جمعہ، 11 اگست، 2017

علماء کے خون سے رنگین داستان آزادی




علماء کے خون سے رنگین داستان آزادی مولانا یاسر ندیم الواجدی 


عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مسلّح جدو جہد کا آغاز ۱۸۵۷ء سے ہوا، یہ ایک غلط مفروضہ ہے جو جان بوجھ کر عام کیا گیا ہے تاکہ ۱۸۵۷ء سے سو برس پہلے جس تحریک کا آغاز ہوا اور جس کے نتیجے میں بنگال کے سراج الدولہ نے ۱۷۵۷ء میں، مجنوں شاہ نے ۱۷۷۶ء اور ۱۷۸۰ ءمیں، حیدر علی نے ۱۷۶۷ء میں،اس کے بیٹے سلطان ٹیپو نے ۱۷۹۱ ء میں، مولوی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے دادومیاں نے ۱۸۱۲ء میں اور سید احمد شہیدؒ نے ۱۸۳۱ ء میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑیں وہ سب تاریخ کے غبار میں دب جائیں، اور اہل وطن یہ نہ جان سکیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی چنگاری اس دن سے سلگ رہی تھی جس دن انہوں نے اپنے ناپاک قدم اس سرزمین پر رکھے تھے اور تجارت کے نام پر سیاسی اور فوجی اثر ورسوخ حاصل کرکے یہاں کے حکمرانوں کو بے دست وپا کردیا تھا، سو سال تک مسلمان پوری طاقت اور قوت کے ساتھ اپنے علماء کی قیادت میں ان سے نبر د آزما رہے، یہاں تک کہ ۱۰/ مئی ۱۸۵۷ء کو تحریک آزادی کی جدو جہد کا دوسرا دور شروع ہوا اور غیر مسلم اہل وطن نے بھی جد وجہد آزادی میں اپنی شرکت درج کرائی۔
۱۴۹۸ ء میں واسکوڈی گا ماکی قیادت میں پُرتگال کے ملاحوں نے سب سے پہلے سرزمین ہند کو اپنے ناپاک قدموں سے آلودہ کیااور صوبہ بنگال کے شہر کلکتہ اور جنوبی ہند کے شہر کالی کٹ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، یہ لوگ تجارت کے مقصد سے وارد ہوئے تھے مگر مذہب کی اشاعت میں بھی سر گرم ہوگئے، اس وقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، اس ملک میں تجارت کے بے شمار مواقع تھے، مالی ترقی کے وسیع تر امکانات نے انگلستان کے تاجروں کو بھی ادھر متوجہ کیا، انہوں نے تیس ہزار پاؤنڈ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی اور ۱۶۰۱ ء میں پہلی مرتبہ اس کمپنی کے تجارتی جہاز ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے، ۱۶۱۲ء میں جہانگیر کے عہد حکومت میں ان انگریز تاجروں نے شہنشاہ کی اجازت سے گجرات کے شہر سورت میں اپنا اقتصادی مرکز بنالیا اور بہت جلد اس کی شاخیں احمد آباد، اجمیر، برہان پور اور آگرہ میں قائم کردیں، یہ شہر اس زمانے میں تجارت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے تھے، اور بڑے تجارتی مراکز میں شمار کئے جاتے تھے، اورنگ زیب عالمگیر کے عہد حکومت تک انگریزوں کی سر گرمیاں صرف تجارت تک محدود رہیں، اور نگ زیب کے انتقال کے بعد مغلیہ حکومت کا شیرازہ منتشر ہونے لگا یہاں تک کہ احمد شاہ کے دور حکومت (۱۷۴۸ء تا ۱۷۵۲ ء ) میں یہ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا، بہت سے صوبوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا، ایسٹ انڈیا کمپنی جو اب تک صرف ایک تجارتی کمپنی تھی ملک گیری کی ہوس میں مبتلا ہوگئی اور اس نے اپنی سیاسی قوت بڑھانی شروع کردی یہاں تک کہ اس نے کلکتے میں اپنا ایک مضبوط فوجی قلعہ بھی تیار کرلیا۔
سراج الدولہ پہلا شخص ہے جس نے اس خطرے کو محسوس کیا اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی کوشش کے طور پر پلاسی کے میدان میں ان سے جنگ کی، اگر سراج الدولہ کا وزیر میر جعفر غداری نہ کرتا تو انگریز دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوجاتے، اس غدار وطن کی وجہ سے سراج الدولہ کو شکست حاصل ہوئی، انعام کے طور پر میر جعفر کو بنگال کا اقتدار ملا، لیکن اس کا اقتدار زیادہ دیر تک بر قرار نہ رہ سکا، کچھ دنوں بعد وہ معزول کردیاگیا، اس کا داماد میر قاسم برسرِاقتدار آیا، انگریزوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ بھی دیر تک اقتدار پر قابض نہ رہ سکا یہاں تک کہ انگریز ۱۷۶۴ ء میں بہار اور بنگال پر قابض ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اودھ تک پھیل گئے، مغل حکمراں شاہ عالم نے سند دیوانی دے کر ان کے قبضے کی توثیق کردی، ایک معاہدے کی رو سے ان پر ۲۶/لاکھ روپے سالانہ زر مال گزاری ضرو ری قرار دیا گیا، ابتدا میں ان کے اختیارات زر مال گزاری کی وصولیابی تک محدود تھے جو بڑھتے بڑھتے داخلی نظم ونسق تک تجاوز کرگئے ، مغلوں کی حکومت قلعہ معلی تک محدود ہوکر رہ گئی اور ہندوستان کے تمام علاقے عملاً ایسٹ انڈیا کمپنی کے تابع بن گئے۔
یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے علاوہ ایران وافغانستان سے تعلق رکھنے والے دوسرے حکمراں بھی ہندوستان کو اپنے زیر نگیں کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے ۱۷۳۸ء میں نادر شاہ نے دہلی کو تباہ وبرباد کیا، اور ۱۷۵۷ ؁ء میں احمد شاہ ابدالی نے دو ماہ تک مسلسل اس شہر کو پر غمال بنائے رکھا ،دوسری طرف انگریز فوجیں مرہٹوں سے ٹکراتی ہوئیں، سراج الدولہ کو شکست دیتی ہوئیں اور سلطان ٹیپو کو جامِ شہادت پلاتی ہوئیں دہلی کی طرف بڑھ رہی تھیں، ابھی انگریزوں نے پور ی طرح دہلی کا اقتدار حاصل بھی نہیں کیا تھا کہ علماء ہند کے میر کارواں امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ (۱۷۰۳ء ۱۷۶۲ء ) نے مستقبل کے خطرات کا ادراک کرلیا، اور دہلی پر قبضے سے پچاس برس پہلے ہی اپنی جد وجہد کا آغاز کردیا، حضرت شاہ صاحبؒ اس وقت طویل قیام کے ارادے سے مکہ مکرمہ میں تھے کہ کشف والہام اور رویائے صادقہ کے ذریعے انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ ہندوستان جائیں ۱۷۳۰ء میں مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران حضرت شاہ صاحب محدث دہلویؒ نے ترکی نظام حکومت کا بہ غور مطالعہ کیا، یورپ افریقہ اور ایشیاء سے آنے والے حجاج کرام سے ان کے ملکی قومی اور سیاسی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا، طویل غور وخوض اور تبادلۂ خیال کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی تباہی، بربادی اور تنزلی کا واحد سبب وہ نظام ہے جو زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ’’فک کل نظام‘‘ (ہر نظام کو ختم کرنے) کی طرف قدم بڑھایا جائے، یہ نظریہ ہی حضرت شاہ صاحبؒ کے انقلابی نصب العین کا نقطۂ آغاز ہے، اس کی پاداش میں آپ پر جان لیوا حملے بھی کئے گئے لیکن آپ اپنے نظریے پر ڈٹے رہے، انہوں نے اپنی کتابوں میں، خطوط میں، تقریروں میں یہ نظریہ اس طرح پیش کیا، ’’تباہ حال شہر جس پر درندہ صفت انسانوں کا تسلط ہو جن کو اپنی حفاظت ودفاع کی پوری طاقت حاصل ہو، یہ ظالم وجابر گروہ جو انسانیت کے لیے سرطان ہے ، انسان اس وقت تک صحت مند نہیں ہوسکتا جب تک اس سرطان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہ دیا جائے۔(حجۃ اللہ البالغہ باب الجہادص ۱۱۵۷(
’’تفہیمات الیہ‘‘ حضرت شاہ ولی اللہ کی معرکۃ الآراء کتاب ہے، اس میں وہ خطوط موجود ہیں جو ذمہ داران حکومت اور والیان ریاست کو وقتا فوقتاً تحریر کئے گئے اور ان کے ذریعے ان اسباب کی نشان دہی کی گئی جن سے ملک اور قوم کو خطرات لاحق ہوئے ، ان اسباب کے تدارک کے لیے حضرت شاہ صاحبؒ نے کیا لائحہ عمل تیار کیا اس کی تفصیلات جاننے کے لیے حضرت شاہ صاحب ؒ کی اہم ترین عربی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے، اس کی کتاب الجہاد سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ جہاد اسلامی کے اصولوں پر مبنی فوجی حکمت عملی سے انقلاب لانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لیے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ایسے رجال کار تیار کئے جائیں جن میں اس نصب العین کو سمجھنے کی صلاحیت بھی ہو اور اسے عملی جامہ پہنانے کی طاقت اورہمت بھی، ایسے افراد کی تیاری کے لیے حضرت شاہ صاحبؒ نے متعدد جگہوں پر فوجی تربیت کے لیے باقاعدہ مراکز قائم کئے۔
دہلی، رائے بریلی، نجیب آباد، ٹھٹھ سندھ اور لکھنؤ چند ایسے مقامات ہیں جہاں نوجوانوں میں جذبۂ جہاد پیدا کیا جاتا تھا اور انہیں آنے والے انقلاب کے لیے تیار کیا جاتا تھا ،اس جدو جہد میں جن حضرات نے حضرت شاہ صاحب ؒ کے فکر کی ہر طرح تائید کی اور ان کے نظریئے پر مبنی انقلاب کی تیاری کے لیے کی جانے والی جدو جہد کے دائرے کو وسیع تر کیا ان میں مولانا محمد عاشق پھلتیؒ مولانا نور اللہ بڈھانویؒ ، مولانا محمد امین کشمیریؒ ، مولانا شاہ محمد ابو سعید رائے بریلویؒ مولانا مخدوم لکھنویؒ اور حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ تھے، ( علمائے ہند کا شاندار ماضی ج ۲ ص ۲۸)جہاد کے ان مراکز کے ذریعے عوام الناس کے دلوں میں جہاد کی روح پھونکی گئی اور قربانی وجاں نثاری کا وہ جذبہ پیدا کیا گیا جو کسی مقصد کے حصول کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے افسوس حضرت شاہ صاحبؒ ۱۷۶۵ء میں وفات پاگئے اورا ن کا خواب تشنۂ تعبیر رہ گیا تاہم وہ اپنی کتابوں کے ذریعے اور اپنے فکر وعمل کے ذریعے ایک نصب العین متعین کرچکے تھے، انقلاب کا پورا لائحہ عمل تیار کرچکے تھے اور انقلاب کے بعد ممکنہ حکومت کے لیے مذہبی، اقتصادی، اور سیاسی اصولوں کی روشنی میں ایک مکمل نظام وضع کرچکے تھے، ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ لوگ میدانِ عمل میں آئیں، چناں چہ حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے حوصلہ دکھایا، حالاں کہ وہ اس وقت محض سترہ سال کے تھے مگر اپنے والد بزرگوار کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے عزم واستقلال سے کام لیااور حضرت شاہ صاحبؒ کے نظریۂ انقلاب کو مخصوص لوگوں کے دلوں سے نکال کر عام انسانوں کے دلوں میں اس طرح پیوست کردیا کہ ہر زبان پر جہاد اور انقلاب کے نعرے مچلنے لگے۔
انقلاب کی اس صدائے باز گشت کو دہلی سے باہر دور دور تک پہنچانے میں حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے تینوں بھائیوں حضرت شاہ عبد القادرؒ ، حضرت شاہ رفیع الدینؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی دہلوی ؒ کے علاوہ جن لوگوں نے پورے خلوص اور للہیت کے ساتھ اپنا بھر پور تعاون پیش کیا ان میں حضرت شاہ عبد الحئؒ ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ ، حضرت سید احمد شہیدؒ اور مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ کے اسمائے گرامی بہ طور خاص قابل ذکر ہیں، تربیت گاہ عزیزی سے نکل کر مسلح جد وجہد کو نصب العین بنانے والوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز تھی، اور ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جہاں اس انقلاب کی دستک نہ سنی گئی ہو اور جہاں اس آواز پر لبیک کہنے والے موجود نہ ہوں۔
حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے اس تحریک کو دل وجان سے پروان چڑھایا مگر طرح طرح کی مشکلات اورمصائب بھی برداشت کئے، آپ کی جائداد بھی ضبط کی گئی، آپ کو شہر بدر بھی کیا گیا، آپ پر قاتلانہ حملے بھی کئے گئے، دو مرتبہ زہر دیا گیا، اور ایک مرتبہ ابٹن میں چھپکلی ملا کر پورے بدن پر مالش بھی کی گئی، جس سے بینائی بھی جاتی رہی اور بے شمارا مراض بھی پیدا ہوئے، ان تمام مصائب کے باوجود ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش محسوس نہیں کی گئی، ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک نے شاہ عالم بادشاہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور دہلی پر قابض ہوگیا، اس قبضے کے لیے جوسہ نکاتی فارمولہ اپنایا گیا وہ یہ تھا ’’خلقت خدا کی ، ملک باد شاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ یہ فارمولہ اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ بادشاہت کے خاتمے سے عوام میں بد دلی اور مایوسی پیدا نہ ہو اور وہ بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائیں، اس لیے بادشاہ کے تخت وتاج کو توباقی رکھا گیا مگر اس کے تمام اختیارات سلب کرلئے گئے، قناعت پسند طبیعتوں کے لیے یہ فارمولہ بھی تسلی بخش تھا، مگر حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ اور ان جیسا فکر رکھنے والے لوگ اس تعبیر میں مضمر فریب اور خطرے کو محسوس کر رہے تھے، یہ وہ مرحلہ تھا جب آپ نے انگریزی اقتدار کے خلاف نہایت جرأت مندانہ فتوی جاری کیا ،جس کے فارسی متن کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے: ’’یہاں رؤساء نصاریٰ (عیسائی افسران) کا حکم بلا د غدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور اُن کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری، انتظامات رعیت خراج، باج، عشر ومال گزاری، اموالِ تجارت، ڈاکوؤں اور چوروں کے انتظامات، مقدمات کا تصفیہ، جرائم کی سزاؤں وغیرہ (یعنی سول، فوج، پولیس، دیوانی اور فوج داری معاملات، کسٹم اور ڈیوٹی وغیرہ) میں یہ لوگ بطور خود حاکم اورمختار مطلق ہیں، ہندوستانیوں کو اُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں، بے شک نماز جمعہ، عیدین اذان اور ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور حریت کی بنیاد ہے (یعنی ضمیر اور رائے کی آزادی اور شہری آزادی) وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے، چناں چہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کردیتے ہیں، عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے، انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا ہندو اُن کے پاسپورٹ اور پرمٹ کے بغیر اس شہر یا اُس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا، عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے، اس کے بالمقابل خاص خاص ممتاز اور نمایاں حضرات مثلا شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے، دہلی سے کلکتہ تک انہیں کی عمل داری ہے۔ بے شک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آباد، لکھنؤ، رام پور میں چوں کہ وہاں کے فرمانر واؤں نے اطاعت قبول کرلی ہے، براہِ راست نصاریٰ کے احکام جاری نہیں ہوتے‘‘۔ (مگر اس سے پورے ملک کے دار الحرب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا)(فتاویٰ عزیزی فارسی جلد اول ص ۱۷ مطبوعہ مطبع مجتبائی بحوالہ علماء ہند کا شاندار ماضی جلد دوم صفحہ ۴۴۸۔ ۴۴۹)
یہ اولین فتوی ہے جو انگریزوں کے خلاف دیا گیا اور جس میں دار الحرب کا مخصوص اصطلاحی لفظ استعمال کیا گیا، جس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ ہر محب وطن مسلمان شہری پر فرض ہے کہ وہ ان اجنبی حکمرانوں کے خلاف اعلان جنگ کرے اور اس وقت تک سکون سے نہ بیٹھے جب تک قابضین کا ایک ایک فرد ملک کی سرحد سے باہر نہ ہوجائے۔ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے اس فتوے کا اثر یہ ہوا کہ خواص تو خواص عوام بھی انگریزوں کے خلاف مسلح جدو جہد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے(علمائے ہند کا شاندار ماضی ج ۲ ص ۱۰۴) یہ اسی فتوے کا اثر تھا کہ آپ کی تحریک حریت کے ایک جانباز سپاہی حضرت سید احمد شہیدؒ نے گوالیار کے مہاراجہ کو لکھا کہ یہ ’’بیگانگان، بعید الوطن وتاجران متاع فروش‘‘ آج بادشاہ بن بیٹھے ہیں، سمندر پار اجنبیوں اور سامان بیچنے والوں کا زمام اقتدار سنبھالنا واقعی عار کی بات تھی اور حضرت سید احمد شہیدؒ اس حوالے سے گوالیار کے مہاراجہ کو انگریزوں کے خلاف آمادۂ جنگ کرنا چاہتے تھے، ان خطوط کے علاوہ حضرت سید احمد شہیدؒ اپنے پیرو مرشد رہنما وقائد حضرت شاہ عبدالعزیزدہلویؒ کے حکم پر امیر علی خاں سنبھلی کے پاس بھی تشریف لے گئے جو اس وقت جسونت راؤ ہلکر کے ساتھ مل کر انگریزی فوجوں پر شب خوں مار رہا تھا، ۱۸۱۵ ء تک یہ اشتراک کامیابی کے ساتھ جاری رہا، لیکن انگریزوں نے امیر علی خاں کو نواب کا خطاب اور محفوظ ریاست کا لالچ دے کر ہتھیار رکھنے پر مجبور کردیا، اس صورت حال سے آزردہ خاطر ہوکر حضرت سید احمد شہیدؒ دہلی واپس ہوگئے ، اس طرح ۱۸۱۸ ء تک تمام چھوٹے بڑے علاقے اور ریاستیں انگریزوں کے زیر اقتدار آگئیں۔
حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے اپنے ضعف، گوناگوں امراض اور پیرانہ سالی کے باوجود استخلاص وطن کے لیے اپنی جد وجہد کا سفر جاری رکھا، انگریزوں کو اقتدار سے دور رکھنے میں ناکامی کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئے، اور نہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے بلکہ انہوں نے بدلے ہوئے حالات میں ایک نیا لائحہ عمل مرتب کیا جس کے تحت دو کمیٹیاں بنائی گئیں، ایک کمیٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھی، اس میں شاہ محمد اسحاق دہلویؒ ، مولانا شاہ محمد یعقوب دہلویؒ ، مفتی رشید الدین دہلویؒ ، مفتی صد ر الدین آزردہؒ ، مولانا حسن علی لکھنویؒ ، مولانا حسین احمد ملیح آبادیؒ اور مولانا شاہ عبد الغنی دہلویؒ جیسے اولو العزم حضرات شامل تھے، اس کمیٹی کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ جہاد کے اصل مرکز کو اس کے اصل کردار کے ساتھ باقی رکھے، تاکہ اس کے ذریعے ایک ایسی نسل کی آب یاری کا سلسلہ جاری رہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے طے کردہ خطوط کے مطابق منبرو محراب کی زینت بننے کی اہل بھی ہو اور محاذ جنگ پر دشمنوں سے طاقت آزمائی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، دوسری کمیٹی کی قیادت حضرت سید احمد شہیدؒ کے سپرد کی گئی اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبد الحیؒ کواُن کا خصوصی مشیر متعین کیا گیا، اس کمیٹی کے ذمّے یہ کام تھا کہ اس کے اراکین ملک بھر میں گھوم پھر کر عوام بالخصوص علماء کے دلوں میں انقلاب کا جذبہ پیدا کریں، رضا کار بھرتی کریں، اور انہیں محاذ جنگ پر لڑنے کی ٹریننگ دیں، مالیہ فراہم کریں، غیر ممالک کے ساتھ خاص طور پر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کریں، اور جہاں بھی موقع ہو جنگ لڑیں، چناں چہ ۱۸۲۴ء میں حضرت شاہ احمد شہیدؒ نے پورے طور پر خود کو جہاد کے لیے وقف کردیا۔(تاریخ دیوبند ص ۱۹۱)
اس مقصد کے لیے حضرت سید احمد شہیدؒ نے سات ہزار میل کا ایک طویل انقلابی دورہ کیا جس کے دوران وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی گئے، اس سفر کا بڑا مقصد یہ تھا کہ عوام کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا جائے، ۲۱/ ستمبر ۱۸۲۶ ء کو حضرت سید احمد شہیدؒ نے فوجی کاروائی کا آغاز کیا اور کئی باضابطہ جنگیں لڑیں، ان جنگوں میں حضرت سید احمد شہید ؒ اور ان کے رفقاء نے خوب داد شجاعت دی، ۱۰/ جنوری ۱۸۲۷ء کو عارضی حکومت بھی قائم ہوئی، لیکن ایک طرف مجاہدین کی بے سروسامانی دوسری طرف سکھوں اور انگریزوں کی جدید ترین اسلحہ سے لیس مشترک فوج، بے شمار چھوٹی بڑی جنگوں کے بعد ۱۸۳۱ میں حضرت سید احمد شہیدؒ کی فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی، آپ نے اور آپ کے قریب ترین رفیق حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور دوسرے بے شمار ساتھیوں نے بالاکوٹ کے میدان میں جام شہادت نوش کیا۔(تاریخ ہند: ۳۹۸ ،سیر ت سید احمد شہیدؒ ج ۲ ص ۴۱۴)
حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک اگرچہ استخلاص وطن کے لیے تھی، مگر اس پر مذہبی رنگ غالب تھا تاکہ عوام میں مذہبی جذبات بیدار ہوں، یہ محض تحریک آزادی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے اعمال ومعتقدات کی اصلاح بھی مقصود تھی، اس تحریک سے وابستہ ہر شخص فوجی جرنیل بھی تھا، اور احیاء سنت کا علم بردار بھی اس تحریک کی بہ دولت ہندوستان کے مسلمانوں کے جسم وجاں میں مذہب کی روح پوری طرح تحلیل ہوچکی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب ۱۸۵۷ ء میں انقلاب کی تحریک دو بارہ شروع ہوئی تو انگریزی فوج میں شامل مسلمانوں کو مذہب کے حوالے ہی سے بغاوت پر اُکسایا گیا، انہیں بتلایا گیا کہ جس کار توس کو استعمال کے وقت منہ سے کھینچنا پڑتا ہے اس میں سُور کی چربی ملی ہوئی ہے، یہ سن کر مسلمان فوجی بھڑک گئے اور اس طرح میرٹھ سے تحریک آزادی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔
حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ کی شہادت کے بعد یہ تحریک ختم نہیں ہوئی، بلکہ وہ جذبہ جو اس تحریک کے ذریعے عوام وخواص کے دلوں میں پروان چڑھا تھا اسی طرح تروتازہ رہا، ابتدا میں یہ ایک چنگاری تھی جو آہستہ آہستہ ایک شعلہ بن گئی ، انگریز اس تحریک کو جسے انہوں نے وہابی تحریک کا نام دیا تھا کچلنے کے لیے پوری طرح سرگرم عمل رہے ۔ ۱۸۴۸ء میں انگریزوں کے ساتھ اس تحریک سے وابستہ افراد نے پنجاب کے متعدد شہروں میں بے شمار جنگیں لڑیں، بہت سے لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، بے شمار مجاہدین گرفتار کئے گئے ان پر مقدمات چلے اور انہیں بغاوت کے الزام میں سرِدار چڑھا یا گیا۔
بعد میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ۱۸۵۷ء کی انقلابی تحریک ، ۱۸۵۷ء کا جہاد شاملی ، ۱۹۱۴ء کی تحریک ریشمی رومال ،۱۹۱۹ئکا جلیان والا باغ قتل عام، ۱۹۲۰ء کی تحریک عدم تعاون ،۱۹۲۲ء کی موپلا بغاوت، ۱۹۲۲ء میں چورا چوری فائرنگ، ۱۹۳۰ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک ستیہ گرہ، ۱۹۴۲ء کی ہندوستان چھوڑو تحریک، ۱۹۴۶ء میں آزاد ہند فوج کی قربانیاں، ۱۹۴۶ء میں ممبئی کے فوجی بحری بیڑے کے جوانوں کی بغاوت اور اس کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پر پولیس کی وحشیانہ فائرنگ کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کی شہادت ،یہ تمام واقعات در اصل حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک جہاد کے تسلسل کا عنوان ہیں، اور ان میں سے ہر عنوان میں علمائے کرام کے قربانیوں کی ایک طویل داستان پوشیدہ ہے اور ہر داستان کا ایک ایک لفظ لاکھوں مسلمانوں کے لہو سے رنگین اور روشن ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس