اتوار، 21 مئی، 2017

تراویح پر معاوضہ

تراویح پر معاوضہ کا جواز مفتی زرولی خان صاحب اور جمہور علماء کا موقف

(ایک طالب علمانہ تجزیہ )
کچھ دنوں سے شوشل میڈیا پر نمازِ تراویح پر مطلقا معاوضہ لینے کے جواز کے متعلق ایک حیرت انگیز، اور بڑاہی جرآت مندانہ اور بے باک بیان پڑوس ملک کے ایک معروف عالمِ دین مفتی زرولی خان صاحب گشت کررہا ہے اورہمارے بعض نوجوان فضلاء اس کو معاوضہ علی التراویح کے متعلق چودھویں صدی کا نہیایت مبنی برحقیقت اور فیصلہ کن بیان سمجھ رہے ہیں اور جگہ جگہ یہ بیان دلیل وحجت کے طور پر بڑی دلچسبی کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے
اس سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ متآخرین فقہاءِ احناف نے تعلیم القرآن پر یہ مسلمانوں کی دینی ضرورت ہونے کے پیشںِ نظر اجرت ومعاوضہ کے جواز کا فتوی دیا ہے ورنہ متقدمین کے زمانے میں یہ عمل محض دین وعبادت کے طور فی سبیل اللہ کیاجاتا ہے ماضئ قریب مشہور ومعروف فقیہ علامہ ابنِ عابدین شامی نے اپنی کتاب رسم المفتی میں اس بحث کو اجاگر کیا ہے کہ تعلیم قرآن اور تلاوتِ قرآن دو الگ الگ چیزیں ہیں تعلیم قرآن پر متآخرین فقہاء نے مسلمانوں کی دینی ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دیا ہے اور تلاوتِ قرآن پر معاوضہ کو متقدمین ومتآخرین کے موقف کے مطابق عدمِ جواز کی بات لکھی ہے اوراسی جمہور کے اختیار کردہ موقف کے مطابق اکابر علماءِ دیوبند متآخرین ومتقدمین اس بات پر متفق ہیں کہ تراویح میں تلاوت قرآن پر معاوضہ لینا ناجائز ہے اور اسی کا فتوی آج بھی حنفی اور دیوبندی مکتبہء فکر کے تقریبا دارالافتاؤں سے دیاجاتا ہے اصل چونکہ عدمِ جواز ہے اس لئے اس مسئلے کو اپنی ہیئت پر باقی رکھتے ہوے کچھ حیلوں، اور صورتوں کے ساتھ اس معاوضہ کو درست قرار دیکر جواز کا فتوی دیا جاتا ہے اور یہی زیادہ احوط بھی ہے اور قرآنِ پاک کی عظمت واحترام اور اسکے متعلق آئ ہوئ وعیدوں کی روشنی میں نہایت معتدل مسلک ہے اب اس موقف پر ہمارے بڑے بڑے چوٹی کے علماء ہیں ابنِ عابدین شامی سے لیکر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حکیم الامت حضرت تھانوی، شیخ الھندمحمود حسن دیوبندی، علامہ انور شاہ کشمیری، مفی عزیز الرحمن، دیوبندی، مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوری، فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی اور مفتی شفیع صاحب دیوبندی، جیسے اساطینِ امت ہیں اب دوسری بغیر کسی حیلے حوالے، کے اور بغیر کسی تحلیل وتاویل کے براہ راست مطلقا جواز کا فتوی دینا بڑی جرآت کی بات ہے اور حد یہ کہ ان تمام فتؤوں کو جو عدمِ جواز کے متعلق ہیں بیکار قرار دینا اور مچھر کے پر کے برابر بتلانا یہ ایک مجددنانہ بات ہوئ جو جمہورِ امت سے ہٹی ہوئ ہے ہر راسخ فی العلم اور فقیہ مزاج عالم کو حق ہے کہ وہ اصولِ شریعت کی روشنی میں جزئ مسائل میں اپنا ایک رجحان رکھے مگر یہ ہرگز روا نہیں کہ اپنی سمجھ اور اپنے موقف کو جمہور کے مقابلے میں اس انداز سے پیش کریں کہ وہ سب بے دلیل اور بے اصل ہیں اس کیلئے نصوصِ شرعیہ سے تائید ضروری ہے اور جمہورعلماء کا موقف وعمل بھی دیکھا جانا ضروری ہے. ہمیں مفتی صاحب کی شخصیت کی بلندی اور مرتبے سے قطعا انکار نہیں ہے وہ ہمارے بڑے ہیں، مگر حضرت نے جو انداز اس مسئلے میں جمہور علماء وفقہاء سے ہٹ کر اپنایا نہ صرف یہ کہ اپنا موقف ورجحان بتلایا، بلکہ اس سلسلے میں تمام اکابر کے فتؤوں کو بےاصل قرار دیدیا، چونکہ دوسری صف میں ان سےزیادہ بڑے بڑے اہلِ علم اور اہلِ کمال ہیں جن کے علم کا ڑنکا چہاردانگِ عالم بج رہا ہے
اس لئے ہم حضرت کی بات تسلیم کرنے سے پوری طرح معذور ہیں اوراس بات کی وہ آیات واحادیث بھی تائید نہیں کرتی جو قرآنِ پاک پر معاوضہ اور اشتراء کے متعلق وارد ہوئ ہیں ساتھ ساتھ فقہ کا اصول ہے کہ جمہور علماء اور تعاملِ امت کے مقابلے میں فردِ واحد کے موقف پر عمل نہیں کیا جاتا
(لا یُقتدی باالتفردات ) انفرادی موقف پر عمل نہیں کیاجائیگا اس لئے اگر ہم اضافی تنخواہ لینا چاہتے ہیں یا رمضان کی خصوصی خدمات پر معاوضہ لینا چاہتے ہیں تو خدارا ہمارے اکابرکی بیان کی ہوئ صورتو‍ں اور حیلوں سے کام لیں اور اسی کو اپنائیں یہی ہمارے لئے احتیاط بھی ہے اورہمارا مقصود وضروریات بھی پورا ہو نیکا معتدل اور بہترین طریقہ ہے
شریعت کی اس گنجائش کو اپنائیں تاکہ اصل حکم عدمِ جواز کا ذہن محفوظ کرے، اور اگر مفتی زرولی خان صاحب دامت برکاتہم کا موقف اپنائیں گے تو اصل حکم جواز کا ہوجائیگا اور عدمِ جواز کی کوئ صورت ہی نہیں ہوگی جبکہ کتاب وسنت اس موقف کی تائید نہیں کرتے، پہلے موقف (جمہور علماء کے )
میں عافیت ہے اور اور دوسرے میں حرج ہے نصوص معارض ہیں اور حضرت نے ولاتشتروا بآیاتی ثمنا قلیلا آیتِ قرآنی کی جو تشریح فرمائ ہے وہ آج تک کسی بھی معتبر مفسر نے نہیں کی ہے کہ اشتراء قلیل نہ ہو بلکہ کثیر ہو یعنی خوب زیادہ ہو کم نہ ہو؛ چھوٹا منہ بڑی بات؛ یہ یک گونہ تفسیر بالراے ہے اس لئے اعتدال ومیانہ روی کا دامن کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا چاہئے آپ اہلِ علم واہلِ فضل وکمال احباب سے مخلصانہ اور مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس سلسلے میں پہلے اکابرِ امت کے موقف کا خود سے اچھی طرح مطالعہ کریں اور صورتِ حال سمجھیں اور فتوی کا جو انداز آپ حضرات نے اپنایا ہے اور دوسرے تمام مفتیان کو؛ لکیر کے فقیر مفتی؛
کہا جارہا ہے اور اسی کلپ والے بیان کو بہت ہی اہم، منقح اور منصوص سمجھا جارہا ہے ذرا ہمارے نوجوان فضلاء یہ
؛ لکیر کے فقیر' اور کتاب دیکھ
؛ مسئلہ نقل کرنے والے؛ جیسے الفاظ لکھتے وقت ذہن میں رکھیں کہ یہ مسئلہ لکھنے والوں میں حکیم الامت حضرت تھانوی اور فقیہ النفس مفی مہدی حسن، محدث العصر علامہ کشمیری جیسے لوگ بھی ہیں ذرا سنبھل کر لکھئے کہیں آپکے اشہب قلم کا رخ اکابر کو یہ خطاب ولقب نہ دیدے اور آپ ایک شخصیت کے نظریات کی بنیاد پر بڑے بڑوں کو اس طرح کے القاب وآداب سے. نہ نوازیں یہ مضمون صرف اور صرف اپنے اکابر کے موقف کی وضاحت اور اس سلسلے میں ہونے والی بے اعتدالیوں کی وجہ سے لکھا گیا ہے ورنہ ہماری کوئ حیثیت نہیں ہے؛ گفتہ آیند در حدیث ِ دیگرا‍ں؛ ہے
اگر کوئ بات ان سطور میں قابلِ اصلاح ہو تو ضرور مطلع فرمائیں بڑی نوازش ہوگی۰
آپکا ادنی ترین: (خادم سید حسن ذیشان قاسمی فاضلِ دارالعلوم دیوبند)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس