمل کیا"
    سبحان اللہ کیا علم کی عاجزی اللہ نے عطا فرمائی ہے دوسرے قول میں تو کہتے ہیں کہ "ہم نہ تو فقھاء ہیں نہ علماء ۔۔۔۔۔۔ اور عالم تو وہ ہے جو اللہ سے ڈرا "
    ابو داود 3660 ترمذي ابن ماجه كى صحيح حديث میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے :"عن زيد بن ثابت، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «نضر الله امرأ سمع منا حديثا، فحفظه حتى يبلغه، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ورب حامل فقه ليس بفقيه»
    سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ (آباد و شاد ) رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بسا اوقات حامل فقہ (فقہ کو) اپنے سے زیادہ سمجھدار تك( پہنچا دیتا ) ہے, اور بسا اوقات فقہ کا اٹھانے والا فقیہ نہیں ہوتا“۔
    اب چند نکات ملاحظہ ہوں,
    ۱۔ حدیث سے پتہ چلا کہ حدیث ہی فقہ ہے۔
    ۲۔ حدیث والے دو طرح کے ہیں جن کے پاس اس فقہ /حدیث کی سمجھ ہے اور جس کے پاس حدیث کی سمجھ نہیں ۔ حاملین فقہ صرف دو ہی گروہ ہیں ۔
    ۳۔ تیسرا ایسا کوئی گروہ نہیں جس کے پاس فقہ یعنی حدیث تو نہ ہو مگر ہو وہ فقیہ۔
    اللہ ایسی سینہ زوری سے بچائے ۔
    ۴۔ جن لوگوں کے پاس فقہ یعنی حدیث کی سمجھ ہے ان میں فہم کا تفاوت ممکن ہے البتہ اصل قابل عنایت شہ حدیث ہے, نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث جو کے دین کی فقہ ہیں۔
    ۵جس شخص کے پاس احادیث کا علم نہ ہو وہ ہرگز دین کا فقیہ نہیں ہوسکتا۔ واللہ تعالی اعلم۔
    اب شعبی کےقول سے متعلق کچھ بات رکھتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بو نعیم رحمہ اللہ نے اس سے شعبی کی عالمانہ عاجزی اور فضل ظاہر کیا کیونکہ ان کہ ترجمہ کے شروع میں انہیں لقب دیتے ہیں "الفقیہ القوي" اور ابو مجلز کا قول نقل کرتے ہیں عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ قَالَ: «§مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْقَهَ مِنَ الشَّعْبِيِّ»
    اسی طرح ذہبی نے سیر میں انہیں علامة العصر کہا ابو حصین کا قول ذکر کیا عَنْ أَبِي حَصِيْنٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَداً قَطُّ كَانَ أَفْقَهَ مِنَ الشَّعْبِيِّ
    اسی طرح خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب "علم کا تقاضہ عمل ہے" میں ذکر کیا اور عنوان قائم کیا "عبادت کے سوا (قیل وقال) کے لیے تفقہ کی مذمت "
    یہ ہمارے کبار محدثین کا بحمد اللہ فہم عالی ہے اور ایک مفتی عبد الرحیم صاحب کا خسیس استدلال جو کے ان کے تقلید سے متاثرہ علیل فہم کا عکاس ہے۔ مقصود جگ ہنسائی نہیں اعاذنا اللہ منہ صرف ایک شق کی روشنی میں باطل کے سر پر ایسی ضرب کاری لگانا مقصد ہے کہ باطل اپنے انجام کو پہنچے ۔اللہ تقلید کے شر سے بچائے آمین۔
    جو حضرات عام محدثین کے اقوال کو ان کے صحیح موقع و محل پر رکھ کر نہیں سمجھ سکتے وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کیا خاک سمجھیں گے۔
    اور پھر احادیث کا علم ہو تو سمجھنے کی بات بعد میں آئے ۔ الحمداللہ گروہ محدثین ہی احادیث کو یاد رکھتے ہیں اور انہی میں اصل فقہاء ہوتے ہیں نہ کے سینہ زور قیل وقال والے فقہاء۔
    رهى تقليد تو اس كا اسلام ميں كوئى تصور ہی نہیں ۔
    اسلام دلیلوں کا دین ہے جس میں روشنی و بصیرت کو مقبولیت حاصل ہے اور اندھیرے اور دل کے اندھے پن کی مذمت باقی تفصیلی بات بھی ہوسکتی ہے بحمد اللہ ۔ اللہ ہدایت دے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. حيله ساز فقهاء كى دين میں کوئی جگہ نہیں ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس