بدھ، 27 دسمبر، 2017

کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ہیں

*کیاآپ ﷺ حاضرناظرہیں*
الــســؤال
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسلمانوں کاایک طبقہ رسول اﷲﷺ کو حاضر وناظر سمجھتاہے اور ان کی دلیل إِنَّا أَرْسَلْناكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الاحزاب : ۴۵) ہے۔جس میں شاہد کاترجمہ حاضر وناظرسے کرتے ہیں۔ کیایہ بات صحیح ہے؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

الــجــواب بـعـون الـمـلـک الـوھـاب

 صورت مسئولہ میں شاہد کامعنی حاضر وناظر کرنا اور دلیل میں یہ بیان کرناکہ گواہ وہ ہوتاہے جو دیکھ کر گواہی دے لہٰذا اس کے معنی حاضر وناظر کے ہوئے قطعاًصحیح نہیں ہے۔کیونکہ اگر اس کے معنی حاضر وناظر کے لیے جائیں تویہ معنی قرآن وسنت کی دوسری نصوص کے معارض ہے۔کیونکہ خود باری تعالیٰ نے :
❶حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا تو سورہ قصص آیت نمبر ۴۴ میں ہے: ’’اور آپ مغربی جانب نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی ‘‘۔اور آیت کے آخر میں فرمایا ’’ *وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ* ‘‘پہلے آپ کے وہاں حاضر ہونے کی نفی کی کہ آپ وہاں نہیں تھے پھر صراحۃً شاہد یعنی بقول ان کے جو شاہد کاترجمہ حاضر وناظر سے کرتے ہیں یہاں حاضر وناظر کی نفی کردی۔
❷۔سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کاواقعہ بیان فرمایا ،آخرمیں آیت نمبر ۱۰۲ میں فرمایا ’’یہ غیب کی خبرو ں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں اور آپ ان کے پاس نہیں تھے جب وہ اپنی بات طے کررہے تھے ‘‘۔ یہا ں پہلے آپ کے وہاں حاضر وناظر ہونے کی نفی اشارۃًکی کیونکہ فرمایا یہ غیب کی خبر ہے اور غیب اس چیز کو کہاجاتاہے جو ابھی تک دیکھی نہ ہو۔اگر آپ حاضر وناظر ہوتے تو پھر ’’غیب ‘‘کہاں باقی رہا۔اس کے بعد صراحۃنفی کی کہ *وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ* (آپ ان کے پاس نہ تھے )یعنی حاضر وناظر نہ تھے۔
❸۔سورہ ھود آیت نمبر ۱۷:’’جوشخص ﷲتعالی کی طرف سے بینہ پر ہو اوراس کے ساتھ شاہد ہو ……‘‘یہاں شاہد سے مفسرین نے قرآن ،بعض نے اعجاز قرآن اور بعض نے انجیل مراد لی ہے۔اب اگر شاہد کے معنی حاضر وناظر کئے جائیں تو پھر قرآن ،انجیل یااعجاز قرآن کے حاضر وناظر ہونے کے کیامعنی ہوں گے۔
*اسی طرح آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں کتنے ہی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپ کے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی نفی ہوتی ہے :*

❶۔صلح حدیبیہ کے موقع پررسول ﷲﷺ نے حضرت عثمان کوصلح کے لئے کفار مکہ کے پاس بھیجاتو اس وقت کفارنے مشہور کردیا کہ حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا۔اس پر آپ ﷺنے حضرت عثمان کی شہادت کابدلہ لینے کے لئے صحابہ سے جہاد کے لئے بیعت لی اور آپ جہاد کیلئے تیار ہوگئے حالانکہ بعد میں پتہ چلاکہ شہادت عثمان کی خبر جھوٹی تھی۔اگر آپ حاضر وناظر ہوتے تو بتلادیتے کہ حضرت عثمان شہید نہیں ہوئے ،یہ جھوٹی خبر ہے۔
❷۔منافقین کی طرف سے معرکۃ الآراء بہتان جو حضرت عائشہ پر لگایاگیا اس میں آپ کافی دنوں تک سخت پریشان رہے۔ کبھی تو صحابہ سے مشورہ کیاجارہا ہے،کبھی حضرت عائشہ کے بارے میں ان کی خادمہ سے سوالات کئے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ حضرت عائشہ اسی غم میں اپنے والد کے یہاں تشریف لے گئیں۔جب تک وحی نازل نہیںہوئی یہ پریشانی بدستور رہی۔اگر آپ حاضر وناظر ہوتے تو پہلے سے بتلادیتے کہ یہ حضرت عائشہ پر بہتان ہے۔
❸۔غزوہ خیبر کے موقع پر آپ کو کھانے میں زہر دیا گیا اور آپ کو پتہ نہ چلا بعد میں ﷲتعالی کی طرف سے جب بتلانے پر سبب ظاہر ہوا توآپ کو پتہ چلا۔اگرآپ حاضر وناظر ہوتے تو آپ کو پہلے سے پتہ ہوتا۔
ان کے علاوہ کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جن سے آپ کے حاضر وناظر ہونے کی نفی ہوتی ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر جگہ حاضر وناظر یہ ﷲتعالی کی صفات میں سے ہے کیونکہ ﷲ تعالی فرماتے ہیں:
*وﷲ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْد، وَﷲ بَصِیرٌ بِمَا تَعْمَلُوْن، وَﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْط*
اورہماراعقیدہ ہے کہ لیس کمثلہ شیٔ (یعنی ذات اور صفات کسی بھی اعتبار سے خالق اور مخلوق کے درمیان مماثلت نہیں ہوسکتی )لہٰذا رب تعالی کی صفات کسی مخلوق میں نہیں ہوسکتیں۔
نیز قرآن کریم کی تشریح وتفسیر نقل کی محتاج ہے۔ہم اپنی طرف سے کوئی تفسیر یامعنی بیان نہیں کرسکتے جب تک کہ اسلاف اور مقتداء امت میں سے کسی نے یہ معنی یاتفسیر مراد نہ لی ہو ورنہ نبی کریمﷺ کی اس روایت کی وعید کے مصداق بنیں گے کہ آپ فرماتے ہیں: *من قال فی القرآن برأیہ فاصاب فقداخطأ* (یعنی اگر کسی نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور خیال سے کی اور رائے ہونے کے باوجود حقیقت کے مطابق ہوگئی اور مراد وہی تھی وہ پھر بھی غلطی پر ہے )۔اور اسلاف امت میں سے کسی نے اس کے معنی حاضر وناظر کے نہیں کئے من ادعیٰ فلیأت بحجۃ۔
اب رہی یہ بات کہ اگر شاہد سے مراد حاضر وناظر نہیں توپھر کیا مراد ہے تو اس کی تشریح میں مختلف اقوال ہیں :
*اول* : آپ کواس امت اور سابقہ امتوں کے انبیاء کی تبلیغ پر گواہ بنایاگیا اور اس گواہی کی بنیاد آپ کا حاضر وناظر ہونانہیں بلکہ قرآن کریم کایہ بیان ہے ’’سابقہ امتوں کے انبیاء نے اپنی امتوں تک ﷲ کاپیغام پہنچادیا ‘‘۔
*دوم* : اﷲتعالی کی وحدانیت پر گواہ بناکر بھیجا۔
*سوم* : شاہ عبدالقادر اور امام راغب اصفہانی نے شاہد کامعنی معلم سے کیا یعنی اے نبی ! ہم نے آپ کو معلم بنا کر بھیجا۔
اور اگریہ کہاجائے کہ نبی علیہ السلام اپنے روضہ اطہر سے ہی کائنات کامشاہدہ کررہے ہیں تویہ بات بھی روایات کے خلاف ہے۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبدﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ:
’’ رسول اﷲﷺ نے فرمایاکہ اﷲ تعالی کے فرشتے زمین میں گھومتے ہیں اور مجھے میری امت کاسلام پہنچاتے ہیں ‘‘۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ :
رسول ﷲﷺ نے فرمایاکہ جو شخص میرے روضہ کے پاس درود پڑھتاہے میں اس کو خود سنتاہوں اورجو دور سے پڑھتاہے وہ میرے پاس پہنچایاجاتاہے ۔
اگر آپ ساری کائنات کاخود مشاہدہ فرماتے ہیںتو پھر جہاں بھی کوئی امتی درود پڑھتاآپ کو معلوم ہوجاتا،حالانکہ جو امتی روضہ اطہر سے دور آپ پر درود پڑھتے ہیں فرشتوں کے ذریعے آپ تک پہنچایاجاتاہے۔ حاصل یہ ہے کہ شاہد کے معنی حاضر وناظر سے کرنا نصوص کے خلاف اور بالکل بے اصل ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔
*لمافی روح المعانی (۴۵/۲۲): يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا۔ علی من بعثت الیھم تراقب احوالھم وتشاھد اعمالھم وتتحمل عنھم الشھادۃ بماصدر عنھم من التصدیق والتکذیب وسائر ماھم علیہ من الھدی والضلال ……ثم ان تحمل الشھادۃ علی من عاصرہ واطلع علی عملہ امرظاھر واماتحملھا علی من بعدہ باعیانھم فان کان مرادا ایضا ففیہ خفاء لان ظاھر الاخبار انہ علیہ السلام لایعرف اعمال من بعدہ باعیانھم ، روی ابوبکر وانس وحذیفۃ وسمرۃ وابوالدرداء رضی اللہ عنھم لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتی رأیتھم وعرفتھم اختلجوا دونی فاقول یارب اصحابی اصحابی فیقال لی انک لاتدری مااحدثوا بعدک نعم قدیقال انہ علیہ الصلوۃ والسلام یعلم بطاعات ومعاص تقع بعدہ من امتہ لکن لایعلم اعیان الطائعین والعاصین ……واما زعم ان التحمل علی من بعدہ الی یوم القیمۃ لماانھا حی بروحہ وجسدہ یسیر حیث شاء فی اقطار الارض والملکوت فمبنی علی ما علمت حالہ ……وقیل المراد شاھدابان لاالہ الااﷲ۔وفی احکام القرآن للقرطبی (۲۰۰/۱۴)*
*قولہ تعالی شاھدا قال سعید عن قتادۃ شاھد اعلی امتہ بالتبلیغ الیھم وعلی سائر الامم بتبلیغ انبیائھم ونحوذلک۔*
*وفیہ ایضا (۱۶/ ۲۷۶) تحت آیۃ ’’لقد رضیﷲعن المؤمنین الآیۃ ‘‘: وکان رسول اﷲﷺ قبل الصلح قد بعث عثمان بن عفان ؓالی مکۃ رسولا فجاء خبر الی رسول اﷲﷺ بان اھل مکۃ قتلوہ فدعا رسول اﷲﷺ حینئذ الی المبایعۃ لہ علی الحرب والقتال لاھل مکۃ فروی انہ بایعھم علی الموت*
*وفیہ ایضا (۱۲/ ۱۹۷): تحت ’’آیۃ ان الذین جاؤو بالافک عصبۃ منکم لاتحسبوہ شرالکم بل ھو خیر لکم لکل امریٔ منھم مااکتسب من الاثم ، والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب الیم‘‘: سبب نزولھا مارواہ الائمۃ من حدیث الافک الطویل فی قصۃ عائشۃ رضوان اﷲعلیھا ، وھو خبر صحیح مشھور أغنی اشتھار ہ عن ذکرہ۔*
*وفی الصحیح للبخاری (۶۱۰/۲): حدثنا عبداﷲبن یوسف …عن ابی ھریرۃ لمافتحت خیبر اھدیت لرسول اﷲﷺ شاۃ فیھا سم۔*
*وفی المشکوۃ (صـ۸۶): عن ابن مسعود ؓ قال قال رسول اﷲﷺ : ان ﷲملائکۃ سیاحین فی الارض یبلغونی من امتی السلام۔*
*وفیہ ایضا (صـ۸۷): عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسول اﷲﷺ: من صلی عند قبری سمعتہ ومن صلی نائیا ابلغتہ۔*

*نجم الفتاوی جلد1*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس