منگل، 20 مارچ، 2018

شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن حجر عسقلانیؒ کے بعد اگر کوئی "شیخ الاسلام" لقب کا مستحق ہے تو وہ ہے عصرِ حاضر کے عظیم محقق، مفسر، محدث اور فقیہ "حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب"
 ان کو حدیث، تفسیر، فقہ اور اسلامی معیشت کے فروغ میں کافی اہمیت حاصل ہے..

نوٹ:- ہر صاحب کا میرے نقطہ نظر سے اتفاق ہونا لازمی نہیں.
==================================

*شیخ الاسلام حضرت جسٹس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ و رعاہ* کا مختصر تعارف اور انکی علمی ، دینی و ملی خدمات
___________________________________

یہ وہ شخصیت ہے :-
 جن کی تواضع کی سند محدث عصر علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ *"مسکین ابن مسکین"* فرما کر دیا کرتے تھے اور کبھی *"الشیخ الشاب"* فرما کر محبت کا اظہار کرتے تھے
جب معارف السنن کا سیٹ بطور انعام دیا تو اس کی پہلی جلد پر جلی حروف میں لکھا

 *"أقدم ھذا الکتاب باجزائه الستة إلى اخي في الله الأستاذ الزكي العالم الزكي الشاب التقى محمد تقي إعجابا بنبوغة فى كتابات مجلة الشهرية البلاغ خصوصاً في رده على كتاب خلافت و ملوكيت ردا بليغا ناجحاً حفظه ووفقه لامثال أمثاله وهو الموفق"*

جن کے بارے میں مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے تھے کہ
*" دیکھنا تقی ایک  دن مجھ سے بھی آگے نکل جائے گا"*

جنہیں شیخ عبد الفتاح ابوغدہ
*" تفاحۃ الہند و باكستان "*
کے لقب سے یاد کرتے تھے
اور ایک مرتبہ از راہِ محبت فرمایا
*" لوکنتَ تفاحۃ لاكلتُك "*

جنہیں الشیخ الدکتور یوسف القرضاوي نے
*" الشیخ القاضي المحدث الفقيه الاريب الأديب الكامل "*
 جیسے القابات سے نوازا ۔۔۔

شیخ یاسین الفادانی المکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام اسناد آپ کو دیکر آپ کے نام کتابی شکل میں شائع کی ہے جس کا نام
*" الفیض الرحمانی باجازۃ فضیلۃ الشيخ محمد تقی العثماني "*
ہے ۔۔
اس کتاب کے مقدمے میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے
*" حضرت الشیخ الأجل الابر الفائق في كل فن على أقرانه والسامي في أندية الخير على اخدانه محمد تقي العثماني "*

جن کو شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ
*" مجھے تو خود تمہیں خط لکھنے کو کھاج (خواہش) اٹھے "*

جن کو مفتی سیاح الدین کاکا خیل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
*" الولد سر لأبيه " کا مقولہ آپ کے حق میں بالکل صحیح ثابت ہوا*

مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کاروان زندگی میں لکھتے ہیں
*" مولانا تقی عثمانی صاحب کی راقم کے دل میں جو قدر و منزلت ہے اس سے اس کے احباب بخوبی واقف ہیں اور ان کو بھی غالباً اس کا احساس ہے"*

شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ
*" آپ ہمارے پاکستان کے علی میاں  ہیں "*

دار العلوم دیوبند میں آپ کے استقبالیہ جلسے میں منتظم نے کہا کہ *"مفتی صاحب پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ہیں"*

یہ ہیں
*شیخ الاسلام جسٹس حضرت الحاج مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ عنہ ورعاہ*

ایں سعادت بزور بازو نیست

غور کیا جائے تو بات ایسی ہی ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی ایک منفرد صفات کے حامل اِنسان ہیں،
جو دِینی علوم کے ساتھ ساتھ دُنیوی فنون پر بھی دسترس رکھتے ہیں،
جو تقریر کے ساتھ ساتھ تحریر میں بھی کمال درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں،
وہ لوگوں کے ظاہری اور دنیوی جھگڑوں کے فیصلے تو کرتے ہی رہے ہیں،
ساتھ ساتھ باطنی اور روحانی امراض کا علاج بھی کرتے ہیں،
وہ دِینی علوم کی تدریس بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی مہارت کے ساتھ جدید فنون کے لیکچر بھی دیتے ہیں،
غرض وہ عالم بھی ہیں،
مفتی بھی ہیں،
وہ مفسر بھی ہیں
اور محدث بھی ہیں ۔۔
وہ مقرر بھی ہیں اور محرر بھی ہیں،
وہ پیر بھی ہیں اور مدرس بھی ہیں،
وہ جسٹس بھی ہیں اور لیکچرار بھی ہیں،
کبھی وہ تفسیر قرآن لکھتے نظر آتے ہیں تو کبھی بخاری شریف پڑھاتے نظر آتے ہیں،
کبھی وہ اُمت کے مسائل جدیدہ حل کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی روحانی مریضوں کا علاج کرتے نظر آتے ہیں،
غرض ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ان کی خدماتِ جلیلہ کو کما حقہ بیان کریں۔ لیکن یہ بات تو اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مفتی محمد تقی عثمانی کی دنیائے عالم میں مقبولیت کی بڑی وجہ اُن کا دِینی علوم کے ساتھ دُنیوی فنون میں ماہر ہوکر مزید اس میں آگے سے آگے بڑھنا اور اپنی ان خدمات کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے ۔۔۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے ممبر اور کئی غیر سودی بینکوں کے معاملات کے نگران بھی ہیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی تحریک پاکستان کے عظیم رہنماء اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے برادرِ صغیر ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اُترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔

آپ نے اپنی اِبتدائی تعلیم دیوبند پھر
 مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں مولانا احتشام الحق تھانوی صاحبؒ کے قائم کردہ مدرسہ اشرفیہ میں حاصل کی
اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا اِمتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

آپ نے اپنے وقت کے تقریباً تمام جید علماء سے حدیث کی اِجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود اُن کے والد مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے علاوہ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اور مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ شامل ہیں۔

مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے ایک بڑے شیخ اور عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔
آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے میں ان کی شخصیت سے اتنے متأثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ پھر آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفیؒ نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ جب کہ کچھ عرصہ کے بعد مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کی طرف سے بھی تجدید اجازت ہوئی۔

مفتی محمد تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ جامعہ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ گزشتہ پندرہ سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درسِ بخاری دے رہے ہیں، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کا لقب عطا کیا ہے۔

شہید جنرل محمد ضیاء الحقؒ نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی بورڈ ’’اِسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کی بنیاد رکھی، مفتی محمد تقی عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے ہیں۔
آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ ’’اللہ کی حدود اور ان کی سزاؤوں‘‘ پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔
آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
مفتی محمد تقی عثمانی وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے تک پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ رہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔
آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔
آپ نے بحیثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔
2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ’’ربا‘‘ یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے، جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے، مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجددادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔

اس وقت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اورگنائزیشن کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبہ اس وقت عوامی سطح پر سامنے آیا جب آپ نے محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔

9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے ذریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اِسلامی ریاست پر امریکہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے ممالک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا اور حکومتی مؤقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹی وی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتویٰ دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا۔

آپ کی تصنیفات کے نام:-

آسان ترجمۂ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں،
علوم القرآن،
مقدمہ معارف القرآن،
تکملہ فتح الملہم،
انعام الباری شرح صحیح بخاری،
درسِ ترمذی،
تقریر ترمذی،
حجیت حدیث،
حضور ﷺ نے فرمایا،
آسان نیکیاں،
فتاویٰ عثمانی،
فقه البیوع،
عدالتی فیصلے،
فقہی مقالات،
احکامِ اعتکاف،
ضبط ولادت،
احکام الذبائح،
ہمارا معاشی نظام،
اسلام اور جدید معیشت و تجارت،
سود پر تاریخی فیصلہ،
غیر سودی بینکاری متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ،
 اسلام اور جدید معاشی مسائل،
اسلامی بینکاری کی بنیادیں،
موجودہ عالمی معاشی بحران اور اسلامی تعلیمات،
اسلامی بینکاری تاریخ و پس منظر،
ہمارا تعلیمی نظام،
اسلام اور سیاست حاضرہ،
اسلام اور جدت پسندی،
دینی مدارس کا نصاب و نظام،
ہمارے عائلی مسائل،
ملکیت زمین اور اس کی تجدید،
نفاذِ شریعت اور اس کے مسائل،
حکیم الامت کے سیاسی افکار،
اسلام اور سیاسی نظریات،
اصلاحی خطبات،
اصلاحی مواعظ،
اصلاحی مجالس،
نشری تقریریں،
اصلاح معاشرہ،
فرد کی اصلاح،
موجودہ پرآشوب دور میں علماء کی ذمہ داریاں،
ذکر و فکر،
ارشاداتِ اکابر،
مواعظ عثمانی،
حدود آرڈیننس ایک علمی جائزہ،
حقوق العباد و معاملات،
خاندانی اختلافات کے اسباب اور ان کا حل،
خاندانی حقوق و فرائض،
معاشرتی حقوق و فرائض،
اپنے گھروں کو بچائیے،
قتل اور خانہ جنگی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات،
اسلام اور ہماری زندگی،
اکابر دیوبند کیا تھے،
تقلید کی شرعی حیثیت،
پرنور دعائیں،
تراشے،
بائبل کیا ہے،
بائبل سے قرآن تک،
عیسائیت کیا ہے؟،
قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا مؤقف،
جہانِ دیدہ،
دنیا میرے آگے،
سفر درسفر،
حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق،
تبصرے،
نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں،
میرے والد میرے شیخؒ،
مأثر عارفیؒ، تذکرے،
نقوشِ رفتگان،
البلاغ مفتی اعظم نمبر،
البلاغ حضرت عارفیؒ نمبر
اور بھی کئی کتابیں ہیں ۔۔۔ جنکی فہرست فی الوقت میسر نہیں ہو سکی۔۔۔
بہر حال

*سوچا تھا تیری سادگی پہ لکھوں گا اک غزل*
*پر افسوس تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے*

جمعہ، 16 مارچ، 2018

واقعات اکابر دیوبند کے

::: حضرت نانوتویؒ بمقابلہ ناقد اسلام :::

(انتخاب از ''ذوقِ مطالعہ'' ۔ تالیف: مولانا محمد فیاض خان سواتی)

حضرت مولانا عبد القیوم حقانی مدظلہ العالی رقمطراز ہیں ۔

الامام الکبیرؒ (حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دار العلوم دیوبند) نے پادریوں اور پنڈتوں کے بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کی اور وہاں اپنی برجستگی ، علمیت اور تقریر کا سکہ بٹھا دیا ، مگر دیانند سرسوتی نے شعر پڑھ کر مسلمانوں کو ہراساں کیا اور للکارا کہ !

’’ماس ماس برابر جیسی گائے ویسی سور‘‘

(گوشت تو ایک جنس ہے لہٰذا جس طرح سؤر (خنزیر) کا گوشت حرام ہے تو گائے کا گوشت بھی حرام ہونا چاہئے)

تو الامام الکبیرؒ نے بھی برجستہ شعر پڑھ کر سرسوتی کو حیران کر دیا ، فرمایا !

’’عورت عورت برابر جیسی بیوی ویسی مادر‘‘

اگر یہی فلسفہ ہے تو گھر کی عورتوں میں ماں ، بہن ، بیوی کا فرق کیوں ہے؟ جب کہ سب برابر ہیں ، الامام الکبیرؒ نے تقریر کا جواب تقریر سے ، کتاب کا جواب کتاب سے ، شعر کا جواب شعر سے دے کر ، انجیل کا جواب قرآن سے دے کر اور ہر جگہ خود پہنچ کر پادریوں اور پنڈتوں کو گھر تک پہنچا دیا اور وہ جہاں جہاں سے بھاگ گئے وہاں کئی کئی دن رک کر اسلام کی حقانیت ، انجیل کی تحریف اور تثلیث کی تردید فرمائی اور مسلمانوں کو مطمئن کر کے واپس آئے۔‘‘

(الامام محمد قاسم نانوتویؒ ، حیات ،افکار ، خدمات ص ۸)
(تذکرہ و سوانح الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ص ۸۰ طبع نوشہرہ)

علماء دیوبند میں حضرت علامہ سیّد محمد انور شاہ کاشمیریؒ  میدان حدیث میں بڑے ممتاز تھے اور سچے عاشقِ رسول تھے۔ حضرت علامہ سیّد محمد انور شاہ کاشمیریؒ اپنے حلقہ علمی میں بیٹھ کر فرمایا کرتے تھے:

           ’’میں یہ بات علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ حدیث کی خدمت بھی اللہ کا دین ہے۔ قرآن کی خدمت بھی بہت اہم خدمت ہے۔ تفسیر کی خدمت بھی بہت بڑی سعادت ہے۔ فقہ کی خدمت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ تبلیغ کرنا بھی بہت اچھا کام ہے لیکن تحفظ ختم نبوت، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا تحفظ ہے۔ باقی چیزیں اقوال کا تحفظ ہیں، اعمال کا تحفظ ہیں، افعال کا تحفظ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا تحفظ ہیں۔ لیکن ذات کا تحفظ ان سب سے اولی اور افضل ہے۔ جس شخص نے بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک گھنٹہ بھی کام کر لیا، اسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ضرور نصیب ہوگی‘‘۔

(بروایت مولانا محمد مکی حجازی (مدرس حرم مکی) ’’بیت اللہ کے سائے میں‘‘ ہفت روزہ ضرب مومن 2 تا 8 نومبر 2007ء)




منگل، 13 مارچ، 2018

عارف بالله مجددزمانہ حضرت مولاناشاہ حکیم محمد اخترصاحب نورالله مرقدہ

عارف باللہ حضرت مولاناشاہ حکیم محمد اختر صاحب کامختصر تعارف

  1. [size=xx-large]السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    وطن اصلی اور موجودہ:
    شیخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت مولاناشاہ حکیم محمد اخترصاحب دامت برکاتہم کا وطن اصلی پڑتاب گڑھ انڈیاہے ۔
    بعد ازاں پاکستان ناظم آباد ۔
    پھر گلش اقبال نمبر 2 کراچی میں اور تاحال گلشن ہی میں جلوہ افروز ہیں۔
    حضرت والاکی اس وقت عمر 90 برس ہے ، حضرت نے ابتدائی تعلیم طبیہ کالیج علی گڑھ میں حاصل کی اور وہاں سے ڈگری حاصل کی ۔
    تین اکابراولیاء کے خلیفہ:
    1۔۔ دوران سب سے پہلے مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ حضرت مولانا سیّد بدر علی شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اٹھائی، تین سال ان کی صحبت اور فیضان سے خوب مالامال ہوئے اور حضرت نے خلافت بھی عطافرمائی۔
    2۔۔ اس کے بعد پھر 17 برس حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کے ایک اور عظیم خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے اور سرائے میر میں ان کے مدرسہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ یاد رہے کہ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند میں سولہ اسباق بھی پڑھاتے تھےاور تقوی میں در یکتاتھے ، اور 12 مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کا شرف بھی نصیب ہوا۔
    3۔۔ حضرت پھولپوری کی وفات کے بعد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک اور خلیفہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیض صحبت سے کمال حاصل کیا۔
    یاد رہے کہ حضرت والادامت برکاتہم ان تینوں بزرگوں کے خلیفہ بھی ہیں جس کی وجہ سے حضرت کو تین دریائی کہا جاتاہے۔
    حضرت والا اس وقت خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال کراچی میں قیام پذیر ہیں۔
    حضرت والا کا دینی ادارہ::
    حضرت والا دامت برکاتہم کا ایک بہت بڑا دینی ادارہ جامعہ اشرف المدارس کے نام سے سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر میں واقع ہے جس میں 5000 ہزار قریبا طلبہ زیر تعلیم ہیں
    نیز صرف کراچی میں مدرسے کی 10 سے زیادہ شاخیں ہیں۔
    دنیاکے بیشتر ممالک کے اسفار:
    حضرت والا کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا درد دل دیاہے، اسی درد دل کو پھیلانے اور لوگوں کے دلوں میں اللہ کے عشق، محبت اور معرفت کی آگ لگانے کے لیے دنیابھر کے اکثر ممالک کاسفرکیااور وہاں الہامی بیانات فرمائے۔
    سلسلہ تصوف:
    حضرت والاکا سلسلہ تصوف و اصلاح نفس وہی ہے جو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے یعنی سلسلہ چشتیہ، قادریہ،نقشبندیہ، سہروردیہ۔ جنھیں سلاسل اربعہ کہاجاتاہے۔
    مواعظِ حسنہ(کتابیں):
    حضرت والا کی اپنی تصنیفات اور مواعظ سے حاصل شدہ چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد150 تک ہے ۔اور اس سے کئی گنا زیادہ کتابیں چھپائی کے مراحل میں اور کمپیوٹرو کیسٹس میں ہیں جو آہستہ آہستہ سلسلوار شائع ہوتی رہتی ہیں۔
    دیگرزبانوں میں کتابیں:
    حضرت والا دامت برکاتہم کی کتابیں دنیاکی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر چھپ کرتمام کتابیں فری میں شائع ہوتی رہتی ہیں، جن میں اردو، سندھی عربی، پشتو،بنگلا، برما، جرمن، فرنچ،انگریزی،رشین وغیرہ شامل ہیں۔
    حضرت والا کا خاص مضمون:
    ویسے تو ہرموضوع پر بات فرماتے رہتے ہیں لیکن حضرت والا دامت برکاتہم آج کے دور میں سب سے زیادہ پھیلنے والی برائی و گناہ کبیرہ بدنظری،حسن پرستی عشق مجازی، امرد پرستی، اغلام بازی کی قباحت پر بیانات فرماتے رہتے ہیں، حضرت کاجوبھی وعظ،کتاب،اوربیان ہوگا اس میں لازما بدنظری ، امارداور حسن و عشق مجازی کے مضامین ہوں گے۔
    اور یہ بدنظری اور حسین لڑکوں کاگناہ ایسا قبیح ہے جو ٹی وی فلم، نیٹ، کیبل، اور بازاروں و سڑکوں پر گھومنے والی عورتوں کودیکھنے سے ہوتاہے۔ اس گناہ کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت قباحت آئی ہے۔
    انٹرنیٹ کے ذریعے دین کی اشاعت:
    حضرت کی مرکزی ویب سائیٹ یہ ہے:خانقاہ ڈاٹ او آرجی اس کے علاوہ حضرت کے ایک نہایت پیارے خلیفہ اور زبردست دردمندانہ، والہانہ اور الہامی بیانات کرنے والے اور حضرت والا کی سچی تصویرحضرت اقدس شاہ فیروزعبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم کے زیر نگرانی یہ ویب سائیٹ ہے:ٹرو تصوف ڈاٹ او آرجیدونوں ویب سائیٹس میں حضرت والا کی اردو ودیگر کتابیں بے شمار آڈیوبیانات،حضرت کے عارفانہ اشعار اور اہم و منتخب بیانات موجود ہیں۔
    نوٹ:
  2. احمدقاسمی

    احمدقاسمیمنتظم اعلی۔ أیدہ اللہمنتظم اعلی

    شکریہ مولانا مجیب الرحمن صاحب ۔بڑا اچھا سلسلہ شروع کیا ہے ۔اللہ قبولیت کے شرف سے نوازے۔یہ واضح کردوں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ یہاں بھی کافی مقبول ہیں آپ کے مواعظ اور کتب اکابر اولیاء اللہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ہمارے حضرت شاہ محب الامت اہل اللہ دامت برکاتہم خلیفہ ومجاز مولانا مصلح الامت جلال آبادی رحمۃ اللہ حکیم صاحب مد ظلہ العالی کی کتب سے بھر پور استفادہ فرماتے ہوئے اپنے خلفا ء کو مطالعہ کی تر غیب فر ماتے ہیں ۔اپنے اساتذہ اور حضرت شاہ مولانا عبد الحلیم صاحب جو نپوری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ ومجاز شاہ وصی اللہ رحمۃ اللہ علیہ الٰہ آبادی مدرسہ ریاض العلوم جونپور انڈیا۔ زمانہ طالبعلمی میں درس مثنوی شریف ذوق وشوق سے پڑھتے اور بیان کرتے سنا بھی دیکھا بھی ۔غرض علماء دیوبند (الھند) حضرت حکیم صاحب کی ذات عالیہ سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔والسلام

جمعہ، 9 مارچ، 2018

شادی کیلئے بہترین وظیفہ

جن کی شادی نہیں ہوئ یاہونہیں رہی یارکاوٹیں ہیں انکے لئے قیمتی اور نایاب تحفہ


*یہ عمل گیارہوں روزے کو بارہویں شب میں تراویح یاتہجد کے بعد کرناہے افضل یہ ہیکہ تراویح کےبعد کرکےسوجائیں*

❶ *درودابراہیمی101دفعہ پڑھیں*
❷ *پھر12رکعات نفل اس طرح پڑھیں کہ دو دو رکعت کرکےپڑھیں اور ہررکعت میں سورةفاتحہ کے بعد 12دفعہ سورةالفیل پڑھیں*

❸ *پھر101دفعہ درود ابراہیمی پڑھیں*

*پھر اسکاثواب آپﷺ کو پنہچادیاجائے پھر پانچ منٹ بعد پورے یقین سے دعاء کی جائےشادی کیلئے جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں مگر خیروعافیت ضرور مانگیں*

*طریقہ دعاء*
زت تجارت اولاد ونسل علم وعمل طاقت وقوت ووقت حوصلے ارادے نیت میں برکت کےساتھ خیروعافیت سہولت آسانی والی
*اگر اس طرح کی جائے تومناسب ہے یاالله میری شادی کروادیجئے خیروعافیت کےساتھ سہولت کےساتھ جلدازجلد اپنی اور اپنے حبیب کی رضاء کےساتھ والدین کی رضا کےساتھ خوشی کےساتھ جان مال ع عزت والی برکت والی حلال پاک طیب روزی کے ساتھ دونوں میں پیارومحبت الفت واتفاق کےساتھ دونوں کی خوشی ساتھ رضاء کےساتھ*

*ان شاءاللّٰه*  شادی ہوجائےگی,

*یہ عمل خواتین کریں وہ نہ کرسکیں تو انکی والدہ کریں اگر وہ بھی نہ کرسکیں تو بہن کریں وہ بھی نہ کرسکیں تو والد وہ بھی نہ کرسکیں تو بھائ کریں*

*عطافرمودہ: مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب مدظله العالی*

*نوٹ* نہ کرسکیں سے شرعی مجبوری مراد ہے

*ابــو مــحــمــداحـقـرامـــــدادالـــلّٰـــه عـــفــی عـــنـــه*

نظر بد کابہترین علاج

نظر کابہترین علاج


11مرتبہ درود شریف
7مرتبہ سورةفاتحہ
21مرتبہ سورة قلم کی آخری دوآیتیں

سورہ القلم
51​وَ اِنۡ یَّکَادُ  الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ  لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ  اِنَّہٗ  لَمَجۡنُوۡنٌ

​وَ مَا ہُوَ  اِلَّا ذِکۡرٌ  لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۵۲﴾​

7مرتبہ سورةفاتحة
11مرتبہ درودشریف

بشکریہ خواتین کااسلام شمارہ782, 18جمادی الثانی 1439ھ بمطابق 7مارچ 2018

از: ریحانہ تبسم فاضلی

جمعرات، 1 مارچ، 2018

حزب البحر


حزب البحر

شیخ ابوالحسن شاذلی کو الہام شدہ عمل اور اسکی برکات,
حزب البحرپڑھنےسے پہلے اسکا طریقہ اچھی طرح سمجھ لیں,
پڑھنے سے پہلے ان نمبرز کو دیکھیں,
3,4,5,6,7,9
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
 ۱… یَا عَلِیُ یَا عَظِیْمُ یَا حَلِیْمُ یَا عَلِیْمُ اَنْتَ رَبِّیْ وَعِلْمُکَ حَسْبِیْ فَنِعْمَ الرَّبُّ رَبِّیْ وَنِعْمَ الْحَسْبُ حَسْبِیْ تَنْصُرُ مَنْ تَشَآءُ وَاَنْتَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ
۲…نَسْاَلُکَ الْعِصْمَةَ فِی الْحَرَکَاتِ وَالسَّکَنَاتِ وَالْکَلِمَاتِ وَ ا لْاِ رَادَاتِ وَالْخَطَرَاتِ مِنَ الظُّنُوْنِ وَالشُّکُوْکِ وَالْاَوٴھَامِ السَّاتِرَةِ لِلْقُلُوْبِ عَنْ مُّطَالَعَةِ الْغُیُوْبِ-
۳… فَقَدِ ابْتُلِیَ الْمُوٴمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْ زِلْزَالًا(( شَدِیْدًا),(یہ حصہ یعنی شدیدا پڑھتے وقت داہنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کریں)
وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ مَاوَعَدَ نَا اللّٰهُ وَرَسُوْلَهٗ اِلَّاَ غُرُوْرَاo
۴… فَثَبِّتْنَآ وَانْصُرْنَا(یہاں یعنی انصرنا پر اپنے مقصد کاتصور کریں)
وَسَخِّرْلَنَا ھٰذَا الْبَحَرَ کَمَا سَخَّرْتَ الْبَحَرَ لِمُوْسیٰ عَلِیْہِ السَّلَامْ وَسَخَّرْتَ النَّارَ لِاِ بْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامْ وَسَخَّرَتَ الْجِبَالَ وَالْحَدِیْدَ لِدَاوٗدَ عَلِیْهِ السَّلَامُ وَسَخَّرْتَ الرِّیْحَ وَالشَّیَاطِیْنَ وَالْجِنَ لِسُلِیْمَانَ عَلِیْہِ السَّلَامْ وَسَخِّرْلَنَا کُلَّ بَحْرٍ ھُوَلَکَ فِی الْاَرْضِ وَالسَّمَآءِ وَالْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ وَبَحْرَ الدُّ نْیَاوبَحْرَ الْاٰ خِرَةِ وَسَخِّرْلَنَا کُلَّ شَیْءٍ یَا مَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ,
(۵)….کَہٰیٰٓعَصَ کَہٰیٰٓعَصَ کَہٰیٰٓعَصَ(ہرحرف پرایک انگلی بند کریں اس طرح پہلے کاف پر چھنگلی پھراسکے قریب والی پھر اسکے بعد اس طرح پہلے پر دوسرے پر کھولیں تیسرے پرپھر بند کریں)
اُنْصُرْنَا(یہاں چھوٹی انگلی کھولیں) فَاِنَّکَ خَیْرُالنَّاصِرِیْنَO
وَافْتَحْ (اسکے بعد والی)
لَنَافَاِنَّکَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَO
وَاغْفِرْلَنَا(اسکےبعدوالی)
فَاِنَّکَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَO
وَارْحَمْنَا(اسکے بعد والی)
فَاِنَّکَ خَیْرُالرَّٰحِمِیْنَO
وَرْزُقْنَا(انگوٹھاکھولیں)
فَاِنَّکَ خَیْرُالرَّازِقِیْنَO وَاحْفِظْنَافَاِنَّکَ َخیْرُالْحَافِظِیْنَO وَاھْدِنَا وَنَجِّنَا مِنِ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَO
۶… اَللّٰلہُمَّ یَسِّرْلَنَآ اُمُوْرَنَا(یہاں اپنےمقصد کادل میں خیال کریں)
مَعَ الرَّاحَةِ لِقُلُوْبِنَا وَاَبْدَ انِنَا وَالسَّلَامَةِ وَالْعَافِیَةِ فِیْ دِ یْنِنَا وَدُنْیَانَا وَاطْمِسْ عَلٰی وُجُوْہِ(اس جگہ یعنی وجوہ پڑھتے وقت دشمنوں کاتصور کرکے مٹھی بند کرکے نیچے اشارہ کرکے کھول دے)
اَعْدَ ٓائِنَا وَامْسَخْہُمْ عَلٰی مَکَا نَتِھِمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ الْمُضِیْء وَلَا الْمَجِیْئَ اِلیْنَا وَلَوْنَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلٰی اَعْیُنِہِمْ فَاسْتَبَقُوْا الصِّرَاطَ فَاَنٰی یُبْصِرُوْنَo وَلُوْنَشَآءُ لَمَسَخْنٰھُمْْ عَلٰی مَکَانَتِہِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مَضِیًّا وًّ لَا یَرْجِعُوْنَo
۷)یٰسٓ وَالْقُرَاٰنِ الْحَکِیْمo اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَo عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ o لِتُنْذِرَقَوْمًا مَّا اُنْذِ رَاٰبَآ وٴُھُمْ فَہُمْ غَافِلُوْنَo لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓیاَکْثَرِھِمْ فَہُمْ َلایُوُٴمِنُوْنَo اِنَّا جَعَلْنَا فِیٓ ْ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلاً فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَo وَجَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِ یْہِمْ سُدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سُدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لَایُبْصِرُوْنَo
شَاہَتِ الْوُجُوْہُ  شَاہَتِ الْوُجُوْہُ  شَاہَتِ الْوُجُوْہُ (یہاں اپنے دشمن کاتصور کریں کہ وہ برباد ہوجائیں)
ُ وَعَنَتِ الْوْجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ  وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمَاًo
۸)…طٰسٓ طٰسٓمٓ حٰمٓعٓسٓقٓ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَایَبْغَیِانِ۔
۹…حٰمٓ حٰمٓ حٰمٓ حٰمٓ حٰمٓ حٰمٓ حٰمٓ
(اس میں پہلی دفعہ پڑھ کر سیدھی طرف دوسری دفعہ الٹی طرف پھر سامنے کی طرف پھرپیچھے کی طرف پھراوپر پھرنیچے پھونک ماریں اور ساتویں دفعہ میں دونوں ہاتھوں میں پھونک مار کر پورے جسم پرپھیر لیں)
حُمَّ الْاَمْرُوَجَاءَ النَّصْرُ فَعَلَیْنَا لَایُنْصَرُوْنَ․
۱۰)…حٰمٓ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ oغَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ  لَآ اِلٰہ َ اِلَّا ھُوَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ․
﴿۱۱﴾…بِسْمِ اللّٰہِ بَابُنَا تَبَارَکَ حِیْطَانُنَا یٰسٓ سَقْفُنَا کٓہٰیٓعٓصٓ کِفَایَتُنَا حٰمٓعٓسٓقٓ حِمَایَتُنَا․
﴿۱۲﴾…فَسَیَکْفِیْکَہُمْ اللّٰهُ  وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
﴿۱۳﴾… سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
سِتْرُالْعَرْشِ مَسْبُوْلٌ عَلَیْنَا وَعَیْنُ اللّٰهِ نَاظِرَةٌ اِلَیْنَا بِحَوْلِ اللّٰهِ لَایَقْدِرُ عَلَیْنَا.
وَاللّٰهُ مِنْ وَّرَآئِہِمْ مُحِیْطٌo بَلْ ھُوَ قُرْآنٌ مَجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظ․
﴿۱۴﴾…فَاللّٰهُ خَیْرٌ حَافِظاً وَّھُوَاَرْحَمُ الرَّ احِمِیْنَ
فَاللّٰهُ خَیْرٌ حَافِظاً وَّھُوَاَرْحَمُ الرَّ احِمِیْنَ
فَاللّٰهُ خَیْرٌ حَافِظاً وَّھُوَاَرْحَمُ الرَّ احِمِیْنَ
(۱۵)…اِنَّ وَ لِیِیَّ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰابَ وَ ھُوَیَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَo
اِنَّ وَ لِیِیَّ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰابَ وَ ھُوَیَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَo
اِنَّ وَ لِیِیَّ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰابَ وَ ھُوَیَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَo
۱۶…حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ․
﴿۱۷﴾…بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَایَضُرُّمَعَ اسْمِہ شَیْیٌٴ فِی لْاَ رْضِ وَلَا فِیْ السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ․
بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَایَضُرُّمَعَ اسْمِہ شَیْیٌٴ فِی لْاَ رْضِ وَلَا فِیْ السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ․
بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَایَضُرُّمَعَ اسْمِہ شَیْیٌٴ فِی لْاَ رْضِ وَلَا فِیْ السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ․
﴿۱۸﴾… وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلَیِّ الْعَظِیْمُ
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلَیِّ الْعَظِیْمُ
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلَیِّ الْعَظِیْمُ
وَصَلَّی اللّٰهُ عَلٰی خَیْرِخَلْقِهٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهٖ وَاَصْحَابِهٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
بعد نماز مغرب پڑھنا بہتر ہے باقی وقتوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں,

دفع سحر کیلئے قرآنی نسخہ



!!!! دفع سحر کے لئے ایک قرآنی نسخہ!!!! 

تحریر:حضرت مولانا   احمد سعید پالنپوری استاد جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی محلہ خانقاہ دیوبند 

پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھیں، پہر سورۂ یاسین پڑھنی شروع کریں، پڑھتے رہیں پڑھتے رہیں، پڑھتے پڑھتے آیت نمبر 12 پر آئیں گے آپ ، اس آیت کو اس طرح پڑھنا ہے '' و کلَّ شیٍٔ احصیناہ فی امامٍ مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین'' یہ گیارہ مرتبہ مبین پڑھا ہے آپ نے، صرف گیارہ مرتبہ پڑھنا ہے، ایک مرتبہ آیت پڑھتے ہوئے آپ پڑھیں گے مبین، اسکے بعد صرفمبین، پوری آیت نہیں مزید دس مرتبہ پڑھیں۔ 
اب دوبارہ بسم اللہ الرحمان الرحیمپڑھیں، اعوذ باللہ نہیں، اور سورۂ یاسین پھر شروع سے پڑھنا شروع کردیجئے، پڑھتے رہیں پڑھتے رہیں، پڑھتے پڑھتے پہنچے گے آپ آیت نمبر 17 پر، اسکو بھی مذکورہ بالا طریقے سے پڑھیں یعنی اس طرح '' و ما علینا الا البلاغُ المبین ، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین، مبین ''یہ گیارہ مرتبہ ہوگیا، پھر بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھ کر سورۂ یاسین شروع سے پڑھیں، 

اب ہر مبین پر اسی طرح کرنا ہے،کہمبین کو گیارہ مرتبہ پڑھنا ہے، اور پہر سورۂ یاسین شروع سے پڑھنی شروع کردینی ہے۔ 
سورۂ یاسین میں سات مبین ہیں، جن آیات میں وہ آئے ہیں، انکا نمبر شمار لکھ دیتا ہوں، 
آیت نمبر 12      آیت نمبر 17      آیت نمبر 24      آیت نمبر 47     آیت نمبر 60      آیت نمبر 69      آیت نمبر 77

جب آخری مبین پر آئیں آپ، جو آیت نمبر 77 میں ہے، تو اسکو بھی گیارہ مرتبہ پڑھنا ہے، مگر یاد رکھیں آخری مبین گیارہ مرتبہ پڑھنے کے بعد سورۂ یاسین دوبارہ شروع سے نہیں پڑھنی ہے، بلکہ آگے پڑھتے ہوئے سورت کو مکمل کردینا ہے، اس میں لوگ غلطی کرتے ہیں، آیت نمبر 77 کے مبین کو گیارہ مرتبہ پڑھنے کے بعد پھر سورۂ یاسین شروع سے پڑھنا شروع کردیتے ہیں، یہ بالکل نہ کریں، بلکہ اس مبین کو گیارہ مرتبہ پڑھ کر پیچھے نہیں لوٹنا، آگے بڑھ کر سورت کو مکمل کرلینا ہے۔ 
اب پانی پر اس طریقے سے دم کریں کہ تھوک کے کچھ ذرے پانی میں جائیں، پہو پہو نہیں کرنا ہے، اب اس پانی کو استعمال کریں، پینے میں، چائے بنانے میں، سالن کا شوربا بنانے میں، جہاں بھی پانی استعمال کرنا ہے پینے میں، یھی پانی استعمال کرنا ہے، اگر پانی کم ہوجائے تو دوسرا پانی بوتل میں ملالیں۔ 
یہ عمل روزانہ بعد نماز فجر کرنا ہے، اور سحر کے اثرات ختم ہونے تک مسلسل کرتے رہنا ہے، ہمت سے کام لیں، صرف آٹھ دس منٹ لگتے ہیں اس عمل میں، مریض خود اس عمل کو کرے ، عذر سماوی ہو تو وہ خود نہ کرے، گھر کا کوئی اور فرد انکو یہ عمل کرکے پانی دیدے۔


نوٹ : احباب  ۔ ۔ آپ کی سہولت کے لئے   نیچے دیکھیں 

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم            بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ 
يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ ﴿۱۲﴾ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ             يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۱۲﴾  وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿۱۳﴾  اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾  قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿۱۵﴾  قَالُوۡا رَبُّنَا يَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۶﴾  وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿۱۷ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ             يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۱۲﴾  وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿۱۳﴾  اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾  قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿۱۵﴾  قَالُوۡا رَبُّنَا يَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۶﴾  وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿۱۷﴾  قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿۱۸﴾  قَالُوۡا طٰۤٮِٕـرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ ﴿۱۹﴾  وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۲۰﴾  اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا يَسۡـــَٔلُكُمۡ اَجۡرًا وَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۱﴾  وَمَا لِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾  ءَاَ تَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنۡ يُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّىۡ شَفَاعَتُهُمۡ شَيۡـــًٔا وَّلَا يُنۡقِذُوۡنِ‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾  اِنِّىۡۤ اِذًا لَّفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۲۴ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ             يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۱۲﴾  وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿۱۳﴾  اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾  قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿۱۵﴾  قَالُوۡا رَبُّنَا يَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۶﴾  وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿۱۷﴾  قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿۱۸﴾  قَالُوۡا طٰۤٮِٕـرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ ﴿۱۹﴾  وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۲۰﴾  اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا يَسۡـــَٔلُكُمۡ اَجۡرًا وَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۱﴾  وَمَا لِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾  ءَاَ تَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنۡ يُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّىۡ شَفَاعَتُهُمۡ شَيۡـــًٔا وَّلَا يُنۡقِذُوۡنِ‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾  اِنِّىۡۤ اِذًا لَّفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۲۴﴾  اِنِّىۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّكُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِؕ‏ ﴿۲۵﴾  قِيۡلَ ادۡخُلِ الۡجَـنَّةَ  ؕ قَالَ يٰلَيۡتَ قَوۡمِىۡ يَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿۲۶﴾  بِمَا غَفَرَلِىۡ رَبِّىۡ وَجَعَلَنِىۡ مِنَ الۡمُكۡرَمِيۡنَ‏ ﴿۲۷﴾  وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى قَوۡمِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا كُـنَّا مُنۡزِلِيۡنَ‏ ﴿۲۸﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ خٰمِدُوۡنَ‏ ﴿۲۹﴾  يٰحَسۡرَةً عَلَى الۡعِبَادِ ؔ‌ۚ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿۳۰﴾  اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَؕ‏ ﴿۳۱﴾  وَاِنۡ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۳۲﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ   ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿۳۳﴾  وَجَعَلۡنَا فِيۡهَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ وَّفَجَّرۡنَا فِيۡهَا مِنَ الۡعُيُوۡنِۙ‏ ﴿۳۴﴾  لِيَاۡكُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖ ۙ وَمَا عَمِلَـتۡهُ اَيۡدِيۡهِمۡ‌ ؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۳۵﴾  سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَمِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۳۶﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيۡلُ  ۖۚ نَسۡلَخُ مِنۡهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَۙ‏ ﴿۳۷﴾  وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا  ‌ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِؕ‏ ﴿۳۸﴾  وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِيۡمِ‏ ﴿۳۹﴾  لَا الشَّمۡسُ يَنۡۢبَغِىۡ لَهَاۤ اَنۡ تُدۡرِكَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّيۡلُ سَابِقُ النَّهَارِ‌ؕ وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿۴۰﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَهُمۡ فِى الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِۙ‏ ﴿۴۱﴾  وَخَلَقۡنَا لَهُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ مَا يَرۡكَبُوۡنَ‏ ﴿۴۲﴾  وَاِنۡ نَّشَاۡ نُغۡرِقۡهُمۡ فَلَا صَرِيۡخَ لَهُمۡ وَلَا هُمۡ يُنۡقَذُوۡنَۙ‏ ﴿۴۳﴾  اِلَّا رَحۡمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿۴۴﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّقُوۡا مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡكُمۡ وَمَا خَلۡفَكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ‏ ﴿۴۵﴾  وَمَا تَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ اٰيَةٍ مِّنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِمۡ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهَا مُعۡرِضِيۡنَ‏ ﴿۴۶﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ  اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۴۷ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ             يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۱۲﴾  وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿۱۳﴾  اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾  قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿۱۵﴾  قَالُوۡا رَبُّنَا يَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۶﴾  وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿۱۷﴾  قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿۱۸﴾  قَالُوۡا طٰۤٮِٕـرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ ﴿۱۹﴾  وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۲۰﴾  اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا يَسۡـــَٔلُكُمۡ اَجۡرًا وَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۱﴾  وَمَا لِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾  ءَاَ تَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنۡ يُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّىۡ شَفَاعَتُهُمۡ شَيۡـــًٔا وَّلَا يُنۡقِذُوۡنِ‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾  اِنِّىۡۤ اِذًا لَّفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۲۴﴾  اِنِّىۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّكُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِؕ‏ ﴿۲۵﴾  قِيۡلَ ادۡخُلِ الۡجَـنَّةَ  ؕ قَالَ يٰلَيۡتَ قَوۡمِىۡ يَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿۲۶﴾  بِمَا غَفَرَلِىۡ رَبِّىۡ وَجَعَلَنِىۡ مِنَ الۡمُكۡرَمِيۡنَ‏ ﴿۲۷﴾  وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى قَوۡمِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا كُـنَّا مُنۡزِلِيۡنَ‏ ﴿۲۸﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ خٰمِدُوۡنَ‏ ﴿۲۹﴾  يٰحَسۡرَةً عَلَى الۡعِبَادِ ؔ‌ۚ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿۳۰﴾  اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَؕ‏ ﴿۳۱﴾  وَاِنۡ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۳۲﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ   ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿۳۳﴾  وَجَعَلۡنَا فِيۡهَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ وَّفَجَّرۡنَا فِيۡهَا مِنَ الۡعُيُوۡنِۙ‏ ﴿۳۴﴾  لِيَاۡكُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖ ۙ وَمَا عَمِلَـتۡهُ اَيۡدِيۡهِمۡ‌ ؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۳۵﴾  سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَمِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۳۶﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيۡلُ  ۖۚ نَسۡلَخُ مِنۡهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَۙ‏ ﴿۳۷﴾  وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا  ‌ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِؕ‏ ﴿۳۸﴾  وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِيۡمِ‏ ﴿۳۹﴾  لَا الشَّمۡسُ يَنۡۢبَغِىۡ لَهَاۤ اَنۡ تُدۡرِكَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّيۡلُ سَابِقُ النَّهَارِ‌ؕ وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿۴۰﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَهُمۡ فِى الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِۙ‏ ﴿۴۱﴾  وَخَلَقۡنَا لَهُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ مَا يَرۡكَبُوۡنَ‏ ﴿۴۲﴾  وَاِنۡ نَّشَاۡ نُغۡرِقۡهُمۡ فَلَا صَرِيۡخَ لَهُمۡ وَلَا هُمۡ يُنۡقَذُوۡنَۙ‏ ﴿۴۳﴾  اِلَّا رَحۡمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿۴۴﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّقُوۡا مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡكُمۡ وَمَا خَلۡفَكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ‏ ﴿۴۵﴾  وَمَا تَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ اٰيَةٍ مِّنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِمۡ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهَا مُعۡرِضِيۡنَ‏ ﴿۴۶﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ  اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۴۷﴾  وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿۴۸﴾  مَا يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً تَاۡخُذُهُمۡ وَهُمۡ يَخِصِّمُوۡنَ‏ ﴿۴۹﴾  فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ تَوۡصِيَةً وَّلَاۤ اِلٰٓى اَهۡلِهِمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿۵۰﴾  وَنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَاِذَا هُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمۡ يَنۡسِلُوۡنَ‏ ﴿۵۱﴾  قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَاۘؔ؄هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَصَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۵۲﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۵۳﴾  فَالۡيَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَيۡـــًٔا وَّلَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿۵۴﴾  اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ الۡيَوۡمَ فِىۡ شُغُلٍ فٰكِهُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿۵۵﴾  هُمۡ وَاَزۡوَاجُهُمۡ فِىۡ ظِلٰلٍ عَلَى الۡاَرَآٮِٕكِ مُتَّكِـــُٔوۡنَ‏ ﴿۵۶﴾  لَهُمۡ فِيۡهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمۡ مَّا يَدَّعُوۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ ﴿۵۷﴾  سَلٰمٌ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِيۡمٍ‏ ﴿۵۸﴾  وَامۡتَازُوا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿۵۹﴾  اَلَمۡ اَعۡهَدۡ اِلَيۡكُمۡ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّيۡطٰنَ‌‌ۚ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۙ‏ ﴿۶۰ مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ             يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۱۲﴾  وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿۱۳﴾  اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾  قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿۱۵﴾  قَالُوۡا رَبُّنَا يَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۶﴾  وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿۱۷﴾  قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿۱۸﴾  قَالُوۡا طٰۤٮِٕـرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ ﴿۱۹﴾  وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۲۰﴾  اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا يَسۡـــَٔلُكُمۡ اَجۡرًا وَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۱﴾  وَمَا لِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾  ءَاَ تَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنۡ يُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّىۡ شَفَاعَتُهُمۡ شَيۡـــًٔا وَّلَا يُنۡقِذُوۡنِ‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾  اِنِّىۡۤ اِذًا لَّفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۲۴﴾  اِنِّىۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّكُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِؕ‏ ﴿۲۵﴾  قِيۡلَ ادۡخُلِ الۡجَـنَّةَ  ؕ قَالَ يٰلَيۡتَ قَوۡمِىۡ يَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿۲۶﴾  بِمَا غَفَرَلِىۡ رَبِّىۡ وَجَعَلَنِىۡ مِنَ الۡمُكۡرَمِيۡنَ‏ ﴿۲۷﴾  وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى قَوۡمِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا كُـنَّا مُنۡزِلِيۡنَ‏ ﴿۲۸﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ خٰمِدُوۡنَ‏ ﴿۲۹﴾  يٰحَسۡرَةً عَلَى الۡعِبَادِ ؔ‌ۚ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿۳۰﴾  اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَؕ‏ ﴿۳۱﴾  وَاِنۡ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۳۲﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ   ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿۳۳﴾  وَجَعَلۡنَا فِيۡهَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ وَّفَجَّرۡنَا فِيۡهَا مِنَ الۡعُيُوۡنِۙ‏ ﴿۳۴﴾  لِيَاۡكُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖ ۙ وَمَا عَمِلَـتۡهُ اَيۡدِيۡهِمۡ‌ ؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۳۵﴾  سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَمِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۳۶﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيۡلُ  ۖۚ نَسۡلَخُ مِنۡهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَۙ‏ ﴿۳۷﴾  وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا  ‌ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِؕ‏ ﴿۳۸﴾  وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِيۡمِ‏ ﴿۳۹﴾  لَا الشَّمۡسُ يَنۡۢبَغِىۡ لَهَاۤ اَنۡ تُدۡرِكَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّيۡلُ سَابِقُ النَّهَارِ‌ؕ وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿۴۰﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَهُمۡ فِى الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِۙ‏ ﴿۴۱﴾  وَخَلَقۡنَا لَهُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ مَا يَرۡكَبُوۡنَ‏ ﴿۴۲﴾  وَاِنۡ نَّشَاۡ نُغۡرِقۡهُمۡ فَلَا صَرِيۡخَ لَهُمۡ وَلَا هُمۡ يُنۡقَذُوۡنَۙ‏ ﴿۴۳﴾  اِلَّا رَحۡمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿۴۴﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّقُوۡا مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡكُمۡ وَمَا خَلۡفَكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ‏ ﴿۴۵﴾  وَمَا تَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ اٰيَةٍ مِّنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِمۡ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهَا مُعۡرِضِيۡنَ‏ ﴿۴۶﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ  اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۴۷﴾  وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿۴۸﴾  مَا يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً تَاۡخُذُهُمۡ وَهُمۡ يَخِصِّمُوۡنَ‏ ﴿۴۹﴾  فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ تَوۡصِيَةً وَّلَاۤ اِلٰٓى اَهۡلِهِمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿۵۰﴾  وَنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَاِذَا هُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمۡ يَنۡسِلُوۡنَ‏ ﴿۵۱﴾  قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَاۘؔ؄هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَصَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۵۲﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۵۳﴾  فَالۡيَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَيۡـــًٔا وَّلَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿۵۴﴾  اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ الۡيَوۡمَ فِىۡ شُغُلٍ فٰكِهُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿۵۵﴾  هُمۡ وَاَزۡوَاجُهُمۡ فِىۡ ظِلٰلٍ عَلَى الۡاَرَآٮِٕكِ مُتَّكِـــُٔوۡنَ‏ ﴿۵۶﴾  لَهُمۡ فِيۡهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمۡ مَّا يَدَّعُوۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ ﴿۵۷﴾  سَلٰمٌ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِيۡمٍ‏ ﴿۵۸﴾  وَامۡتَازُوا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿۵۹﴾  اَلَمۡ اَعۡهَدۡ اِلَيۡكُمۡ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّيۡطٰنَ‌‌ۚ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۙ‏ ﴿۶۰﴾  وَّاَنِ اعۡبُدُوۡنِىۡ  ؔ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ‏ ﴿۶۱﴾  وَلَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡكُمۡ جِبِلًّا كَثِيۡرًا‌ ؕ اَفَلَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿۶۲﴾  هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿۶۳﴾  اِصۡلَوۡهَا الۡيَوۡمَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿۶۴﴾  اَلۡيَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰٓى اَفۡوَاهِهِمۡ وَتُكَلِّمُنَاۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَتَشۡهَدُ اَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿۶۵﴾  وَلَوۡ نَشَآءُ لَـطَمَسۡنَا عَلٰٓى اَعۡيُنِهِمۡ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۶۶﴾  وَلَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰهُمۡ عَلٰى مَكَانَتِهِمۡ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مُضِيًّا وَّلَا يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿۶۷﴾  وَمَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُـنَكِّسۡهُ فِى الۡخَـلۡقِ‌ؕ اَفَلَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿۶۸﴾  وَمَا عَلَّمۡنٰهُ الشِّعۡرَ وَمَا يَنۡۢبَغِىۡ لَهٗؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ وَّقُرۡاٰنٌ مُّبِيۡنٌۙ‏﴿۶۹ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ             يٰسٓ ۚ‏ ﴿۱﴾  وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۙ‏ ﴿۲﴾  اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۳﴾  عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍؕ‏ ﴿۴﴾  تَنۡزِيۡلَ الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِ ۙ‏ ﴿۵﴾  لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿۶﴾  لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰٓى اَكۡثَرِهِمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۷﴾  اِنَّا جَعَلۡنَا فِىۡۤ اَعۡنَاقِهِمۡ اَغۡلٰلًا فَهِىَ اِلَى الۡاَ ذۡقَانِ فَهُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ‏ ﴿۸﴾  وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۹﴾  وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۱۰﴾  اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿۱۱﴾  اِنَّا نَحۡنُ نُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَنَكۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثَارَهُمۡؕؔ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ فِىۡۤ اِمَامٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۱۲﴾  وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿۱۳﴾  اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ اثۡنَيۡنِ فَكَذَّبُوۡهُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوۡۤا اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۴﴾  قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿۱۵﴾  قَالُوۡا رَبُّنَا يَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَيۡكُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۱۶﴾  وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿۱۷﴾  قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿۱۸﴾  قَالُوۡا طٰۤٮِٕـرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ ﴿۱۹﴾  وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ‏ ﴿۲۰﴾  اتَّبِعُوۡا مَنۡ لَّا يَسۡـــَٔلُكُمۡ اَجۡرًا وَّهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿۲۱﴾  وَمَا لِىَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾  ءَاَ تَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنۡ يُّرِدۡنِ الرَّحۡمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغۡنِ عَنِّىۡ شَفَاعَتُهُمۡ شَيۡـــًٔا وَّلَا يُنۡقِذُوۡنِ‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾  اِنِّىۡۤ اِذًا لَّفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۲۴﴾  اِنِّىۡۤ اٰمَنۡتُ بِرَبِّكُمۡ فَاسۡمَعُوۡنِؕ‏ ﴿۲۵﴾  قِيۡلَ ادۡخُلِ الۡجَـنَّةَ  ؕ قَالَ يٰلَيۡتَ قَوۡمِىۡ يَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿۲۶﴾  بِمَا غَفَرَلِىۡ رَبِّىۡ وَجَعَلَنِىۡ مِنَ الۡمُكۡرَمِيۡنَ‏ ﴿۲۷﴾  وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى قَوۡمِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ جُنۡدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا كُـنَّا مُنۡزِلِيۡنَ‏ ﴿۲۸﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ خٰمِدُوۡنَ‏ ﴿۲۹﴾  يٰحَسۡرَةً عَلَى الۡعِبَادِ ؔ‌ۚ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿۳۰﴾  اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّهُمۡ اِلَيۡهِمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَؕ‏ ﴿۳۱﴾  وَاِنۡ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۳۲﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ   ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿۳۳﴾  وَجَعَلۡنَا فِيۡهَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ وَّفَجَّرۡنَا فِيۡهَا مِنَ الۡعُيُوۡنِۙ‏ ﴿۳۴﴾  لِيَاۡكُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖ ۙ وَمَا عَمِلَـتۡهُ اَيۡدِيۡهِمۡ‌ ؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۳۵﴾  سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَمِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۳۶﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيۡلُ  ۖۚ نَسۡلَخُ مِنۡهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَۙ‏ ﴿۳۷﴾  وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا  ‌ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِؕ‏ ﴿۳۸﴾  وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِيۡمِ‏ ﴿۳۹﴾  لَا الشَّمۡسُ يَنۡۢبَغِىۡ لَهَاۤ اَنۡ تُدۡرِكَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّيۡلُ سَابِقُ النَّهَارِ‌ؕ وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿۴۰﴾  وَاٰيَةٌ لَّهُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَهُمۡ فِى الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِۙ‏ ﴿۴۱﴾  وَخَلَقۡنَا لَهُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ مَا يَرۡكَبُوۡنَ‏ ﴿۴۲﴾  وَاِنۡ نَّشَاۡ نُغۡرِقۡهُمۡ فَلَا صَرِيۡخَ لَهُمۡ وَلَا هُمۡ يُنۡقَذُوۡنَۙ‏ ﴿۴۳﴾  اِلَّا رَحۡمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿۴۴﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّقُوۡا مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡكُمۡ وَمَا خَلۡفَكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ‏ ﴿۴۵﴾  وَمَا تَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ اٰيَةٍ مِّنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِمۡ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهَا مُعۡرِضِيۡنَ‏ ﴿۴۶﴾  وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ  اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿۴۷﴾  وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿۴۸﴾  مَا يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً تَاۡخُذُهُمۡ وَهُمۡ يَخِصِّمُوۡنَ‏ ﴿۴۹﴾  فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ تَوۡصِيَةً وَّلَاۤ اِلٰٓى اَهۡلِهِمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿۵۰﴾  وَنُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَاِذَا هُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمۡ يَنۡسِلُوۡنَ‏ ﴿۵۱﴾  قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَاۘؔ؄هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَصَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ‏ ﴿۵۲﴾  اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ جَمِيۡعٌ لَّدَيۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۵۳﴾  فَالۡيَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَيۡـــًٔا وَّلَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿۵۴﴾  اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ الۡيَوۡمَ فِىۡ شُغُلٍ فٰكِهُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿۵۵﴾  هُمۡ وَاَزۡوَاجُهُمۡ فِىۡ ظِلٰلٍ عَلَى الۡاَرَآٮِٕكِ مُتَّكِـــُٔوۡنَ‏ ﴿۵۶﴾  لَهُمۡ فِيۡهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمۡ مَّا يَدَّعُوۡنَ‌ ۖ‌ۚ‏ ﴿۵۷﴾  سَلٰمٌ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِيۡمٍ‏ ﴿۵۸﴾  وَامۡتَازُوا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿۵۹﴾  اَلَمۡ اَعۡهَدۡ اِلَيۡكُمۡ يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوا الشَّيۡطٰنَ‌‌ۚ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ ۙ‏ ﴿۶۰﴾  وَّاَنِ اعۡبُدُوۡنِىۡ  ؔ‌ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ‏ ﴿۶۱﴾  وَلَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡكُمۡ جِبِلًّا كَثِيۡرًا‌ ؕ اَفَلَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿۶۲﴾  هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿۶۳﴾  اِصۡلَوۡهَا الۡيَوۡمَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿۶۴﴾  اَلۡيَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰٓى اَفۡوَاهِهِمۡ وَتُكَلِّمُنَاۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَتَشۡهَدُ اَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿۶۵﴾  وَلَوۡ نَشَآءُ لَـطَمَسۡنَا عَلٰٓى اَعۡيُنِهِمۡ فَاسۡتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿۶۶﴾  وَلَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰهُمۡ عَلٰى مَكَانَتِهِمۡ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مُضِيًّا وَّلَا يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿۶۷﴾  وَمَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُـنَكِّسۡهُ فِى الۡخَـلۡقِ‌ؕ اَفَلَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿۶۸﴾  وَمَا عَلَّمۡنٰهُ الشِّعۡرَ وَمَا يَنۡۢبَغِىۡ لَهٗؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ وَّقُرۡاٰنٌ مُّبِيۡنٌۙ‏ ﴿۶۹﴾  لِّيُنۡذِرَ مَنۡ كَانَ حَيًّا وَّيَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿۷۰﴾  اَوَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّا خَلَقۡنَا لَهُمۡ مِّمَّا عَمِلَتۡ اَيۡدِيۡنَاۤ اَنۡعَامًا فَهُمۡ لَهَا مٰلِكُوۡنَ‏ ﴿۷۱﴾  وَذَلَّـلۡنٰهَا لَهُمۡ فَمِنۡهَا رَكُوۡبُهُمۡ وَمِنۡهَا يَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿۷۲﴾  وَلَهُمۡ فِيۡهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ‌ؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۷۳﴾  وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمۡ يُنۡصَرُوۡنَؕ‏ ﴿۷۴﴾  لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ نَصۡرَهُمۡۙ وَهُمۡ لَهُمۡ جُنۡدٌ مُّحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿۷۵﴾  فَلَا يَحۡزُنۡكَ قَوۡلُهُمۡ‌ۘ اِنَّا نَـعۡلَمُ مَا يُسِرُّوۡنَ وَمَا يُعۡلِنُوۡنَ‏ ﴿۷۶﴾  اَوَلَمۡ يَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰهُ مِنۡ نُّطۡفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيۡمٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿۷۷﴾ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍ  مُّبِيۡنٍوَضَرَبَ لَـنَا مَثَلًا وَّ نَسِىَ خَلۡقَهٗ‌ ؕ قَالَ مَنۡ يُّحۡىِ الۡعِظَامَ وَهِىَ رَمِيۡمٌ‏ ﴿۷۸﴾  قُلۡ يُحۡيِيۡهَا الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ‌ ؕ وَهُوَ بِكُلِّ خَلۡقٍ عَلِيۡمُ ۙ‏ ﴿۷۹﴾  اۨلَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنَ الشَّجَرِ الۡاَخۡضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنۡـتُمۡ مِّنۡهُ تُوۡقِدُوۡنَ‏ ﴿۸۰﴾  اَوَلَيۡسَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓى اَنۡ يَّخۡلُقَ مِثۡلَهُمۡؔؕ بَلٰی وَهُوَ الۡخَـلّٰقُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿۸۱﴾  اِنَّمَاۤ اَمۡرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔـا اَنۡ يَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏ ﴿۸۲﴾  فَسُبۡحٰنَ الَّذِىۡ بِيَدِهٖ مَلَـكُوۡتُ كُلِّ شَىۡءٍ وَّاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿۸۳﴾  

اب پانی پر اس طریقے سے دم کریں کہ تھوک کے کچھ ذرے پانی میں جائیں، پہو پہو نہیں کرنا ہے، اب اس پانی کو استعمال کریں، پینے میں، چائے بنانے میں، سالن کا شوربا بنانے میں، جہاں بھی پانی استعمال کرنا ہے پینے میں، یھی پانی استعمال کرنا ہے، اگر پانی کم ہوجائے تو دوسرا پانی بوتل میں ملالیں۔

یہ عمل روزانہ بعد نماز فجر کرنا ہے، اور سحر کے اثرات ختم ہونے تک مسلسل کرتے رہنا ہے، ہمت سے کام لیں، صرف آٹھ/  دس منٹ لگتے ہیں اس عمل میں، مریض خود اس عمل کو کرے ، عذر سماوی ہو تو وہ خود نہ کرے، گھر کا کوئی اور فرد انکو یہ عمل کرکے پانی دیدے۔

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس