اتوار، 21 مئی، 2017

نماز تراویح

                                                   نمازِ تراویح

                                           مولانامحمد نجیب صاحب قاسمی







مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی  نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعات پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری ج4 ص 317)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کی مکمل عبارت اور اس کا صحیح مفہوم: عَنْ اَبِی سَلْمة بن عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہ اَخْبَرَہ اَنَّہ سَألَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَیْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ مَا کَان رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ، وَلَا فِیْ غَیْرِہ، عَلَی اِحْدَی عَشَرَةَ رَکْعَةً، یُصَلِّیْ اَرْبَعاً، فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعاً، فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثاً․ قَالَتْ: یَارَسُولَ اللّٰہِ اَتَنَامُ قَبْلَ اَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ! اِنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ۔ (بخاری۔ کتاب التہجد)

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ  نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے چار رکعات ادا کرتے تھے اوران کی خوبی اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی خوب اور کتنی لمبی ہوا کرتی تھیں) پھر آپ چار رکعات اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔

یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے اور تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔

اس حدیث میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعات ادا کرتے تھے، پھر خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعات ادا کرتے تھے اور پھر تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور جواب کا اصل مقصد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے نہ کہ تعداد رکعت کو۔ بعض حضرات نے تہجد اور تراویح کی نماز کو ایک سمجھ کر حدیث میں وارد گیارہ میں سے آٹھ کے لفظ کو تراویح کے لیے لے لیا، لیکن گیارہ رکعات پڑھنے کی کیفیت اور تین رکعات وتر کو نظر انداز کردیا۔

اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزا پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے۔مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا، کیوں کہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے، پھر وتر پڑھتے تھے، حالاں کہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور چھوڑ نا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا، حالاں کہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ  کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً، ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَاء بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ․ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت)۔غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ  سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا، حالاں کہ تیرہ رکعات والی حدیث میں کان کالفظ استعمال کیا گیا ہے، جو عربی زبان میں ماضی استمراری کے لیے ہے یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نماز تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ  کی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے، لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس  کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے: ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعات ادا کی، پھر دو رکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر وتر پڑھے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غرضیکہ حضرت عائشہ  کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس  کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا تو نہ تو حضرت عائشہ  کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا، بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی، حالاں کہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے، کیوں کہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاری  تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری  تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری  تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہورومعروف شرح ”فتح الباری“ کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔

بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورہٴ المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا......) پڑھ لیں ۔ جب کہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے، جیساکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ (نسائی، ابن ماجہ) تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق  کے عہد میں جماعت کے ساتھ بیس رکعات کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ شروع ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے، جیساکہ محدثین وعلمائے کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کبھی کم کبھی زیادہ پڑھا کرتے تھے۔

ایک شبہ کا ازالہ

بعض حضرات نے (ابن خزیمہ وابن حبان) میں وارد حضرت جابر  کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح پڑھیں۔ حالاں کہ یہ روایت اس قدر ضعیف ومنکر ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ اس میں ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ ہے، جس کی بابت محدثین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں، جیساکہ 8 رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات نے دوسرے مسائل میں اس طرح کے راویوں کی روایات کو تسلیم کرنے سے منع کیا ہے۔ اس نوعیت کی متعدد احادیث ہمارے پاس بھی موجود ہیں، جس میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمنے بیس رکعات تروایح پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ماہِ رمضان میں بلاجماعت بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے۔ (بیہقی، ج1 ص 496، اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں، ابن عدی نے مسند میں اور علامہ بغوی نے مجمع صحابہ میں ذکر کیا ہے) (زجاجة المصابیح)… حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام رافعی کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم نے لوگوں کو بیس رکعات دو راتیں پڑھائیں پھر تیسری رات کو لوگ جمع ہوگئے، مگر آپ باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کو فرمایا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کو ادا نہ کرسکو،اس لیے باہر نہیں آیا۔

دوسرے شبہ کا ازالہ

بعض حضرات نے ایک روایت کی بنیا د پر تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے گیارہ رکعات تراویح کا حکم دیاتھا، حالاں کہ یہ حدیث تین طرح سے منقول ہے اور حدیث کی سند میں شدید ضعف بھی ہے… نیز حضرت عمر فاروق  کے زمانہ میں بیس رکعات تراویح پڑھی گئیں، یہ بات سورج کی روشنی کی طرح محدثین واکابرین امت نے تسلیم کی ہے، جیساکہ محدثین وعلمائے کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف ہٹ دھرمی ہے۔ امام ترمذی، امام غزالی ، علامہ نووی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ ابن قدامہ ، علامہ ابن تیمیہ  اور مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم پھوپالی  نے بھی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مفتی محمد حسین بٹالوی نے جب پہلی دفعہ 1284ھ میں باضابطہ طور پر فتوی جاری کیا کہ آٹھ رکعات تراویح سنت اور بیس رکعات بدعت ہے تو اس انوکھے فتوے کی ہر طرف سے مخالفت کی گئی۔ مشہور غیر مقلد بزرگ عالم مولانا غلام رسول صاحب نے خود اس فتویٰ کی سخت کلمات میں مذمت کی اور اس کو سینہ زوری قرار دیا۔ (رسالہ تراویح ص 28، 56)

تیسرے شبہ کا ازالہ
کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اقوال میں اگر کوئی تضاد ہو تو صحابہ کے اقوال کو چھوڑکر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قول کو لیا جائے گا۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اِس میں شک بھی کرے ، تو اُسے اپنے ایمان کی تجدید کرنی ہوگی۔ لیکن یہاں کوئی تضاد نہیں ہے کیوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں کہیں بھی تراویح کی کوئی تعداد مذکور نہیں ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں سے صحابہ کرام کو ہم سے زیادہ محبت تھی۔ اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے صحابہ کرام ہم سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔

خصوصی توجہ

سعودی عرب کے نام ور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی 1999) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعات پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعات تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے… ۔ اس کتاب میں 1400 سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم  لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قارئین سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ 8 سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ  کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟

خلاصہٴ کلام

تراویح فرض نہیں ہے، لیکن 20 رکعات پڑھنے میں احتیاط ہے کہ 8 رکعات 20 رکعات میں داخل ہیں اور رمضان کی راتوں میں عبادت کرنے کی خاص فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ نیز مذکورہ بالا احادیث، متفق علیہ محدثین اور معتبر علماء کے اقوال کی روشنی میں 20 رکعات تراویح کا موقف ہی زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس