اتوار، 27 اکتوبر، 2019

علامہ البانی

(۱) ناصر الدین البانی صاحب بلا دِ عرب کے ایک مشہور غیرمقلد عالم دین گذرے ہیں، البانی صاحب سن ۱۳۳۳ ہجری مطابق ۱۹۱۶ عیسوی، یورپ کے مشہور ملک البانیا کے شہر اشکورڈا (Shkorda) میں پیدا ہوئے ہیں، بعد میں وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ البانیا سے ہجرت کرکے ملک شام آئے بچپن میں ابتدائی کتابیں بعض اساتذہ سے پڑھیں مگر انھوں نے باقاعدہ کسی بھی دینی مدرسہ یا کسی اسلامی یونیورسٹی سے فراغت حاصل نہیں کی اور بڑی بڑی کتابیں بھی کسی معتبر اور ثقہ عالم دین سے نہیں پڑھیں، بالخصوص علم حدیث اور اصول حدیث کی کتابیں، لیکن چونکہ نہایت ذہین تھے اور ان کی قوت حافظہ بہت مضبوط تھی اس وجہ سے انھوں نے اپنے مطالعہ سے سب کچھ پڑھا اورکتابیں لکھیں۔ (۲) البانی صاحب متشدد غیر مقلد تھے بلکہ غیرمقلدین کے امام تھے، غیرمقلدین اصول اربعہ یعنی: کتاب اللہ، سنت، اجماع امت اور قیاس میں سے اجماعِ امت اور قیاس کو نہیں مانتے ہیں،اور اہل السنة والجماعت ان چاروں اصولوں کو مانتے ہیں اوران کے نزدیک یہ چاروں اصول حجت شرعیہ ہیں، اہل السنة والجماعت کی حقیقت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ (۱) اتباع سنت (۲) اجماعت امت۔ اتباع سنت میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، حضرات خلفائے راشدین کی سنتوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے، کیونکہ خود سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: علیکم بسنتی وسنة الخفلفاء الراشدین المہدیین (مشکاة المصابیح ص۳۰) اہل السنة والجماعت کے صحیح مصداق وہی لوگ ہیں جو اتباع سنت اور اجماع امت کو مانتے ہیں، چنانچہ منہاج السنة میں علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فإن السنة تتضمن النص والجماعة تتضمن الإجماع، فأہل السنة والجماعة ہم المتبعون للنص والإجماع (منہاج السنة: ج۳ ص۲۷۲ مکتبہ الریاض الحدیثیة) ارواب اہل السنة والجماعت کے ماننے والے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے متبعین ہی میں منحصر ہیں، چنانچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ جو بہت بڑے حنفی فقیہ گذرے ہیں اور علامہ ابن عابدین شامی کے استاذ بھی ہیں وہ الدر المختار کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: فعلیکم معاشر الموٴمنین باتباع الفرقة الناجیة المسماة بأہل السنة والجماعة فإن نصرة اللہ وحفظہ وتوفیقہ في موافقتہم وخذلانہ وسخطہ ومقتہ في مخالفتہم وہذہ الطائفة الناجیة قد اجتمعت الیوم في مذاہب أربعة وہم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون رحمہم اللہ ومن کان خارجا عن ہذہ الأربعة في ہذا الزمان فہو من أہل البدعة والنار (حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار: ج۴ ص۱۵۳) لہٰذا البانی صاحب کا کوئی تعلق اہل السنة والجماعة سے نہیں ہے، بلکہ وہ غیرمقلدین کی طرح اہل السنة والجماعة سے خارج ہیں۔ (۳) احادیث کے تحقیق کے سلسلہ میں ا لبانی صاحب بہت متشدد تھے، بہت سی احادیث جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک حسن درجہ کی ہیں، البانی صاحب نے ان سب کو ضعیف قرار دیا ہے، اسی طرح بہت سی احادیث جن میں کچھ ضعف تھا مگر وہ سب قابل استدلال تھیں اور محدثین کرام نے ان سب کو احادیث صحیحہ کے ساتھ ملحق کیا تھا، البانی صاحب نے جمہور کی مخالفت کرتے ہوئے ان سب احادیث کو احادیث موضوعہ (گھڑی ہوئی احادیث) کے ساتھ ملحق کردیا۔ اور ان پر ایک کتاب لکھی ”سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة وآثارہا السیئة فی الأمة“ البانی صاحب نے عالم اسلام خصوصا بلاد عرب میں ایک ایسے فتنہ کی داغ بیل ڈالی جس کی بیخ کنی کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے، ان کی تحقیقات پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، ان پر تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”صحیح“ اور کسی دوسری کتاب میں اسی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ”منکر“ یا ”ضعیف“ مزید تفصیل کے لیے (۱) تناقضات الالبانی الواضحات، موٴلفہ حسن بن علی السقاف (۲) الالبانی شذوذہ وأخطاوٴہ، موٴلفہ حضرت محدث کبیر ابو المآثر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب کی طرف رجوع کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند *​شیخ البانی کے متعلق شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی رائے* سوال:نبی کریم کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں جتنی احادیث ہیں شیخ ناصر الدین البانی نے ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اسکا کیا جواب ہے؟ جواب: شیخ ناصرالدین البانی صاحب (اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے) تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں، چنانچہ انہوں نے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا، اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں بڑی شدو مد سے کہہ دیا کہ یہ ضعیف ہے، ناقابل اعتبار ہے، مجروح ہے، ساقط الاعتبار ہے، اور پانچ سال بعد وہی حدیث آئی، اس پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا تو کہا: کہ یہ بڑی پکی اور صحیح حدیث ہے.......... یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہا تھا، تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ المأۃ ہیں.......... بہرحال عالم ہیں، عالم کے لئے ثقل لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحین کی جو بے ادبی ہے اور انکے طریقہ تحقیق میں جو یک رخا پن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں، اس لئے ان کا کوئی اعتبار نہیں، حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند علماء کرام نے فرمایا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کسی آدمی کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ سلف کی تصحیح و تضعیف سے قطع نظر کر کے خود تصحیح و تضعیف کا حکم لگائے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے، یہاں تک حافظ ابن حجر جیسا شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف ہے بلکہ کہتا ہے کہ رجالہ رجال الصحیح، رجالہ ثقات یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اپنی طرف سے تصحیح کا حکم نہیں لگاتے، کہتے ہیں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے کہ تصحیح کا حکم لگاؤں آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ھذا عندی ضعیف اس کا جواب وہی جو پہلے ایک شعر بتایا تھا کہ یقولون ھذا عندنا غیر جائز ومن انتم حتی یکون لکم عند باقی حدیث من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ محدثین نے اسکوحسن قرار دیاہے، باقی حدیثوں کی اسناد بے شک ضعیف ہیں، لیکن ایک تو تعدد طرق و شواہد کی بناء پر، دوسرا تعامل امت کی بناء پر مؤید ہوکر قابل استدلال ہیں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ انعام الباری( جلد: 4، صفحہ: 346،347)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس