اتوار، 27 اکتوبر، 2019

خواتین نماز کیسے ادا کریں

*خواتین نماز کیسے ادا کریں* *✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* *نیت* سب سے پہلے نیت کریں کہ کونسی نماز پڑھ رہی ہیں فجر یا ظہر فرض یا سنت ادا یا قضاء, *تکبیرتحریمہ* اور پھر کندھوں تک ہاتھ اٹھائیں اور *اللّٰه اَکْبَر* کہیں اور ہاتھ سینہ پر باندھ لیں, *عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلُ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا.* (المعجم الکبیر للطبرانی: ج9ص144رقم17497، مجمع الزوائد: ج9 ص624 رقم الحدیث1605، البدر المنير لابن الملقن:ج3ص463) ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے. *خواتین کاطریقہ رکوع* ❶ رکوع میں خواتین صرف اتنا جھکیں کہ ہاتھ گھٹنوں تک پنہچ جائیں گھٹنے پکڑنے نہیں ہیں صرف ہاتھ رکھنے ہیں, ❷ کہنیاں پیٹ سے ملانی ہیں بالکل سمٹ کر, ❸ ہاتھ کی انگلیاں ملاکر رکھنی ہیں, دلائل: 1: عن عطاء قال تجتمع المراة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها وتجتمع ما استطاعت. (مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983) ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت سمٹ کر رکوع کرے گی، اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف ملائے گی، جتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی۔ 2: فتاویٰ عالمگیری میں ہے: والمرأة تنحنی فی الرکوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعا وتنحنی رکبتيها ولا تجافی عضد تيها. (فتاویٰ عالمگیری: ج1ص74) ترجمہ: عورت رکوع میں کسی قدر جھکے گی،گھٹنوں کو مضبوطی سے نہیں پکڑے گی،اپنی انگلیوں کو کشادہ نہیں کرے گی البتہ ہاتھوں کو ملا کر اپنے گھٹنوں پر جما کر رکھے گی، گھٹنوں کو قدرے ٹیڑھا کرے گی اور اپنے بازو جسم سے دور نہ رکھے گی۔ فریقِ مخالف میں سے غیرمقلد عالم عبدالحق ہاشمی اپنی کتاب ”نصب العمود“ میں لکھتے ہیں: عندی بالاختیار قول من قال ان المراءۃ لاتجافی فی الرکوع. (نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المراءۃ فی الرکوع والسجود والقعود ص52) ترجمہ: مجھے ان حضرات کی بات پسند ہے جو کہتے ہیں کہ عورت رکوع میں اپنی کہنیاں پہلو سے جدا نہ کرے۔ *قومہ کاطریقہ* رکوع سے اٹھنے میں کوئی فرق نہیں مردوعورت میں, *سجدہ کاطریقہ* عورت سجدہ میں اس طرح جائے کہ دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر اور رانیں پیٹ سے ملاکر اور زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے بازو زمین پر بچھادے ہاتھ چہرہ کے قریب کرے مکمل سمٹ کر سجدہ کرے دلائل: 1: عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ. (مراسیل ابی داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیہقی: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَۃ) ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: جب تم سجدہ کروتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔ 2: عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا. (الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ،جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔ 3: عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... کَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّتَجَافُوْا فِیْ سُجُوْدِھِمْ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَخَفَّضْنَ. (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ) ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔ 4: عن الحسن وقتادة قالا إذا سجدت المرأة فإنها تنضم ما استطاعت ولا تتجافى لكي لا ترفع عجيزتها. (مصنف عبدالرزاق ج 3ص49 باب تکبیرۃ المراءۃ بیدیہا وقیام المراءۃ ورکوعہا وسجودہا) ترجمہ:حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہوسکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو۔ 5: عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ. (مصنف ابن ابی شیبہ: رقم الحديث 2704) ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ ﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔ 6: عن عطاء قال... إذا سجدت فلتضم يديها إليها وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها وتجتمع ما استطاعت. (مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983) ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے۔ *خواتین نماز کیسے ادا کریں* *✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* *خواتین جلسہ یاالتحیات میں کیسے بیٹھیں* عورت کے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر سرین کے بل اس طرح بیٹھے کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ ملا دی۔ علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں: جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها. (فتح القدير لابن الہمام:ج1ص274) ترجمہ: عورت اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کیونکہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔ دلائل: 1: عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا۔ (الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ،جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔ 2: عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... وَکَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِی التَّشَھُّدِ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ. (السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ،التبویب الموضوعی للاحادیث ص2639 ) ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔ 3: عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سُئِلَ: كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ. (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی ج1ص400، مسند ابی حنیفۃ روایۃ الحصكفی: رقم الحديث 114) ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں۔انہوں نے فرمایا پہلے توچہار زانوہو بیٹھتی تھیں پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں۔ 4: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلٰوۃِ الْمَرْاَۃِ فَقَالَ تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ . (مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص505، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا، رقم الحدیث2794) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔

علامہ البانی

(۱) ناصر الدین البانی صاحب بلا دِ عرب کے ایک مشہور غیرمقلد عالم دین گذرے ہیں، البانی صاحب سن ۱۳۳۳ ہجری مطابق ۱۹۱۶ عیسوی، یورپ کے مشہور ملک البانیا کے شہر اشکورڈا (Shkorda) میں پیدا ہوئے ہیں، بعد میں وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ البانیا سے ہجرت کرکے ملک شام آئے بچپن میں ابتدائی کتابیں بعض اساتذہ سے پڑھیں مگر انھوں نے باقاعدہ کسی بھی دینی مدرسہ یا کسی اسلامی یونیورسٹی سے فراغت حاصل نہیں کی اور بڑی بڑی کتابیں بھی کسی معتبر اور ثقہ عالم دین سے نہیں پڑھیں، بالخصوص علم حدیث اور اصول حدیث کی کتابیں، لیکن چونکہ نہایت ذہین تھے اور ان کی قوت حافظہ بہت مضبوط تھی اس وجہ سے انھوں نے اپنے مطالعہ سے سب کچھ پڑھا اورکتابیں لکھیں۔ (۲) البانی صاحب متشدد غیر مقلد تھے بلکہ غیرمقلدین کے امام تھے، غیرمقلدین اصول اربعہ یعنی: کتاب اللہ، سنت، اجماع امت اور قیاس میں سے اجماعِ امت اور قیاس کو نہیں مانتے ہیں،اور اہل السنة والجماعت ان چاروں اصولوں کو مانتے ہیں اوران کے نزدیک یہ چاروں اصول حجت شرعیہ ہیں، اہل السنة والجماعت کی حقیقت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ (۱) اتباع سنت (۲) اجماعت امت۔ اتباع سنت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، حضرات خلفائے راشدین کی سنتوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے، کیونکہ خود سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: علیکم بسنتی وسنة الخفلفاء الراشدین المہدیین (مشکاة المصابیح ص۳۰) اہل السنة والجماعت کے صحیح مصداق وہی لوگ ہیں جو اتباع سنت اور اجماع امت کو مانتے ہیں، چنانچہ منہاج السنة میں علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فإن السنة تتضمن النص والجماعة تتضمن الإجماع، فأہل السنة والجماعة ہم المتبعون للنص والإجماع (منہاج السنة: ج۳ ص۲۷۲ مکتبہ الریاض الحدیثیة) ارواب اہل السنة والجماعت کے ماننے والے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے متبعین ہی میں منحصر ہیں، چنانچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ جو بہت بڑے حنفی فقیہ گذرے ہیں اور علامہ ابن عابدین شامی کے استاذ بھی ہیں وہ الدر المختار کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: فعلیکم معاشر الموٴمنین باتباع الفرقة الناجیة المسماة بأہل السنة والجماعة فإن نصرة اللہ وحفظہ وتوفیقہ في موافقتہم وخذلانہ وسخطہ ومقتہ في مخالفتہم وہذہ الطائفة الناجیة قد اجتمعت الیوم في مذاہب أربعة وہم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون رحمہم اللہ ومن کان خارجا عن ہذہ الأربعة في ہذا الزمان فہو من أہل البدعة والنار (حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار: ج۴ ص۱۵۳) لہٰذا البانی صاحب کا کوئی تعلق اہل السنة والجماعة سے نہیں ہے، بلکہ وہ غیرمقلدین کی طرح اہل السنة والجماعة سے خارج ہیں۔ (۳) احادیث کے تحقیق کے سلسلہ میں ا لبانی صاحب بہت متشدد تھے، بہت سی احادیث جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک حسن درجہ کی ہیں، البانی صاحب نے ان سب کو ضعیف قرار دیا ہے، اسی طرح بہت سی احادیث جن میں کچھ ضعف تھا مگر وہ سب قابل استدلال تھیں اور محدثین کرام نے ان سب کو احادیث صحیحہ کے ساتھ ملحق کیا تھا، البانی صاحب نے جمہور کی مخالفت کرتے ہوئے ان سب احادیث کو احادیث موضوعہ (گھڑی ہوئی احادیث) کے ساتھ ملحق کردیا۔ اور ان پر ایک کتاب لکھی ”سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة وآثارہا السیئة فی الأمة“ البانی صاحب نے عالم اسلام خصوصا بلاد عرب میں ایک ایسے فتنہ کی داغ بیل ڈالی جس کی بیخ کنی کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے، ان کی تحقیقات پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، ان پر تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”صحیح“ اور کسی دوسری کتاب میں اسی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ”منکر“ یا ”ضعیف“ مزید تفصیل کے لیے (۱) تناقضات الالبانی الواضحات، موٴلفہ حسن بن علی السقاف (۲) الالبانی شذوذہ وأخطاوٴہ، موٴلفہ حضرت محدث کبیر ابو المآثر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب کی طرف رجوع کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند *​شیخ البانی کے متعلق شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی رائے* سوال:نبی کریم کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں جتنی احادیث ہیں شیخ ناصر الدین البانی نے ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اسکا کیا جواب ہے؟ جواب: شیخ ناصرالدین البانی صاحب (اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے) تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں، چنانچہ انہوں نے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا، اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں بڑی شدو مد سے کہہ دیا کہ یہ ضعیف ہے، ناقابل اعتبار ہے، مجروح ہے، ساقط الاعتبار ہے، اور پانچ سال بعد وہی حدیث آئی، اس پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا تو کہا: کہ یہ بڑی پکی اور صحیح حدیث ہے.......... یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہا تھا، تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ المأۃ ہیں.......... بہرحال عالم ہیں، عالم کے لئے ثقل لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحین کی جو بے ادبی ہے اور انکے طریقہ تحقیق میں جو یک رخا پن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں، اس لئے ان کا کوئی اعتبار نہیں، حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند علماء کرام نے فرمایا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کسی آدمی کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ سلف کی تصحیح و تضعیف سے قطع نظر کر کے خود تصحیح و تضعیف کا حکم لگائے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے، یہاں تک حافظ ابن حجر جیسا شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف ہے بلکہ کہتا ہے کہ رجالہ رجال الصحیح، رجالہ ثقات یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اپنی طرف سے تصحیح کا حکم نہیں لگاتے، کہتے ہیں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے کہ تصحیح کا حکم لگاؤں آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ھذا عندی ضعیف اس کا جواب وہی جو پہلے ایک شعر بتایا تھا کہ یقولون ھذا عندنا غیر جائز ومن انتم حتی یکون لکم عند باقی حدیث من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ محدثین نے اسکوحسن قرار دیاہے، باقی حدیثوں کی اسناد بے شک ضعیف ہیں، لیکن ایک تو تعدد طرق و شواہد کی بناء پر، دوسرا تعامل امت کی بناء پر مؤید ہوکر قابل استدلال ہیں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ انعام الباری( جلد: 4، صفحہ: 346،347)

جمعہ، 23 اگست، 2019

ذائقہ کی اقسام اور تشریح

ذائقہ کی اقسام مِرارة: تلخ اور کڑواہٹ جیسے ایلوے میں ہوتی ہے, حِراقة: تیز جیسا کہ کالی مرچ میں ہوتی ہے, ملوحہ: نمکین جیسا کہ نمک, عفوصہ: کسیلا پن جیسا کچا پکا کیلا کھانے سے زبان سکڑ سی جاتی ہے, حموضہ: ترش اور کھٹا پن, قبض: کسیلا بکسا پن فرق یہ کہ عفوصہ جو پوری چیز میں اکڑاہٹ پیدا کرے اور قبض صرف اوپری سطح کو اکڑاتاہے, حلاوة: میٹھاس جیسا کہ شہد میں, دسومہ: چربی جیسا جیسے کہ گھی اور مکھن میں, تفاھہ: پھیکا پن جیسا کہ روٹی وغیرہ میں, یہی اصل ذائقے ہیں باقی سب انہیں اے مرکب ہوتے ہیں, (توضیح العقائد شرح العقائد النسفیہ صفحہ129)

اتوار، 5 مئی، 2019

اولاد کی تربیت قول وافکار والدین

اولاد کی تربیت قول وافکار والدین *✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* قسط نمبر1 ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد مہذب باادب اور خوش اخلاق ہو اس کیلئے ماں باپ کو سب سے پہلے چند کام کرنے لازم ہیں, ❶ اولاد کے سامنے بدکلامی اور گالم گلوچ کسی سے (نہ سامنے نہ فون پر) نہ کریں, ❷ ماں باپ آپس میں بداخلاقی یا رنجش کا اظہار اولاد کے سامنے ہر گز نہ کریں, ❸ اولاد سے مخاطب بھی آپ جناب اور آئیے کیجئے نہیں کریئے جیسے الفاظ سے ہوں, ❹ اولاد کو ہمیشہ جھکنا, معافی مانگنا, غلطی سے توبہ کرنا, سچ بولنا سکھائیں, ❺ کسی کے بھی متعلق والدین اپنی سوچ اچھی سچی اور پاکیزہ رکھے کیونکہ پوشیدہ سوچ کی اسکرین اولاد ہوتی ہے. والدین کی گفتگو کا طرز اور انکی رنجشوں کا اظہار اگرچہ پیٹھ پیچھے لیکن اولاد کے سامنے ایک دوسرے کے متعلق ناراضگی اور غصہ کااظہار بچوں کو پڑھائے جانے والے سبق کی طرح بغیر پڑھائے نقش ہو جاتا ہے اور فورا عمل میں آجاتاہے, *اولاد کی تربیت قول وافکار والدین* *✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* قسط نمبر2 ❶ والد یا والدہ جب بھی کبھی اپنے دوست احباب کے ساتھ بیٹھے ہوں اور اولاد بھی ساتھ ہو تو اس وقت بھی ہنسی مذاق میں الفاظ کاچناؤ بولنے کا انداز کسی طور غیر مہذبانہ نہ ہو چینخ کر بولنا شور کرنا یہ سب اولاد کو برے طریقے سکھاتا ہے, ❷ والدین اپنی سوچ بھی پاکیزہ رکھیں مطلب یہ کہ کسی کیلئے برا یا غلط سوچیں گے تو یہ اولاد کے اندر پیدا ہوجائیں گی, ❸ اولاد ساتھ ہو تو خریداری کے وقت پیسوں کے معاملہ میں زیادہ بحث مباحثہ اور تلخ کلامی نہ کریں, *اولاد کی تربیت قول وافکار والدین* *✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* قسط نمبر3 ❶ اولاد کو کسی بھی کام کے نقصان کی دھمکی یا بدعاء نہ دیں بلکہ خبر دیکر روکنے کی کوشش کریں, مثلا: بیٹایہ کرنے سے یہ نقصان ہوتا ہے یہ نہ کرو یہ ہوجاتا ہے, یوں نہ کہیں کہ یہ ہوجائےگا یا یہ ہوگا تو پتا چلے گا, جیسے بیٹا آگ سے ہاتھ جل جاتاہے, یوں نہ کہیں کہ ہاتھ جل جائےگا یا ہاتھ جلے گا تو پتا چلے گا, بیٹا چھری سے نہ کھیلو ہاتھ کٹ جاتاہے, یوں نہ کہیں کہ ہاتھ کٹ جائےگا یا ہاتھ کٹے گا تو پتا چلے گا, ❷ بچوں کو خصوصا چھوٹے بچوں کو پیار سے سمجھائیں کوسنے یا مار کی دھمکی یا کوئ بھی بات چلا کر یا مار کر نہ کہیں ورنہ یہ بچے کی عادت بن جائے گی پھر اس کے بغیر کام نہ چلے گا, *اولاد کی تربیت قول وافکار والدین* *✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* قسط نمبر4 ❶ بچوں کے کسی بھی کام پر بےجا اور موقع بےموقع روک ٹوک نہ کریں بلکہ ایک دفعہ روکنے کے بعد جب وہ کام کرتے دیکھیں تو خاموش رہیں اور پھر کسی وقت دوسرے انداز سے سمجھائیں, ❷ بچے کی دین کے معاملات میں نگرانی رکھیں اور اس میں بھی طرز وہی اختیار کریں جو اوپر بیان ہوا, ❸ بچوں پر سختی بھی کریں لیکن سختی بھی فانی(دنیاوی) چیزوں میں نہیں بلکہ باقی(اخروی) چیزوں میں معاملات میں کریں, مطلب: بچہ کوئی چیز توڑ یا ضائع کردے یاکوئی سچ بات کہ دے مگر ماں باپ صرف شرمندگی کی وجہ سے چھپانا چاہتے ہیں اور چھوڑنا بھی نہیں چاہتے اس پر بچہ کو ہراساں کرنا بالکل غلط ہے, البتہ اعمال آخرت کے متعلق کسی کوتاہی پر عبادات چھوڑنے جھوٹ بولنے غیبت کرنے باتیں سن کر اِدھر اُدھر کرنے پر سختی کریں, ❹ بچے کی باپ یا استاد(ان دو کاذکر اس لئے کیا کہ بچہ انہی کے کنٹرول میں آتاہے) سے شکایات بار بار اور ذرا ذرا سی بات کی شکایت کرنا یہ بچے کو متنفر اور ضدی کرتاہے, ❺ دین کے معاملات یا ممنوعات جس حد تک ہیں اسی حد تک رکھاجائے بچوں پر زیادہ شدت نہ کی جائے,

جمعہ، 3 مئی، 2019

جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھے جانے والے درود کی تحقیق

جمعہ کے دن عصر کے بعد پڑھے جانے والے درود شریف کی تحقیق ) تخريج حديث : ( من صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاما ) کاترجمہ يہ حديث تین صحابہ :حضرت ابوہريرهؓ، حضرت انسؓ، اورحضرت سہل بن عبدالله سے مروی ہے (۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت حديثِ کی تخريج ابن شاہین نے (الترغيب فی فضائل الاعمال، 22)میں، ابن شاہین كے طريق سے ابن بشكوال نے (القربۃ 109)میں، اور دارقطنی نے اپنی كتاب(الافراد،واطراف الغرائب 5095)میں، اور ديلمی نے (مسندالفردوس:2/408) میں،اوراسی طرح ابوالشيخ اورضياء الدین مقدسی، ان سب نے دارقطنی كے طریق سے بيان كياہے۔کمافی(السلسلۃ الضعيفۃ:3804)۔ ان تمام حضرات نے حدیث کی روایت مندرجہ ذيل سند سے كی ہے: حدثنا عون بن عمارة قال :حدثنا السكن البُرجُمی ، عن الحَجّاج بن سِنان ، عن علي بن زيد ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي هريرة مرفوعا بلفظ : ” الصلاة عليَّ نور علی الصراط ، فمن صلی عليَّ يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوبُ ثمانين عاما “۔ اورامام سخاوی علیہ الرحمہ نے ”القول البديع:ص284“میں حضرت ابوہريره كی روايت میں”قبل أن يقوم من مقامه“ اور ”وكتبت له عبادة ثمانين سنة“كی زيادتی نقل کی ہے، اس زيادتی كے نقل کرنےمیں امام سخاوی منفرد ہیں، اوراس كی نسبت انہوں نے ابن بشكوال كی طرف كی ہے، لیكن یہ زيادتی”القربۃ“ میں موجود نہیں ہے، تومعلوم نہیں کہ یہ زیادتی ابن بشكوال کی کونسی كتاب میں موجود ہے ؟ امام سخاوی ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :”وفی لفظٍ عند ابن بشكوال من حديث أبي هريرة أيضا : من صلى صلاة العصر من يوم الجمعة فقال قبل أن يقوم مكانه : اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليما ، ثمانين مرة ، غُفِرت له ذنوب ثمانين عاما ، وكتبت له عبادة ثمانين سنة “۔ حدیث کی متابعات : (۱) زكريا برجمی كی متابعت:امام ازدی نے ”الضعفاء المتروكین“ میں سكن بن ابى السكن كے بجائے زكريا البرجمی سے يہ روايت نقل کی ہے، جیساکہ امام ذہبیؒ نے (ميزان الاعتدال:2881) اور حافظ ابن حجرؒ نے(لسان الميزان:3222)میں زكريا بن عبدالرحمن برجمی كے ترجمہ میں ذكركياہے، اور امام ازدی نے زكريا كوضعیف قراردياہے۔ (۲) منصور بن صقیر كی متابعت:شیخ البانی فرماتے ہیں: يوسف بن عمر القواس نےاس حدیث میں عون بن عمارةكے بجائےمنصور بن صقيرکو ذکر کیا ہے،گويايوسف بن عمر نے عون بن عمارة كی سندِ حديث میں مخالفت كی ہے، البتہ يہ دونوں یعنی عون اور منصور سكن البرجمی سے روايت كرنے میں متفق ہيں، نیز یہ متابعت (جزء ابی القاسم الازجی 16)میں بھی مذكورہے، البانی نے (تقريب التہذیب) كے حوالے سے منصوربن صقيركی تضعیف بھی نقل كی ہے۔ (۳) حضرت ابوذرؓكی متابعت:ابن عساكر نے ذكركياہے كہ عون بن عمارة كے علاوه راویوں نے سكن سے جب روايت كی تو انہوں نے حضرت ابوہريره كے بجائےحضرت ابوذرغفاریؓ کو صحابی حدیث بتایا ہے ۔(القول البدیع:284)۔ سند کی تحقیق: اس حدیث کی سند بہت کمزور ہے۔اس میں تین رواۃ ضعیف ہیں: (۱) عون بن عمارۃ:ان کے بارے میں ابو زرعہ نے فرمایا: منکر الحدیث، اور ابو حاتم نے کہا: میں نے ان کا زمانہ پایا البتہ میں ان کے بارے میں سکوت اختیار کرتاہوں، اور وہ منکر الحدیث بھی تھے اور ضعیف بھی تھے۔اور امام ابو داود نے فرمایا:ضعیف ]تہذیب التہذیب8/173]۔ ابن طاہر مقدسی نے کہا:وہ کثیر الغلط لوگوں میں سے ہیں، لہذا ان کی بات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔[معرفۃ التذکرۃـ 1078]۔ (۲) حجاج بن سنان:امام ازدی نےان کومتروک الروایۃ بتایا ہے۔]لسان المیزان2/563]۔ (۳) علی بن زیدبن جدعان:امام ابو زرعہ نے کہا:وہ ثقہ نہیں ہیں، خطاکرتے ہیں اور وہم کے شکار ہوتے ہیں۔اورامام احمد نے کہا:معتبر نہیں ہیں۔ابوحاتم نے کہا:لایحتج بہ۔دار قطنی کہا:میرے نزدیک وہ ضعیف ہی رہے، اور شعبہ نے ان پر اختلاط کا الزام لگایا ہے۔[المغنی للذہبی2/447]۔ اور سعید بن المسیب کو صحابی کے بارے میں جوشک ہواہے کہ وہ ابوہریرہ ہیں یا ابو ذر؟اگر یہ شک سعید کو ہواہو تو کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ان کے علاوہ کسی ضعیف راوی کوشک ہواہو تووہ اضطراب ہوگا، اور وہ راوی کے ضبط میں مؤثر ہوگا۔ حدیث کا حكم: دارقطنی نے فرمایا:علی بن زیدسے روایت كرنے میں حجاج بن سنان منفرد ہیں، اور حجاج سے بھی صرف سكن بن ابی السكن نے ہی روایت كیاہے۔ حافظ (لسان المیزان) میں حجاج بن سنان كے ترجمہ میں كہتے ہیں:حدیث منكر، اور (نتائج الافكار تخریج احادیث الاذكار-5/56)میں فرمایا:غریب، اوراس كے چاروں رواۃ ضعیف ہیں۔ البانی نے (سلسلۃضعیفہ حدیث3804) میں كہا:ضعیف۔ جبکہ امام عراقی نے (تخریج احادیث الاحیاء )میں ابوعبداللہ محمد بن موسی بن نعمان سے نقل كیا، کہ وہ فرماتے ہیں:حدیث حسن۔سخاوی نے (القول البدیع-285) میں اس پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ:یہ بات محل نظرہے۔(یعنی:حدیث كی سند ،یا ابن نعمان كی تحسین )۔ (۲) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت حدیث کی تخریج : حدیثِ انس بن مالكؓ دوسندوں سے مروی ہے: پہلی سند : وهب بن داود بن سليمان المخرّمي ، عن إسماعيل بن إبراهيم الشهير بابن عُلية ، عن عبد العزيز بن صهيب ، عن أنس مرفوعا ۔ اس سند كے واسطہ سے حدیث کی تخریج: (۱) خطیب بغدادی نے (تاریخِ بغداد3/489)میں وہب بن داود كے ترجمہ میں کی ہے۔ (۲) ابن الجوزی نے(العلل المتناہیۃ:796)میں ۔ (۳) اور ابوسعدنے( شرف المصطفی :حدیث2044)میں، مگرانہوں نے سند بیان نہیں كی ہے، اوراس میں”مئة مرة “ كے الفاظ ہیں ۔ پہلی سند سےحدیثِ انس بن مالكؓ کےالفاظ یہ ہیں: من صلی علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفر الله له ذنوب ثمانين عاما ، فقيل له : و كيف الصلاة عليك يا رسول الله ؟ قال : تقول : اللهم صل علی محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي ، وتعقد واحدا . پہلی سندکا حال : اس میں وہب بن داود بن سلیمان المخرمی ہے، خطیب نےاسےغیر موثوق بہ كہاہے۔ پہلی سند کاحكم : ابن الجوزی نے (العلل المتناہیۃ-796)میں فرمایا:یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ حافظ ذہبی نے (المغنی فی الضعفاء:6904)میں فرمایا:یہ وہب بن داود كی وضع کردہ ہے۔ البانی كہتے ہیں:كہ یہ روایت ابن الجوزی نے (الاحادیث الواہیۃ) میں ذكر كی ہے۔میں كہتاہوں كہ: یہ ان كی دوسری كتاب”الاحادیث الموضوعات“کے زیادہ مناسب ہے، اس لئے كہ اس حدیث میں علاماتِ وضع ظاہر ہیں۔ دوسری سند: محمد بن رِزَام ، عن محمد بن عمرو ، عن مالك بن دينار وأبان ، عن أنس . حدیثِ کی دوسری سندسے تخریج : اس كی تخریج اسی سند سے قوام السنۃ نے(الترغیب-1696)میں ( من صلی علي في كل يوم جمعة أربعين مرة محا الله عنه ذنوب أربعين سنة ، ومن صلی علي مرة واحدة فتقبلت منه ، محا الله عنه ذنوب ثمانين سنة ، ومن قرأ : قل هو الله أحد أربعين مرة حتی يختم السورة بنی الله له مناراً في جسر جهنم حتی يجاوز الجسر ) كے الفاظ كے ساتھ كی ہے۔ دوسری سند کا حال : اس میں محمد بن رزام بصری ہے، ذہبی نے (میزان -3/545)میں اس پروضعِ حدیث كی تہمت لگائی ہے۔اس كی كنیت ”ابوعبدالملك“ہے۔امام ازدی كہتے ہیں:يہ متروك الحدیث ہے۔دارقطنی نے كہا كہ:اباطیل بیان كرتاہے۔ (۳) حضرت سہل بن عبد اللہ کی روایت اسے ابن بشكوال نے (القربۃالی رب العالمین 111)میں روایت كیاہے، اوركہا:ہمارے شیخ ابوالقاسم نے ہم سے كہاکہ: سہل بن عبداللہ سے مروی ہے: من قال في يوم الجمعة بعد العصرِ : اللهم صل علی محمد النبي الأمي وعلی آله وسلم ، ثمانين مرة ، غفرت له ذنوب ثمانين سنة . سہل بن عبداللہ صحابی تو نہیں ہیں، بلکہ سندمیں کوئی شیخ ہیں جن كی شخصیت میں پہچان نہیں سكا۔ممكن ہے كہ وہ سہل بن عبداللہ بن بریدۃ بن الحصیب الاسلمی المروزی ہوں، جوكہ منكرالحدیث ہیں۔(كمافی المغنی للذہبی:1/145) ياابوالحسن سہل بن عبداللہ الغازی الاصبہانی ہوں، جوكہ پانچویں صدی ہجری كے متاخرین میں سے ہیں۔(كمافی تاریخ دمشق:10/130)۔ تنبیہ:مجھے كراچی سے نكلنے والےرسالہ(بینات،شمارہ رجب۱۴۳۷ھ )میں اس حدیث كی تخریج كے متعلق ايك مقالہ ملا، جس میں كاتب ِمقالہ نے اپنی طرف سے سہل بن عبداللہ كی روایت كی مخترع سند بیان كی ہے، جو توجہ كے قابل نہیں ہے، اور یہ علوم ِ اسناد كے باب میں واضح جہالت ہے، اہل رسالہ كو چاہئےتھا كہ وہ ایسے ضعیف اور غیرمستند مقالہ کے شائع كرنے میں احتیاط برتتے۔ خلاصۂ حكم علی الحديث حدیث بیحد ضعیف ہے، ثبوت كے درجہ كونہیں پہنچتی، اوراس كی اصل فقط حدیثِ ابی ہریرہؓ ہے، جس میں تین ایسے ضعیف راوی ہیں جن كے ضعف كا ازالہ ان كےروایت کرنے میں منفرد ہونے كی وجہ سے ممكن نہیں ہے۔ اور حدیثِ انس اس كےليے شاہد نہیں بن سكتی اس لیے كہ وہ موضوع ہے۔اورنہ ہی روایتِ سہل بن عبداللہ كيوں كہ اس كی كوئی معتمد سند نہیں ہے۔ لہٰذا ،اب پوری بحث فقط حدیثِ ابی ہریرہ پرمنحصرہوگئی۔اورحدیث ابی ہریرہؓ كی صحت میں دومؤثر علتیں ہیں: (۱) بعض راويوں كا تفرد۔ (۲) بعض راويوں كے بارے میں شدید جرح۔ پہلی علت کی تفصیلی بحث راوی کا تفرد محدثین كے نزدیك اس کی روایت كی صحت میں مؤثر ہوتاہے، خاص طورسے جب كہ تفردكرنے والا راوی ضعیف اورمجروح ہو۔ امام ابوداودعلیہ الرحمہ اپنی كتاب (سننِ ابی داود)كی احادیث كے وصف میں فرماتے ہیں:”وہ احادیث جنہیں میں نے كتاب السنن میں لیاہے ،وہ اكثرمشہور روایات ہیں، اوروہ ہرحدیث لكھنے والے كے نزدیك معروف ہيں، مگر ان کے ما بین تميزکرنے پر ہرایك قادرنہیں ہوتا۔البتہ ان كے علو مرتبہ كے ليے اتنا كافی ہے كہ وہ مشہورہیں۔اس ليے كہ حدیثِ غریب(غیر معروف) حجت نہیں ہے، چاہے يہ غریب حدیث امام مالك، يحیی بن سعید، اور ان جيسے ثقاتِ اہلِ علم كی روایات سے منقول ہو۔ اور جوكوئی غریب غیر مشہورحدیث سے استدلال كرے گاتو اس کی وجہ سے اس پر طعن کرنےوالا كوئی نہ كوئی آپ كوضرور ملے گا۔اورايسی حدیث قابل ِاحتجاج نہیں ہے جو غریب وشاذ ہو،رہ گئی بات اس صحیح حدیث كی جو مشہوراورمتصل الاسناد ہو تواس كی بابت آپ پرطعن كرنے پر كوئی قادرنہ ہوگا۔“ ابن الصلاح نے رواۃ كے تفرد پر بحث كرتے ہوئے فرمایا :” متفرد بالروایت راوی كے حالات میں غور كیا جائے، اگر وہ عادل حافظ اورموثوق بالاتقان والحفظ ہو،تو اس کا تفرد قابلِ قبول ہوگا، اور اس كا اس حدیث كے باب میں انفراد مؤثرنہیں ہوگا ... پھر فرمایا:اور اگر وہ راوی اس روایت میں تفرد کی بابت موثوق بالحفظ والاتقان نہ ہو، تو اس کا تفرد اس کی ثقاہت میں مؤثر ہوگا،اور روایت مرتبۂ صحت سےمنحط ہوگی۔ پھر راویوں کاتفرد راویوں كے حالات كے اعتبارسے مختلف مراتب کا ہوتاہے۔چنانچہ تفرد کرنے والاراوی ،اگر ایسے راوی کے مرتبہ کے قریب ہو جوپختگی ِحفظ سے موصوف اور مقبول التفرد ہے، تو ہم اس کی منفرد روایت کو حسن کا درجہ دیں گے ، اور اس روایت کو ضعیف نہیں قرار دیں گے۔اوراگر تفرد كرنے والا راوی مذكورہ مرتبہ سے دورہو تو اس كاتفرد مردود ہوگا، اوراس کی روایت حدیثِ شاذ كی قبیل سے ہوگی۔[علوم الحدیث لابن الصلاح ص79] امام ابن رجب فرماتے ہیں:كہ اكثر متقدمین علماء حدیث ایسی روایت كے بارے میں ،جب كہ اس كا راوی منفردہو، اگرچہ ثقہ راوی اس کی روایت کے خلاف بیان نہ كرتے ہوں ،فرماتے ہیں:اس راوی كی متابعت نہیں کی جائے گی ، اور اس کے تفرد كو وہ حضرات اس کے حفظ میں مؤثر شمار كرتے ہیں۔ الایہ كہ راوی ان اشخاص میں سے ہوجن کاحفظ وضبط اور عدالت مشہور ہو، جیسےامام زہری اور ان كے مانند۔بلکہ بعض مرتبہ کبارِ حفاظ ِ حدیث کے تفردات کو بھی منکر قرار دے کر رد کردیتے ہیں، اور نقادِ حدیث کی ہر حدیث میں ایک خاص ناقدانہ نظر ہوتی ہے ، جس کا ان کے یہاں کوئی ضابطہ نہیں ہوتا ہے ۔[شرح علل ترمذی 2/582]۔ ان نصوص کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو زیرِ بحث روایت میں دارقطنی نے دو راویوں کے بارے میں تفرد کا حکم لگایا ہے: پہلے راوی :حجاج بن سنان ، کہا کہ وہ علی بن زید سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ دوسرے راوی :سکن بن ابراہیم ، کہا کہ وہ حجاج بن سنان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ حجاج تو متروک الروایت ہے ، تو اس کا تفرد منکر غیر مقبول ہے ۔ جبکہ سکن کی دراقطنی نے توثیق کی ہے ، تو اس کا تفرد محدثین کی اصطلاح کے مطابق شذو ذواغراب ہے ۔ دوسری علت کی تفصیلی بحث سند میں بعض راویوں پر محدثین نے بہت شدید جرح كی ہے، اور وہ تین راوی ہیں:(۱)عون بن عمارۃ۔(۲)حجاج بن سنان۔(۳)علی بن زیدبن جدعان۔ اوران میں سے ہرایك راوی پرجوجروح كی گئیں ہیں كمامرّ، وہ جروح ایسی ہیں جو ان كی روایت كی صحت میں مؤثر ہیں ۔ناقدینِ حدیث نے مذكورہ راویوں كے بارے میں ان كے تفرد، كثرتِ اغلاط ،اور قابل حجت نہ ہونے كی تصریح كی ہے۔اور حافظ ابن حجرؒ نے حجاج كی روایت كو ”غریب منكر“كہاہے۔ اسی طرح حدیث كی جومتابعات ذكركی گئیں، جیسے:زكریا برجمی كی سكن ابن ابی السكن كی متابعت، اور منصوربن صقیر كی عون بن عمارۃ كی متابعت، تو یہ متابعات حدیث كو تقویت دینے كی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔اس لیے كہ متابعت كرنے والا راوی ،متابعت كئے گئے راوی سےزیادہ ضعیف ہے۔ ایک اشکال کا جواب پھر اگر یہ اشكال كیا جائے كہ مذكورہ روایت فضائلِ اعمال كے باب میں ہے، اورعلماءِ حدیث فضائل میں حدیثِ ضعیف كو معتبرمانتے ہیں؟ تواس كا جواب یہ ہے كہ ہر ضعیف حدیث كو فضائل كے باب میں معتبر ماننا جیساكہ بعض لوگ گمان كرتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔بلكہ فضائل كے باب میں ضعیف حدیث پر عمل كرنے كے چند شرائط علماء نے ذكركیے ہیں: حافظ ابن حجرؒنے مندرجہ ذیل شرائط ذكركیے ہیں: (۱) پہلی شرط :روایت ضعفِ شدید سے متصف نہ ہو۔اس شرط كی قید سے وہ روایتیں جو كذابین، متہمین بالكذب اور فاحش الغلط راویوں كی سند سے منقول ہیں وہ باہر ہوجائیں گی۔اور امام علائی نے اس شرط پر اتفاق نقل كیاہے۔[القول البدیع-472-473]۔ اسی بناء پر ایسی حدیث كی روایت كرنا، اگرچہ فضائل كے باب میں ہو،جائزنہیں ہے، الایہ كہ اس كے ضعف كی صراحت كی جائے، تاكہ كوئی اس كے بارے میں دھوكہ میں نہ پڑے۔ (۲) دوسری شرط:شریعت كے عام اصولوں میں سے كسی اصلِ عام كے ماتحت مندرج ہو۔اس شرط سے وہ روایات خارج ہیں جو من گھڑت ہوں ، اور كسی اصل كے تحت نہیں آتی ہوں۔ (۳) تیسری شرط:اس ضعیف روایت پر عمل كرنے والا عمل کرتے وقت اس روایت كے ثبوت كا اعتقاد نہ ركھے، بلكہ ثواب كی امید ركھتے ہوئے احتیاطاً عمل كرے۔تاكہ ثبوت كے اعتقاد ركھنے میں حضور اكرم ﷺ كی طرف كسی غیرثابت بات كی نسبت لازم نہ آئے۔اس لیے كہ یہ جائزنہیں ہے كہ حضورﷺ كی طرف كوئی بات منسوب كی جائے، جب تك اس كی كوئی معتبرسند نہ ہو۔ اب اگر مذکورہ شرائط پر زیرِ بحث روایت کو پیش كیاجائے تاكہ انطباق وعدمِ انطباق كا پتہ چل جائے، تو ہم دیكھیں گے كہ اس حدیث میں شرطِ اول تومفقود ہے۔ جہاں تك تعلق ہے شرطِ ثانی كا، تو یہ شرط حدیثِ پاك میں تین اصول كے تحت پائی جارہی ہے: (۱) شبِ جمعہ اور یومِ جمعہ میں آپﷺ پر درودِ پاك پڑھنے كی فضیلت۔اوریہ اصل مشہورہے، اس لئےاس پرتدلیل كی كوئی ضرورت نہیں ہے۔ (۲) یومِ جمعہ كی فضیلت۔جوكہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔چنانچہ نبی كریمﷺ كا ارشاد ہے:” « خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ ». ]رواه مسلم برقم 854من حديث ابی هريرة[ . (۳) جمعہ كے دن عصركے بعد كے وقت كی فضیلت۔اس پر بہت سی احادیث دلالت كرتی ہیں، چنانچہ ایك حدیث میں ارشاد ہے: « يَوْمُ الْجُمُعَةِ ثِنْتَا عَشْرَةَ » يُرِيدُ سَاعَةً « لاَ يُوجَدُ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا إِلاَّ آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ ».[ اخرجہ ابوداود برقم 1050من حديث جابر ]. ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جمعہ کا دن بارہ ساعت کا ہوتا ہے، ان میں سے ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ اگر اس وقت کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ مانگے تو اس کو ضرور دیا جاتا ہے ،پس اس گھڑی کو عصر کے بعد آخر وقت میں تلاش کرو۔ ایک اور حدیث جوحضرت ابو ہريرة رضی الله عنہ سے مروی ہے : « خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة ، فيه خلق آدم ، وفيه أدخل الجنة ، وفيه أهبط منها ، وفيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم فيسأل الله فيها شيئا إلاأعطاه إياه. قال أبو هريرة : فلقيت عبد الله بن سلام فذكرت له هذا الحديث ، فقال : أنا أعلم بتلك الساعة ، فقلت : أخبرني بها ولا تضنن بها علي ؟ قال : هي بعد العصر إلى أن تغرب الشمس. فقلت : كيف تكون بعد العصر وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( لا يوافقها عبد مسلم وهو يصلي) وتلك الساعة لا يصلّى فيها ؟ فقال عبد الله بن سلام : أليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو في صلاة ) ؟ قلت: بلى ، قال: فهو ذاك»[ اخرجہ بنحوه الترمذی برقم 914] . ترجمہ :ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تمام دنوں میں بہترین دن کہ اس میں سورج نکلتا ہے جمعہ کا دن ہے، اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ،اور اسی دن جنت میں داخل ہوئے ،اور اسی دن جنت سے نکالے گئے، اس میں ایک وقت ایسا ہے کہ اگر اس میں مسلمان بندہ نماز پڑھتا ہو پھر اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا کر دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن سلام سے ملاقات کی تو ان سے اس حدیث کا تذکرہ کیا، انہوں نے فرمایا :میں وہ گھڑی جانتا ہوں ،میں نے کہا پھر مجھے بتائیے اور بخل سے کام نہ لیجئے۔ انہوں نے کہا :عصر سے غروب آفتاب تک۔ میں نے کہا :یہ کیسے ہو سکتا ہےجبکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :(نہیں پاتا کوئی بندہ مسلم حالت نماز میں) اور عصر کے بعد تو کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی ؟عبداللہ بن سلام نے کہا :کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ: جو شخص کہیں نماز کے انتظار میں بیٹھے گویا کہ وہ نماز میں ہے؟ میں نے کہا ہاں یہ تو فرمایا ہے، عبداللہ بن سلام نے کہا :یہ بھی اسی طرح ہے۔ بہر حال یہ تین فضائل كے اصول ہیں جن كے ماتحت یہ حدیث مندرج ہوجاتی ہے۔ رہ گئی حدیثِ ضعیف پر عمل كرنے كی تیسری شرط، اوروہ ہے كہ: حدیث پرعمل كرتے وقت اس كے ثبوت كا یقین نہ ركھنا، بلكہ ثواب كی امید پر احتیاطاً عمل كرنا۔اس شرط كالحاظ ركھتے ہوئے ضعیف حدیث پر عمل كرنے كی اجازت متقدمین اور متاخرینِ اہلِ علم نے دی ہے۔اورعلامہ سخاویؒ نے ان كےاقوال (القول البدیع )كے خاتمہ میں تفصیل كے ساتھ نقل كیے ہیں۔ الحاصل میری ذاتی رائے اس حدیث كے متعلق یہ ہے: كہ اس حدیث كواگرہم احتجاج اور ثبوت كی نظرسے دیكھیں تو وہ احتجاج كے قابل نہیں ہے۔لیكن اس پر عمل كرنے كی گنجائش ہے ، بشرطیكہ اس كے مسنون ہونے كا اعتقاد نہ ہو،سند كے شدید الضعف ہونے کی وجہ سے۔ البتہ اس پر ثواب كی امید كے ساتھ عمل كرسكتےہیں من باب الاحتیاط، اس لیے كہ ممكن ہے كہ كسی درجہ میں اس كاثبوت ہو۔مگر اس كےساتھ ساتھ مذكورہ قیودات كاالتزام نہ كرے، جیسے:عصركے بعد پڑھنا، اوراپنی جگہ سےاٹھنے سے پہلے پڑھنا۔اوریہ بھی ہے کہ ہر جمعہ اس كے پڑھنے كا التزام نہ كرے، بلكہ كبھی كبھی ترك بھی كردے، تاكہ سنتِ ثابتہ ہونے كا اعتقاد دل میں راسخ نہ ہو۔ هذا ما تيسر جمعه وترتيبه في تخريج هذا الحديث ، والله الموفق للصواب . قام بترجمته من العربية الفاضلان : المولوي :محمد عبيد بن عبد الباسط منيار والمولوي : خبيب بن محمد أيوب منيار نفع الله بهما

جمعہ، 5 اپریل، 2019

اولاد کی تربیت قول وافکار والدین



*اولاد کی تربیت قول وافکار والدین*

*✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* 
قسط نمبر1
ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد مہذب باادب اور خوش اخلاق ہو اس کیلئے ماں باپ کو سب سے پہلے چند کام کرنے لازم ہیں, 
❶ اولاد کے سامنے بدکلامی اور گالم گلوچ کسی سے (نہ سامنے نہ فون پر) نہ کریں, 
❷ ماں باپ آپس میں بداخلاقی یا رنجش کا اظہار اولاد کے سامنے ہر گز نہ کریں, 
❸ اولاد سے مخاطب بھی آپ جناب اور آئیے کیجئے نہیں کریئے جیسے الفاظ سے ہوں, 
❹ اولاد کو ہمیشہ جھکنا, معافی مانگنا, غلطی سے توبہ کرنا, سچ بولنا سکھائیں, 
❺ کسی کے بھی متعلق والدین اپنی سوچ اچھی سچی اور پاکیزہ رکھے کیونکہ پوشیدہ سوچ کی اسکرین اولاد ہوتی ہے. 

والدین کی گفتگو کا طرز اور انکی رنجشوں کا اظہار پیٹ پیچھے لیکن اولاد کے سامنے ایک دوسرے کے متعلق ناراضگی اور غصہ کااظہار بچوں کو پڑھائے جانے والے سبق کی طرح بغیر پڑھائے نقش ہو جاتا ہے اور فورا عمل میں آجاتاہے,

*اولاد کی تربیت قول وافکار والدین*

*✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد* 
قسط نمبر2
❶ والد یا والدہ جب بھی کبھی اپنے دوست احباب کے ساتھ بیٹھے ہوں اور اولاد بھی ساتھ ہو تو اس وقت بھی ہنسی مذاق میں الفاظ کاچناؤ بولنے کا انداز کسی طور غیر مہذبانہ نہ ہو چینخ کر بولنا شور کرنا یہ سب اولاد کو برے طریقے سکھاتا ہے, 

❷ والدین اپنی سوچ بھی پاکیزہ رکھیں مطلب یہ کہ کسی کیلئے برا یا غلط سوچیں گے تو یہ اولاد کے اندر پیدا ہوجائیں گی, 
❸ اولاد ساتھ ہو تو خریداری کے وقت پیسوں کے معاملہ میں زیادہ بحث مباحثہ اور تلخ کلامی نہ کریں,

*اولاد کی تربیت قول وافکار والدین*

*✍🏻ابو محمداحقرامداداللّٰه عفی عنه حیدرآباد*

قسط نمبر3

❶ اولاد کو کسی بھی کام کے نقصان کی دھمکی یا بدعاء نہ دیں بلکہ خبر دیکر روکنے کی کوشش کریں,
مثلا: بیٹایہ کرنے سے یہ نقصان ہوتا ہے یہ نہ کرو یہ ہوجاتا ہے, یوں نہ کہیں کہ یہ ہوجائےگا یا یہ ہوگا تو پتا چلے گا,
جیسے بیٹا آگ سے ہاتھ جل جاتاہے,
 یوں نہ کہیں کہ ہاتھ جل جائےگا یا ہاتھ جلے گا تو پتا چلے گا,
بیٹا چھری سے نہ کھیلو ہاتھ کٹ جاتاہے,
یوں نہ کہیں کہ ہاتھ کٹ جائےگا یا ہاتھ کٹے گا تو پتا چلے گا,
❷ بچوں کو خصوصا چھوٹے بچوں کو پیار سے سمجھائیں کوسنے یا مار کی دھمکی یا کوئ بھی بات چلا کر یا مار کر نہ کہیں ورنہ یہ بچے کی عادت بن جائے گی پھر اس کے بغیر کام نہ چلے گا,




مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس