پیر، 1 جنوری، 2018

الکوحل ملی دوائیں اور جلیٹین

*الکحل ملی ہوئ دواؤں کاحکم*

سوال یہاں مغربی ممالک میں اکثر دواؤں میں ایک فیصد سے لیکر 25فیصد تک *الکحل* شامل ہوتاہے اس قسم کی دوائیاں عموما, نزلہ. کھانسی گلے کی خراش جیسی معمولی بیماریوں میں استعمال ہوتی ہیں اور تقریبا 95فیصد دواؤں میں الکحل ضرور شامل ہوتاہےاب موجودہ دور میں الکحل سے پاک دواؤں کو تلاش کرنا مشکل ہے بلکہ ناممکن ہوچکا ہے ان حالات میں ایسی دواؤں کے استعمال کےبارے میں شرعا کیاحکم ہے؟

الــجــواب: الکحل ملی ہوئ دواؤں کامسئلہ اب صرف مغربی ممالک تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامی ممالک سمیت دنیا کے تمام ممالک میں یہ مسئلہ پیش آرہاہے, امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک تو اس مسئلہ کاحل آسان ہے اس لئے کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمھماالله کے نزدیک کھجور اور انگور کے علاوہ دوسری اشیاء سے بنائ ہوئ شراب کو بطور دوا یاحصول طاقت کیلئے اتنی مقدار میں استعمال کرنا جائز ہے جس سے نشہ پیدا نہ ہو,
(فتح القدیرج8ص160)
دوسری طرف دواؤں میں جوالکحل ملایاجاتاہے اسکی بڑی مقدار کھجور اور انگور کے علاوہ دوسری اشیاء مثلا چمڑا, گندھک, شہد, شیرہ, دانہ, جو وغیرہ سے حاصل کی جاتی ہے,
(انسائیکلوپیڈیاآف برٹانیکا, ج1ص544)
لہذا دواؤں میں استعمال ہونے والا الکحل اگر انگور وکھجور کے علاوہ دوسری اشیاء سے حاصل کیاگیاہے تو امام ابوحنیفہ وامام ابویوسفؒ کے نزدیک اس دواء کااستعمال جائز ہے,
بشرطیکہ وہ حد سکر تک نہ پنہچے اور علاج کی ضرورت کیلئے ان دونوں اماموں کے مسلک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے,
اور اگر وہ الکحل کھجور وانگور ہی سے حاصل کیاگیاہے تو پھر اس دوا کااستعمال ناجائز ہے, البتہ اگر ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ اس مرض کی اس کے علاوہ اور کوئ دوا نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے استعمال کی گنجائش ہے… اس لئے کہ اس حالت میں حنفیہ کے نزدیک تداوی بالمحرم جائز ہے,
امام شافعیؒ کے نزدیک خالص اشربہ محرمہ(حرام شرابیں) کو بطور دوا استعمال کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں, لیکن اگر شراب کو کسی دوا میں اس طرح حل کردیا جائے کہ اس کے ذریعہ شراب کا ذاتی وجود ختم ہوجائے اور اس دوا سے ایسا نفع حاصل کرنا مقصود جودوسری پاک دوا سے حاصل نہ ہوسکتاہو تو اس صورت میں بطور علاج ایسی دواکااستعمال جائز ہے, جیسا کہ علامہ رملیؒ "نہایة المحتاج" میں فرماتے ہیں,

*اَمَّامُسْتَھْلِکَةٌ مَّعَ دَوَاءٍ آخَرَ فَیَجُوْزُ التَّدٰوٰی بِھَا، کَصَرْفِ بَقِیَّةِ النِّجَاسَاتِ اِنْ عُرِفَ اَوْ اَخْبَرَہٗ طَبِیْبٌ عَدْلٌ بِنَفْعِھَا وتُعِیْنِھَا بِاَنْ لَّا یَغْنٰی عَنْھَا طَاھِرٌ*

ایسی شراب جو دوسری دوا میں حل ہوکر اس کا ذاتی وجود ختم ہوجائے، جیساکہ دوسری نجس اشیاء کابھی یہی حکم ہے, بشرطیکہ علم طب کے ذریعہ اس کامفید ہونا ثابت ہو، یاکوئ عادل طبیب اس کے نافع اور مفید ہونے کی خبر دے اور اس کے مقابلہ میں کوئ ایسی پاک چیز بھی موجود نہ ہو جواس سے بے نیاز کردے,
(نہایة المحتاج للرملی ج8ص12)
اور خالص "الکحل" کااستعمال بطور دوا کے نہیں کیاجاتا، بلکہ یمیشہ دوسری دواؤں کے ساتھ ملاکر ہی استعمال کیاجاتاہے, لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ امام شافعی رحمةالله علیہ کے نزدیک بھی "الکحل" ملی ہوئ دواؤں کو بطور علاج استعمال کرنا جائزہے,
مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک میرے علم کے مطابق تداوی بالمحرم حالت اضطرار کے علاوہ کسی حال میں بھی جائز نہیں,
بہرحال موجودہ دور میں چونکہ ان دواؤں کااستعمال بہت عام ہوچکا ہے اس لئے اس مسئلہ میں احناف یاشوافع کے مسلک کواختیار کرتے ہوئے ان کے مسلک کے مطابق گنجائش دینا زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے,
واللّٰہ اعلم

پھر اس مسئلہ کے حل کی ایک صورت اور بھی ہے جس کے بارے میں دواؤں کے ماہرین سے پوچھ کر اس کو حل کیاجاتاہے, وہ یہ کہ جب "الکحل" کو دواؤں میں ملایا جاتاہے تو کیااس عمل کے بعد الکحل کی حقیقت اور ماہیت باقی رہتی ہے؟ یااس کیمیاوی عمل کے بعد اس کی ذاتی حقیقت اور ماہیت ختم ہوجاتی ہے؟ اگر "الکحل" کی حقیقت اور ماہیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کیماوی عمل کے بعد وہ الکحل نہیں رہتا بلکہ دوسری شیئ میں تبدیل ہوجاتاہے تو اس صورت میں تمام آئمہ کے نزدیک بالاتفاق اس کااستعمال جائز ہے, اس لئے کہ شراب جب سرکہ میں تبدیل ہوجائے، اس وقت تمام آئمہ کے نزدیک حقیقت اور ماہیت کی تبدیلی کی وجہ سے اس کا استعمال جائز ہے,
واللّٰہ اعلم

*مغربی ممالک کے جدید فقہی مسائل اور انکاحل از شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب حفظہ الله(ص42تا45)*

*جلیٹین استعمال کرنے کاحکم*

ســوال: یہاں مغربی ممالک میں ایسےخمیرے اور جلیٹین ملتی ہیں، جن میں خنزیر سے حاصل کردہ مادہ تھوڑی یازیادہ مقدار میں ضرور شامل ہوتاہے، کیاایسے خمیرے اور جلیٹین کااستعمال شرعاجائز؟
الـجـواب: اگر خنزیر سے حاصل شدہ عنصر کی حقیقت اورماہیت کیمیاوی عمل کے ذریعہ بالکل بدل چکی ہو تو اس صورت میں اس کی نجاست اور حرمت کاحکم بھی ختم ہوجائےگا اور اگر اسکی حقیقت اور ماہیت نہیں بدلی تو پھر وہ عنصر نجس اور حرام ہے(اور جس چیز میں وہ عنصر شامل ہوگا وہ بھی حرام ہوگی) واللّٰہ اعلم

*مغربی ممالک کے جدید فقہی مسائل اور انکاحل از شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب حفظہ الله(ص45تا46)*

*ابــو مــحــمــداحـقـرامـــــدادالـــلّٰـــه عـــفــی عـــنـــه*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس