پیر، 28 اگست، 2017

تحویل قبلہ اور اس کی حکمتیں

تحویل قبلہ اور اس کی حکمتیں
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہی:
”روز قیامت کسی نبی کے ساتھ ایک شخص اور کسی نبی کے ساتھ دو اورکسی نبی کے ساتھ اس سے زائد افراد آئیں گے، پس نبی سے سوال ہو گا کہ کیا آپ نے اپنی قوم کو پیغام خدا وندی پہنچا دیا تھا؟ نبی کہے گا کہ ”ہاں“پھر ان افراد کو بلایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں پہنچا دیا تھا۔ وہ کہیں گے کہ ”نہیں“۔اس پر نبی سے کہا جائے گا کہ تمہارے حق میں گواہی کون دے گا ؟ وہ امت محمدیہ کا حوالہ دیں گے، پس آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کو بلا یا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کیا اس نبی نے میرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا؟ امت محمدیہ جواب دے گی کہ ”ہاں“۔اس پر ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں اس چیز کا کیسے علم ہوا؟ ( یعنی گواہی کس بنیاد پر دیتے ہو؟ )وہ کہیں گے کہ ہمیں ہماری نبی نے خبر دی کہ تمام رسولوں نے پیغام الہٰی اپنی اپنی قوموں کو پہنچا دیا ہے اور ہم نے اس خبر کو سچ جانا۔( اس بنیاد پر گواہی دی)پس الله تعالیٰ کا فرمان﴿وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطا﴾ پھر امّت محمدیہ کی سچی گواہی کی تصدیق آپ صلی الله علیہ وسلم کریں گے۔( تفسیر ابن کثیر، سورة البقرة،ذیل آیت143)

پہلا اشکال
اسی تفسیر پر پہلا اشکال یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت کی رو سے یہ امت انبیاء سے زیادہ معتبر ہوئی، حالاں کہ انبیاء کا مرتبہ بہرحال بلند ہے۔

جواب:لیکن ادنیٰ تامل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مقدمہ میں کوئی ایک فریق خواہ کتنا ہی معتمد کیوں نہ ہو، محض اسی کے قول کا اعتبار کرنا ناانصافی کہلاتا ہے، لہٰذا اس سے گواہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، پھر یہ ضروری نہیں کہ گواہ مرتبے کے اعتبار سے فریق سے بلند ہو، بلکہ کم درجے کا گواہ بھی قابل قبول ہو جاتا ہے ،جیسے کوئی وزیر ( خواہ کتنا ہی معتمد کیوں نہ ہو ) اپنے مقدمہ میں کسی چپراسی کو بطور گواہ پیش کرے تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چپراسی کو وزیر سے زیادہ مرتبہ دیا گیا ہے ۔

دوسرا اشکال
امت محمدیہ کی گواہی بغیر مشاہدہ محض خبر کی بنیاد پر کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟

جواب : گواہی محض مشاہدہ کی بنا پر نہیں دی جاتی بلکہ علم یقینی کی بنا پر دی جاتی ہے ، پس جس طرح مشاہدہ، علم یقینی کا ایک ذریعہ ہے، اسی طرح علم یقینی کے دیگر ذرائع بھی ہیں ۔ مثلاً دور سے دھواں دیکھ کر آگ کا معلوم ہونا اور پوسٹ مارٹم کے ذریعے سے موت کی وجوہات کا معلوم ہونا، ان دونوں مثالوں میں اگر چہ آگ او رموت کا مشاہدہ نہیں ہوا، لیکن نشانیوں سے آگ اور موت کا علم حاصل ہو گیا۔

پس ہم کہتے ہیں کہ علم یقینی کا سب سے اہم ذریعہ وحی الہٰی ہے، مشاہدہ اور علامات کا درجہ اس کے بعد آتا ہے ، لہٰذا امت محمدیہ انبیاء کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف اسی علم قطعی کے ذریعے گواہی دے گی جو انہیں رسول پر نازل شدہ وحی کے ذریعے سے حاصل ہوا تھا۔پس کوئی اشکال نہ رہا ۔

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ 
اب تحویل قبلہ کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ قبلہ یعنی بیت المقدس کو اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم بظاہر جان لیں کہ کون الله کے رسول کی پیروی کرتا ہے او ر کون ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے؟ہجرت کے بعد جب بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا گیا تو عرب لوگوں کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی کہ وہ لوگ رسول کی پیروی کرتے ہیں یاقومی تعصب میں اپنے باپ، دادا کے قبلہ پر قائم رہتے ہیں۔او رجب بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو اختیار کیا گیا تو اس میں یہود کی آزمائش مقصود تھی ، چناں چہ اس آزمائش میں مومنین کام یاب رہے۔

چند لوگوں کو یہ شبہ پیش آیا کہ جب کعبہ قبلہ مقرر ہو چکا ہے تو اس سے پہلے جو مسلمان بیت القدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اب وہ دنیا سے جاچکے ہیں، ان کی نمازوں کا کیا ہو گا؟ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ الله تعالیٰ تمہارے ایمان (اس سے مراد نماز ہے ) کو ضائع کرنے والا نہیں، کیوں کہ وہ نمازیں بھی الله کے حکم کے مطابق پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھی گئی ہیں، نماز لازمہ ایمان ہے، ملزوم بول کر لازم مراد لینا مجاز کے قبیل سے ہے۔

﴿قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِیْ السَّمَاء فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّہِمْ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ، وَلَئِنْ أَتَیْْتَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَکَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم مِّن بَعْدِ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ ، الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ،الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾․(البقرہ، آیت:144 تا147)

بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھناتیرے منھ کا آسمان کی طرف ، سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے ، اب پھیر منھ اپنا طرف مسجد الحرام کے او رجس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منھ اسی کی طرف اور جن کو ملی ہے کتاب۔ البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ان کے رب کی طرف سے اور الله بے خبر نہیں ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں اور اگر تو لائے اہل کتاب کے پاس ساری نشانیاں تو بھی نہ مانیں گے تیرے قبلہ کو اور نہ تو مانے ان کا قبلہ اور نہ ان میں ایک مانتا ہے دوسرے کا قبلہ او راگر تو چلا ان کی خواہشوں پر بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا تو بے شک تو بھی ہوا بے انصافوں میںoجن کو ہم نے دی ہے، کتاب پہچانتے ہیں اس کو جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور بے شک ایک فرقہ ان میں سے البتہ چھپاتے ہیں حق کو جان کر حق وہی ہے جو تیرا رب کہے پھر تو نہ ہو شک لانے والا

ربط آیات:گزشتہ آیات میں تحویل قبلہ پر کفار کے اعتراضات کا حاکمانہ جواب تھا، اب حکیمانہ جواب صادر فرماتے ہیں۔

تفسیر
پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طبعی میلان خانہ کعبہ کی جانب تھا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بیت المقدس آپ کا عارضی قبلہ تھا، اصلی قبلہ تو کعبہ ہی تھا، لہٰذا آپ کا طبعی میلان بھی اسی جانب کر دیا گیا تھا۔

چناں چہ اسی خواہش او رمیلان کی بنا پر بعض اوقات آپ کی نگاہ وحی کے انتظار میں آسمان کی جانب اٹھ جاتی تھی کہ کب تحویل قبلہ کا حکم صادر ہو؟ آیت کریمہ میں اسے ہی بیان کیا گیا ہے کہ ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی جانب پھرنا دیکھتے رہے ہیں، پس آپ کی امید رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ضرور اسی قبلہ کا حکم دیں گے، جس پر آپ راضی ہیں۔

سبحان الله… کیا شان محبوبیت ہے!! الله تعالیٰ خود اپنے بندے کی رضا کے طلب گار ہیں۔تو لیجیے آپ کی رضا کے مطابق حکم دے ہی دیتے ہیں، اب اپنا رخ مسجد حرام کی جانب پھیرلیں اور یہ حکم آپ کی ذات کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ آپ کی امت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ تم جہاں بھی ہو نماز میں اپنا رخ کعبہ کی جانب ہی کرو، خواہ بیت المقدس ہی میں کیوں نہ ہو۔

اور یہ اہل کتاب بھی ضرور جانتے ہیں کہ نبی آخر الزمان ذو قبلتین ہوں گے، یعنی ان کا عارضی قبلہ بیت المقدس اور دائمی قبلہ کعبہ ہو گا، ان کی کتابوں میں اس کی واضح نشانیاں موجود ہیں ، لہٰذا ان کے اعتراضات سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں ، بلکہ یہ انکار ان کی ہٹ دھرمی پر مبنی ہے اور الله تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب جانتا ہے۔

احکام استقبال قبلہ
اگر نماز پڑھنے والا مسجد حرام کے اندر ہو تو نمازی کے سینہ کا رخ عین کعبہ کی جانب ہونا لازمی ہے۔ (وفی التجنیس: من کان بمعاینة الکعبة فا لشرط اصابة عینھا، ومن لم یکن بمعاینتھا فا الشرط اصابة جھتھا، وھوالمختار․ البحرالرائق، کتا ب الصلاة، باب شروط الصلاة:3/121)۔

آیت میں چہرے کا ذکر مجازاً کیا گیا ہے، اصل مراد سینہ کا رخ ہے۔ ( وفی الفتاوی: والانحراف المفسد ان یجاوز المشارق الی المغارب․ وفی التجنیس: اذا حول وجہہ لا تفسد صلاتہ، وتَفْسد بصدرہ․3/121)․

اسی لیے اگر سینے کا رخ کعبہ کی جانب ہوتے ہوئے چہرہ کعبہ سے پھر بھی جائے تو نماز درست ہو گی۔ (وفی الفتاوی: والانحراف المفسدأن جاوز المشارق الی المغارب․ وفی التجنیس: اذا حول وجہہ لا تفسد صلاتہ، وتفسد بصدرہ․3/121)․

اور مسجد حرام سے باہر کے لوگوں کے لیے عین کعبہ کی جانب رخ کرنا کافی مشکل امر تھا ،اس لیے مسجد حرام کی جانب رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور جو لوگ بلاد بعیدہ کے ہیں ان کے لیے چوں کہ عین مسجد حرام کی جانب رخ کرنا بھی کافی مشکل امر ہے ،اس لیے ایسے لوگوں کے لیے جہت کعبہ میں رخ کرکے نماز پڑھنا ہی کافی ہے ، عین کعبہ یا مسجد حرام کی جانب رخ کرنا لازمی نہیں۔ لہٰذا اگر تھوڑا بہت انحراف پایا بھی جائے تو مضائقہ نہیں۔

قبلے کے بارے میں یہود ونصاریٰ کا باہمی اختلاف
وَلَئِنْ أَتَیْْتَ الَّذِیْنَیہاں سے اہل کتاب کی ضد وعناد کو واضح کرتے ہیں کہ اگر آپ ان کے پا س ہر قسم کی نشانی لے آئیں کہ قبلہٴ اہل حق یہی کعبہ ہے، تب بھی یہ آپ کے قبلے کا اتباع نہیں کریں گے اور آپ کو تو معلوم ہے کہ ان لوگوں کے لیے قبلہ محض جہت پرستی کی حیثیت رکھتا ہے ، لہٰذا آپ قبلہ میں ان کی موافقت کرنے والے نہیں۔

ان کی ہویٰ پرستی کا تو یہ عالم ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے قبلے کی بھی پیروی نہیں کرتے ،یہود کا قبلہ بیت المقدس کا ہیکل سلیمانی ہے اور نصاری آفتاب کے طلوع ہونے کی سمت کو قبلہ مانتے ہیں، حالاں کہ عیسائی تورات کی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود باہمی طور پر متفق نہیں تو آپ کے قبلے پر کیسے راضی ہو جائیں گے؟! آپ کے قبلے کا تقرر وحی کی بنیاد پر ہوا، اگر اس کے باوجود آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی آپ کا شمار بھی ظالموں میں ہو گا۔ چوں کہ نصوص قطعیہ سے آپ کی معصومیت ثابت ہے۔ لہٰذا آپ کے لیے ان کی اتباع بھی محال ٹھہری۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت اظہر من الشمس ہے
اس کے ساتھ ہی یہ اہل کتاب اس امر قبلہ کی طرح آپ کا نبی برحق ہونا بھی اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ یعنی اپنا بیٹا اکثر نظروں کے سامنے موجود ہوتا ہے، جس طرح اس کی صورت دیکھ کر پہچاننے میں غلطی کا اشتباہ نہیں ہوتا، اس طرح آپ میں علامت نبوّت دیکھ کر بھی آپ کی نبی برحق ہونے میں کوئی تردد نہیں رہتا۔

آیت کی یہی تفسیر راجح ہے ، ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے، اہل کتاب آپ کا نبی مرسل ہونا اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹے کو پہچانتے ہیں کہ یہ واقعی میرا بیٹا ہے، لیکن اس تفسیر کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت کے واضح ہونے میں کوئی خاص تاکیدنہیں رہتی۔ کیوں کہ حضرت عبدالله بن سلام ص سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر فاروق ص کے استفسار کے جواب میں فرمایا کہ اپنی بیوی میں تو خیانت کا احتمال ہے، جس سے اپنا بیٹا ہونے میں شبہ ہو سکتا ہے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت میں ذرہ برابر بھی احتمال نہیں۔ ( مأخوذاز بیان القرآن، البقرة:145)

آیت مذکورہ میں بعض لوگوں کو یہ اشکال بھی پیش آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وضوحِ نبوّت کو خود اپنی شناخت سے تشبیہ دینا زیادہ بلیغ تھا، بنسبت بیٹے کی شناخت کے۔

لیکن بیٹے کی معرفت سے تشبیہ دینے میں یہ نکتہ ملحوظ رکھا گیا ہے باپ کو اپنے بیٹے کی شناخت ہر حال میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اپنی شناخت بعض اوقات مثلاً بیہوشی کی عمر میں کھو بھی بیٹھتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوّت کے اس قدر واضح ہونے کے بعد بھی تمام اہل کتاب آپ پر ایمان نہیں لاتے، بلکہ بعض ایمان لاتے ہیں اور بعض جانتے بوجھتے بھی حق کو چھپاتے ہیں۔

﴿الْحَقُّ مِن رَّبِّک…﴾: یعنی حق تو وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہے ، لہٰذا آپ شک کرنے والوں میں سے مت ہوں اور اہل کتاب کے عناد کی کچھ پرواہ مت کریں۔حق سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وہ تعارف ہے جو تورات وانجیل میں مذکور ہے۔

﴿وَلِکُلٍّ وِجْہَةٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْْرَاتِ أَیْْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ، وَمِنْ حَیْْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ،وَمِنْ حَیْْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْْکُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْہُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَلأُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․(البقرہ، آیت:148تا150)

اور ہر کسی کے واسطے ایک جانب ہے، یعنی قبلہ کہ وہ منھ کرتا ہے اس طرف، سو تم سبقت کرو نیکیوں میں ، جہاں کہیں تم ہو گے کر لائے گا تم کو الله اکٹھا، بے شک الله ہر چیز کر سکتا ہےاور جس جگہ سے تو نکلے سومنھ کر اپنا مسجد الحرام کی طرف اور بے شک یہی حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور الله بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے اور جہاں سے تو نکلے منھ کر اپنا مسجد الحرام کی طرف اور جس جگہ تم ہوا کرو سو منھ کرو اسی کی طرف، تاکہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جھگڑنے کا موقع، مگر جو ان میں بے انصاف ہیں سو ان سے (یعنی ان کے اعتراضوں سے ) مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور اس واسطے کہ کامل کروں تم پر فضل اپنا اور تاکہ تم راہ پاؤ سیدھی

ربط آیات:ان آیات میں تحویل قبلہ کی مزید حکمتیں بیان کی جارہی ہیں۔

تفسیر :ہر زمان ومکان میں بیت الله کی طرف رخ کرنے کا حکم
ولکل وجہة الخ: یعنی ہر امت کے لیے ایک جہت مقرر ہے،جس کی طرف وہ اپنی عبادت میں رخ کرتے ہیں ،خواہ وہ جہت خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہو یا خود اپنی طرف سے مقرر کر رکھی ہو، پس اسی طرح امت مسلمہ کے لیے الله تعالیٰ نے کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا ہے ، لہٰذا اس الگ قبلہ مقرر ہونے پر شور وشغب کی کوئی بات نہیں ، لہٰذا تم آپس میں نیکیوں میں سبقت کرو، کیوں کہ یہی منشأ خدا وندی ہے۔ قبلہ کی بحث میں پڑ کر عبادت سے غافل مت ہونا، تم جہاں بھی ہو گے الله تعالیٰ تمہیں اکٹھا کرکے قیامت کے دن حاضر کرے گا۔

ومن حیث خرجت 
یعنی اے محمد( صلی الله علیہ وسلم)! آپ جس جگہ سے بھی سفر کے لیے نکلو نماز میں اپنے چہرے کا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، یہ حکم بالکل حق ہے، آپ کے رب کی طرف سے اور الله تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔

اور اے مومنو! تم جہاں سے بھی سفر میں نکلو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو اور تاکید کے لیے پھر مکرر کہا جاتا ہے کہ تم جہاں بھی ہو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو ۔ یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے، تاکہ تم پر لوگوں کی حجت قائم نہ ہو، یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں گے کہ ہماری کتب کی رو سے آخر المرسلین کا قبلہ کعبہٴ ابراہیمی ہو گا، جب کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا قبلہ بیت المقدس ہے اور مشرکین کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ یہ کیسا نبی ہے، جو دعویٰ تو ملت ابراہیمی کا کرتا ہے لیکن قبلہ ابراہیمی کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف رخ کرتا ہے؟

البتہ بد نصیب لوگ ابھی بھی کٹ حجتی کریں گے کہ محمد( صلی الله علیہ وسلم) اپنے آباء کے دین کی طرف پھر رہے ہیں یا بیت المقدس ( جو کہ انبیاء کا قبلہ رہا ہے ) کو ترک کرکے انبیاء کی مخالفت کے مرتکب ہو رہے ہیں، ایسے لوگوں کا تو کام ہی یہ ہے کہ اپنے لیے انکار کی راہیں ڈھونڈیں اور تمہیں بہکانے کے لیے اعتراضات اور شہبات کا سامان جمع کریں، لہٰذا تم ان سے مت ڈرو، صرف مجھ ہی سے ڈرو۔

اور یہ حکم تحویل اس لیے ہے، تاکہ اس پر عمل کی بدولت آخرت میں تمہیں جنت میں داخل کرکے اپنی نعمت تمام کردوں اور تم سیدھی راہ پر رہو، جیسا کہ اتمام نعمت کا مقتضیٰ ہے۔

اسلوب کلام
تحویل قبلہ کے معاملے میں مشرکین واہل کتاب اور منافقین کی فتنہ انگیزیاں بہت زیادہ تھیں اور بعض ضعیف الاعتقاد مسلمانوں سے ان کے بہکاوے میں آنے کا اندیشہ تھا، اس لیے اس معاملے کو عجیب وغریب انداز میں بیان فرمایا۔ اولاً تو اس کلام کی ابتدا وانتہا میں حکم ماننے والوں کے ہدایت پر ہونے اور نہ ماننے والوں کے گم راہ ہونے کی تصریح فرماتے ہیں ، یعنی آیت نمبر142 میں ﴿یَھْدِیْ مَن یَّشَاءُ﴾ اور آیت نمبر150 میں ﴿وَلَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ﴾ فرمایا گیا۔

ثانیاً: حضر، سفر اور مدینہ ، غیر مدینہ کا حکم تاکید کی غرض سے جدا جدا بیان فرمایا اور اس میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی امت کو جدا جدا خطاب فرمایا گیا، جیسا کہ تشریح سے واضح ہے۔

ثالثاً: استقبال قبلہ کے حکم کے ساتھ ساتھ تینوں مواقع میں ایک ایک حکمت بھی بیان ہوئی ، یعنی آیت نمبر144 میں آپ کی دلی تمنا کو پورا کرنا اور آیت نمبر148 میں ہر امت کا ایک مستقل قبلہ ہونا اور آیت نمبر150 میں کفار کی حجت بازی سے خلاصی حاصل ہونا بیان فرمایا ہے۔

رابعاً: تین مقامات میں اس حکم کے حق ہونے کی تصریح بھی فرمائی ہے ۔دیکھیے آیت نمبر144، 147اور 149۔

اور ساتھ ہی ﴿فَاسْتَبِقُوْ الخَیْراتَ﴾ اور ﴿فَلَا تَخْشَوْھُمْ﴾ فرماکر منازعہ ومجادلہ سے کنارہ کش رہ کر یک سوئی سے الله تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہنے کی تلقین بھی فرما دی گئی۔ (جاری

جمعہ، 18 اگست، 2017

پیر، 14 اگست، 2017

ریاض الصالحین۔ تقویٰ کا بیان

ریاض الصالحین۔ تقویٰ کا بیان

  1. mahajawad1

    mahajawad1محسن


    باب 6
    تقویٰ کا بیان

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔''
    (سورہ آل عمران :102)

    اور فرمایا: ''اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جتنی تم میں استطاعت ہو۔''
    (سورۃ التغابن:16)

    یہ آیت پہلی آیت کے مفہوم و مراد کو واضح کرتی ہے۔ (کہ کماحقہ ڈرنے سے مراد استطاعت کے مطابق ہے)

    اور فرمایا: ''اے مومنو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی اور درست بات کہو۔''
    (سورہ الاحزاب :70)
    اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے بارے میں بہت سی آیات ہیں۔

    اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کا راستہ آسان کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو۔''
    (سورہ الطلاق :2،3)


    اور اللہ نے فرمایا: ''اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو (حق و باطل میں) فیصلہ (کرنے والی) چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔''
    (سورہ االانفال :29)

    اس باب میں بکثرت آیات ہیں ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

    حدیث نمبر 69
    حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: "لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم کون ہے؟" آپ نے فرمایا: ''جو ان میں سے سب سے زیادہ متقی ہے۔'' صحابہ نے عرض کیا: "ہم آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہے۔" آپ نے فرمایا: ''پھر یوسف علیہ السلام ہیں جو خود بھی اللہ تعالیٰ کے نبی، اللہ تعالیٰ کے نبی کے بیٹے، اللہ تعالیٰ کے نبی کے پوتے اور اللہ تعالیٰ کے نبی اور خلیل کے پڑپوتے ہیں۔'' انہوں نے عرض کیا: "ہم آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھ رہے۔ آپ نے فرمایا۔ ''کیا تم مجھ سے عرب کے خاندانوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو؟ پس ان کے جو افراد جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں، بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں۔''
    (متفق علیہ)
    توثیق الحدیث:اخرجہ ابخاری (3876۔فتح) و مسلم (2378)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

    حدیث نمبر 70
    حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیم وسلم نے فرمایا: ''دنیا شیریں اور سرسبز و شاداب ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں جانشین بنانے والا ہے۔ پس وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ پس تم دنیا کے دھوکے سے بچو اور عورتوں کے فتنے سے بچو۔ کیونکہ بنی اسرائیل کی پہلی آزمائش عورتوں کی وجہ سے تھی۔''
    (مسلم)
    توثیق الحدیث اخرجہ مسلم (2742)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

    حدیث نمبر 71
    حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیم وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے۔ ''اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت و پاکدامنی اور (لوگوں سے) بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔''
    (مسلم)
    توثیق الحدیث:اخرجہ مسلم (2721)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

    حدیث نمبر 72
    حضرت ابو طریف عدی بن حاتم طائی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیم وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''جو شخص کسی بات پر قسم کھالے پھر وہ اس سے زیادہ تقویٰ والی بات دیکھے تو اسے تقویٰ کو اختیار کرنا چاہیے۔''
    (مسلم)
    توثیق الحدیث:اخرجہ مسلم (1651)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

    حدیث نمبر 73
    حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اپنی پانچوں (فرض) نمازیں ادا کرو، اپنے (رمضان کے) مہینے کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔''
    (اسے امام ترمذی نے کتاب الصلوٰۃ کے آخر میں ذکر کیا ہے اور کہا کہ حدیث حسن صحیح ہے)
    توثیق الحدیث:صحیح،اخرجہ الترمذی (616) واحمد (2515) والحاکم(91۔389) وصححہ علی شرط مسلم و وافقہ الذھبی۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قائداعظم کاتدین اور حضرت تھانویؒ وخلفاء

#کیا_قائد_اعظم_سیکولر_تھے ؟ 

از ڈاکٹر صفدر محمود

ڈاکٹر صفدر محمود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔حال ہی میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے دین و مذہب کے بارے میں ایک بار پھر بے سروپا باتیں کی گئیں تو ان کا جواب ڈاکٹر صاحب 25 اگست سے روزنامہ نوائے وقت میں قسط وار لکھ رہے ہیں۔ آج اس تحقیقی مضمون کی چوتھی قسط شائع ہوئی ہے۔ چاروں اقساط پیش ہیں۔
#قسط_1 :
سوال یہ ہے کہ کیا بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ سیکولر تھے۔سیکولر کے لغاتی معانی ہیں لادین، دنیاوی، لیکن عام مفہوم کے مطابق سیکولر ایسے شخص کو سمجھاجاتا ہے جو دین اور دنیا کو الگ الگ تصور کرتا ہویعنی مذہب کو محض ذاتی معاملہ سمجھتا ہو اور قومی سیاست کو اپنے مذہب یا دین سے بالکل پاک اور علیحدہ رکھنے کا قائل ہو۔اس ضمن میں مغربی ممالک کی مثال دی جاتی ہے جہاں چرچ اور ریاست جدا جدا ہیں اور سیاست پر مذہب کی پرچھائیاں نہیں پڑتیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ کیا قائداعظمؒ پاکستان میں سیکولر نظام قائم کرناچاہتے تھے؟ ایک اقلیتی دانشور حلقہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو اسلام سے بالکل پاک اور صاف رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک قیام پاکستان کا مقصد ایک سیکولر جمہوری ریاست کا قیام تھا۔یہاں اقلیتی حلقہ سے مراد چھوٹا گروہ ہے۔دوسری طرف اکثریتی حلقے کا اصرار ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا، مذہب ہی پاکستان کے مطالبے کا طاقتور ترین محرک تھا اس لئے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور آئین و سیاست کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کرکے ہی تصور پاکستان کو شرمندہ تعبیر کیاجاسکتا ہے۔نظریاتی حلقے کے دانشوروں کا خیال ہے کہ اگرچہ تحریک پاکستان کے محرکات میں معاشی،سیاسی،سماجی اور تاریخی عوامل وغیرہ نے اہم کردارسرانجام دیا لیکن ان میں سب سے زیادہ موثر فیکٹر مذہب کا تھا جس کے سبب عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں، صعوبتیں برداشت کیں، آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر پاکستان پہنچے۔اس سے قطع نظر اگر پاک و ہند کے مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ احساس پوری طرح جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کی صحیح معنوں میں بقاءکیلئے ایک مسلمان ریاست کا قیام ضروری ہے۔ دراصل یہ احساس ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے تجربات کا نتیجہ تھا۔خود قائداعظمؒ نے بھی اپنی تقریروں میں یہ بات کئی بار کہی۔
کسی بھی شخصیت کے نظریات اور تصورات کو سمجھنے کیلئے اس کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اس کی عوامی زندگی کا مطالعہ ناگزیر ہوتا ہے اور عوامی زندگی کو سمجھنے کیلئے تقریریں،تحریریں، رجحانات اور سرگرمیاں مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ مثلا ہم نے قائداعظمؒ کی ہر سوانح عمری میں یہ واقعہ پڑھا ہے کہ جب وہ لندن میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لیناچاہتے تھے تو انہوں نے لنکزان کو اپنی درسگاہ کے طورپر اس لیے منتخب کیا کہ لنکز ان میں دنیا کے عظیم ترین آئین یا نظام قانون دینے والوں(Greatest Law Givers) کی فہرست میں ہمارے نبی آخر الزمان حضرت محمد کا نام گرامی بھی شامل تھا۔چنانچہ قائداعظم ؒ نے اس سے متاثر ہوکر لنکز ان میں داخلہ لیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا چونکہ اس واقعہ کا انکشاف خود قائداعظمؒ نے کراچی میں عید میلاد النبی کے موقع پر کیا تھا اس لیے یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے۔اسی حوالے سے میں خود بھی لندن میں خاص طور پر لنکز ان دیکھنے گیا تھا۔
میں نے بھی جب یہ واقعہ پڑھا تو اسے اس کے صحیح تناظر میں نہ سمجھ سکا کیونکہ بظاہر قائداعظمؒ مغربی طرز حیات کا نمونہ نظر آتے تھے، وہی مغربی لباس، وہی انگریزی زبان، وہی اطوار.... اس کے برعکس اس بنیاد پر لنکز ان کو منتخب کرنے کا فیصلہ صرف وہی شخص کرسکتا تھا جس کا دل حب رسول سے منور ہو کیونکہ عام حالات میں ایک سترہ سالہ کم سن نوجوان اور پھر لندن کی آزاد فضا میں کون ان باتوں کی پرواہ کرتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ قائداعظمؒ کا تعلق ایک تجارت پیشہ خوجہ فیملی سے تھانہ کہ علامہ اقبال کی مانند ایک ٹھوس مذہبی گھرانے سے.... بچپن کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ عام طورپر نوعمری کی تربیت کے شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے قائداعظمؒ کے لنکز ان کے انتخاب کا صحیح پس منظر اور مفہوم اس وقت سمجھ میں آیا جب میں نے سید رضوان احمد کی کتاب ”قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی تیس(30) سال“ پڑھی۔اس کتاب میں مصنف نے گہری تحقیق کے بعد قائداعظمؒ کے بچپن کے بارے میں کچھ ایسی معلومات کا انکشاف کیا ہے جو اس سے قبل منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ قائداعظمؒ کے والد گرامی تجارت کے ساتھ ساتھ مشن ہائی سکول کراچی میں پڑھاتے بھی تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو شروع میں سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کروایا کیونکہ مشن سکول میں عیسائیت کا پرچار بھی کیا جاتا تھا جبکہ سندھ مدرستہ الاسلام میں بچوں کی دینی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی۔ مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کے مطابق محمد علی جناح کے نام کے سامنے والے خانے میں حسب رواج خوجہ لکھنے کی بجائے محمڈن لکھایاگیا۔ قائداعظمؒ سندھ مدرستہ الاسلام چھوڑ کربمبئی گئے تو وہاں بھی انجمن اسلامیہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں لندن جانے سے قبل وہ مختصر سے عرصہ کیلئے کراچی کے مشن سکول میں بھی طالب علم رہے۔سید رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح بھائی پونجا مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور شام کے وقت محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے جبکہ قائداعظمؒ کی والدہ بچوں کو تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی تربیت قدرے مذہبی ماحول میں ہوئی اور اسی مذہبی تربیت کا اثر تھا کہ قائداعظمؒ نے لندن میں لنکز ان کا انتخاب کیا۔
حصول تعلیم کے بعد عملی زندگی کا آغاز کرنے کیلئے قائداعظمؒ1896ءمیں بمبئی پہنچے۔اس وقت ان کی عمر بیس برس تھی۔اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں فروکش ہوتے ہی انجمن اسلامی بمبئی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کی میٹنگوں میں شرکت کرنے لگے۔ انہوں نے انجمن اسلامی بمبئی کی میٹنگ میں پہلی بار8جولائی 1897ءکو شرکت کی اور پھر اسی سال 14اگست کو انجمن اسلامی نے عید میلاد النبی کے ضمن میں جلسہ کیا تو قائداعظمؒ اس میں بھی شریک ہوئے۔عید میلاد النبی کی تقریب کی نواب محسن الملک نے صدارت کی اور اس تقریب میں سیرت النبی پر تقریروں کے علاوہ نعتیں پڑھی گئیں اور سرور کائنات کی خدمت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ قائداعظمؒ کی حضور نبی کریم سے عقیدت کا اس سے پتا چلتا ہے کہ سیاسی و قانونی زندگی کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اکثر عید میلاد النبی کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے۔
قائداعظمؒ1910ءمیں امپیریل لیجسلیٹو کونسل(اعلیٰ ترین قانون ساز اسمبلی) کے رکن منتخب ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ پریوی کونسل کے ایک فیصلے کے نتیجے کے طورپر مسلمانوں کے روایتی نظام وقف علی الاولاد پر زد پڑی تھی جس سے نہ صرف مسلمانوں کے مفادات متاثر ہوئے تھے بلکہ ان کا ایک صدیوں پرانا سسٹم بھی غیر موثر ہوکر رہ گیا تھا۔چنانچہ مسلمان نہایت پریشان تھے اور برطانوی حکومت کے سامنے اپنے آپکو بے بس محسوس کرتے تھے۔
قائداعظمؒ نے کونسل کارکن منتخب ہونے کے بعد وقف علی الاولاد کابل کونسل میں پیش کیا اور پھر انکی کئی برس کی محنت اور مسلسل کوشش سے وہ قانون بن گیا۔ امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی میں یہ پہلا بل تھا جو کسی مسلمان رکن نے مسلمانوں کے بارے میں پیش کیا اور وہ قانون بنا۔
1918ءمیں انہوں نے بمبئی کی ممتاز شخصیت سرڈنشا کی بیٹی رتی سے شادی کی تو شادی سے قبل قبول اسلام کی شرط رکھی۔ رتی ڈنشا پہلے مسلمان ہوئیں اور پھر ان کا نکاح محمد علی جناح ؒ سے ہوا۔میں نے اس حقیقت کی مولانا شاہ احمد نورانی سے تصدیق کی ہے کہ محمد علی جناحؒ رتی ڈنشا کو مولانا نورانی کے سگے تایا مولانا نذیراحمد صدیقی کے پاس لیکر گئے جنہوں نے انہیں مسلمان کیا اور ان کا نکاح قائداعظمؒ سے پڑھوایا۔ مولانا نذیر احمد صدیقی اہل سنت تھے اور مولانا نورانی صاحب کے بقول قائداعظم ؒ ان سے مذہبی معاملات میں رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کا انتقا ل مدینہ منورہ میں ہوا اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ قائداعظم ؒ نہایت ذہین اور محتاط انسان تھے اور ہر قدم سوچ کر اٹھاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اثنائے عشری سے تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے خاندان کا مذہبی پس منظر یہی تھا تو پھر انہوں نے اپنی ہونے والی بیوی کو قبول اسلام اور اپنے عقد میں لینے کیلئے اور نکاح پڑھوانے کیلئے کسی ایسی مذہبی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا جس کا تعلق اثنائے عشری سے ہوتا۔ ظاہر ہے کہ شیعہ علما کی بمبئی میںکوئی کمی نہ تھی اگرچہ میرے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظمؒ مذہبی فرقہ پرستی سے ماوراءتھے اور اس صورت حال کی بہتر وضاحت انکے ایک جواب میں ملتی ہے ۔


#قسط_2 :
ایک دفعہ کسی صاحب نے محض شرارت کرنے اورمسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کیلئے قائداعظم ؒ سے یہ سوال پوچھا تھا کہ آپکا تعلق سنی فرقے سے ہے یا شیعہ فرقے سے؟ تو قائداعظم ؒ کا جواب تھا کہ ہادی اسلام حضور نبی کریم کا مذہب کیا تھا؟ یہ جواب ان کی سوچ، شخصیت اور مذہبی ر جحان کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت اور دلچسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم ؒ کی واحد اولاد یعنی انکی بیٹی دینا جناح نے 14 اور15 اگست 1919ءکی درمیانی شب کو جنم لیا۔ایک مورخ کے بقول انکی دوسری ”اولاد“ اسکے صحیح اٹھائیس برس بعد 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب کو معرض وجود میں آئی اور اسکا نام پاکستان رکھا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ؒ اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے اور خاص طور پر دینا جناح انکی زندگی کی پہلی محبت کی آخری نشانی تھی لیکن اسکے باوجود جب دینا نے کسی مسلمان نوجوان کی بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل وادیا سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائداعظمؒ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے تعلق توڑ لیا۔ دینا ا کے جگر کا ٹکڑا تھی، اس سے بیٹی کی حیثیت سے تعلقات رکھے جا سکتے تھے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی لاتعداد مثالیں ہیں کہ لبرل قسم کے مسلمان مذہبی رشتہ ٹوٹنے کے باوجود اولاد سے سماجی تعلقات نبھاتے رہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قائداعظم ؒ نے بیٹی سے مذہب کا رشتہ منقطع ہونے کے بعد اس سے ہر قسم کے رشتے توڑ لئے۔ دوستوں سے کبھی دینا کا ذکر تک نہ کیاجیسے ان کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اور پھر مرتے دم تک دینا کی شکل نہ دیکھی۔ شادی کے بعد دینا نے چند ایک بار اپنے والد گرامی کو خطوط لکھے۔ قائداعظم ؒ نے ایک مہذب انسان کی مانند ان خطوط کے جوابات دیئے لیکن ہمیشہ اپنی بیٹی کو ڈیئر دینا“ یا پیاری بیٹی کہہ کر مخاطب کرنے کی بجائے مسز وادیا کے نام سے مختصر جواب دیئے۔ (بحوالہ سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان صفحہ 370)
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم ؒ کی بیٹی مسز وادیا اپنے باپ سے ملنے اور اپنے باپ گورنر جنرل کو دیکھنے کیلئے پاکستان آنا چاہتی تھی، اس نے اجازت چاہی، دوستوں نے قائداعظم ؒ سے درخواست کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا چنانچہ دینا پہلی اور آخر بار قائداعظم ؒ کی وفات کے موقع پر ہی پاکستان آ سکی اور مرحوم باپ کی میت پر آنسو بہا کر واپس چلی گئی۔ حضرت قائداعظم ؒ کی نماز جنازہ ممتاز مذہبی شخصیت مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی جن کا مسلک اظہر من الشمس ہے۔
وزیرآباد کے جناب محمد شریف طوسی صاحب عالم و فاضل انسان تھے۔ انہوں نے اس مشکل دور میں ملازمت کی مجبوری کے باوجود انگریزی زبان میں مسلمانوں کے مطالبات کے حق میں اتنے مدلل مضامین لکھے کہ تہلکہ مچا دیا۔ یہ مضامین قائداعظم ؒ کو بہت پسند آئے چنانچہ قائداعظم ؒ نے انہیں ڈھونڈا اور بمبئی بلا کر چھ ماہ اپنے پاس رکھا۔ اس طرح طوسی صاحب کو قائداعظم ؒ کو نزدیک سے دیکھنے اور انکی ذاتی لائبریری کو کھنگالنے کا موقع ملا کیونکہ قائداعظم ؒ ان سے تحقیق اور لکھنے کا کام لیتے تھے۔ طوسی صاحب کا بیان ہے کہ قائداعظم ؒ کی لائبریری میں سیرت النبی اسلامی تاریخ و قانون اور خلفائے راشدین پر بہت سی کتابیں موجود تھیں اور قائداعظم ؒ اکثر اوقات خلفائے راشدین اور تفسیر پر کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
غزوہ بدر کے بعد کا واقعہ کہ جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہو چکی تھی حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمن جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، اپنے والد گرامی سے ملے اور کہنے لگے کہ غزوہ بدر کے دوران ایک مقام ایسا آیا کہ آپ کی گردن میری تلوار کی زد میں تھی لیکن مجھے فوراً خیال آیا کہ آپ میرے والد ہیں چنانچہ میں نے ارادہ بدل لیا۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں میں آجاتی تو میں ہرگز باز نہ آتا اور تمہاری گردن مار دیتا.... گویا اسلام میں رشتے خون کے حوالے سے نہیں بلکہ دین کے حوالے سے قائم ہوتے ہیں۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اپنی اکلوتی بیٹی سے رشتہ توڑ کر اسی اصول کی پیروی کی کیونکہ دینا نے اسلام سے رشتہ توڑ لیا تھا۔
مجھے اندازہ ہے کہ کچھ حضرات قائداعظم ؒ کی بیٹی کی وادیا سے شادی کو محمد علی جناحؒ کی انا کا مسئلہ قرار دے کر ”ذاتیات“ کا رنگ دینگے لیکن اگر سارے واقعے کو اپنے صحیح پس منظر میں پرکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قائداعظم ؒ کیلئے یہ انا کا نہیں بلکہ دین ہی کا مسئلہ تھا۔ سٹینلے والپرٹ اپنی کتاب ”جناح آف پاکستان“ میں لکھتا ہے کہ دینا نے وادیا سے شادی کا ارادہ کیا تو اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا۔ جنہوں نے کبھی اسکی بات کو ٹالا نہیں تھا۔ قائداعظم ؒ نے اپنی بیٹی کو اس فیصلے سے باز رکھنے کیلئے بہت سمجھایا اور کہا کہ ہندوستان بہتر سے بہتر مسلمان نوجوانوں سے بھرا پڑا ہے تم جس مسلمان نوجوان کو بھی منتخب کرو گی وہ تم سے شادی کرنا اعزاز سمجھے گا۔ میری خواہش ہے کہ تم کسی بھی مسلمان نوجوان سے شادی کرو۔ جب دینا اپنی بات پر اڑی رہی تو قائداعظم ؒ نے یہ کہہ کر اس سے منہ موڑ لیا کہ آج سے میرا اور تمہارا رشتہ ختم ہے، جو چاہو کرو۔ قائداعظمؒ کا فقط یہ اصرار تھا کہ تم مسلمانوں میں شادی کرو، وہ کسی مخصوص نوجوان یا خاندان میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے کہ یہ ان کےلئے ذاتی انا کا مسئلہ ہوتا۔ انہوں نے مسلمان کی شرط لگا کر واضح کر دیا تھا کہ یہ مسئلہ دین کا ہے، دنیا کا نہیں۔
مولانا حسرت موہانی نہایت درویش، صالح حق گو، بیباک اور کھرے انسان تھے۔ وہ شاید مسلم لیگ کے واحد رکن تھے جو بھری میٹنگو ں میں اٹھ کر قائداعظم پر تنقید کر لیتے اورپھر قائداعظم ؒ اپنے موقف کے حق میں دلائل دے کر انہیں مطمئن کرتے۔ انہوں نے ساری زندگی مسلم لیگ کےساتھ رہ کر جدوجہد کرتے گزار دی، کئی بار جیل گئے اور قید بامشقت بھگتی۔ حصول پاکستان انکا سب سے بڑا خواب تھا لیکن انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرنے کی بجائے باقی ماندہ زندگی ہندوستان میں ہی گزار دی کیونکہ ان کی جدوجہد مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کیلئے تھی نہ کہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے.... مالی تنگی اور عسرت کے باوجود مولانا حسرت موہانی نے گیارہ حج کئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہ عمرے نصیب کئے۔ مولانا حسرت موہانی کا کہنا ہے کہ ایک بار وہ صبح ہی صبح ایک نہایت ضروری کام کے سلسلے میں قائداعظم ؒ کے گھر پہنچے کیونکہ انہیں علم تھا کہ قائداعظم ؒ سحر خیز ہیں۔ چوکیدار نے انہیں انتظار کے کمرے میں بٹھا دیا کہ ابھی صاحب باہر نہیں نکلے آپ انتظار کریں۔ مولانا حسرت موہانی قدرے بے چین طبیعت کے مالک تھے۔ کچھ دیر تو انتظار کرتے رہے پھر سوچا کہ میں خود ہی ان کو تلاش کر لیتا ہوں۔
مولانا حسرت موہانی کا بیان ہے کہ وہ کمرے کے درمیانی دروازے سے دوسرے کمرے میں داخل ہوئے اور اس کمرے کا پردہ اٹھا کر اگلے کمرے میں گئے تو انہیں کسی شخص کے رونے اور آہ و زاری کی آواز آئی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ وہ رونے کی آواز سن کر پریشان ہوئے اور رک گئے.... پھر یہ معلوم کرنے کےلئے کہ کون رو رہا ہے، انہوں نے خاموشی سے اگلے کمرے کا پردہ سرکا کر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ قائداعظم ؒ سجدے میں گرے ہوئے تھے اور گڑ گڑا کر رو رہے تھے ۔مولانا حسرت موہانی کا کہنا ہے کہ وہ یہ منظر دیکھ کر دبے پاﺅں واپس آ گئے۔ ظاہر ہے سجدے میں گر کر وہی شخص گڑگڑائے گا جس کے دل میں خوف خدا ہو اور جس کا باطن تیقن،یقین کامل، حب الٰہی اور سوز دروں کے نور سے مالا مال ہو۔
مولانا حسرت موہانی کا ذکر ہوا تو یاد آیا کہ محترم ظہیر الاسلام فاروقی صاحب نے اپنی کتاب ”مقصد پاکستان“ میں لکھا ہے کہ مولانا حسرت موہانی 1946ءکے انتخابات کے سلسلے میں ملک بھر کے دورے کر رہے تھے۔ ایک بار ریل کے سفر کے دوران مستقبل کے حوالے سے گفتگو چل نکلی تو مولانا نے کہا آپ فکر نہ کریں انشاءاللہ پاکستان بن کر رہے گا‘ اس سے آگے کی فکر کریں۔
پیر علی محمد راشدی صاحب نے پوچھا کہ آپکو اس قدر یقین کیوں ہے کہ پاکستان بہرحال بن کر رہے گا کیونکہ کانگریس اور انگریز حکومت دونوں اس مطالبے کے مخالف ہیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ مجھے اسلئے یقین ہے کہ مجھے خواب میں حضور نبی کریم کی زیارت ہوئی اور آپ نے مجھے قیام پاکستان کی بشارت دی۔ آپ اس سے اندازہ کیجئے کہ مولانا حسرت موہانی خود کتنی عظیم اور روحانی حوالے سے کتنی بزرگ ہستی تھے جنہیں خواب میں حضور کی زیارت نصیب ہوئی اور جنہیں خود حضور نے بشارت دی۔

#قسط_3 :
قائداعظمؒ کے کردار کی عظمت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور زمانہ گواہ ہے کہ وہ ایک سچے‘ کھرے‘ بااصول اور باوقار انسان تھے۔ انکے بدترین دشمن بھی انکے کردار کی عظمت کے معترف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانان ہند و پاکستان ان پر جان چھڑکتے تھے اور ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میرے نزدیک قائداعظمؒ کی راست گوئی اور عظمت کردار سیرت النبی کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ قائداعظمؒ کوئی روحانی بزرگ‘ صوفی یا مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی ایسا دعویٰ کیا۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ میں ”مولانا“ نہیں‘ ایک عام مسلمان ہوں۔ بشری کمزوریوں سے پاک شخصیات صرف انبیاءاور اولیاءکی ہوتی ہیں۔ قائداعظمؒ بھی بہرحال ایک بشر ہی تھے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں وہ نمود و نمائش‘ منافقت اور دوہرے معیار سے نفرت کرتے تھے۔ ان کی تقریریں اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے باطن اور دل کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے تھے اور انہوں نے کبھی عوام کو جذبات میں بہلانے‘ بہکانے یا اپنے بارے میں غلط تاثر دینے کی کوشش نہیں کی۔
قائداعظمؒ کے مزاج کے اس پس منظر میں ان کی تقریریں پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت‘ اسلام کی بقا اور عظمت‘ اسوہ حسنہ‘ اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی جیسے احساسات و تصورات ان کے خون میں شامل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریریں ان الفاظ ا ور ترکیبات سے اس قدر معطر ہیں کہ ہر دوسری تیسری سطر میں مسلمان اور اسلام کے الفاظ سجے ہوئے ہیں۔ ان تقریروں کو پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے قائداعظمؒ ہمہ وقت مسلمان اور اسلام کے بارے سوچتے رہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے حقوق‘ مسلمانوں اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے سینکڑوں تقریریں کیں اور ان میں بار بار کہا کہ ہمیں کہیں سے بھی جمہوریت کا سبق لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے جمہوریت آج سے تیرہ سو برس پہلے سیکھ لی تھی‘ جمہوریت ہمیں اسلامی ورثے میں ملی ہے‘ اسوہ حسنہ ہمارے لئے نمونہ ہے اور نبی کریم نے جس طرح یہودیوں اور دوسری اقلیتوں سے معاہدے کئے ہم انہی اصولوں سے روشنی حاصل کر کے اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیں گے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظمؒ بار بار یہ باتیں صرف اسلئے کرتے رہے کہ یہ ان کی سوچ و فکر اور باطنی شخصیت کا پختہ حصہ تھیں اور وہ ان پر مکمل یقین رکھتے تھے ورنہ وہ عوامی داد یا سستی شہرت سے ہمیشہ دور رہے۔
مسلمانوں سے بے لوث محبت‘ اسلام سے گہرا لگا¶‘ ضمیر کی گواہی اور خدا کے سامنے جوابدہی صرف اور صرف ایک سچے مسلمان کی شخصیت کا ہی حصہ ہو سکتے ہیں اور میرے نزدیک یوم حساب کا خوف بخشش کا ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے قائداعظمؒ کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 1939ءمیں کی گئی تقریر کے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں انہیں پڑھئے اور غور کیجئے۔ ان الفاظ کے باطن میں جھانکئے تو آپ کو اصل جناح کا سراغ ملے گا‘ وہ جناح جو بظاہر انگریزی بولتا‘ مغربی لباس پہنتا اور مغربی طور طریقوں پر عمل کرتا تھا لیکن وہ باطنی طور پر اس کے برعکس تھا۔
”مسلمانوں میں نے دنیا کو بہت دیکھا‘ دولت‘ شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی.... میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا‘ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔“
(روزنامہ انقلاب 22 اکتوبر 1939ئ)
یوم حساب خدا کے حضور سرخروی کا خیال‘ مسلمانوں اور اسلام کی سربلندی کا علم بلند کئے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضائے الٰہی کی تمنا صرف اور صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو سر تا پا سچا مسلمان اور پکا مومن ہو اور جس کا باطن خوف خدا کے نور سے منور ہو۔ غور کیجئے کہ جب قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی اس وقت ان کی عمر تقریباً 53 سال تھی اور ان کی شہرت اوج ثریا پر تھی۔
اس پس منظر میں جب میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا احوال پڑھتا ہوں تو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہند و پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی“ کے مصنف منشی عبدالرحمن نے صفحہ نمبر 111 پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا ”میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدان حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا‘ علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا کہ یہ اس مجمع میں کیسے شامل ہو گئے تو مجھ سے کہا گیا کہ محمد علی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے۔“ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا صلہ تو ضرور ہو گا۔ انہی مولانا اشرف علی تھانوی نے 4 جولائی 1943ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا ”1940ءکی قرارداد پاکستان کو کامیابی نصیب ہو گی۔ میرا وقت آخری ہے‘ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا‘ مشیت ایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن قائم ہو‘ قیام پاکستان کیلئے جو کچھ ہو سکے کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر ابھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا۔“ (بحوالہ ”قائداعظمؒ کا مذہب و عقیدہ“ از منشی عبدالرحمن صفحہ نمبر 249 اور ”قائداعظمؒ کی شخصیت کا روحانی پہلو“ از ملک حبیب اللہ صفحہ نمبر 59-60)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیام پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا‘ مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔
قائداعظمؒ سیاست میں مذہب کے عمل دخل کو پسند نہیں کرتے تھے اور شاید وہ سمجھتے تھے کہ مذہب اور سیاست کے ملاپ سے انتہا پسندی کے دروازے کھلیں گے جس سے مسلمانوں اور بعدازاں پاکستانی قوم کا اتحاد بری طرح متاثر ہو گا۔


#قسط_4 :
7 فروری 1935ءکو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں آزاد رکن کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم ؒنے کہا کہ ”میں حزب مخالف کے قائد سے پوری طرح متفق ہوں کہ مذہب‘ نسل اور زبان کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے‘ مذہب انسان اور خدا کا معاملہ ہے لیکن براہ کرم غور کیجئے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں‘ وہ مذہب کا معاملہ نہیں بلکہ میں تو اقلیتوں کی بات کر رہا ہوں جو ایک سیاسی مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے مسائل ہیں اور ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہے۔“ (قائداعظم کی تقریریں جلد اول ازخودشید احمد خان یوسفی صفحہ 69-70)اسی تقریر میں آگے چل کر اقلیت کی تشریح کرتے ہوئے قائداعظمؒ کہتے ہیں کہ اقلیت کا مذہب‘ تمدن‘ کلچر اور بعض اوقات آرٹ میوزک بھی اکثریت سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے اقلیت کو تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں محمدعلی جناح مسلمانوں کے بحیثیت اقلیت تحفظات کیخلاف تھے۔
محمدعلی جناح نے اولین بار 28 جولائی 1904ءکو کانگرس کے اجلاس میں شرکت کی۔ کانگرس کے اجلاس منعقدہ 28 دسمبر 1906ءمیں ایک مسلمان ممبر نے ایک قرارداد کے ذریعے مسلمانوں کیلئے کوٹے کا مطالبہ کیا جس کی مخالفت کرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا کہ مسلمانوں اور ہندوﺅں کو برابر سمجھا جائے اور ان سے ایک جیسا سلوک کیا جائے کیونکہ کانگرس کی بنیاد ہی برابری کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ (ورکس آف قائداعظمؒ از ڈاکٹر ریاض احمد جلد اول صفحہ 81)
یہی محمد علی جناح بعدازاں مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما بن کر ابھرے اور قیام پاکستان تک مسلمانوں کیلئے نہ صرف حقوق اور تحفظات بلکہ جداگانہ حق رائے دہی کیلئے دن رات جدوجہد کرتے رہے۔ کانگرس اور ہندو اکثریت کے ارادے بھانپنے کے بعد قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو اقلیت کے چکر سے نکال کر ایک منفرد قوم ثابت کیا اور اسی قومیت کے حوالے سے ایک علیحدہ خطہ زمین کے حصول کو اپنی منزل بنا لیا۔
دراصل قائداعظمؒ کو زندگی بھر اقلیتوں کے مسئلے سے واسطہ رہا اور وہ اس سے نپٹنے کی کوششیں کرتے رہے۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے اور اس اقلیت کے سب سے بڑے رہنما محمد علی جناح تھے۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان کا خواب ٹوٹنے کے بعد (جس کا نقطہ عروج 1948ءکی نہرو رپورٹ کو قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ قائداعظمؒ نے اسے پارٹنگ آف دی ویز یعنی راستوں کی علیحدگی قرار دیا تھا) قائداعظمؒ پہلے پہل مسلمان اقلیت کے حقوق اور بعدازاں مسلمان قوم کے حقوق کیلئے اس وقت تک مسلسل لڑتے رہے جدوجہد کرتے رہے جب تک قیام پاکستان کے امکانات واضح نہیں ہوئے۔ مسلمان اقلیت سے مسلمان قوم کے سفر میں 1940ءکی قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان ایک طرح سے اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے بعد قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کا م¶قف یہ رہا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف‘ معیار اور تصور کے مطابق ایک قوم ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قومیت کی اہم ترین بنیاد مذہب تھی۔ اسی طرح جب قیام پاکستان کا مرحلہ قریب آیا تو قائداعظمؒ کیلئے سب سے اہم سوال اور مسئلہ پھر اقلیتوں کا تھا کیونکہ پاکستان میں بھی کئی مذہبی اقلیتیں آباد تھیں اور ادھر ہندوستان میں بھی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ہی تھی جس کے تحفظ کیلئے قائداعظمؒ پریشان رہتے تھے۔ (ملاحظہ ہو قائداعظمؒ کی پریس کانفرنس 14 جولائی‘ بیانات 15 ستمبر اور 17 ستمبر‘ 25 اکتوبر 1947ئ) چنانچہ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل اور چند ماہ بعد تک ان سے بار بار اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے رہے جس کی وہ بار بار وضاحت کرتے رہے۔ اس دور میں قائداعظمؒ نے جو تقاریر کیں یا بیانات دیئے ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کیلئے ان کا مطالعہ اس مسئلے کے تناظر میں کرنا چاہئے۔
اس ضمن میں قائداعظمؒ کے خیالات سمجھنے کیلئے ان کی اس پریس کانفرنس کا حوالہ دینا ضروری ہے جو انہوں نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14 جولائی 1947ءکو نئی دہلی میں کی۔ اقلیتوں کے ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میں اب تک بار بار جو کچھ کہتا رہا ہوں اس پر قائم ہوں‘ ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا۔ ان کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور ان کے مذہب‘ اعتقاد‘ جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے۔“ اسی پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ایک مذہبی (Theocratic) ریاست ہو گی؟ تو قائداعظمؒ نے کہا کہ ”آپ مجھ سے ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں۔ گویا میں اب تک جو کچھ کہتا رہا ہوں وہ رائیگاں گیا ہے۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال قبل سیکھ لی تھی۔“ (بحوالہ ”جناح: تقریریں اور بیانات 1947-48“ از ایس ایم برک مطبوعہ آکسفورڈ پریس صفحات 12-16) سوال یہ ہے کہ تیرہ سو برس قبل مسلمانوں نے کون سی جمہوریت سیکھی تھی؟ کیا وہ سیکولر جمہوریت تھی یا نظریاتی اور اسلامی جمہوریت؟
اس بحث کی ایک اہم کڑی قائداعظمؒ کی 11 اگست 1947ءکی تقریر ہے جو انہوں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے پر اسمبلی میں کی۔ یہی وہ تقریر ہے جس کی توضیح یا تشریح کر کے کچھ حضرات یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ قائداعظمؒ پاکستان کیلئے سیکولر جمہوری نظام چاہتے تھے جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اس توضیح سے اس بنیاد پر اختلاف کرتا ہے کہ اول تو قائداعظمؒ کی تقریر سے ہرگز یہ مفہوم نہیں نکلتا اور دوم یہ تاثر غیر منطقی ہے کیونکہ قائداعظمؒ جیسے عظیم لیڈر کی ایک تقریر کو ان کی دوسری لاتعداد تقریروں اور بیانات سے جو انہوں نے اس سے قبل یا بعدازاں دیئے‘ الگ یا علیحدہ کر کے صحیح نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے گیارہ اگست کی تقریر میں کیا کہا جو اس قدر بحث و نزاع کا سبب بن گیا۔ دراصل انہوں نے اس تقریر میں ان بنیادی مسائل کی نشاندہی کی جو پاکستان کو اس وقت درپیش تھے اور اسکے ساتھ ساتھ بابائے قوم (فادر آف نیشن) ہونے کے ناطے کچھ نصیحتیں بھی کیں۔ اس تقریر کا مکمل ادراک حاصل کرنے کیلئے پوری تقریر کو اسکے سیاق و سباق اور پس منظر میں پڑھنا ضروری ہے۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ ہم آپکی مدد سے اس اسمبلی کو مثالی بنائینگے۔ حکومت کا پہلا فرض امن عامہ قائم کرنا ہے تاکہ شہریوں کی جائیداد اور مذہبی اعتقادات کی حفاظت کی جا سکے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے۔ اس اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کیلئے م¶ثر اقدامات کرنے ہیں۔ ایک اور لعنت بلیک مارکیٹنگ یعنی چور بازاری ہے جس کا تدارک آپ کو کرنا ہے۔ اسی طرح ہمیں اقربا پروری اور ظلم و زیادتی کو بھی کچلنا ہے۔ مجھے علم ہے کہ کچھ لوگوں نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔
میرے نزدیک اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر ہم پاکستان کو خوشحال اور عظیم ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہمہ وقت عوام کی خوشحالی اور بہتری پر توجہ دینا ہو گی۔ اگر آپ ماضی کی تلخیوں کو دفن کر کے رنگ و نسل اور عقیدے کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر تعاون اور برابری کی فضا میں کام کرینگے تو آپکی ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہو گی۔ اگر ہم اس جذبے کے ساتھ کام کریں تو وقت گزرنے کےساتھ ساتھ اکثریت اور اقلیت.... مسلمان اور ہندو ....کے درمیان پیچیدگیاں ختم ہو جائیں گی کیونکہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی پٹھان‘ پنجابی‘ شیعہ‘ سنی وغیرہ ہیں۔ اسی طرح ہندو¶ں میں برہمن‘ ویش‘ کھتری‘ شودر‘ بنگالی اور مدراسی ہیں۔ یہی تقسیم ہندوستان کی آزادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ آپ آزاد ہیں مندر میں پوجا کریں یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب‘ ذات یا عقیدے سے تعلق ہے‘ اس سے حکومت کا سروکار نہیں۔ کسی زمانے میں انگلستان کے حالات نہایت خراب تھے اور وہاں رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا آغاز ان سے بہت بہتر ہے۔ آج انگلستان میں رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور وہ اپنے ملک کے یکساں شہری ہیں۔ اگر آپ بھی اپنے سامنے یہی آئیڈیل رکھیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ہندو¶ں اور مسلمانوں کے درمیان فرق مٹ جائے گا‘ مذہب کے حوالے سے نہیں کیونکہ ہر شخص کا اپنا مذہب ہوتا ہے بلکہ سیاسی حوالے سے کیونکہ سبھی ایک ریاست کے شہری ہونگے۔“ (تفصیل کیلئے دیکھیں ایس ایم برک بحوالہ گذشتہ صفحات 25-29)
(بحوالہ روزنامہ نوائے وقت پچیس تا اٹھائیس اگست 2012 )

جمعہ، 11 اگست، 2017

علماء کے خون سے رنگین داستان آزادی




علماء کے خون سے رنگین داستان آزادی مولانا یاسر ندیم الواجدی 


عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مسلّح جدو جہد کا آغاز ۱۸۵۷ء سے ہوا، یہ ایک غلط مفروضہ ہے جو جان بوجھ کر عام کیا گیا ہے تاکہ ۱۸۵۷ء سے سو برس پہلے جس تحریک کا آغاز ہوا اور جس کے نتیجے میں بنگال کے سراج الدولہ نے ۱۷۵۷ء میں، مجنوں شاہ نے ۱۷۷۶ء اور ۱۷۸۰ ءمیں، حیدر علی نے ۱۷۶۷ء میں،اس کے بیٹے سلطان ٹیپو نے ۱۷۹۱ ء میں، مولوی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے دادومیاں نے ۱۸۱۲ء میں اور سید احمد شہیدؒ نے ۱۸۳۱ ء میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑیں وہ سب تاریخ کے غبار میں دب جائیں، اور اہل وطن یہ نہ جان سکیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی چنگاری اس دن سے سلگ رہی تھی جس دن انہوں نے اپنے ناپاک قدم اس سرزمین پر رکھے تھے اور تجارت کے نام پر سیاسی اور فوجی اثر ورسوخ حاصل کرکے یہاں کے حکمرانوں کو بے دست وپا کردیا تھا، سو سال تک مسلمان پوری طاقت اور قوت کے ساتھ اپنے علماء کی قیادت میں ان سے نبر د آزما رہے، یہاں تک کہ ۱۰/ مئی ۱۸۵۷ء کو تحریک آزادی کی جدو جہد کا دوسرا دور شروع ہوا اور غیر مسلم اہل وطن نے بھی جد وجہد آزادی میں اپنی شرکت درج کرائی۔
۱۴۹۸ ء میں واسکوڈی گا ماکی قیادت میں پُرتگال کے ملاحوں نے سب سے پہلے سرزمین ہند کو اپنے ناپاک قدموں سے آلودہ کیااور صوبہ بنگال کے شہر کلکتہ اور جنوبی ہند کے شہر کالی کٹ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، یہ لوگ تجارت کے مقصد سے وارد ہوئے تھے مگر مذہب کی اشاعت میں بھی سر گرم ہوگئے، اس وقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، اس ملک میں تجارت کے بے شمار مواقع تھے، مالی ترقی کے وسیع تر امکانات نے انگلستان کے تاجروں کو بھی ادھر متوجہ کیا، انہوں نے تیس ہزار پاؤنڈ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی اور ۱۶۰۱ ء میں پہلی مرتبہ اس کمپنی کے تجارتی جہاز ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے، ۱۶۱۲ء میں جہانگیر کے عہد حکومت میں ان انگریز تاجروں نے شہنشاہ کی اجازت سے گجرات کے شہر سورت میں اپنا اقتصادی مرکز بنالیا اور بہت جلد اس کی شاخیں احمد آباد، اجمیر، برہان پور اور آگرہ میں قائم کردیں، یہ شہر اس زمانے میں تجارت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے تھے، اور بڑے تجارتی مراکز میں شمار کئے جاتے تھے، اورنگ زیب عالمگیر کے عہد حکومت تک انگریزوں کی سر گرمیاں صرف تجارت تک محدود رہیں، اور نگ زیب کے انتقال کے بعد مغلیہ حکومت کا شیرازہ منتشر ہونے لگا یہاں تک کہ احمد شاہ کے دور حکومت (۱۷۴۸ء تا ۱۷۵۲ ء ) میں یہ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا، بہت سے صوبوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا، ایسٹ انڈیا کمپنی جو اب تک صرف ایک تجارتی کمپنی تھی ملک گیری کی ہوس میں مبتلا ہوگئی اور اس نے اپنی سیاسی قوت بڑھانی شروع کردی یہاں تک کہ اس نے کلکتے میں اپنا ایک مضبوط فوجی قلعہ بھی تیار کرلیا۔
سراج الدولہ پہلا شخص ہے جس نے اس خطرے کو محسوس کیا اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی کوشش کے طور پر پلاسی کے میدان میں ان سے جنگ کی، اگر سراج الدولہ کا وزیر میر جعفر غداری نہ کرتا تو انگریز دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوجاتے، اس غدار وطن کی وجہ سے سراج الدولہ کو شکست حاصل ہوئی، انعام کے طور پر میر جعفر کو بنگال کا اقتدار ملا، لیکن اس کا اقتدار زیادہ دیر تک بر قرار نہ رہ سکا، کچھ دنوں بعد وہ معزول کردیاگیا، اس کا داماد میر قاسم برسرِاقتدار آیا، انگریزوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ بھی دیر تک اقتدار پر قابض نہ رہ سکا یہاں تک کہ انگریز ۱۷۶۴ ء میں بہار اور بنگال پر قابض ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اودھ تک پھیل گئے، مغل حکمراں شاہ عالم نے سند دیوانی دے کر ان کے قبضے کی توثیق کردی، ایک معاہدے کی رو سے ان پر ۲۶/لاکھ روپے سالانہ زر مال گزاری ضرو ری قرار دیا گیا، ابتدا میں ان کے اختیارات زر مال گزاری کی وصولیابی تک محدود تھے جو بڑھتے بڑھتے داخلی نظم ونسق تک تجاوز کرگئے ، مغلوں کی حکومت قلعہ معلی تک محدود ہوکر رہ گئی اور ہندوستان کے تمام علاقے عملاً ایسٹ انڈیا کمپنی کے تابع بن گئے۔
یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے علاوہ ایران وافغانستان سے تعلق رکھنے والے دوسرے حکمراں بھی ہندوستان کو اپنے زیر نگیں کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے ۱۷۳۸ء میں نادر شاہ نے دہلی کو تباہ وبرباد کیا، اور ۱۷۵۷ ؁ء میں احمد شاہ ابدالی نے دو ماہ تک مسلسل اس شہر کو پر غمال بنائے رکھا ،دوسری طرف انگریز فوجیں مرہٹوں سے ٹکراتی ہوئیں، سراج الدولہ کو شکست دیتی ہوئیں اور سلطان ٹیپو کو جامِ شہادت پلاتی ہوئیں دہلی کی طرف بڑھ رہی تھیں، ابھی انگریزوں نے پور ی طرح دہلی کا اقتدار حاصل بھی نہیں کیا تھا کہ علماء ہند کے میر کارواں امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ (۱۷۰۳ء ۱۷۶۲ء ) نے مستقبل کے خطرات کا ادراک کرلیا، اور دہلی پر قبضے سے پچاس برس پہلے ہی اپنی جد وجہد کا آغاز کردیا، حضرت شاہ صاحبؒ اس وقت طویل قیام کے ارادے سے مکہ مکرمہ میں تھے کہ کشف والہام اور رویائے صادقہ کے ذریعے انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ ہندوستان جائیں ۱۷۳۰ء میں مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران حضرت شاہ صاحب محدث دہلویؒ نے ترکی نظام حکومت کا بہ غور مطالعہ کیا، یورپ افریقہ اور ایشیاء سے آنے والے حجاج کرام سے ان کے ملکی قومی اور سیاسی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا، طویل غور وخوض اور تبادلۂ خیال کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی تباہی، بربادی اور تنزلی کا واحد سبب وہ نظام ہے جو زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ’’فک کل نظام‘‘ (ہر نظام کو ختم کرنے) کی طرف قدم بڑھایا جائے، یہ نظریہ ہی حضرت شاہ صاحبؒ کے انقلابی نصب العین کا نقطۂ آغاز ہے، اس کی پاداش میں آپ پر جان لیوا حملے بھی کئے گئے لیکن آپ اپنے نظریے پر ڈٹے رہے، انہوں نے اپنی کتابوں میں، خطوط میں، تقریروں میں یہ نظریہ اس طرح پیش کیا، ’’تباہ حال شہر جس پر درندہ صفت انسانوں کا تسلط ہو جن کو اپنی حفاظت ودفاع کی پوری طاقت حاصل ہو، یہ ظالم وجابر گروہ جو انسانیت کے لیے سرطان ہے ، انسان اس وقت تک صحت مند نہیں ہوسکتا جب تک اس سرطان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہ دیا جائے۔(حجۃ اللہ البالغہ باب الجہادص ۱۱۵۷(
’’تفہیمات الیہ‘‘ حضرت شاہ ولی اللہ کی معرکۃ الآراء کتاب ہے، اس میں وہ خطوط موجود ہیں جو ذمہ داران حکومت اور والیان ریاست کو وقتا فوقتاً تحریر کئے گئے اور ان کے ذریعے ان اسباب کی نشان دہی کی گئی جن سے ملک اور قوم کو خطرات لاحق ہوئے ، ان اسباب کے تدارک کے لیے حضرت شاہ صاحبؒ نے کیا لائحہ عمل تیار کیا اس کی تفصیلات جاننے کے لیے حضرت شاہ صاحب ؒ کی اہم ترین عربی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے، اس کی کتاب الجہاد سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ جہاد اسلامی کے اصولوں پر مبنی فوجی حکمت عملی سے انقلاب لانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لیے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ایسے رجال کار تیار کئے جائیں جن میں اس نصب العین کو سمجھنے کی صلاحیت بھی ہو اور اسے عملی جامہ پہنانے کی طاقت اورہمت بھی، ایسے افراد کی تیاری کے لیے حضرت شاہ صاحبؒ نے متعدد جگہوں پر فوجی تربیت کے لیے باقاعدہ مراکز قائم کئے۔
دہلی، رائے بریلی، نجیب آباد، ٹھٹھ سندھ اور لکھنؤ چند ایسے مقامات ہیں جہاں نوجوانوں میں جذبۂ جہاد پیدا کیا جاتا تھا اور انہیں آنے والے انقلاب کے لیے تیار کیا جاتا تھا ،اس جدو جہد میں جن حضرات نے حضرت شاہ صاحب ؒ کے فکر کی ہر طرح تائید کی اور ان کے نظریئے پر مبنی انقلاب کی تیاری کے لیے کی جانے والی جدو جہد کے دائرے کو وسیع تر کیا ان میں مولانا محمد عاشق پھلتیؒ مولانا نور اللہ بڈھانویؒ ، مولانا محمد امین کشمیریؒ ، مولانا شاہ محمد ابو سعید رائے بریلویؒ مولانا مخدوم لکھنویؒ اور حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ تھے، ( علمائے ہند کا شاندار ماضی ج ۲ ص ۲۸)جہاد کے ان مراکز کے ذریعے عوام الناس کے دلوں میں جہاد کی روح پھونکی گئی اور قربانی وجاں نثاری کا وہ جذبہ پیدا کیا گیا جو کسی مقصد کے حصول کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے افسوس حضرت شاہ صاحبؒ ۱۷۶۵ء میں وفات پاگئے اورا ن کا خواب تشنۂ تعبیر رہ گیا تاہم وہ اپنی کتابوں کے ذریعے اور اپنے فکر وعمل کے ذریعے ایک نصب العین متعین کرچکے تھے، انقلاب کا پورا لائحہ عمل تیار کرچکے تھے اور انقلاب کے بعد ممکنہ حکومت کے لیے مذہبی، اقتصادی، اور سیاسی اصولوں کی روشنی میں ایک مکمل نظام وضع کرچکے تھے، ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ لوگ میدانِ عمل میں آئیں، چناں چہ حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے حوصلہ دکھایا، حالاں کہ وہ اس وقت محض سترہ سال کے تھے مگر اپنے والد بزرگوار کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے عزم واستقلال سے کام لیااور حضرت شاہ صاحبؒ کے نظریۂ انقلاب کو مخصوص لوگوں کے دلوں سے نکال کر عام انسانوں کے دلوں میں اس طرح پیوست کردیا کہ ہر زبان پر جہاد اور انقلاب کے نعرے مچلنے لگے۔
انقلاب کی اس صدائے باز گشت کو دہلی سے باہر دور دور تک پہنچانے میں حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے تینوں بھائیوں حضرت شاہ عبد القادرؒ ، حضرت شاہ رفیع الدینؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی دہلوی ؒ کے علاوہ جن لوگوں نے پورے خلوص اور للہیت کے ساتھ اپنا بھر پور تعاون پیش کیا ان میں حضرت شاہ عبد الحئؒ ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ ، حضرت سید احمد شہیدؒ اور مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ کے اسمائے گرامی بہ طور خاص قابل ذکر ہیں، تربیت گاہ عزیزی سے نکل کر مسلح جد وجہد کو نصب العین بنانے والوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز تھی، اور ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جہاں اس انقلاب کی دستک نہ سنی گئی ہو اور جہاں اس آواز پر لبیک کہنے والے موجود نہ ہوں۔
حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے اس تحریک کو دل وجان سے پروان چڑھایا مگر طرح طرح کی مشکلات اورمصائب بھی برداشت کئے، آپ کی جائداد بھی ضبط کی گئی، آپ کو شہر بدر بھی کیا گیا، آپ پر قاتلانہ حملے بھی کئے گئے، دو مرتبہ زہر دیا گیا، اور ایک مرتبہ ابٹن میں چھپکلی ملا کر پورے بدن پر مالش بھی کی گئی، جس سے بینائی بھی جاتی رہی اور بے شمارا مراض بھی پیدا ہوئے، ان تمام مصائب کے باوجود ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش محسوس نہیں کی گئی، ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک نے شاہ عالم بادشاہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور دہلی پر قابض ہوگیا، اس قبضے کے لیے جوسہ نکاتی فارمولہ اپنایا گیا وہ یہ تھا ’’خلقت خدا کی ، ملک باد شاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ یہ فارمولہ اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ بادشاہت کے خاتمے سے عوام میں بد دلی اور مایوسی پیدا نہ ہو اور وہ بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائیں، اس لیے بادشاہ کے تخت وتاج کو توباقی رکھا گیا مگر اس کے تمام اختیارات سلب کرلئے گئے، قناعت پسند طبیعتوں کے لیے یہ فارمولہ بھی تسلی بخش تھا، مگر حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ اور ان جیسا فکر رکھنے والے لوگ اس تعبیر میں مضمر فریب اور خطرے کو محسوس کر رہے تھے، یہ وہ مرحلہ تھا جب آپ نے انگریزی اقتدار کے خلاف نہایت جرأت مندانہ فتوی جاری کیا ،جس کے فارسی متن کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے: ’’یہاں رؤساء نصاریٰ (عیسائی افسران) کا حکم بلا د غدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور اُن کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری، انتظامات رعیت خراج، باج، عشر ومال گزاری، اموالِ تجارت، ڈاکوؤں اور چوروں کے انتظامات، مقدمات کا تصفیہ، جرائم کی سزاؤں وغیرہ (یعنی سول، فوج، پولیس، دیوانی اور فوج داری معاملات، کسٹم اور ڈیوٹی وغیرہ) میں یہ لوگ بطور خود حاکم اورمختار مطلق ہیں، ہندوستانیوں کو اُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں، بے شک نماز جمعہ، عیدین اذان اور ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور حریت کی بنیاد ہے (یعنی ضمیر اور رائے کی آزادی اور شہری آزادی) وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے، چناں چہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کردیتے ہیں، عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے، انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا ہندو اُن کے پاسپورٹ اور پرمٹ کے بغیر اس شہر یا اُس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا، عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے، اس کے بالمقابل خاص خاص ممتاز اور نمایاں حضرات مثلا شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے، دہلی سے کلکتہ تک انہیں کی عمل داری ہے۔ بے شک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آباد، لکھنؤ، رام پور میں چوں کہ وہاں کے فرمانر واؤں نے اطاعت قبول کرلی ہے، براہِ راست نصاریٰ کے احکام جاری نہیں ہوتے‘‘۔ (مگر اس سے پورے ملک کے دار الحرب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا)(فتاویٰ عزیزی فارسی جلد اول ص ۱۷ مطبوعہ مطبع مجتبائی بحوالہ علماء ہند کا شاندار ماضی جلد دوم صفحہ ۴۴۸۔ ۴۴۹)
یہ اولین فتوی ہے جو انگریزوں کے خلاف دیا گیا اور جس میں دار الحرب کا مخصوص اصطلاحی لفظ استعمال کیا گیا، جس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ ہر محب وطن مسلمان شہری پر فرض ہے کہ وہ ان اجنبی حکمرانوں کے خلاف اعلان جنگ کرے اور اس وقت تک سکون سے نہ بیٹھے جب تک قابضین کا ایک ایک فرد ملک کی سرحد سے باہر نہ ہوجائے۔ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے اس فتوے کا اثر یہ ہوا کہ خواص تو خواص عوام بھی انگریزوں کے خلاف مسلح جدو جہد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے(علمائے ہند کا شاندار ماضی ج ۲ ص ۱۰۴) یہ اسی فتوے کا اثر تھا کہ آپ کی تحریک حریت کے ایک جانباز سپاہی حضرت سید احمد شہیدؒ نے گوالیار کے مہاراجہ کو لکھا کہ یہ ’’بیگانگان، بعید الوطن وتاجران متاع فروش‘‘ آج بادشاہ بن بیٹھے ہیں، سمندر پار اجنبیوں اور سامان بیچنے والوں کا زمام اقتدار سنبھالنا واقعی عار کی بات تھی اور حضرت سید احمد شہیدؒ اس حوالے سے گوالیار کے مہاراجہ کو انگریزوں کے خلاف آمادۂ جنگ کرنا چاہتے تھے، ان خطوط کے علاوہ حضرت سید احمد شہیدؒ اپنے پیرو مرشد رہنما وقائد حضرت شاہ عبدالعزیزدہلویؒ کے حکم پر امیر علی خاں سنبھلی کے پاس بھی تشریف لے گئے جو اس وقت جسونت راؤ ہلکر کے ساتھ مل کر انگریزی فوجوں پر شب خوں مار رہا تھا، ۱۸۱۵ ء تک یہ اشتراک کامیابی کے ساتھ جاری رہا، لیکن انگریزوں نے امیر علی خاں کو نواب کا خطاب اور محفوظ ریاست کا لالچ دے کر ہتھیار رکھنے پر مجبور کردیا، اس صورت حال سے آزردہ خاطر ہوکر حضرت سید احمد شہیدؒ دہلی واپس ہوگئے ، اس طرح ۱۸۱۸ ء تک تمام چھوٹے بڑے علاقے اور ریاستیں انگریزوں کے زیر اقتدار آگئیں۔
حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے اپنے ضعف، گوناگوں امراض اور پیرانہ سالی کے باوجود استخلاص وطن کے لیے اپنی جد وجہد کا سفر جاری رکھا، انگریزوں کو اقتدار سے دور رکھنے میں ناکامی کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئے، اور نہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے بلکہ انہوں نے بدلے ہوئے حالات میں ایک نیا لائحہ عمل مرتب کیا جس کے تحت دو کمیٹیاں بنائی گئیں، ایک کمیٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھی، اس میں شاہ محمد اسحاق دہلویؒ ، مولانا شاہ محمد یعقوب دہلویؒ ، مفتی رشید الدین دہلویؒ ، مفتی صد ر الدین آزردہؒ ، مولانا حسن علی لکھنویؒ ، مولانا حسین احمد ملیح آبادیؒ اور مولانا شاہ عبد الغنی دہلویؒ جیسے اولو العزم حضرات شامل تھے، اس کمیٹی کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ جہاد کے اصل مرکز کو اس کے اصل کردار کے ساتھ باقی رکھے، تاکہ اس کے ذریعے ایک ایسی نسل کی آب یاری کا سلسلہ جاری رہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے طے کردہ خطوط کے مطابق منبرو محراب کی زینت بننے کی اہل بھی ہو اور محاذ جنگ پر دشمنوں سے طاقت آزمائی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، دوسری کمیٹی کی قیادت حضرت سید احمد شہیدؒ کے سپرد کی گئی اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبد الحیؒ کواُن کا خصوصی مشیر متعین کیا گیا، اس کمیٹی کے ذمّے یہ کام تھا کہ اس کے اراکین ملک بھر میں گھوم پھر کر عوام بالخصوص علماء کے دلوں میں انقلاب کا جذبہ پیدا کریں، رضا کار بھرتی کریں، اور انہیں محاذ جنگ پر لڑنے کی ٹریننگ دیں، مالیہ فراہم کریں، غیر ممالک کے ساتھ خاص طور پر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کریں، اور جہاں بھی موقع ہو جنگ لڑیں، چناں چہ ۱۸۲۴ء میں حضرت شاہ احمد شہیدؒ نے پورے طور پر خود کو جہاد کے لیے وقف کردیا۔(تاریخ دیوبند ص ۱۹۱)
اس مقصد کے لیے حضرت سید احمد شہیدؒ نے سات ہزار میل کا ایک طویل انقلابی دورہ کیا جس کے دوران وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے علاوہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی گئے، اس سفر کا بڑا مقصد یہ تھا کہ عوام کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا جائے، ۲۱/ ستمبر ۱۸۲۶ ء کو حضرت سید احمد شہیدؒ نے فوجی کاروائی کا آغاز کیا اور کئی باضابطہ جنگیں لڑیں، ان جنگوں میں حضرت سید احمد شہید ؒ اور ان کے رفقاء نے خوب داد شجاعت دی، ۱۰/ جنوری ۱۸۲۷ء کو عارضی حکومت بھی قائم ہوئی، لیکن ایک طرف مجاہدین کی بے سروسامانی دوسری طرف سکھوں اور انگریزوں کی جدید ترین اسلحہ سے لیس مشترک فوج، بے شمار چھوٹی بڑی جنگوں کے بعد ۱۸۳۱ میں حضرت سید احمد شہیدؒ کی فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی، آپ نے اور آپ کے قریب ترین رفیق حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور دوسرے بے شمار ساتھیوں نے بالاکوٹ کے میدان میں جام شہادت نوش کیا۔(تاریخ ہند: ۳۹۸ ،سیر ت سید احمد شہیدؒ ج ۲ ص ۴۱۴)
حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک اگرچہ استخلاص وطن کے لیے تھی، مگر اس پر مذہبی رنگ غالب تھا تاکہ عوام میں مذہبی جذبات بیدار ہوں، یہ محض تحریک آزادی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے اعمال ومعتقدات کی اصلاح بھی مقصود تھی، اس تحریک سے وابستہ ہر شخص فوجی جرنیل بھی تھا، اور احیاء سنت کا علم بردار بھی اس تحریک کی بہ دولت ہندوستان کے مسلمانوں کے جسم وجاں میں مذہب کی روح پوری طرح تحلیل ہوچکی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب ۱۸۵۷ ء میں انقلاب کی تحریک دو بارہ شروع ہوئی تو انگریزی فوج میں شامل مسلمانوں کو مذہب کے حوالے ہی سے بغاوت پر اُکسایا گیا، انہیں بتلایا گیا کہ جس کار توس کو استعمال کے وقت منہ سے کھینچنا پڑتا ہے اس میں سُور کی چربی ملی ہوئی ہے، یہ سن کر مسلمان فوجی بھڑک گئے اور اس طرح میرٹھ سے تحریک آزادی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔
حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ کی شہادت کے بعد یہ تحریک ختم نہیں ہوئی، بلکہ وہ جذبہ جو اس تحریک کے ذریعے عوام وخواص کے دلوں میں پروان چڑھا تھا اسی طرح تروتازہ رہا، ابتدا میں یہ ایک چنگاری تھی جو آہستہ آہستہ ایک شعلہ بن گئی ، انگریز اس تحریک کو جسے انہوں نے وہابی تحریک کا نام دیا تھا کچلنے کے لیے پوری طرح سرگرم عمل رہے ۔ ۱۸۴۸ء میں انگریزوں کے ساتھ اس تحریک سے وابستہ افراد نے پنجاب کے متعدد شہروں میں بے شمار جنگیں لڑیں، بہت سے لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، بے شمار مجاہدین گرفتار کئے گئے ان پر مقدمات چلے اور انہیں بغاوت کے الزام میں سرِدار چڑھا یا گیا۔
بعد میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ۱۸۵۷ء کی انقلابی تحریک ، ۱۸۵۷ء کا جہاد شاملی ، ۱۹۱۴ء کی تحریک ریشمی رومال ،۱۹۱۹ئکا جلیان والا باغ قتل عام، ۱۹۲۰ء کی تحریک عدم تعاون ،۱۹۲۲ء کی موپلا بغاوت، ۱۹۲۲ء میں چورا چوری فائرنگ، ۱۹۳۰ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک ستیہ گرہ، ۱۹۴۲ء کی ہندوستان چھوڑو تحریک، ۱۹۴۶ء میں آزاد ہند فوج کی قربانیاں، ۱۹۴۶ء میں ممبئی کے فوجی بحری بیڑے کے جوانوں کی بغاوت اور اس کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پر پولیس کی وحشیانہ فائرنگ کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کی شہادت ،یہ تمام واقعات در اصل حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک جہاد کے تسلسل کا عنوان ہیں، اور ان میں سے ہر عنوان میں علمائے کرام کے قربانیوں کی ایک طویل داستان پوشیدہ ہے اور ہر داستان کا ایک ایک لفظ لاکھوں مسلمانوں کے لہو سے رنگین اور روشن ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

تعریف الایمان وانواعہ واختلافہ

ایمان کی تعریف میں پانچ قول ہیں

                           ایمان کی تعریف

❶ تصدیق قلبی فقط, والاقرار شرط لاجراء الاحکام,عندابی حنیفةؒ وجمھورمحققین یعنی اشاعرہ,ماتریدیة,
دلیل:
❷ تصدیق قلبی,اقرار باللسان, عندبعض علماء اہل السنة وشمس الائمہ سرخسی وفخرالاسلام بزدوی,
بعض علماء اہل سنت شمس الائمہ سرخسی وفخرالاسلام بزدوی وغیرہ کے نزدیک ایمان تصدیق قلبی اور اقرار باللسان کے مجموعہ کانام ہے مگر تصدیق قلبی رکن اصلی ہے سقوط کااحتمال نہیں رکھتا جبکہ اقرار باللسان رکن زائد ہے جوکہ حالت اکراہ واضطرار میں ساقط ہوجاتاہے,
                 فان قیل
اعتراض:- اگر ایمان تصدیق قلبی کانام ہے تو پھر نیند اور غفلت کی حالت میں اسکو مؤمن نہیں کہنا چاہئے کہ اس حالت میں تصدیق قلبی باقی نہیں رہتی؟
جواب ❶ اگر یہ بات مان بھی لیں کہ بوقت نیند وغفلت تصدیق قلبی باقی نہیں لیکن جب تصدیق وجود میں آچکی ہے تو شریعت نے اسے اس وقت تک باقی رکھاہے جب تک کہ اس کی ضد یعنی تکذیب نہ آجائے اور یہاں تکذیب نہیں تو تصدیق کو باقی ہی سمجھیں گے,
جواب ❷ جو شخص پہلے یافی الحال ایمان لایا تو اب تصدیق کاتحقق ہوگیا اب جب تک علامت تکذیب نہ آئیں تو یہ مؤمن ہی رہےگا,
❸ تصدیق قلبی,اقرارباللسان,عمل بالارکان, عندجمہور محدثین,فقھاء,متکلمین,معتزلہ وخوارج,
البتہ فرق اتنا ہے کہ محدثین, فقہاء وغیرہ عمل بالارکان کو کمال ایمان کاجزء کہتے ہیں,
جبکہ معتزلہ نفس ایمان کاجزء کہتے ہیں,

❹ اقرارباللسان, عند الکرامیہ,
اعتراض:اگر اقرار باللسان ایمان کیلئے کافی ہے تو پھر منافقین(جوکہ زبانی اقرار کرتے تھےصرف)کافر اور مخلد فی النار کیوں قرار دئےگئے؟

❺ معرفة صدق المخبر او اخبارہ, عندالقدریہ,
اعتراض: اگر ایمان معرفت کانام ہے تو یہود ونصاری کوتو یہ معرفت بہت پختہ حاصل تھی پھر وہ بدترین انسان دھرتی کے کیوں شمار کئےگئے؟



( *شرح العقائد النسفیہ* )

پاکستانی ملی نغمے milli naGmay

چودہ اگست کےحوالےسےبندہ کاتحریرکردہ ملی نغمہ ملاحظہ فرمائیں۔

یہ فضا،آسماں،کہکشاں چوم لوں…

اےوطن تیرادلکش جہاں چوم لوں…


تیری مٹی میں ایسی چمک ہےنہاں…

مسکراتی ہیں سبزےمیں گم وادیاں…


میٹھےچشمےرواں خوبروچوٹیاں…

لہلہاتےچمن گلستاں گلستاں…


ایسامنظرکہ منظرکی جاں،چوم لوں…

اےوطن تیرادلکش جہاں چوم لوں…


تیری تاریخ کی گرکریں جستجو…

ہےشہیدوں کاتیری زمیں پرلہو…


وہ لہواس طرح سے گراکوبہ کو…

کردیااس نے ذروں کوبھی مشکبو…


وہ لہووہ مکاں داستاں چوم لوں…

اےوطن تیرادلکش جہاں چوم لوں…


معتبرتجھ سےہےعزم وہمت ،وفا…

توکروڑوں مقدس دلوں کی دعا…


اےوطن توخداکی عظیم اک عطاء…

تجھ پہ سوبارہوجان میری فدا…


تیری رفعت کاہرہربیاں چوم لوں…

اےوطن تیرادلکش جہاں چوم لوں…


توہی قائدکی جرأت کی تصویرہے…

خواب اقبال کی آج تعبیر ہے…


ان فضاؤں میں نعرۂ تکبیرہے…

 جس سےمنزل کی راہوں میں تنویرہے

 

قائدقوم اورپاسباں چوم لوں…

اےوطن تیرادلکش جہاں چوم لوں…


تیرےپنجاب وسندھ اورپختون خواہ…

ہیں بلوچ اہل کشمیرسب خیرخواہ…


یہ أخوت کاجذبہ فلک ہےگواہ…

سب کی منزل ہےاک سب کی ہےایک راہ…


سوہنی دھرتی کاہرہرجواں چوم لوں…

اےوطن تیرادلکش جہاں چوم لوں…


بھائ عبدالسمیع کالکھاہوا ملی نغمہ 




یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

                                        

                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان



ہرسمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
ملک اپناتھااور غیروں کےہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی اس نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لئیے آیا سر میدان


                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


دیکھا تھا جو اقبال نے اک خواب سہانا
اس خواب کو اک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو اس نے تو ہنسا اس پہ زمانہ
ہر چال سےچاہا اسے دشمن نے ہرانا
مارا وہ اس نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان


                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا
نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا
سچائی کے انمول اصولوں کوسنبھالا
پنہاں اسکے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سن کر اسکا فرمان

                                  

                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے
سندھی ، بلوچی ، سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے
ساتھ اپنے مہاجر لیے قرآن چل پڑے
اور قائد ملت بھی چلے ہونے کو قربان


                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


نقشہ بدل کے رکھ دیا اس ملک کااس نے
سایہ تھا خدا کا ، محمد کا اسکے سر پہ
دنیا سے کہا اس نےکوئی ہم سےنہ الجھے
لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان


                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد
میت پہ اسکی چیخ کےہم نےجو کی فریاد
بولی یہ اسکی روح نہ سمجھو اسے بیداد
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان


                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


ہمکو آزادی کی نعمت سےتو نے نوازا
کھل گیا اہل ایمان کیلئےاعمال کا دروازہ
اہل علم کی تائید ونصرت سے سرفرازا
شبیر وظفر نے ملک کاپرچم لہرایا
کس طرح کردے فروش مسلم تیرا احسان


                                        اےخالق جہاں تیرا احسان ہےتیرا احسان


تبدیلی امداداللہ عفی عنہ  

سورۃ النساء جلالین حصہ اول

.تفسير الآية رقم (1):
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (1)}
{يا أَيُّهَا الناس} من أهل مكة(الف لام عہد خارجی)  {اتقوا رَبَّكُمُ} أي عقابه(مجاز مرسل حذف مضاف)  بأن تطيعوه(تصویرتقوی  nullخَلَقَكُمْ مّن نَّفْسٍ واحدة} آدم {وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا} حواء بالمد من ضلع من أضلاعه اليسرى {وَبَثَّ} فَرَّقَ وَنَشرَ {مِنْهُمَا} من آدم وحوّاء {رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً} كثيرة {واتقوا الله الذي تَسَاءَلُونَ} فيه إدغام التاء في الأصل في السين، وفي قراءة بالتخفيف بحذفها أي تتساءلون {بِهِ} فيما بينكم حيث يقول بعضكم لبعض (أسألك بالله) و(أنشدك بالله) {وَ} اتقوا {الأرحام} أن تقطعّوها، وفي قراءة بالجرّ عطفا على الضمير في به، وكانوا يتناشدون بالرحم {إِنَّ الله كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً} حافظاً لأعمالكم فيجازيكم بها أي لم يزل متصفا بذلك.
.تفسير الآية رقم (2):
{وَآَتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا (2)}
ونزل في يتيم طلب من وليه ماله فمنعه {وَءاتُواْ اليتامى} الصغار الذين لا أب لهم {أموالهم} إذا بلغوا {وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الخبيث} الحرام {بالطيب} الحلال أي تأخذوه بدله كما تفعلون من أخذ الجيد من مال اليتيم وجعل الرديء من مالكم مكانه {وَلاَ تَأْكُلُواْ أموالهم} مضمومة {إلى أموالكم إِنَّهُ} أي أكلها {كَانَ حُوباً} ذنباً {كَبِيراً} عظيماً. ولما نزلت تحرّجوا من ولاية اليتامى وكان فيهم من تحته العشر أو الثمان من الأزواج فلا يعدل بينهن فنزل:

 تفسير الآية رقم (3):
{وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (3)}
{وَإِنْ خِفْتُمْ أَ} ن {لا تُقْسِطُواْ} تعدلوا {فِي اليتامى} فتحرّجتم من أمرهم فخافوا أيضاً أن لا تعدلوا بين النساء إذا نكحتموهن {فانكحوا} تزوّجوا {مَا} بمعنى (مَن) {طَابَ لَكُمْ مّنَ النساء مثنى وثلاث وَرُبَاعَ} أي اثنتين اثنتين وثلاثاً ثلاثاً وأربعاً أربعاً ولا تزيدوا على ذلك {فَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لا تَعْدِلُواْ} فيهن بالنفقة والقَسْم {فواحدة} انكحوها {أَوْ} اقتصروا على {مَا مَلَكَتْ أيمانكم} من الإماء إذ ليس لهن من الحقوق ما للزوجات {ذلك} أي نكاح الأربع فقط أو الواحدة أو التسرِّي {أدنى} أقرب إلى {أَلاَّ تَعُولُواْ} تجوروا.
.تفسير الآية رقم (4):
{وَآَتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا (4)}
{وَءَاتُواْ} أعطوا {النساء صدقاتهن} جمع (صَدُقَة) (مهورهن) {نِحْلَةً} مصدر عطية عن طيب نفس {فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَئ مّنْهُ نَفْساً} تمييز محول عن الفاعل، أي طابت أنفسهن لكم عن شيء من الصداق فوهبنه لكم {فَكُلُوهُ هَنِيئاً} طيباً {مَّرِيئاً} محمود العاقبة لا ضرر فيه عليكم في الآخرة نزلت ردًّا على من كره ذلك.
.تفسير الآية رقم (5):
{وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (5)}
{وَلاَ تُؤْتُواْ} أيها الأولياء {السفهاء} المبذِّرين من الرجال والنساء والصبيان {أموالكم} أي أموالهم التي في أيديكم {التي جَعَلَ الله لَكُمْ قياما} مصدر (قام) أي تقوم بمعاشكم وصلاح أَوَدِكم فيضيعوها في غير وجهها، وفي قراءة {قِيمَا} جمع (قيمة) ما تقوم به الأمتعة {وارزقوهم فِيهَا} أطعموهم منها {واكسوهم وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً} عِدُوهم عِدَةً جميلة بإعطائهم أموالهم إذا رشدوا.
.تفسير الآية رقم (6):
{وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آَنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (6)}
{وابتلوا} اختبروا {اليتامى} قبل البلوغ في دينهم وتصرفهم في أحوالهم {حتى إِذَا بَلَغُواْ النّكَاحَ} أي صاروا أهلاً له بالاحتلام أو السن وهو استكمال خمسة عشرة سنة عند الشافعي {فَإِنْ ءَانَسْتُم} أبصرتم {مِّنْهُمْ رُشْداً} صلاحا في دينهم ومالهم {فادفعوا إِلَيْهِمْ أموالهم وَلاَ تَأْكُلُوهَا} أيها الأولياء {إِسْرَافاً} بغير حق حال {وَبِدَاراً} أي مبادرين إلى إنفاقها مخافة {أَن يَكْبَرُواْ} رشداء فيلزمكم تسليمها إليهم {وَمَن كَانَ} من الأولياء {غَنِيّاً فَلْيَسْتَعْفِفْ} أي يعف عن مال اليتيم ويمتنع من أكله {وَمَن كَانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ} منه {بالمعروف} بقدر أجرة عمله {فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ} أي إلى اليتامى {أموالهم فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ} أنهم تسلموها وبرئتم لئلا يقع اختلاف فترجعوا إلى البينة وهذا أمر إرشاد {وكفى بالله} الباء زائدة {حَسِيباً} حافظاً لأعمال خلقه ومحاسبهم.
.تفسير الآية رقم (7):
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (7)}
ونزل ردًّا لِما كان عليه الجاهلية من عدم توريث النساء والصغار {لّلرّجَالِ} الأولاد والأقرباء {نَّصِيبٌ} حظٌّ {مّمَّا تَرَكَ الوالدان والأقربون} المتوفون {وَلِلنّسَاء نَصِيبٌ مّمَّا تَرَكَ الوالدان والأقربون مِمَّا قَلَّ مِنْهُ} أي المال {أَوْ كَثُرَ} جعله الله {نَصِيباً مَّفْرُوضاً} مقطوعاً بتسليمه إليهم.
.تفسير الآية رقم (8):
{وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (8)}
{وَإِذَا حَضَرَ القسمة} للميراث {أُوْلُوا القربى} ذوو القرابة ممن لا يرث {واليتامى والمساكين فارزقوهم مّنْهُ} شيئاً قبل القسمة {وَقُولُواْ} أيها الأولياء {لَهُمْ} إذا كان الورثة صغاراً {قَوْلاً مَّعْرُوفاً} جميلاً بأن تعتذروا إليهم أنكم لا تملكونه وأنه للصغار وهذا قيل إنه منسوخ وقيل لا ولكن تهاون الناس في تركه وعليه فهو ندب وعن ابن عباس واجب.
.تفسير الآية رقم (9):
{وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (9)}
{وَلْيَخْشَ} أي ليخف على اليتامى {الذين لَوْ تَرَكُواْ} أي قاربوا أن يتركوا {مِّنْ خَلْفِهِمْ} أي بعد موتهم {ذُرّيَّةً ضعافا} أولاداً صغاراً {خَافُواْ عَلَيْهِمْ} الضياع {فَلْيَتَّقُواّ الله} في أمر اليتامى وليأتوا إليهم ما يحبون أن يفعل بذرّيتهم من بعدهم {وَلِيَقُولُواْ} للميّت {قَوْلاً سَدِيداً} صواباً بأن يأمروه أن يتصَّدق بدون ثلثه ويدع الباقي لورثته ولا يتركهم عالة.
.تفسير الآية رقم (10):
{إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (10)}
{إِنَّ الذين يَأْكُلُونَ أموال اليتامى ظُلْماً} بغير حق {إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ} أي مِلأها {نَارًا} لأنه يؤول إليها {وَسَيَصْلَوْنَ} بالبناء للفاعل والمفعول يدخلون {سَعِيراً} ناراً شديدة يحترقون فيها.
.تفسير الآية رقم (11):
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آَبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11)}
{يُوصِيكُمُ} يأمركم {الله فِي} شأن {أولادكم} بما يذكر {لِلذّكْرِ} منهم {مِثْلُ حَظِ} نصيب {الأنثيين} إذا اجتمعتا معه فله نصف المال ولهما النصف فإن كان معه واحدة فلها الثلث وله الثلثان وإن انفرد حاز المال {فَإِن كُنَّ} أي الأولاد {نِسَاءً} فقط {فَوْقَ اثنتين فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ} الميت وكذا الاثنتان لأنه للأختين بقوله: {فلهما الثلثان مما ترك} فهما أولى ولأن البنت تستحق الثلث مع الذكر فمع الأنثى أولى. (وفوق) قيل صلة وقيل لدفع توهم زيادة النصيب بزيادة العدد لمّا فُهِمَ استحقاق البنتين الثلثين من جعل الثلث للواحدة مع الذكر {وَإِن كَانَتْ} المولودة {واحدة} وفي قراءة بالرفع، (فكان) تامة {فَلَهَا النصف وَلأَبَوَيْهِ} أي الميت ويبدل منهما {لِكُلّ واحد مّنْهُمَا السدس مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ} ذكر أو أنثى. ونكتة البدل إفادة أنهما لا يشتركان فيه وألحق بالولد ولد الابن وبالأب الجدّ {فَإِن لَّمْ يَكُنْ لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ} فقط أو مع زوج {فَلأُمّهِ} بضم الهمزة وكسرها فراراً من الانتقال من ضمة إلى كسرة لثقله في الموضعين {الثلث} أي ثلث المال أو ما يبقى بعد الزوج والباقي للأب {فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ} أي اثنان فصاعداً ذكوٌر أو إناث {فَلاِمِهِ السدس} والباقي للأب ولا شيء للإخوة وإرث من ذكر ما ذكر {مِن بَعْدِ} تنفيذ {وَصِيَّةٍ يُوصِى} بالبناء للفاعل والمفعول {بِهَا أَوْ} قضاء {دِينِ} عليه، وتقديم الوصية على الدين وإن كانت مؤخرة عنه في الوفاء للاهتمام بها {ءَابَاؤُكُمْ وَأَبناؤُكُمْ} مبتدأ، خبره {لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً} في الدنيا والآخرة فظانٌّ أن ابنه أنفعُ له فيعطيه الميراث فيكون الأب أنفع وبالعكس وإنما العالمُ بذلك الله ففرض لكم الميراث {فَرِيضَةً مِّنَ الله إِنَّ الله كَانَ عَلِيماً} بخلقه {حَكِيماً} فيما دبَّره لهم أي: لم يزل متصفاً بذلك.
.تفسير الآية رقم (12):
{وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (12)}
{وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أزواجكم إِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ} منكم أو من غيركم {فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الربع مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} وألحق بالولد في ذلك ولد الابن بالإجماع {وَلَهُنَّ} أي الزوجات تعدّدن أو لا {الربع مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ} منهنّ أو من غيرهنّ {فَلَهُنَّ الثمن مِمَّا تَرَكْتُم مّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} وولد الابن في ذلك كالولد إجماعاً {وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ} صفة والخبر {كلالة} أي لا والد له ولا ولد {أَو امرأة} تورث كلالة {وَلَهُ} أي للموروث كلالة {أَخٌ أَوْ أُخْتٌ} أي من أمّ وقرأ به ابن مسعود وغيره {فَلِكُلّ واحد مّنْهُمَا السدس} مما ترك {فَإِن كَانُواْ} أي الإخوة والأخوات من الأمّ {أَكْثَرَ مِن ذلك} أي من واحد {فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثلث} يستوي فيه ذَكَرُهم وأُنثاهم {مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يوصى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارّ} حال من ضمير (يوصي) أي غير مدخل الضرر على الورثة بأن يوصى بأكثر من الثلث {وَصِيَّةً} مصدر مؤكد لـ {يوصيكم} {مِّنَ الله والله عَلِيمٌ} بما دبره لخلقه من الفرائض {حَلِيمٌ} بتأخير العقوبة عمن خالفه، وخصت السنة توريث من ذكر بمن ليس فيه مانع من قتل أو اختلاف دين أو رقٍّ.
.تفسير الآية رقم (13):
{تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13)}
{تِلْكَ} الأحكام المذكورة من أمر اليتامى وما بعده {حُدُودُ الله} شرائعه التي حدّها لعباده ليعملوا بها ولا يتعدّوها {وَمَن يُطِعِ الله وَرَسُولَهُ} فيما حكم به {يُدْخِلْهُ} بالياء والنون التفاتا {جنات تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأنهر خالدين فِيهَا وذلك الفوز العظيم}.
.تفسير الآية رقم (14):
{وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (14)}
{وَمَن يَعْصِ الله وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ} بالوجهين [يدخله وندخله] {نَاراً خالدا فِيهَا وَلَهُ} فيها {عَذَابٌ مُّهِينٌ} ذو إهانة وروعي في الضمائر في الآيتين لفظ (من) وفي (خالدين) معناها.
.تفسير الآية رقم (15):
{وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا (15)}
{والاتى يَأْتِينَ الفاحشة} الزنا {مِن نّسَائِكُمْ فاستشهدوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنْكُمْ} أي من رجالكم المسلمين {فَإِن شَهِدُواْ} عليهنّ بها {فَأَمْسِكُوهُنَّ} احبسوهنّ {فِي البيوت} وامنعوهنّ من مخالطة الناس {حتى يَتَوَفَّاهُنَّ الموت} أي ملائكته {أَوْ} إلى أن {يَجْعَلَ الله لَهُنَّ سَبِيلاً} طريقاً إلى الخروج منها أُمِرُوا بذلك أوّل الإسلام ثم جعل لهنّ سبيلاً بجلد البكر مائة وتغريبها عاماً، ورجم المحصنة، وفي الحديث لما بيَّن الحدّ قال «خذوا عني، خذوا عني، قد جعل الله لهنّ سبيلاً» رواه مسلم.
.تفسير الآية رقم (16):
{وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآَذُوهُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَحِيمًا (16)}
{واللذان} بتخفيف النون وتشديدها {يأتيانها} أي الفاحشة: الزنا أو اللواط {مِّنكُمْ} أي الرجال {فَئَاذُوهُمَا} بالسبّ والضرب بالنعال {فَإِن تَابَا} منها {وَأَصْلَحَا} العمل {فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَا} ولا تؤذوهما {إِنَّ الله كَانَ تَوَّاباً} على من تاب {رَّحِيماً} به وهذا منسوخ بالحدّ إن أريد بها الزنا، وكذا إن أريد بها اللواط عند الشافعي لكنّ المفعول به لا يرجم عنده- وإن كان محصناً- بل يُجلد ويُغرّب، وإرادة اللواط أظهر بدليل تثنية الضمير والأوّل قال أراد الزاني والزانية، ويردّه تبيينهما بـ (من) المتصلة بضمير الرجال واشتراكهما في الأذى والتوبة والإعراض وهو مخصوص بالرجال لما تقدّم في النساء من الحبس.
.تفسير الآية رقم (17):
{إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (17)}
{إِنَّمَا التوبة عَلَى الله} أي التي كتب على نفسه قبولها بفضله {لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السوء} المعصية {بِجَهَالَةٍ} حال أي جاهلين إذ عصوا ربهم {ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن} زمن {قَرِيب} قبل أن يغرغروا {فَأُوْلَئِكَ يَتُوبُ الله عَلَيْهِمْ} يقبل توبتهم {وَكَانَ الله عَلِيماً} بخلقه {حَكِيماً} في صنعه بهم.
.تفسير الآية رقم (18):
{وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآَنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (18)}
{وَلَيْسَتِ التوبة لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السيئات} الذنوب {حتى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الموت} وأخذ في النزع {قَالَ} عند مشاهدة ما هو فيه {إِنّى تُبْتُ الئ ان} فلا ينفعه ذلك ولا يقبل منه {وَلاَ الذين يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ} إذا تابوا في الآخرة عند معاينة العذاب لا تقبل منهم {أُوْلَئِكَ أَعْتَدْنَا} أعددنا {لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً} مؤلماً.


.تفسير الآية رقم (19):
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آَتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (19)}
{ياأيها الذين ءامَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النساء} أي ذاتهن {كَرْهاً} بالفتح والضم لغتان أي مكرهيهن على ذلك كانوا في الجاهلية يرثون نساء أقربائهم فإن شاؤوا تزوَّجوهن بلا صداق أو زوّجوهن وأخذوا صداقهن، أو عضلوهن حتى يفتدين بما ورثته، أو يمتن فيرثوهن فنُهُوا عن ذلك {وَلاَ} أن {تَعْضُلُوهُنَّ} أي تمنعوا أزواجكم عن نكاح غيركم بإمساكهنّ ولا رغبة لكم فيهنّ ضِرَارا {لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا ءاتَيْتُمُوهُنَّ} من المهر {إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيّنَةٍ} بفتح الياء وكسرها أي بيِنت أو هي بينة أي زنا أو نشوز فلكم أن تضارّوهنّ حتى يفتدين منكم ويختلعن {وَعَاشِرُوهُنَّ بالمعروف} أي بالإِجمال في القول والنفقة والمبيت {فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ} فاصبروا {فعسى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئاً وَيَجْعَلَ الله فِيهِ خَيْراً كَثِيراً} ولعله يجعل فيهنّ ذلك بأن يرزقكم منهنّ ولداً صالحاً.
.تفسير الآية رقم (20):
{وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآَتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (20)}
{وَإِنْ أَرَدْتُّمُ استبدال زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ} أي أخذ بدلها بأن طلقتموها {وَ} قد {ءاتَيْتُم إِحْدَاهُنَّ} أي الزوجات {قِنْطَاراً} مالاً كثيراً صداقاً {فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئاً أَتَأْخُذُونَهُ بهتانا} ظلماً {وَإِثْماً مُّبِيناً} بَيِّناً؟ ونصبهما على الحال والاستفهام للتوبيخ وللإنكار.
.تفسير الآية رقم (21):
{وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (21)}
{وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ} أي بأيّ وجه {وَقَدْ أفضى} وصل {بَعْضُكُمْ إلى بَعْضٍ} بالجماع المقرّر للمهر {وَأَخَذْنَ مِنكُم ميثاقا} عهداً {غَلِيظاً} شديداً وهو ما أمر الله به من إمساكهن بمعروف أو تسريحهن بإحسان.
.تفسير الآية رقم (22):
{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آَبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا (22)}
{وَلاَ تَنكِحُواْ مَا} بمعنى (من) {نَكَحَ ءَابَاؤُكُمْ مّنَ النساء إِلاَّ} لكن {مَا قَدْ سَلَفَ} من فعلكم ذلك فإنه معفوّ عنه {إِنَّهُ} أي نكاحهنّ {كَانَ فَاحِشَةً} قبيحاً {وَمَقْتاً} سبباً للمقت من الله وهو أشدّ البغض {وَسَاءَ} بئس {سَبِيلاً} طريقاً ذلك.
.تفسير الآية رقم (23):
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (23)}
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أمهاتكم} أن تنكحوهنّ وشملت الجدات من قبل الأب أو الأمّ {وبناتكم} وشملت بنات الأولاد وإن سفلن {وأخواتكم} من جهة الأب أو الأمّ {وعماتكم} أي أخوات آبائكم وأجدادكم {وخالاتكم} أي أخوات أمّهاتكم وَجدّاتكم {وَبَنَاتُ الأخ وَبَنَاتُ الأخت} ويدخل فيهن أولادهم {وأمهاتكم الْلاَّتِى أَرْضَعْنَكُمْ} قبل استكمال الحولين خمس رضعات كما بينه الحديث {وأخواتكم مّنَ الرضاعة} ويلحق بذلك بالسنة البنات منها وهن من أرضعتهن موطوءته وَالعمات وَالخالات وَبنات الأخ وَبنات الأخت منها لحديث «يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب» رواه البخاري ومسلم {وأمهات نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ} جمع (ربيبة) وهي بنت الزوجة من غيره {الاتى فِي حُجُورِكُمْ} تربونهن صفة موافقة للغالب فلا مفهوم لها {مّن نِّسَائِكُمُ الاتى دَخَلْتُمْ بِهِنَّ} أي جامعتموهنّ {فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ} في نكاح بناتهنّ إذا فارقتموهنّ {وحلائل} أزواج {أَبْنَائِكُمُ الذين مِنْ أصلابكم} بخلاف من تبنيتموهم فلكم نكاح حلائلهم {وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الأختين} من نسب أو رضاع بالنكاح ويلحق بهما بالسنة الجمع بينها وبين عمتها أو خالتها ويجوز نكاح كل واحدة على الانفراد وملكهما معاً ويطأ واحدة {إِلا} لكن {مَا قَدْ سَلَفَ} في الجاهلية من نكاحهم بعض ما ذكر فلا جناح عليكم فيه {إِنَّ الله كَانَ غَفُوراً} لما سلف منكم قبل النهي {رَّحِيماً} بكم في ذلك.
.تفسير الآية رقم (24):
{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآَتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (24)}
{وَ} حرّمت عليكم {المحصنات} أي ذوات الأزواج {مِّنَ النساء} أن تنكحوهن قبل مفارقة أزواجهن حرائر مسلمات كنّ أو لا {إِلاَّ مَا مَلَكْتَ أيمانكم} من الإماءِ بالسبي فلكم وطؤهن وإن كان لهنّ أزواج في دار الحرب بعد الاستبراء {كتاب الله} نصب على المصدر أي كُتِبَ ذلك {عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ} بالبناء للفاعل والمفعول {لَكُمْ مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ} أي سوى ما حرّم عليكم من النساء {أَن تَبْتَغُواْ} تطلبوا النساء {بأموالكم} بصداق أو ثمن {مُّحْصِنِينَ} متزوّجين {غَيْرَ مسافحين} زانين {فَمَا} فمن {استمتعتم} تمتعتم {بِهِ مِنْهُنَّ} ممن تزوّجتم بالوطء {فَئَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ} مهورهنّ التي فرضتم لهن {فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ} أنتم وهنّ {بِهِ مِن بَعْدِ الفريضة} من حطها أو بعضها أو زيادة عليها {إِنَّ الله كَانَ عَلِيماً} بخلقه {حَكِيماً} فيما دبره لهم.
.تفسير الآية رقم (25):
{وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآَتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (25)}
{وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً} أي غنى ل {أَن يَنكِحَ المحصنات} الحرائر {المؤمنات} هو جَريٌ على الغالب فلا مفهوم له {فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ أيمانكم} ينكح {مّن فتياتكم المؤمنات والله أَعْلَمُ بإيمانكم} فاكتفُوا بظاهره وكِلُوا السرائر إليه فإنه العالم بتفصيلها، ورُبَّ أَمَةٍ تفضل الحرّة فيه وهذا تأنيس بنكاح الإماء {بَعْضُكُم مّن بَعْضٍ} أي أنتم وهنّ سواء في الدين فلا تستنكفوا من نكاحهنّ {فانكحوهن بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ} مواليهن {وَءاتُوهُنَّ} أعطوهنّ {أُجُورَهُنَّ} مهورهنّ {بالمعروف} من غير مَطل ونقص {محصنات} عفائف حال {غَيْرَ مسافحات} زانيات جهراً {وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ} أخلاّء يزنون بهنّ سرًّا {فَإِذَا أُحْصِنَّ} زُوِّجن وفي قراءة بالبناء للفاعل تَزَوَّجْنَ {فَإِنْ أَتَيْنَ بفاحشة} زناً {فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى المحصنات} الحرائر الأبكار إذا زنين {مّنَ العذاب} الحدّ فيجلدن خمسين ويغرّبن نصف سنة، ويقاس عليهن العبيد، ولم يجعل الإحصان شرطاً لوجوب الحدّ بل لإفادة أنه لا رجم عليهنّ أصلاً {ذلك} أي نكاح المملوكات عند عدم الطَّوْل {لِمَنْ خَشِىَ} خاف {العنت} الزنا وأصله المشقة سمي به الزنا لأنه سببها بالحدّ في الدنيا والعقوبة في الآخرة {مّنكُمْ} بخلاف من لا يخافه من الأحرار فلا يحل له نكاحها وكذا من استطاع طَوْلَ حرّة وعليه الشافعي. وخرج بقوله: {من فتياتكم المؤمنات} الكافرات فلا يحل له نكاحها ولو عدم وخاف {وَأَن تَصْبِرُواْ} عن نكاح المملوكات {خَيْرٌ لَّكُمْ} لئلا يصير الولد رقيقاً {والله غَفُورٌ رَّحِيمٌ} بالتوسعة في ذلك.
.تفسير الآية رقم (26):
{يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (26)}
{يُرِيدُ الله لِيُبَيّنَ لَكُمْ} شرائع دينكم ومصالح أمركم {وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ} طرائق {مِن قَبْلِكُمْ} من الأنبياء في التحليل والتحريم فتتبعوهم {وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ} يرجع بكم عن معصيته التي كنتم عليها إلى طاعته {والله عَلِيمٌ} بكم {حَكِيمٌ} فيما دبره لكم.
.تفسير الآية رقم (27):
{وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا (27)}
{والله يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ} كرّره ليبني عليه {وَيُرِيدُ الذين يَتَّبِعُونَ الشهوات} اليهود والنصارى أو المجوس أو الزناة {أَن تَمِيلُواْ مَيْلاً عَظِيماً} تعدلوا عن الحق بارتكاب ما حرّم عليكم فتكونوا مثلهم.
.تفسير الآية رقم (28):
{يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (28)}
{يُرِيدُ الله أَن يُخَفِّفَ عَنْكُمْ} يسهل عليكم أحكام الشرع {وَخُلِقَ الإنسان ضَعِيفاً} لا يصبر عن النساء والشهوات.
.تفسير الآية رقم (29):
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29)}
{ياأيها الذين ءامَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أموالكم بَيْنَكُمْ بالباطل} بالحرام في الشرع كالربا والغصب {إِلآَّ} لكن {أَن تَكُونَ} تقع {تجارة} وفي قراءة بالنصب، أي تكون الأموال أموال تجارة صادرة {عَن تَرَاضٍ مِّنْكُمْ} وطيب نفس فلكم أن تأكلوها {وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} بارتكاب ما يؤدِّي إلى هلاكها أياً كان في الدنيا أو الآخرة بقرينة {إِنَّ الله كَانَ بِكُمْ رَحِيماً} في منعه لكم من ذلك.
.تفسير الآية رقم (30):
{وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30)}
{وَمَن يَفْعَلْ ذلك} أي ما نُهي عنه {عدوانا} تجاوزاً للحلال حال {وَظُلْماً} تأكيد {فَسَوْفَ نُصْلِيهِ} ندخله {نَارًا} يحترق فيها {وَكَانَ ذلك عَلَى الله يَسِيراً} هيِّناً.
.تفسير الآية رقم (31):
{إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا (31)}
{إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ} وهي ما ورد عليها وعيد كالقتل والزنا والسرقة، وعن ابن عباس: هي إلى السبعمائة أقرب {نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سيئاتكم} الصغائر بالطاعات {وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلاً} بضم الميم وفتحها أي إدخالاً أو موضعاً {كَرِيماً} هو الجنة.
.تفسير الآية رقم (32):
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (32)}
{وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ الله بِهِ بَعْضَكُمْ على بَعْضٍ} من جهة الدنيا أو الدين لئلا يؤدي إلى التحاسد والتباغض {لّلرّجَالِ نَصِيبٌ} ثواب {مِّمَّا اكتسبوا} بسبب ما عملوا من الجهاد وغيره {وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مّمَّا اكتسبن} من طاعة أزواجهنّ وحفظ فروجهن، نزلت لما قالت أم سلمة: (ليتنا كنا رجالاً فجاهَدْنا وكان لنا مثل أجر الرجال) {وَسْئَلُواْ} بهمزة ودونها (وسَلُوا) {الله مِن فَضْلِهِ} ما احتجتم إليه يعطكم {إِنَّ الله كَانَ بِكُلِّ شَئ عَلِيماً} ومنه محل الفضل وسؤالكم.
.تفسير الآية رقم (33):
{وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآَتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (33)}
{وَلِكُلٍّ} من الرجال والنساء {جَعَلْنَا مَوَالِىَ} عَصَبَةً يُعطَوْن {مِّمَّا تَرَكَ الوالدان والأقربون} لهم من المال {والذين عاقَدَتْ} بألف ودونها [عقدت] {أيمانكم} جمع (يمين) بمعنى القسم أو اليد أي الحلفاء الذين عاهدتموهم في الجاهلية على النصرة والإرث {فَئَاتُوهُمْ} الآن {نَصِيبَهُمْ} حظوظهم من الميراث وهو السدس {إِنَّ الله كَانَ على كُلِّ شَئ شَهِيداً} مطلعاً ومنه حالكم، وهذا منسوخ بقوله: {وَأُوْلُواْ الأرحام بَعْضُهُمْ أولى بِبَعْضٍ} [75: 8].
.تفسير الآية رقم (34):
{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (34)}
{الرجال قَوَّامُونَ} مسلطون {عَلَى النسآء} يؤدِّبونهن ويأخذون على أيديهِنَّ {بِمَا فَضَّلَ الله بَعْضَهُمْ على بَعْضٍ} أي بتفضيله لهم عليهن بالعلم والعقل والولاية وغير ذلك {وَبِمَآ أَنفَقُواْ} عليهن {مِنْ أموالهم فالصالحات} منهن {قانتات} مطيعات لأزواجهن {حافظات لِّلْغَيْبِ} أي لفروجهن وغيرها في غيبة أزواجهن {بِمَا حَفِظَ} لهنّ {الله} حيث أوصى عليهنّ الأزواج {واللاتى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ} عصيانهنّ لكم بأن ظهرت أماراته {فَعِظُوهُنَّ} فخوّفوهنّ الله {واهجروهن فِي المضاجع} اعتزلوا إلى فراش آخر إن أظهرن النشوز {واضربوهن} ضرباً غير مبرِّح إن لم يرجعن بالهجران {فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ} فيما يراد منهنّ {فَلاَ تَبْغُواْ} تطلبوا {عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً} طريقاً إلى ضربهن ظلماً {إِنَّ الله كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً} فاحذروه أن يعاقبكم إن ظلمتموهنّ.


تفسير الآية رقم (35):
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (35)}
{وَإِنْ خِفْتُمْ} علمتم {شِقَاق} خلاف {بَيْنِهما} بين الزوجين والإضافة للاتساع أي شقاقاً بينهما {فابعثوا} إليهما برضاهما {حُكْمًا} رجلاً عدلاً {مِّنْ أَهْلِهِ} أقاربه {وَحَكَماً مّنْ أَهْلِهَآ} ويوكل الزوج حكَمَه في طلاقِ وقبول عوض عليه وتوكل هي حكمها في الاختلاع فيجتهدان ويأمران الظالم بالرجوع أو يُفَرِّقانِ إن رأياه. قال تعالى: {إِن يُرِيدآ} أي الحكَمان {إصلاحا يُوَفّقِ الله بَيْنَهُمَآ} بين الزوجين أي يقدّرهما على ما هو الطاعة من إصلاح أو فراق {إِنَّ الله كَانَ عَلِيماً} بكل شيء {خَبِيراً} بالبواطن كالظواهر.
.تفسير الآية رقم (36):
{وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (36)}
{واعبدوا الله} وحِّدوه {وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئاً و} أحسنوا {بالوالدين إحسانا} برًّا ولينَ جانب {وَبِذِى القربى} القرابة {واليتامى والمساكين والجار ذِى القربى} القريب منك في الجوار أو النسب {والجار الجنب} البعيد عنك في الجوار أو النسب {والصاحب بالجنب} الرفيق في سفر أو صناعة، وقيل الزوجة {وابن السبيل} المنقطع في سفره {وَمَا مَلَكَتْ أيمانكم} من الأرقاء {إِنَّ الله لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً} متكبرا {فَخُوراً} على الناس بما أوتي.
.تفسير الآية رقم (37):
{الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (37)}
{الذين} مبتدأ {يَبْخَلُونَ} بما يجب عليهم {وَيَأْمُرُونَ الناس بالبخل} به {وَيَكْتُمُونَ مَا ءاتاهم الله مِن فَضْلِهِ} من العلم والمال وهم اليهود وخبر المبتدأ (لهم وعيد شديد) {وَأَعْتَدْنَا للكافرين} بذلك وبغيره {عَذَاباً مُّهِيناً} ذا إهانة.
.تفسير الآية رقم (38):
{وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (38)}
{والذين} عطف على (الذين) قبله {يُنْفِقُونَ أموالهم رِئَاء الناس} مرائين لهم {وَلاَ يُؤْمِنُونَ بالله وَلاَ باليوم الأخر} كالمنافقين وأهل مكة {وَمَن يَكُنِ الشيطان لَهُ قَرِيناً} صاحباً يعمل بأمره كهؤلاء {فَسَاءَ} بئس {قَرِيناً} هو.
.تفسير الآية رقم (39):
{وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آَمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا (39)}
{وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ ءَامَنُواْ بالله واليوم الأخر وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقَهُمُ الله} أي: أيُّ ضررٍ عليهم في ذلك؟ والاستفهام للإنكار و(لو) مصدرية أي لا ضرر فيه وَإنما الضرر فيما هم عليه {وَكَانَ الله بِهِم عَلِيماً} فيجازيهم بما عملوا.
.تفسير الآية رقم (40):
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا (40)}
{إِنَّ الله لاَ يَظْلِمُ} أحداً {مِثْقَالَ} وزن {ذَرَّةٍ} أصغر نملة بأن ينقصها من حسناته أو يزيدها في سيئاته {وَإِن تَكُ} الذرّة {حَسَنَةً} من مؤمن وفي قراءة بالرفع ف (كان) تامة {يضاعفها} من عشر إلى أكثر من سبعمائة وفي قراءة {يُضَعِّفْهَا} بالتشديد {وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ} من عنده مع المضاعفة {أَجْراً عَظِيماً} لا يقدّره أحد.
.تفسير الآية رقم (41):
{فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (41)}
{فَكَيْفَ} حال الكفار {إِذَا جِئْنَا مِن كُلّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ} يشهد عليها بعملها وهو نبيها {وَجِئْنَا بِكَ} يا محمد {على هَؤُلاء شَهِيداً}.
.تفسير الآية رقم (42):
{يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا (42)}
{يَوْمَئِذٍ} يوم المجيء {يَوَدُّ الذين كَفَرُواْ وَعَصَوُاْ الرسول لَوْ} أي أن {تسوى} بالبناء للمفعول والفاعل مع حذف إحدى التاءين في الأصل ومع إدغامها في السين أي تتسوّى {بِهِمُ الأرض} بأن يكونوا ترابا مثلها لعظم هوله كما في آية أخرى {وَيَقُولُ الكافر الكافر ياليتنى كُنتُ ترابا} [40: 78] {وَلاَ يَكْتُمُونَ الله حَدِيثاً} عما عملوه وفي وقت آخر يكتمونه ويقولون {والله رَبّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ} [23: 6].
.تفسير الآية رقم (43):
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (43)}
{ياأيها الذين ءامَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصلاة} أي لا تُصَلُّوا {وَأَنتُمْ سكارى} من الشراب لأن سبب نزولها صلاة جماعة في حال السكر {حتى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ} بأن تَصْحُوا {وَلاَ جُنُباً} بإيلاج أو إنزال ونصبه على الحال وهو يطلق على المفرد وغيره {إِلاَّ عَابِرِى} مجتازي {سَبِيلٍ} طريق أي مسافرين {حتى تَغْتَسِلُواْ} فلكم أن تصلوا واستثناء المسافر لأنّ له حكماً آخر سيأتي وقيل المراد النهي عن قربان مواضع الصلاة أي المساجد إلا عبورها من غير مكث {وَإِنْ كُنتُم مرضى} مرضاً يضرّه الماء {أَوْ على سَفَرٍ} أي مسافرين وأنتم جنب أو مُحْدِثُونَ {أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مّنْكُمْ مّن الغائط} هو المكان المعدّ لقضاء الحاجة أي أحدث {أَوْ لامستم النساء} وفي قراءة {لمستم} بلا ألف وكلاهما بمعنى اللمس وهو الجس باليد قاله ابن عمر وعليه الشافعي وأُلحِقَ به الجَسُ بباقي البشرة وعن ابن عباس: هو الجماع {فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً} تتطهرون به للصلاة بعد الطلب والتفتيش وهو راجع إلى ما عدا المرضى {فَتَيَمَّمُواْ} اقصدوا بعد دخول الوقت {صَعِيداً طَيّباً} تراباً طاهراً فاضربوا به ضربتين {فامسحوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ} مع المرفقين منه و(مسح) يتعدّى بنفسه وبالحرف {إِنَّ الله كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً}.
.تفسير الآية رقم (44):
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَنْ تَضِلُّوا السَّبِيلَ (44)}
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الذين أُوتُواْ نَصِيبًا} حظًّا {مّنَ الكتاب} وهم اليهود {يَشْتَرُونَ الضلالة} بالهدى {وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّواْ السبيل} تخطئوا الطريق الحق لتكونوا مثلهم.
.تفسير الآية رقم (45):
{وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللَّهِ نَصِيرًا (45)}
{والله أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ} منكم فيخبركم بهم لتجتنبوهم {وكفى بالله وَلِيّاً} حافظاً لكم منهم {وكفى بالله نَصِيراً} مانعاً لكم من كيدهم.
.تفسير الآية رقم (46):
{مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا (46)}
{مّنَ الذين هَادُواْ} قوم {يُحَرّفُونَ} يغيِّرون {الكلم} الذي أنزل الله في التوراة من نعت محمد صلى الله عليه وسلم {عَن مواضعه} التي وضع عليها {وَيَقُولُونَ} للنبيّ صلى الله عليه وسلم إذا أمرهم بشيء {سَمِعْنَا} قولك {وَعَصَيْنَا} أمرك {واسمع غَيْرَ مُسْمَعٍ} حال بمعنى الدعاء أي (لا سمعت) {وَ} يقولون له {راعنا} وقد نهي عن خطابه بها وهي كلمة سب بلغتهم {لَيّاً} تحريفاً {بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْناً} قدحاً {فِي الدين} الإسلام {وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا} بدل و(عصينا) {واسمع} فقط {وانظرنا} انظرْ إلينا بدل (راعنا) {لَكَانَ خَيْراً لَّهُمْ} مما قالوه {وَأَقْوَمَ} أعدل منه {وَلَكِن لَّعَنَهُمُ الله} أبعدهم عن رحمته {بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً} منهم كعبد الله بن سلام وأصحابه.
.تفسير الآية رقم (47):
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آَمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (47)}
{ياأيها الذين أُوتُواْ الكتاب ءَامِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا} من القرآن {مُصَدِّقاً لّمَا مَعَكُمْ} من التوراة {مّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهاً} نمحو ما فيها من العين والأنف والحاجب {فَنَرُدَّهَا على أدبارها} فنجعلها كالأقفاء لوحاً واحداً {أَوْ نَلْعَنَهُمْ} نمسخهم قردة {كَمَا لَعَنَّا} مسخنا {أصحاب السبت} منهم {وَكَانَ أَمْرُ الله} قضاؤه {مَفْعُولاً} ولما نزلت أسلم عبد الله بن سلام فقيل كان وعيداً بشرط فلما أسلم بعضهم رُفع وَقيل يكون طمسٌ ومسخٌ قبل قيام الساعة.
.تفسير الآية رقم (48):
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (48)}
{إِنَّ الله لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ} أي الإشراك {بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ} سوى {ذلك} من الذنوب {لِمَن يَشَاءُ} المغفرة له بأن يدخله الجنة بلا عذاب وَمن شاء عذبه من المؤمنين بذنوبه ثم يدخله الجنة {وَمَن يُشْرِكْ بالله فَقَدِ افترى إِثْماً} ذنباً {عَظِيماً} كبيراً.
.تفسير الآية رقم (49):
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (49)}
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الذين يُزَكُّونَ أَنفُسَهُمْ} وهم اليهود حيث قالوا: {نَحْنُ أبناؤا الله وأحباؤه} [5: 18] أي ليس الأمر بتزكيتهم أنفسهم {بَلِ الله يُزَكّى} يطهِّر {مَن يَشَآء} بالإيمان {وَلاَ يُظْلَمُونَ} ينقصون من أعمالهم {فَتِيلاً} قدر قشرة النواة.
.تفسير الآية رقم (50):
{انْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُبِينًا (50)}
{انظُرْ} متعجباً {كَيفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الكَذِبَ} بذلك {وكفى بِهِ إِثْماً مُّبِيناً} بيِّناً.
.تفسير الآية رقم (51):
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آَمَنُوا سَبِيلًا (51)}
ونزل في كعب بن الأشرف ونحوه من علماء اليهود لما قدموا مكة وشاهدوا قتلى بدر وحرّضوا المشركين على الأخذ بثأرهم ومحاربة النبي صلى الله عليه وسلم {أَلَمْ تَرَ إِلَى الذين أُوتُواْ نَصِيباً مّنَ الكتاب يُؤْمِنُونَ بالجبت والطاغوت} صنمان لقريش {وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ} أبي سفيان وأصحابه حين قالوا لهم: أنحن أهدى سبيلاً ونحن ولاة البيت نسقي الحاج ونقري الضيف ونفك العاني ونفعل-.... أم محمد صلى الله عليه وسلم؟ وقد خالف دين آبائه وقطع الرحم وفارق الحرم؟ {هَؤُلاء} أي أنتم {أهدى مِنَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ سَبِيلاً} أقْوَم طريقا.
.تفسير الآية رقم (52):
{أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (52)}
{أُوْلَئِكَ الذين لَعَنَهُمُ الله وَمَن يَلْعَنِ الله فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً} مانعاً من عذابه.
.تفسير الآية رقم (53):
{أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا (53)}
{أَمْ} بل أ {لَهُمْ نَصِيبٌ مّنَ الملك} أي ليس لهم شيء منه ولو كان {فَإِذاً لاَّ يُؤْتُونَ الناس نَقِيراً} أي شيئاً تافهاً قدر النقرة في ظهر النواة لفرط بخلهم.
.تفسير الآية رقم (54):
{أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آَتَيْنَا آَلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآَتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا (54)}
{أَمْ} بل {يَحْسُدُونَ الناس} أي النبي صلى الله عليه وسلم {على مَا ءاتاهم الله مِن فَضْلِهِ} النبوّة وكثرة النساء، أي يتمنون زواله عنه ويقولون لو كان نبيا لاشتغل عن النساء {فَقَدْ ءَاتَيْنَا ءَالَ إبراهيم} جدّه كموسى وداود وسليمان {الكتاب والحكمة} والنبوّة {وءاتيناهم مُلْكاً عَظيماً} فكان لداود تسع وتسعون امرأة ولسليمان ألف ما بين حُرَّةٍ وسُرِّية.











مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس