منگل، 14 مارچ، 2017

قضاء نمازیں پڑھنےکاطریقہ qazanmazen

سوال: ایک مسئلے کے متعلق بتائیں کہ بعض عورتیں کہتی ہیں  کسی خاص دن 2 دو رکعت نفل پڑهنے سے جتنی بهی نمازیں قضا ہو ئی ہیں وه سب ادا ہو جائینگی  کیا اس طرح نفل پڑهنے سے هماری تمام قضا نمازیں واقعی ادا ہو جائینگی  اس کا جواب درکار ہے ؟

جواب: یہ  بات درست نہیں  ہے کہ  2 رکعت نفل پڑهنے سے تمام قضاء نمازیں ادا هو جائینگی بلکه تمام قضاء نمازیں ادا کرنی هونگی اس کا پڑهنا واجب هے جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے هیں ان کی بات شریعت کے خلاف هے.
اور نه هی ایسی کوئی صحیح روایت موجود هے جس سے یه ثابت ہو جائے کہ  2 رکعت نفل پڑهنے سے تمام قضا نمازیں ادا هوجائی گی.

* فتاوی محمودیه ج1 *

* قضاء نماز پڑهنے کا طریقه *
=================

قضاء نمازوں کو پڑهنے کا طریقه وهی هے جو ادا نمازورں کا هے.
صرف نیت میں ” قضاء ” نماز کا خیال کرنا هوگا اگر قضاء نمازیں بہت زیاده هیں اور ان کی تعداد بهی معلوم نهیں هے تو اس کا بہتر طریقه یه هے که ایک تعداد اندازے سے مقر ر کرلیں مثلا:

کسی نے دو سال سے نمازیں قضاء کی هو ں یا جس عمر سے نماز فرض هوئی هے اندازے سے معلوم کرے که اتنے سالوں سے نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی  کی ہے .
پهر ہر وقتی نماز کے ساتھ  ایک یا جتنی ہو سکیں قضاء نمازیں بهی اس کے ساتھ  پڑهتے رہیں.

اور ہر  نماز کی قضاء کرتے وقت یه نیت کرلیں کہ اس وقت کی مثلا ظهر کی جتنی نمازیں آپ کے ذمه هیں ان میں سے پہلی قضاء پڑهتا پڑھتی هوں یعنی دل میں اراده کرے کہ ان قضاء نمازوں میں جو پہلی ہے  وه قضاء کر رہا ،کر رہی ہوں
اسی طرح دوباره جب قضاء پڑهیں تو پهر اس وقت کی قضاء نماز مثلا ، عصر ، فجر یا جو بهی هو وه کہ کر اس وقت کی جتنی نمازیں میرے ذمه هیں ان میں سے پہلی قضاء پڑه رهی هوں.
جتنی رکعتیں اصل ادا نماز کی هیں اتنی هی رکعتیں قضاء نماز کی پڑهنی ہیں .

فرض نماز کے علاوه  نماز وتر واجب هے اس کی بهی قضاء پڑهنی ضروری ہے .

سنتوں کی قضاء نهیں صرف نماز فجر کی سنتیں اسی دن میں اشراق کا وقت شروع هونے سے لے کر اسی دن کے زوال تک قضاء پڑه سکتے ہیں  اس دن میں زوال کے بعد وه بهینہیں  ہے .
قضاء نماز هر وقت ادا کرسکتے هیں صرف تین مکروه اوقات کے علاوه باقی جس دن جس وقت چاہیں ادا کرسکتے هیں.

1__ سورج طلوع هونے کے وقت.
2__ عین زوال کے وقت جب سورج بالکل اوپر ہو .
3__ سورج کے غروب ہو نے کے وقت .

* شرح التنویر: ج2 ص76،77 ،66 __ فتاوی عالمگیری: ج1 ص131 *
————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی الله عنه کی روایت هے که فرمایا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے:

( من نسی صلاته او نام عنها فکفارتها ان یصلیها اذا ذکرها )
صحیح مسلم: ج1 ص411 )

جو شخص نماز ادا کرنا بهول گیا یا سوگیا تو اس کا کفاره یہ ہے  که یاد آنےپر نماز قضا کرلے.

ایک روایت میں آپ صلی الله علیه وسلم کا یه ارشاد مروی هے.
( اذا رقد احدکم عن الصلوته او غفل عنها فلیصلها اذا ذکرها فان الله یقول ، اوقم الصلوته لذکری….. سوره طه 14 )

اگر تم میں سے کوئی آدمی سوگیا یا نماز ادا کرنا بهول گیا تو یاد آنے پر قضا کر لے کیونکه

الله تعالی کا فرمانہے  ” اور میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو “

لا کفارته لها الا ذلک واقم الصلاته لذکری ……. نهیں کفاره هے مگر یهی  پهر راوی نے دلیل کے طور پر آیت اقم الصلوته لذکری پڑهی.

( صحیح بخاری شریف ، باب من نسی صلوته فلیصل اذا ذکر ص84 نمبر 597 )
ابوداود شریف ، باب فی من نام عن صلوته او نسیها ص70نمبر 435 )
اس حدیث اور آیت سے معلوم هوا که فوت شده نماز پڑهنا فرض ہے …
 قضاء نماز کا فدیه موت کے بعد

ہر نماز کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ ہے صدقہٴ فطر کی مقدار غلہ یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دینا بھی صحیح ہے۔، اور وتر مستقل نماز ہے، اس لئے ہر دن کے چھ فدیے ہوئے، یہ فدیہ اگر کوئی شخص اپنے مال سے ادا کرے تو ٹھیک ہے، اور اگر مرحومہ کے ترکے میں سے ادا کرنا ہو تو اس کے لئے یہ شرط ہے کہ سب وارث بالغ اور حاضر ہوں اور وہ خوشی سے اس کی اجازت دے دیں۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ مرحوم یا مرحومہ نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہ کی ہو۔
اگر وصیت کی ہو تو اس کے تہائی ترکہ سے تو وارثوں کی رضامندی کے بغیر فدیہ ادا کیا جائے گا، اور تہائی مال سے زائد فدیہ ہو تو اس کے لئے وہی شرط ہے جو اُوپر لکھی گئی ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس