پیر، 14 اگست، 2017

قائداعظم کاتدین اور حضرت تھانویؒ وخلفاء

#کیا_قائد_اعظم_سیکولر_تھے ؟ 

از ڈاکٹر صفدر محمود

ڈاکٹر صفدر محمود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔حال ہی میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے دین و مذہب کے بارے میں ایک بار پھر بے سروپا باتیں کی گئیں تو ان کا جواب ڈاکٹر صاحب 25 اگست سے روزنامہ نوائے وقت میں قسط وار لکھ رہے ہیں۔ آج اس تحقیقی مضمون کی چوتھی قسط شائع ہوئی ہے۔ چاروں اقساط پیش ہیں۔
#قسط_1 :
سوال یہ ہے کہ کیا بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سیکولر تھے۔سیکولر کے لغاتی معانی ہیں لادین، دنیاوی، لیکن عام مفہوم کے مطابق سیکولر ایسے شخص کو سمجھاجاتا ہے جو دین اور دنیا کو الگ الگ تصور کرتا ہویعنی مذہب کو محض ذاتی معاملہ سمجھتا ہو اور قومی سیاست کو اپنے مذہب یا دین سے بالکل پاک اور علیحدہ رکھنے کا قائل ہو۔اس ضمن میں مغربی ممالک کی مثال دی جاتی ہے جہاں چرچ اور ریاست جدا جدا ہیں اور سیاست پر مذہب کی پرچھائیاں نہیں پڑتیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا قائداعظمؒ پاکستان میں سیکولر نظام قائم کرناچاہتے تھے؟ ایک اقلیتی دانشور حلقہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو اسلام سے بالکل پاک اور صاف رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک قیام پاکستان کا مقصد ایک سیکولر جمہوری ریاست کا قیام تھا۔یہاں اقلیتی حلقہ سے مراد چھوٹا گروہ ہے۔دوسری طرف اکثریتی حلقے کا اصرار ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا، مذہب ہی پاکستان کے مطالبے کا طاقتور ترین محرک تھا اس لئے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور آئین و سیاست کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کرکے ہی تصور پاکستان کو شرمندہ تعبیر کیاجاسکتا ہے۔نظریاتی حلقے کے دانشوروں کا خیال ہے کہ اگرچہ تحریک پاکستان کے محرکات میں معاشی،سیاسی،سماجی اور تاریخی عوامل وغیرہ نے اہم کردارسرانجام دیا لیکن ان میں سب سے زیادہ موثر فیکٹر مذہب کا تھا جس کے سبب عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں، صعوبتیں برداشت کیں، آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر پاکستان پہنچے۔اس سے قطع نظر اگر پاک و ہند کے مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ احساس پوری طرح جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کی صحیح معنوں میں بقاءکیلئے ایک مسلمان ریاست کا قیام ضروری ہے۔ دراصل یہ احساس ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے تجربات کا نتیجہ تھا۔خود قائداعظمؒ نے بھی اپنی تقریروں میں یہ بات کئی بار کہی۔
کسی بھی شخصیت کے نظریات اور تصورات کو سمجھنے کیلئے اس کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اس کی عوامی زندگی کا مطالعہ ناگزیر ہوتا ہے اور عوامی زندگی کو سمجھنے کیلئے تقریریں،تحریریں، رجحانات اور سرگرمیاں مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ مثلا ہم نے قائداعظمؒ کی ہر سوانح عمری میں یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جب وہ لندن میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لیناچاہتے تھے تو انہوں نے لنکزان کو اپنی درسگاہ کے طورپر اس لیے منتخب کیا کہ لنکز ان میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمد کا نام گرامی بھی شامل تھا۔چنانچہ قائداعظم ؒ نے اس سے متاثر ہوکر لنکز ان میں داخلہ لیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا چونکہ اس واقعہ کا انکشاف خود قائداعظمؒ نے کراچی میں عید میلاد النبی کے موقع پر کیا تھا اس لیے یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے۔اسی حوالے سے میں خود بھی لندن میں خاص طور پر لنکز ان دیکھنے گیا تھا۔
میں نے بھی جب یہ واقعہ پڑھا تو اسے اس کے صحیح تناظر میں نہ سمجھ سکا کیونکہ بظاہر قائداعظمؒ مغربی طرز حیات کا نمونہ نظر آتے تھے، وہی مغربی لباس، وہی انگریزی زبان، وہی اطوار.... اس کے برعکس اس بنیاد پر لنکز ان کو منتخب کرنے کا فیصلہ صرف وہی شخص کرسکتا تھا جس کا دل حب رسول سے منور ہو کیونکہ عام حالات میں ایک سترہ سالہ کم سن نوجوان اور پھر لندن کی آزاد فضا میں کون ان باتوں کی پرواہ کرتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ قائداعظمؒ کا تعلق ایک تجارت پیشہ خوجہ فیملی سے تھانہ کہ علامہ اقبال کی مانند ایک ٹھوس مذہبی گھرانے سے.... بچپن کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ عام طورپر نوعمری کی تربیت کے شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے قائداعظمؒ کے لنکز ان کے انتخاب کا صحیح پس منظر اور مفہوم اس وقت سمجھ میں آیا جب میں نے سید رضوان احمد کی کتاب ”قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی تیس(30) سال“ پڑھی۔اس کتاب میں مصنف نے گہری تحقیق کے بعد قائداعظمؒ کے بچپن کے بارے میں کچھ ایسی معلومات کا انکشاف کیا ہے جو اس سے قبل منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ قائداعظمؒ کے والد گرامی تجارت کے ساتھ ساتھ مشن ہائی سکول کراچی میں پڑھاتے بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو شروع میں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا کیونکہ مشن سکول میں عیسائیت کا پرچار بھی کیا جاتا تھا جبکہ سندھ مدرستہ الاسلام میں بچوں کی دینی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی۔ مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کے مطابق محمد علی جناح کے نام کے سامنے والے خانے میں حسب رواج خوجہ لکھنے کی بجائے محمڈن لکھایاگیا۔ قائداعظمؒ سندھ مدرستہ الاسلام چھوڑ کربمبئی گئے تو وہاں بھی انجمن اسلامیہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں لندن جانے سے قبل وہ مختصر سے عرصہ کیلئے کراچی کے مشن سکول میں بھی طالب علم رہے۔سید رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح بھائی پونجا مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور شام کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے جبکہ قائداعظمؒ کی والدہ بچوں کو تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی تربیت قدرے مذہبی ماحول میں ہوئی اور اسی مذہبی تربیت کا اثر تھا کہ قائداعظمؒ نے لندن میں لنکز ان کا انتخاب کیا۔
حصول تعلیم کے بعد عملی زندگی کا آغاز کرنے کیلئے قائداعظمؒ1896ءمیں بمبئی پہنچے۔اس وقت ان کی عمر بیس برس تھی۔اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں فروکش ہوتے ہی انجمن اسلامی بمبئی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگے۔ انہوں نے انجمن اسلامی بمبئی کی میٹنگ میں پہلی بار8جولائی 1897ءکو شرکت کی اور پھر اسی سال 14اگست کو انجمن اسلامی نے عید میلاد النبی کے ضمن میں جلسہ کیا تو قائداعظمؒ اس میں بھی شریک ہوئے۔عید میلاد النبی کی تقریب کی نواب محسن الملک نے صدارت کی اور اس تقریب میں سیرت النبی پر تقریروں کے علاوہ نعتیں پڑھی گئیں اور سرور کائنات کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ قائداعظمؒ کی حضور نبی کریم سے عقیدت کا اس سے پتا چلتا ہے کہ سیاسی و قانونی زندگی کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اکثر عید میلاد النبی کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے۔
قائداعظمؒ1910ءمیں امپیریل لیجسلیٹو کونسل(اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی) کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ پریوی کونسل کے ایک فیصلے کے نتیجے کے طورپر مسلمانوں کے روایتی نظام وقف علی الاولاد پر زد پڑی تھی جس سے نہ صرف مسلمانوں کے مفادات متاثر ہوئے تھے بلکہ ان کا ایک صدیوں پرانا سسٹم بھی غیر موثر ہوکر رہ گیا تھا۔چنانچہ مسلمان نہایت پریشان تھے اور برطانوی حکومت کے سامنے اپنے آپکو بے بس محسوس کرتے تھے۔
قائداعظمؒ نے کونسل کارکن منتخب ہونے کے بعد وقف علی الاولاد کابل کونسل میں پیش کیا اور پھر انکی کئی برس کی محنت اور مسلسل کوشش سے وہ قانون بن گیا۔ امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی میں یہ پہلا بل تھا جو کسی مسلمان رکن نے مسلمانوں کے بارے میں پیش کیا اور وہ قانون بنا۔
1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ رتی ڈنشا پہلے مسلمان ہوئیں اور پھر ان کا نکاح محمد علی جناح ؒ سے ہوا۔میں نے اس حقیقت کی مولانا شاہ احمد نورانی سے تصدیق کی ہے کہ محمد علی جناحؒ رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوں نے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظمؒ سے پڑھوایا۔ مولانا نذیر احمد صدیقی اہل سنت تھے اور مولانا نورانی صاحب کے بقول قائداعظم ؒ ان سے مذہبی معاملات میں رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کا انتقا ل مدینہ منورہ میں ہوا اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ قائداعظم ؒ نہایت ذہین اور محتاط انسان تھے اور ہر قدم سوچ کر اٹھاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اثنائے عشری سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے خاندان کا مذہبی پس منظر یہی تھا تو پھر انہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو قبول اسلام اور اپنے عقد میں لینے کیلئے اور نکاح پڑھوانے کیلئے کسی ایسی مذہبی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا جس کا تعلق اثنائے عشری سے ہوتا۔ ظاہر ہے کہ شیعہ علما کی بمبئی میںکوئی کمی نہ تھی اگرچہ میرے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ مذہبی فرقہ پرستی سے ماوراءتھے اور اس صورت حال کی بہتر وضاحت انکے ایک جواب میں ملتی ہے ۔


#قسط_2 :
ایک دفعہ کسی صاحب نے محض شرارت کرنے اورمسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کیلئے قائداعظم ؒ سے یہ سوال پوچھا تھا کہ آپکا تعلق سنی فرقے سے ہے یا شیعہ فرقے سے؟ تو قائداعظم ؒ کا جواب تھا کہ ہادی اسلام حضور نبی کریم کا مذہب کیا تھا؟ یہ جواب ان کی سوچ، شخصیت اور مذہبی ر جحان کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت اور دلچسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم ؒ کی واحد اولاد یعنی انکی بیٹی دینا جناح نے 14 اور15 اگست 1919ءکی درمیانی شب کو جنم لیا۔ایک مورخ کے بقول انکی دوسری ”اولاد“ اسکے صحیح اٹھائیس برس بعد 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب کو معرض وجود میں آئی اور اسکا نام پاکستان رکھا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ؒ اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے اور خاص طور پر دینا جناح انکی زندگی کی پہلی محبت کی آخری نشانی تھی لیکن اسکے باوجود جب دینا نے کسی مسلمان نوجوان کی بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل وادیا سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائداعظمؒ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے تعلق توڑ لیا۔ دینا ا کے جگر کا ٹکڑا تھی، اس سے بیٹی کی حیثیت سے تعلقات رکھے جا سکتے تھے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی لاتعداد مثالیں ہیں کہ لبرل قسم کے مسلمان مذہبی رشتہ ٹوٹنے کے باوجود اولاد سے سماجی تعلقات نبھاتے رہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قائداعظم ؒ نے بیٹی سے مذہب کا رشتہ منقطع ہونے کے بعد اس سے ہر قسم کے رشتے توڑ لئے۔ دوستوں سے کبھی دینا کا ذکر تک نہ کیاجیسے ان کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اور پھر مرتے دم تک دینا کی شکل نہ دیکھی۔ شادی کے بعد دینا نے چند ایک بار اپنے والد گرامی کو خطوط لکھے۔ قائداعظم ؒ نے ایک مہذب انسان کی مانند ان خطوط کے جوابات دیئے لیکن ہمیشہ اپنی بیٹی کو ڈیئر دینا“ یا پیاری بیٹی کہہ کر مخاطب کرنے کی بجائے مسز وادیا کے نام سے مختصر جواب دیئے۔ (بحوالہ سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان صفحہ 370)
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم ؒ کی بیٹی مسز وادیا اپنے باپ سے ملنے اور اپنے باپ گورنر جنرل کو دیکھنے کیلئے پاکستان آنا چاہتی تھی، اس نے اجازت چاہی، دوستوں نے قائداعظم ؒ سے درخواست کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا چنانچہ دینا پہلی اور آخر بار قائداعظم ؒ کی وفات کے موقع پر ہی پاکستان آ سکی اور مرحوم باپ کی میت پر آنسو بہا کر واپس چلی گئی۔ حضرت قائداعظم ؒ کی نماز جنازہ ممتاز مذہبی شخصیت مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی جن کا مسلک اظہر من الشمس ہے۔
وزیرآباد کے جناب محمد شریف طوسی صاحب عالم و فاضل انسان تھے۔ انہوں نے اس مشکل دور میں ملازمت کی مجبوری کے باوجود انگریزی زبان میں مسلمانوں کے مطالبات کے حق میں اتنے مدلل مضامین لکھے کہ تہلکہ مچا دیا۔ یہ مضامین قائداعظم ؒ کو بہت پسند آئے چنانچہ قائداعظم ؒ نے انہیں ڈھونڈا اور بمبئی بلا کر چھ ماہ اپنے پاس رکھا۔ اس طرح طوسی صاحب کو قائداعظم ؒ کو نزدیک سے دیکھنے اور انکی ذاتی لائبریری کو کھنگالنے کا موقع ملا کیونکہ قائداعظم ؒ ان سے تحقیق اور لکھنے کا کام لیتے تھے۔ طوسی صاحب کا بیان ہے کہ قائداعظم ؒ کی لائبریری میں سیرت النبی اسلامی تاریخ و قانون اور خلفائے راشدین پر بہت سی کتابیں موجود تھیں اور قائداعظم ؒ اکثر اوقات خلفائے راشدین اور تفسیر پر کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
غزوہ بدر کے بعد کا واقعہ کہ جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہو چکی تھی حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمن جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، اپنے والد گرامی سے ملے اور کہنے لگے کہ غزوہ بدر کے دوران ایک مقام ایسا آیا کہ آپ کی گردن میری تلوار کی زد میں تھی لیکن مجھے فوراً خیال آیا کہ آپ میرے والد ہیں چنانچہ میں نے ارادہ بدل لیا۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں میں آجاتی تو میں ہرگز باز نہ آتا اور تمہاری گردن مار دیتا.... گویا اسلام میں رشتے خون کے حوالے سے نہیں بلکہ دین کے حوالے سے قائم ہوتے ہیں۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اپنی اکلوتی بیٹی سے رشتہ توڑ کر اسی اصول کی پیروی کی کیونکہ دینا نے اسلام سے رشتہ توڑ لیا تھا۔
مجھے اندازہ ہے کہ کچھ حضرات قائداعظم ؒ کی بیٹی کی وادیا سے شادی کو محمد علی جناحؒ کی انا کا مسئلہ قرار دے کر ”ذاتیات“ کا رنگ دینگے لیکن اگر سارے واقعے کو اپنے صحیح پس منظر میں پرکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قائداعظم ؒ کیلئے یہ انا کا نہیں بلکہ دین ہی کا مسئلہ تھا۔ سٹینلے والپرٹ اپنی کتاب ”جناح آف پاکستان“ میں لکھتا ہے کہ دینا نے وادیا سے شادی کا ارادہ کیا تو اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا۔ جنہوں نے کبھی اسکی بات کو ٹالا نہیں تھا۔ قائداعظم ؒ نے اپنی بیٹی کو اس فیصلے سے باز رکھنے کیلئے بہت سمجھایا اور کہا کہ ہندوستان بہتر سے بہتر مسلمان نوجوانوں سے بھرا پڑا ہے تم جس مسلمان نوجوان کو بھی منتخب کرو گی وہ تم سے شادی کرنا اعزاز سمجھے گا۔ میری خواہش ہے کہ تم کسی بھی مسلمان نوجوان سے شادی کرو۔ جب دینا اپنی بات پر اڑی رہی تو قائداعظم ؒ نے یہ کہہ کر اس سے منہ موڑ لیا کہ آج سے میرا اور تمہارا رشتہ ختم ہے، جو چاہو کرو۔ قائداعظمؒ کا فقط یہ اصرار تھا کہ تم مسلمانوں میں شادی کرو، وہ کسی مخصوص نوجوان یا خاندان میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے کہ یہ ان کےلئے ذاتی انا کا مسئلہ ہوتا۔ انہوں نے مسلمان کی شرط لگا کر واضح کر دیا تھا کہ یہ مسئلہ دین کا ہے، دنیا کا نہیں۔
مولانا حسرت موہانی نہایت درویش، صالح حق گو، بیباک اور کھرے انسان تھے۔ وہ شاید مسلم لیگ کے واحد رکن تھے جو بھری میٹنگو ں میں اٹھ کر قائداعظم پر تنقید کر لیتے اورپھر قائداعظم ؒ اپنے موقف کے حق میں دلائل دے کر انہیں مطمئن کرتے۔ انہوں نے ساری زندگی مسلم لیگ کےساتھ رہ کر جدوجہد کرتے گزار دی، کئی بار جیل گئے اور قید بامشقت بھگتی۔ حصول پاکستان انکا سب سے بڑا خواب تھا لیکن انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرنے کی بجائے باقی ماندہ زندگی ہندوستان میں ہی گزار دی کیونکہ ان کی جدوجہد مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کیلئے تھی نہ کہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے.... مالی تنگی اور عسرت کے باوجود مولانا حسرت موہانی نے گیارہ حج کئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہ عمرے نصیب کئے۔ مولانا حسرت موہانی کا کہنا ہے کہ ایک بار وہ صبح ہی صبح ایک نہایت ضروری کام کے سلسلے میں قائداعظم ؒ کے گھر پہنچے کیونکہ انہیں علم تھا کہ قائداعظم ؒ سحر خیز ہیں۔ چوکیدار نے انہیں انتظار کے کمرے میں بٹھا دیا کہ ابھی صاحب باہر نہیں نکلے آپ انتظار کریں۔ مولانا حسرت موہانی قدرے بے چین طبیعت کے مالک تھے۔ کچھ دیر تو انتظار کرتے رہے پھر سوچا کہ میں خود ہی ان کو تلاش کر لیتا ہوں۔
مولانا حسرت موہانی کا بیان ہے کہ وہ کمرے کے درمیانی دروازے سے دوسرے کمرے میں داخل ہوئے اور اس کمرے کا پردہ اٹھا کر اگلے کمرے میں گئے تو انہیں کسی شخص کے رونے اور آہ و زاری کی آواز آئی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ وہ رونے کی آواز سن کر پریشان ہوئے اور رک گئے.... پھر یہ معلوم کرنے کےلئے کہ کون رو رہا ہے، انہوں نے خاموشی سے اگلے کمرے کا پردہ سرکا کر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ قائداعظم ؒ سجدے میں گرے ہوئے تھے اور گڑ گڑا کر رو رہے تھے ۔مولانا حسرت موہانی کا کہنا ہے کہ وہ یہ منظر دیکھ کر دبے پاﺅں واپس آ گئے۔ ظاہر ہے سجدے میں گر کر وہی شخص گڑگڑائے گا جس کے دل میں خوف خدا ہو اور جس کا باطن تیقن،یقین کامل، حب الٰہی اور سوز دروں کے نور سے مالا مال ہو۔
مولانا حسرت موہانی کا ذکر ہوا تو یاد آیا کہ محترم ظہیر الاسلام فاروقی صاحب نے اپنی کتاب ”مقصد پاکستان“ میں لکھا ہے کہ مولانا حسرت موہانی 1946ءکے انتخابات کے سلسلے میں ملک بھر کے دورے کر رہے تھے۔ ایک بار ریل کے سفر کے دوران مستقبل کے حوالے سے گفتگو چل نکلی تو مولانا نے کہا آپ فکر نہ کریں انشاءاللہ پاکستان بن کر رہے گا‘ اس سے آگے کی فکر کریں۔
پیر علی محمد راشدی صاحب نے پوچھا کہ آپکو اس قدر یقین کیوں ہے کہ پاکستان بہرحال بن کر رہے گا کیونکہ کانگریس اور انگریز حکومت دونوں اس مطالبے کے مخالف ہیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ مجھے اسلئے یقین ہے کہ مجھے خواب میں حضور نبی کریم کی زیارت ہوئی اور آپ نے مجھے قیام پاکستان کی بشارت دی۔ آپ اس سے اندازہ کیجئے کہ مولانا حسرت موہانی خود کتنی عظیم اور روحانی حوالے سے کتنی بزرگ ہستی تھے جنہیں خواب میں حضور کی زیارت نصیب ہوئی اور جنہیں خود حضور نے بشارت دی۔

#قسط_3 :
قائداعظمؒ کے کردار کی عظمت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور زمانہ گواہ ہے کہ وہ ایک سچے‘ کھرے‘ بااصول اور باوقار انسان تھے۔ انکے بدترین دشمن بھی انکے کردار کی عظمت کے معترف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانان ہند و پاکستان ان پر جان چھڑکتے تھے اور ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میرے نزدیک قائداعظمؒ کی راست گوئی اور عظمت کردار سیرت النبی کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ قائداعظمؒ کوئی روحانی بزرگ‘ صوفی یا مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی ایسا دعویٰ کیا۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ میں ”مولانا“ نہیں‘ ایک عام مسلمان ہوں۔ بشری کمزوریوں سے پاک شخصیات صرف انبیاءاور اولیاءکی ہوتی ہیں۔ قائداعظمؒ بھی بہرحال ایک بشر ہی تھے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں وہ نمود و نمائش‘ منافقت اور دوہرے معیار سے نفرت کرتے تھے۔ ان کی تقریریں اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے باطن اور دل کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے تھے اور انہوں نے کبھی عوام کو جذبات میں بہلانے‘ بہکانے یا اپنے بارے میں غلط تاثر دینے کی کوشش نہیں کی۔
قائداعظمؒ کے مزاج کے اس پس منظر میں ان کی تقریریں پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت‘ اسلام کی بقا اور عظمت‘ اسوہ حسنہ‘ اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی جیسے احساسات و تصورات ان کے خون میں شامل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریریں ان الفاظ ا ور ترکیبات سے اس قدر معطر ہیں کہ ہر دوسری تیسری سطر میں مسلمان اور اسلام کے الفاظ سجے ہوئے ہیں۔ ان تقریروں کو پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے قائداعظمؒ ہمہ وقت مسلمان اور اسلام کے بارے سوچتے رہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے حقوق‘ مسلمانوں اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے سینکڑوں تقریریں کیں اور ان میں بار بار کہا کہ ہمیں کہیں سے بھی جمہوریت کا سبق لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے جمہوریت آج سے تیرہ سو برس پہلے سیکھ لی تھی‘ جمہوریت ہمیں اسلامی ورثے میں ملی ہے‘ اسوہ حسنہ ہمارے لئے نمونہ ہے اور نبی کریم نے جس طرح یہودیوں اور دوسری اقلیتوں سے معاہدے کئے ہم انہی اصولوں سے روشنی حاصل کر کے اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیں گے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظمؒ بار بار یہ باتیں صرف اسلئے کرتے رہے کہ یہ ان کی سوچ و فکر اور باطنی شخصیت کا پختہ حصہ تھیں اور وہ ان پر مکمل یقین رکھتے تھے ورنہ وہ عوامی داد یا سستی شہرت سے ہمیشہ دور رہے۔
مسلمانوں سے بے لوث محبت‘ اسلام سے گہرا لگا¶‘ ضمیر کی گواہی اور خدا کے سامنے جوابدہی صرف اور صرف ایک سچے مسلمان کی شخصیت کا ہی حصہ ہو سکتے ہیں اور میرے نزدیک یوم حساب کا خوف بخشش کا ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے قائداعظمؒ کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 1939ءمیں کی گئی تقریر کے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں انہیں پڑھئے اور غور کیجئے۔ ان الفاظ کے باطن میں جھانکئے تو آپ کو اصل جناح کا سراغ ملے گا‘ وہ جناح جو بظاہر انگریزی بولتا‘ مغربی لباس پہنتا اور مغربی طور طریقوں پر عمل کرتا تھا لیکن وہ باطنی طور پر اس کے برعکس تھا۔
”مسلمانوں میں نے دنیا کو بہت دیکھا‘ دولت‘ شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی.... میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا‘ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔“
(روزنامہ انقلاب 22 اکتوبر 1939ئ)
یوم حساب خدا کے حضور سرخروی کا خیال‘ مسلمانوں اور اسلام کی سربلندی کا علم بلند کئے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضائے الٰہی کی تمنا صرف اور صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو سر تا پا سچا مسلمان اور پکا مومن ہو اور جس کا باطن خوف خدا کے نور سے منور ہو۔ غور کیجئے کہ جب قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی اس وقت ان کی عمر تقریباً 53 سال تھی اور ان کی شہرت اوج ثریا پر تھی۔
اس پس منظر میں جب میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا احوال پڑھتا ہوں تو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہند و پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی“ کے مصنف منشی عبدالرحمن نے صفحہ نمبر 111 پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا ”میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدان حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا‘ علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا کہ یہ اس مجمع میں کیسے شامل ہو گئے تو مجھ سے کہا گیا کہ محمد علی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے۔“ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا صلہ تو ضرور ہو گا۔ انہی مولانا اشرف علی تھانوی نے 4 جولائی 1943ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا ”1940ءکی قرارداد پاکستان کو کامیابی نصیب ہو گی۔ میرا وقت آخری ہے‘ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا‘ مشیت ایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن قائم ہو‘ قیام پاکستان کیلئے جو کچھ ہو سکے کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر ابھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا۔“ (بحوالہ ”قائداعظمؒ کا مذہب و عقیدہ“ از منشی عبدالرحمن صفحہ نمبر 249 اور ”قائداعظمؒ کی شخصیت کا روحانی پہلو“ از ملک حبیب اللہ صفحہ نمبر 59-60)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیام پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا‘ مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔
قائداعظمؒ سیاست میں مذہب کے عمل دخل کو پسند نہیں کرتے تھے اور شاید وہ سمجھتے تھے کہ مذہب اور سیاست کے ملاپ سے انتہا پسندی کے دروازے کھلیں گے جس سے مسلمانوں اور بعدازاں پاکستانی قوم کا اتحاد بری طرح متاثر ہو گا۔


#قسط_4 :
7 فروری 1935ءکو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں آزاد رکن کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم ؒنے کہا کہ ”میں حزب مخالف کے قائد سے پوری طرح متفق ہوں کہ مذہب‘ نسل اور زبان کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے‘ مذہب انسان اور خدا کا معاملہ ہے لیکن براہ کرم غور کیجئے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں‘ وہ مذہب کا معاملہ نہیں بلکہ میں تو اقلیتوں کی بات کر رہا ہوں جو ایک سیاسی مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے مسائل ہیں اور ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہے۔“ (قائداعظم کی تقریریں جلد اول ازخودشید احمد خان یوسفی صفحہ 69-70)اسی تقریر میں آگے چل کر اقلیت کی تشریح کرتے ہوئے قائداعظمؒ کہتے ہیں کہ اقلیت کا مذہب‘ تمدن‘ کلچر اور بعض اوقات آرٹ میوزک بھی اکثریت سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے اقلیت کو تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں محمدعلی جناح مسلمانوں کے بحیثیت اقلیت تحفظات کیخلاف تھے۔
محمدعلی جناح نے اولین بار 28 جولائی 1904ءکو کانگرس کے اجلاس میں شرکت کی۔ کانگرس کے اجلاس منعقدہ 28 دسمبر 1906ءمیں ایک مسلمان ممبر نے ایک قرارداد کے ذریعے مسلمانوں کیلئے کوٹے کا مطالبہ کیا جس کی مخالفت کرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا کہ مسلمانوں اور ہندوﺅں کو برابر سمجھا جائے اور ان سے ایک جیسا سلوک کیا جائے کیونکہ کانگرس کی بنیاد ہی برابری کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ (ورکس آف قائداعظمؒ از ڈاکٹر ریاض احمد جلد اول صفحہ 81)
یہی محمد علی جناح بعدازاں مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما بن کر ابھرے اور قیام پاکستان تک مسلمانوں کیلئے نہ صرف حقوق اور تحفظات بلکہ جداگانہ حق رائے دہی کیلئے دن رات جدوجہد کرتے رہے۔ کانگرس اور ہندو اکثریت کے ارادے بھانپنے کے بعد قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو اقلیت کے چکر سے نکال کر ایک منفرد قوم ثابت کیا اور اسی قومیت کے حوالے سے ایک علیحدہ خطہ زمین کے حصول کو اپنی منزل بنا لیا۔
دراصل قائداعظمؒ کو زندگی بھر اقلیتوں کے مسئلے سے واسطہ رہا اور وہ اس سے نپٹنے کی کوششیں کرتے رہے۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے اور اس اقلیت کے سب سے بڑے رہنما محمد علی جناح تھے۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان کا خواب ٹوٹنے کے بعد (جس کا نقطہ عروج 1948ءکی نہرو رپورٹ کو قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ قائداعظمؒ نے اسے پارٹنگ آف دی ویز یعنی راستوں کی علیحدگی قرار دیا تھا) قائداعظمؒ پہلے پہل مسلمان اقلیت کے حقوق اور بعدازاں مسلمان قوم کے حقوق کیلئے اس وقت تک مسلسل لڑتے رہے جدوجہد کرتے رہے جب تک قیام پاکستان کے امکانات واضح نہیں ہوئے۔ مسلمان اقلیت سے مسلمان قوم کے سفر میں 1940ءکی قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان ایک طرح سے اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے بعد قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کا م¶قف یہ رہا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف‘ معیار اور تصور کے مطابق ایک قوم ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قومیت کی اہم ترین بنیاد مذہب تھی۔ اسی طرح جب قیام پاکستان کا مرحلہ قریب آیا تو قائداعظمؒ کیلئے سب سے اہم سوال اور مسئلہ پھر اقلیتوں کا تھا کیونکہ پاکستان میں بھی کئی مذہبی اقلیتیں آباد تھیں اور ادھر ہندوستان میں بھی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ہی تھی جس کے تحفظ کیلئے قائداعظمؒ پریشان رہتے تھے۔ (ملاحظہ ہو قائداعظمؒ کی پریس کانفرنس 14 جولائی‘ بیانات 15 ستمبر اور 17 ستمبر‘ 25 اکتوبر 1947ئ) چنانچہ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل اور چند ماہ بعد تک ان سے بار بار اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے رہے جس کی وہ بار بار وضاحت کرتے رہے۔ اس دور میں قائداعظمؒ نے جو تقاریر کیں یا بیانات دیئے ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کیلئے ان کا مطالعہ اس مسئلے کے تناظر میں کرنا چاہئے۔
اس ضمن میں قائداعظمؒ کے خیالات سمجھنے کیلئے ان کی اس پریس کانفرنس کا حوالہ دینا ضروری ہے جو انہوں نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14 جولائی 1947ءکو نئی دہلی میں کی۔ اقلیتوں کے ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میں اب تک بار بار جو کچھ کہتا رہا ہوں اس پر قائم ہوں‘ ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا۔ ان کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور ان کے مذہب‘ اعتقاد‘ جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے۔“ اسی پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ایک مذہبی (Theocratic) ریاست ہو گی؟ تو قائداعظمؒ نے کہا کہ ”آپ مجھ سے ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں۔ گویا میں اب تک جو کچھ کہتا رہا ہوں وہ رائیگاں گیا ہے۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال قبل سیکھ لی تھی۔“ (بحوالہ ”جناح: تقریریں اور بیانات 1947-48“ از ایس ایم برک مطبوعہ آکسفورڈ پریس صفحات 12-16) سوال یہ ہے کہ تیرہ سو برس قبل مسلمانوں نے کون سی جمہوریت سیکھی تھی؟ کیا وہ سیکولر جمہوریت تھی یا نظریاتی اور اسلامی جمہوریت؟
اس بحث کی ایک اہم کڑی قائداعظمؒ کی 11 اگست 1947ءکی تقریر ہے جو انہوں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے پر اسمبلی میں کی۔ یہی وہ تقریر ہے جس کی توضیح یا تشریح کر کے کچھ حضرات یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ قائداعظمؒ پاکستان کیلئے سیکولر جمہوری نظام چاہتے تھے جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اس توضیح سے اس بنیاد پر اختلاف کرتا ہے کہ اول تو قائداعظمؒ کی تقریر سے ہرگز یہ مفہوم نہیں نکلتا اور دوم یہ تاثر غیر منطقی ہے کیونکہ قائداعظمؒ جیسے عظیم لیڈر کی ایک تقریر کو ان کی دوسری لاتعداد تقریروں اور بیانات سے جو انہوں نے اس سے قبل یا بعدازاں دیئے‘ الگ یا علیحدہ کر کے صحیح نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے گیارہ اگست کی تقریر میں کیا کہا جو اس قدر بحث و نزاع کا سبب بن گیا۔ دراصل انہوں نے اس تقریر میں ان بنیادی مسائل کی نشاندہی کی جو پاکستان کو اس وقت درپیش تھے اور اسکے ساتھ ساتھ بابائے قوم (فادر آف نیشن) ہونے کے ناطے کچھ نصیحتیں بھی کیں۔ اس تقریر کا مکمل ادراک حاصل کرنے کیلئے پوری تقریر کو اسکے سیاق و سباق اور پس منظر میں پڑھنا ضروری ہے۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ ہم آپکی مدد سے اس اسمبلی کو مثالی بنائینگے۔ حکومت کا پہلا فرض امن عامہ قائم کرنا ہے تاکہ شہریوں کی جائیداد اور مذہبی اعتقادات کی حفاظت کی جا سکے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے۔ اس اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کیلئے م¶ثر اقدامات کرنے ہیں۔ ایک اور لعنت بلیک مارکیٹنگ یعنی چور بازاری ہے جس کا تدارک آپ کو کرنا ہے۔ اسی طرح ہمیں اقربا پروری اور ظلم و زیادتی کو بھی کچلنا ہے۔ مجھے علم ہے کہ کچھ لوگوں نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔
میرے نزدیک اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر ہم پاکستان کو خوشحال اور عظیم ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہمہ وقت عوام کی خوشحالی اور بہتری پر توجہ دینا ہو گی۔ اگر آپ ماضی کی تلخیوں کو دفن کر کے رنگ و نسل اور عقیدے کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر تعاون اور برابری کی فضا میں کام کرینگے تو آپکی ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہو گی۔ اگر ہم اس جذبے کے ساتھ کام کریں تو وقت گزرنے کےساتھ ساتھ اکثریت اور اقلیت.... مسلمان اور ہندو ....کے درمیان پیچیدگیاں ختم ہو جائیں گی کیونکہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی پٹھان‘ پنجابی‘ شیعہ‘ سنی وغیرہ ہیں۔ اسی طرح ہندو¶ں میں برہمن‘ ویش‘ کھتری‘ شودر‘ بنگالی اور مدراسی ہیں۔ یہی تقسیم ہندوستان کی آزادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ آپ آزاد ہیں مندر میں پوجا کریں یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب‘ ذات یا عقیدے سے تعلق ہے‘ اس سے حکومت کا سروکار نہیں۔ کسی زمانے میں انگلستان کے حالات نہایت خراب تھے اور وہاں رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا آغاز ان سے بہت بہتر ہے۔ آج انگلستان میں رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور وہ اپنے ملک کے یکساں شہری ہیں۔ اگر آپ بھی اپنے سامنے یہی آئیڈیل رکھیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ہندو¶ں اور مسلمانوں کے درمیان فرق مٹ جائے گا‘ مذہب کے حوالے سے نہیں کیونکہ ہر شخص کا اپنا مذہب ہوتا ہے بلکہ سیاسی حوالے سے کیونکہ سبھی ایک ریاست کے شہری ہونگے۔“ (تفصیل کیلئے دیکھیں ایس ایم برک بحوالہ گذشتہ صفحات 25-29)
(بحوالہ روزنامہ نوائے وقت پچیس تا اٹھائیس اگست 2012 )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس