اتوار، 18 دسمبر، 2016

ولی ومہر کابیان بہشتی زیور

بہشتی زیور ولی, مہر کابیان

ولی کا بیان

لڑکی اور لڑکے کے نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اس کو ولی کہتے ہیں

مسئلہ1۔ لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا۔ وہ نہ ہو تو پردادا۔ اگر یہ لوگ کوئی نہ ہوں تو سگا بھائی۔ سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا بھائی یعنی باپ شریک بھائی پھر بھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا پھر بھتیجے کا پوتا یہ لوگ نہ ہوں تو سگا چچا پھر سوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا۔ یہ کوئی نہ ہوں تو باپ کا چچا ولی ہے۔ پھر اس کی اولاد۔ اگر باپ کا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑپوتے کوئی نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اس کے لڑکے پوتے پھر پڑپوتے وغیرہ۔ یہ کوئی نہ ہوں تب ماں ولی ہے پھر دادی پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو۔ پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں۔ پھر پھوپھی۔ پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ۔

مسئلہ2۔ نابالغ شخص کسی کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور کافر کسی مسلمان کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور مجنون پاگل بھی کسی کا ولی نہیں ہے۔

مسئلہ3۔ بالغ یعنی جوان عورت خود مختار ہے چاہے نکاح کرے چاہے نہ کرے۔ اور جس کے ساتھ جی چاہے کرے کوئی شخص اس پر زبردستی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ خود اپنا نکاح کسی سے کر لے تو نکاح ہو جائے گا۔ چاہے ولی کو خبر ہو چاہے نہ ہو۔ اور ولی چاہے خوش ہو یا ناخوش ہر طرح نکاح درست ہے۔ ہاں البتہ اگر اپنے میل میں نکاح نہیں کیا اپنے سے کم ذات والے سے نکاح کر لیا اور ولی خوش ہے فتوی اس پر ہے کہ نکاح درست نہ ہو گا۔ اور اگر نکاح تو اپنے میل ہی میں کیا لیکن جتنا مہر اس کے دادھیالی خاندان میں باندھا جاتا ہے جس کو شرع میں مہر مثل کہتے ہیں اس سے بہت کم پر نکاح کر لیا تو ان صورتوں میں نکاح تو ہو گیا لیکن اس کا ولی اس نکاح کو توڑوا سکتا ہے۔ مسلمان حاکم کے پاس فریاد کرے وہ نکاح توڑ دے۔ لیکن اس فریاد کا حق اس ولی کو ہے جس کا ذکر ماں سے پہلے آیا ہے۔ یعنی باپ سے لے کر دادا کے چچا کے بیٹوں پوتوں تک۔

مسئلہ4۔ کسی ولی نے جوان لڑکی کا نکاح بے اس سے پوچھے اور اجازت لیے کر دیا تو وہ نکاح اس کی جازت پر موقوف ہے۔ اگروہ لڑکی اجازت دے تو نکاح ہو گیا اور اگر وہ راضی نہ ہو اور اجازت نہ دے تو نہیں ہوا۔ اور اجازت کا طریقہ آگے آتا ہے۔

مسئلہ5۔ جوان کنواری لڑکی سے ولی نے کہا کہ میں تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کیے دیتا ہوں یا کر دیا ہے اس پر وہ چپ ہو رہی یا مسکرا دی یا رونے لگی تو بس ہی اجازت ہے۔ اب وہ ولی نکاح کر دے تو صحیح ہو جائے گا۔ یا کر چکا تھا تو صحیح ہو گیا۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب زبان سے کہے تب ہی اجازت سمجھی جائے۔ جو لوگ زبردستی کر کے زبان سے قبول کراتے ہیں برا کرتے ہیں۔

مسئلہ6۔ ولی نے اجازت لیتے وقت شوہر کا نام نہیں لیا نہ اس کو پہلے سے معلوم ہے تو ایسے وقت چپ رہنے سے رضا مندی ثابت نہ ہو گی اور اجازت نہ سمجھیں گے بلکہ نام و نشان بتلانا ضروری ہے جس سے لڑکی اتنا سمجھ جائے کہ یہ فلانا شخص ہے۔ اسی طرح اگر مہر نہیں بتلایا اور مہر مثل سے بہت کم پر نکاح پڑھ دیا تو بدون اجازت عورت کے نکاح نہ ہو گا۔ اس کے لیے قاعدہ کے موافق پھر اجازت لینی چاہیے۔

مسئلہ7۔ اگر وہ لڑکی کنواری نہیں ہے بلکہ ایک نکاح پہلے ہو چکا ہے یہ دوسرا نکاح ہے اس سے اس کے ولی نے اجازت لی اور پوچھا تو فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے کہنا چاہیے اگر اس نے زبان سے نہیں کہا فقط چپ رہنے کی وجہ سے ولی نے نکاح کر دیا تو نکاح موقوف رہا بعد میں اگر وہ زبان سے منظور کر لے تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر منظور نہ کرے تو نہیں ہوا۔

مسئلہ8۔ باپ کے ہوتے ہوئے چچا یا بھائی وغیرہ کسی اور ولی نے کنواری لڑکی سے اجازت مانگی تو اب فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے اجازت دے دے تب اجازت ہو گی۔ ہاں اگر باپ ہی نے ان کو اجازت لینے کے واسطے بھیجا ہو تو فقط چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو ولی سب سے مقدم ہو اور شرع سے اسی کو پوچھنے کا حق ہو۔ جب وہ خود یا اس کا بھیجا ہوا آدمی اجازت لے تب چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی۔

مسئلہ9۔ ولی نے بے پوچھے اور بے اجازت لیے نکاح کر دیا۔ پھر نکاح کے بعد خود ولی نے یا اس کے بھیجے ہوئے کسی آدمی نے آ کر خبر کر دی کہ تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کر دیا گیا۔ تو اس صورت میں بھی چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی اور نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر کسی نے خبر دی تو اگر وہ خبر دینے والا نیک معتبر آدمی ہے یا وہ شخص ہیں تب بھی چھپ رہنے سے نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر خبر دینے والا ایک شخص اور غیر معتبر ہے تو چپ رہنے سے نکاح صحیح نہ ہو گا بلکہ موقوف رہے گا۔ جب زبان سے اجازت دے دے یا کوئی اور ایسی بات پائی جائے جس سے اجازت سمجھ لی جائے تب نکاح صحیح ہو گا

مسئلہ11۔ یہی حکم لڑکے کا ہے کہ اگر جوان ہو تو اس پر زبردستی نہیں کرسکتے اور ولی بے اس کی اجازت کے نکاح نہیں کر سکتا اگر بے پوچھے نکاح کر دے گا تو اجازت پر موقوف رہے گا۔ اگر اجازت دے دی تو ہو گیا نہیں تو نہیں ہوا۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ لڑکے کے فقط چپ رہنے سے اجازت نہیں ہوتی۔ زبان سے کہنا اور بولنا چاہیے۔

مسئلہ12۔ اگر لڑکی یا لڑکا نابالغ ہو تو وہ خود مختار نہیں ہے۔ بغیر ولی کے اس کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر اس نے بے ولی کے اپنا نکاح کر لیا یا کسی اور نے کر دیا تو ولی کہ اجازت پر موقوف ہے اگر ولی اجازت دے گا تو نکاح ہو گا نہیں تو نہ ہو گا۔ اور ولی کو اس کے نکاح کرنے نہ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ جس سے چاہے کر دے۔ نابالغ لڑکی اور لڑکے اس نکاح کو اس وقت رد نہیں کر سکتے چاہے وہ نابالغ لڑکی کنواری ہو یا پہلے کوئی اور نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی بھی ہو چکی ہو۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ13۔ نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح اگر باپ نے یا دادا نے کیا ہے تو جوان ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کر سکتے۔ چاہے اپنے میل میں کیا ہو یا بے میل کم ذات والے سے کر دیا ہو۔ اور چاہے مہر مثل پر نکاح کیا ہو یا اس سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہو ہر طرح نکاح صحیح ہے اور جوان ہونے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

مسئلہ14۔ اور اگر باپ دادا کے سوا کسی اور ولی نے نکاح کیا ہے اور جس کے ساتھ نکاح کیا ہے وہ لڑکا ذات میں برابر درجہ کا بھی ہے اور مہر بھی مہر مثل مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں اس وقت تو نکاح صحیح ہو جائے گا لیکن جوان ہونے کے بعد ان کو اختیار ہے چاہے اس نکاح کو باقی رکھیں چاہے مسلمان حاکم کے پاس نالش کر کے توڑ ڈالیں اور اگر اس ولی نے لڑکی کا نکاح کم ذات والے مرد سے کر دیا۔ یا مہر مثل سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہے یا لڑکے کا نکاح جس عورت سے کیا ہے اس کا مہر اس عورت کر مہر مثل سے بہت زیادہ مقرر کر دیا تو وہ نکاح نہیں ہوا

نوٹ۔ مسئلہ نمبر15،و نمبر 16ص 53 پر درج کئے گئے۔

مسئلہ17۔ قاعدے سے جس ولی کو نابالغہ کے نکاح کرنے کا حق ہے وہ پردیس میں ہے اور اتنی دور ہے کہ اگر اس کا انتظار کریں اور اس سے مشورہ لیں تو یہ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پیغام دینے والا اتنا انتظار نہ کرے گا اور پھر ایسی جگہ مشکل سے ملے گی۔ تو ایسی صورت میں اس کے بعد والا ولی بھی نکاح کر سکتا ہے۔ اگر اس نے بے اس کے پوچھے نکاح کر دیا تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر اتنی دور نہ ہو تو بغیر اس کی رائے لیے دوسرے ولی کو نکاح نہ کرنا چاہیے۔ اگر کرے گا تو اسی ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا جب وہ اجازت دے گا تب صحیح ہو گا۔

مسئلہ18۔ اسی طرح اگر حقدار ولی کے ہوتے دوسرے ولی نے نابالغ کا نکاح کر دیا جیسے حق تو تھا باپ کا اور نکاح کر دیا دادا نے اور باپ سے بالکل رائے نہیں لی تو وہ نکاح باپ کی اجازت پر موقوف رہے گا یا حق تو تھا بھائی کا اور نکاح کر دیا چچا نے بھائی کی اجازت پر موقوف ہے۔

مسئلہ19۔ کوئی عورت پاگل ہو گئی اور عقل جاتی رہی اور اس کا جو اب لڑکا بھی موجود ہے اور باپ بھی ہے۔ اس کا نکاح کرنا اگر منظور ہو تو اس کا ولی لڑا ہے کیونکہ ولی ہونے میں لڑکا باپ سے بھی مقدم ہے۔

مہر کا بیان

مسئلہ1۔ نکاح میں چاہے مہر کا کچھ ذکر کرے چاہے نہ کرے ہر حال میں نکاح ہو جائے گا۔ لیکن مہر دینا پڑے گا بلکہ اگر کوئی یہ شرط کر لے کہ ہم مہر نہ دیں گے بے مہر کا نکاح کرتے ہیں تب بھی مہر دینا پڑے گا۔

مسئلہ2۔ کم سے کم مہر کی مقدار تخمینا پونے تین روپے بھر چاندی ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں چاہے جتنا مقرر کرے لیکن مہر کا بہت بڑھانا اچھا نہیں۔ سو اگر کسی نے فقط ایک روپیہ بھر چاندی یا ایک روپیہ یا ایک اٹھنی مہر مقرر کر کے نکاح کیا تب بھی پونے تین روپے بھر چاندی دینی پڑے گی شریعت میں اس سے کم مہر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس کا آدھا دے۔

مسئلہ7۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ کتنا ہے یا اس شرط پر نکاح کیا کہ بغیر مہر کے نکاح کرتا ہوں کچھ مہر نہ دوں گا۔ پھر دونوں میں سے کوئی مر گیا یا ویسی تنہائی و یکجائی ہو گئی جو شرع میں معتبر ہے تب بھی مہر دلایا جائے گا اور اس صورت میں مہر مثل دینا ہو گا۔ اور اگر اس صورت میں ویسی تنہائی سے پہلے مرد نے طلاق دے دی تو مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ فقط ایک جوڑا کپڑا پائے گی اور یہ جوڑا دینا مرد پر واجب ہے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔

مسئلہ8۔ جوڑے میں فقط چار کپڑے مرد پر واجب ہیں ایک کرتہ ایک سربند یعنی اوڑھنی ایک پائجامہ یا ساڑھی جس چیز کا دستور ہے۔ ایک بڑی چادر جس میں سر سے پیر تک لپٹ سکے اس کے سوا اور کوئی کپڑا واجب نہیں۔

مسئلہ9۔ مرد کی جیسی حیثیت ہو ویسے کپڑے دینا چاہیے۔ اگر معمولی غریب آدمی ہو تو سوتی کپڑے اور اگر بہت غریب آدمی نہیں لیکن بہت امیر بھی نہیں تو ٹسرکے۔ اور جو بہت امیر کبیر ہو تو عمدہ ریشمی کپڑے دینا چاہیے لیکن بہرحال اس میں یہ خیال رہے کہ اس جوڑے کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے نہ بڑھے اور ایک روپیہ چھ آنے یعنی ایک روپیہ اور ایک چونی اور ایک دونی بھر چاندی کے جتنے دام ہوں اس سے کم قیمت بھی نہ ہو۔ یعنی بہت قیمتی کپڑے جن کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے بڑھ جائے مرد پر واجب نہیں۔ یوں اپنی خوشی سے اگر وہ بہت قیمتی اس سے زیادہ بڑھیا کپڑے دے دے تو اور بات ہے۔

مسئلہ10۔ نکاح کے وقت تو کچھ مہر مقرر نہیں کیا گیا لیکن نکاح کے بعد میاں بی بی دونوں نے اپنی خوشی سے کچھ مقرر کر لیا تو اب مہر مثل نہ دلایا جائے گا بلکہ دونوں نے اپنی خوشی سے جتنا مقرر کر لیا ہے وہی دلایا جائے گا۔ البتہ اگر ویسی تنہائی و یکجائی ہونے سے پہلے ہی طلاق مل گئی تو اس صورت میں مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہی جوڑا کپڑا ملے گا جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

مسئلہ11۔ سو روپے یا ہزار روپے اپنی حیثیت کے موافق مہر مقرر کیا۔ پھر شوہر نے اپنی خوشی سے کچھ مہر اور بڑھا دیا اور کہا کہ ہم سو روپے کی جگہ ڈیڑھ سو دے دیں گے تو جتنے روپے زیادہ دینے کو کہے اس میں وہ بھی واجب ہو گئے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔ اور اگر ویسی تنہائی و یکجائی سے پہلے طلاق ہو گئی تو جس قدر اصل مہر تھا اسی کا آدھا دیا جائے گا جتنا بعد میں بڑھایا تھا اس کو شمار نہ کریں گے۔ اسی طرح عورت نے اپنی خوشی و رضامندی سے اگر کچھ مہر معاف کر دیا تو جتنا معاف کیا ہے اتنا معاف ہو گیا۔ اور اگر پورا معاف کر دیا تو پورا مہر معاف ہو گیا۔ اب اس کے پانے کی مستحق نہیں ہے۔

مسئلہ12۔ اگر شوہر نے کچھ دباؤ ڈال کر دھمکا کر دق کر کے معاف کر لیا تو اس معاف کرانے سے معاف نہیں ہوا۔ اب بھی اس کے ذمہ ادا کرنا واجب ہے۔

مسئلہ13۔ مہر میں روپیہ پیسہ سونا چاندی کچھ مقرر نہیں کیا بلکہ کوئی گاؤں یا کوئی باغ یا کچھ زمین مقرر ہوئی تو یہ بھی درست ہے۔ جو باغ وغیرہ مقرر کیا ہے وہی دینا پڑے گا۔

مسئلہ14۔ مہر میں کوئی گھوڑا یا ہاتھی یا اور کوئی جانور مقرر کیا لیکن یہ مقرر نہیں کیا کہ فلانا گھوڑا دوں گا یہ بھی درست ہے۔ ایک منجھولا گھوڑا جو نہ بہت بڑھیا ہو نہ بہت گھٹیا دینا چاہیے یا اس کی قیمت دے دے۔ البتہ اگر فقط اتنا ہی کہا کہ ایک جانور دے دوں گا۔ اور یہ نہیں بتلایا کہ کون سا جانور دوں گا تو یہ مہر مقرر کرنا صحیح نہیں ہوا۔ مہر مثل دینا پڑے گا۔

مسئلہ17۔ جہاں کہیں پہلی ہی رات کو سب مہر دے دینے کا دستور ہو وہاں اول ہی رات سارا مہر لے لینے کا عورت کو اختیار ہے۔ اگر اول رات نہ مانگا تو جب مانگے تب مرد کو دینا واجب ہے دیر نہ کر سکتا۔

مسئلہ18۔ ہندوستان میں دستور ہے کہ مہر کا لین دین طلاق کے بعد مر جانے کے بعد ہوتا ہے کہ جب طلاق مل جاتی ہے تب مہر کا دعوی کرتی ہے یا مرد مر گیا اور کچھ مال چھوڑ گیا تو اس مال میں سے لے لیتی ہے۔ اور اگر عورت مر گئی تو اس کے وارث مہر کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اور جب تک میاں بی بی ساتھ رہتے ہیں تب تک نہ کوئی دیتا ہے نہ وہ مانگتی ہے تو ایسی جگہ اس دستور کی وجہ سے طلاق ملنے سے پہلے مہر کا دعوی نہیں کر سکتی۔ البتہ پہلی رات کو جتنے مہر کے پیشگی دینے کا دستور ہے اتنا مہر پہلے دینا واجب ہے ہاں اگر کسی قوم میں یہ دستور نہ ہو تو اس کا یہ حکم نہ ہو گا

مسئلہ20۔ مہر کی نیت سے شوہر نے کچھ دیا تو جتنا دیا ہے اتنا مہر ادا ہو گیا۔ دیتے وقت عورت سے یہ بتلانا ضروری نہیں ہے کہ میں مہر دے رہا ہوں۔

مسئلہ21۔ مرد نے کچھ دیا لیکن عورت تو کہتی ہے کہ یہ چیز تم نے مجھ کو یوں ہی دی۔ مہر میں نہیں دی اور مرد کہتا ہے کہ یہ میں نے مہر میں دیا ہے تو مرد ہی کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگر کھانے پینے کی کوئی چیز تھی تو اس کو مہر میں نہ سمجھیں گے اور مرد کی اس بات کا اعتبار نہ کریں گے۔

مہر مثل کا بیان

مسئلہ1۔ خاندانی مہر یعنی مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے باپ کے گھرانے میں سے کوئی دوسری عورت دیکھو جو اس کے مثل ہو یعنی اگر یہ کم عمر ہے تو وہ بھی نکاح کے وقت کم عمر ہو۔ اگر یہ خوبصورت ہے تو وہ بھی خوبصورت ہو۔ اس کا نکاح کنوارے پن میں ہوا اور اس کا نکاح بھی کنوارے پن میں ہوا ہو۔ نکاح کے وقت جتنی مالدار یہ ہے اتنی ہی وہ بھی تھی۔ جس کی یہ رہنے والی ہے اسی دیس کی وہ بھی ہے۔ اگر یہ دیندار ہوشیار سلیقہ دار پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہو۔ غرض جس وقت اس کا نکاح ہوا ہے اس وقت ان باتوں میں وہ بھی اسی کے مثل تھی جس کا اب نکاح ہوا۔ تو جو مہر اس کا مقرر ہوا تھا وہی اس کا مہر مثل ہے۔

مسئلہ2۔ باپ کے گھرانے کی عورتوں سے مراد جیسے اس کی بہن پھوپھی۔ چچا زاد بہن وغیرہ یعنی اس کی دادھیالی لڑکیاں۔ مہر مثل کے دیکھنے میں ماں کا مہر نہ دیکھیں گے ہاں اگر ماں بھی باپ ہی کے گھرانے میں سے ہو جیسے باپ نے اپنے چچا کی لڑکی سے نکاح کر لیا تھا تو اس کا مہر بھی مہر مثل کہا جائے گا

برصغیر میں حدیث وعلم حدیث



برصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیث اورعلمائے اہلحدیث کی مساعی



بسلسلہ حدیث حضرت شاہ صاحب کی خدمات:
خدمت حدیث میں حضرت شاہ صاحب کی گرانقدر علمی خدمات ہیں اور آپ نے اس سلسلہ میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے، بعد کے علمائے کرام نے آپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور آپ کی علمی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔

مولانا سید عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شیخ اجلّ، محدث کامل، حکیم الاسلام اور فن حدیث کے زعیم حضرت شاہ ولی اللہ فاروقی دہلوی بن شاہ عبدالرحیم (م1176ھ) کی ذات گرامی سامنے آتی ہے۔ آپ حجاز تشریف لے گئے اور فن حدیث میں شیخ ابوطاہر کردی مدنی اور اس وقت کے دوسرے ائمہ حدیث کی شاگردی اختیار کی۔ آپ ہندوستان واپس تشریف لائے اور اپنی ساری کوشش اس علم کی نشرواشاعت میں صرف فرمائی۔ آپ نے درس حدیث کی مسند بچھائی۔ آپ کے درس سے بہت فائدہ پہنچا او ربہت سے لوگ فن حدیث میں کامل ہوکر نکلے۔ اس فن پر اپنے کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ آپ کے علم سےبے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا او رآپ کی کامیاب کوششوں سے بدعات کا خاتمہ ہوا۔ مسائل فقہیہ کی صحت کا فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں فرماتے تھے اور فقہاء کرام کےاقوال کی تطبیق کتاب و سنت سے کرتے تھے اور صرف انہی اقوال کو قبول فرماتے تھے کہ جن کوکتاب و سنت سے موافق پاتے تھے۔ او رجن مسائل فقہیہ کو کتاب وسنت کے موافق نہیں پاتے تھے اُن کو رد فرماتے تھے، خواہ وہ کسی امام کا قول ہو۔''1

مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے پیشتر اس مک میں علم حدیث کی بنیاد تو پڑ چکی تھی او رحدیث نبویؐ پر عمل کرنے میں ان کے رستے میں کسی معین مذہب کی رکاوٹ ہرگز نہ تھی او راسی کا نام ترک تقلید ہے جس پر اہلحدیث سے نزاع کی جاتی ہے۔''

قدرت نے عمل بالسنة کی تجدید کا حصہ آپ ہی کے لیے رکھا تھا ، چنانچہ آپ نے نہایت حکیمانہ طرز سے اپنی تصانیف میں تقلید و عمل بالحدیث کی بحثیں لکھیں۔ ''حجة اللہ'' میں کئی ایک ابواب نیز ''الانصاف'' و ''عقد الجید'' خاص کتابیں اس امر کے لیے تحریر کیں۔ نیز مؤطا امام مالک کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا جو کتب حدیث کی ماں کہلانے کی مستحق ہے جس سے لوگوں میں علم و عمل ہر دو کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس میں جابجا محدثین کی تعریف ہے او ران کے مذہب کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ مصفّٰے شرح مؤطا کے دیباچہ میں فرماتے ہیں:
''بائد دانست کہ سلف در استنباط مسائل فتاویٰ ہر دو وجہ بودند، یکے آنکہ قرآن و حدیث و آثار صحابہ جمع ہے کردنداز آنجا استنباط مینمودند و ایں طریقہ اصل راہ محدثین است دیگر آنکہ قواعد کلیہ کہ جمع ازائمہ تنقیح و تہذیب آں کردہ اند یاد گیرند بےملاحظہ آنہا پس ہر مسئلہ کہ داردمی شد جواب اں از قواعد طلب می کردند و ایں طریقہ اصل راہ فقہاء امت''2

آپ کی تصانیف سے ہندوستان کی علمی دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگیا اور قرآن و حدیث سےناواقفی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں جو یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ قرآن و حدیث کا علم نہایت مشکل ہے او ران کو سوائے مجتہد کے کوئی سمجھ نہیں سکتا اور زمانہ اجتہاد .......؟؟سے ختم ہوچکا ہے۔ یہ بات حضرت شاہ صاحب کے تراجم اور علم قرآن و حدیث کی تشویق و ترغیب کے سبب ذہنوں سے جاتی رہی او رلوگ شوق سے قرآن و حدیث کے سیکھنے میں لگ گئے او راس سے عمل بالحدیث کی بنیاد پڑگئی۔3

مولانا ابویحییٰ امام خاں نوشہروی (م1385ھ) لکھتے ہیں:
''جناب حجة اللہ شاہ ولی اللہ نے حدیث کی اوّل الکتب مؤطا امام مالک کی دو شرحیں (عربی و فارسی)بنام المسوّٰے او رالمصفّٰی لکھیں اور تقلیدی بندہنوں سےبالکل بےنیاز رہ کر اس مجتہدانہ شان کے ساتھ کہ 12 ویں صدی کے مجدّد کا فرض تھا ان دونوں کا (گویا) ضمیمہ ''الإنصاف في بیان سبب الاختلاف'' کے نام سے لکھا۔ تکملہ ''عقد الجید في أحکام الاجتهاد والتقلید'' سے کیا اور تتمہ ''حجة اللہ البالغہ '' جیسی غیر مسبوق کتاب سے، جیسا کہ خاتم المحدثین نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
''درفن خود غیر مسبوق الیہ واقع شدہ مثل آن دریں 12 صد سال ہجرت از ہیچ یکے علمائے عرب و عجم تصنیفے بوجود نیامدہ ومن جملہ تصانیف مولفش مرضی بودہ است وفی الواقع بیش ازاں است کہ وصفش تواں نوشت ''(اتحاف النبلاء ص71)4

حدیث و متعلقات حدیث پر آپ کی تصانیف یہ ہیں:
1۔ المسویٰ في أحادیث الموطأ (عربی) مؤطا امام مالک کی شرح
2۔ المصفّٰی في شرح الموطأ (فارقی) مؤطا امام مالک کی شرح
3۔ تراجم ابواب بخاری (عربی) صحیح بخاری کے ترجمة الباب کی شرح
4۔ مسلسلات (عربی) علم اسناد حدیث میں
5۔ الإرشاد إلیٰ مهمات الإسناد
6۔ چہل حدیث (''أربعون حدیثاً مسلسلة بالأشراف في غالب سندها'' ( عربی)

وفات:
جناب حجة اللہ نے 63 سال کی عمر میں 1176ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م1239ھ)
آپ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ 1159ھ؍1746ء میں پیدا ہوئے، آپ کا تاریخی نام غلام حلیم 1159ھ ہے۔ 15 سال کی عمر میں جملہ علوم و فنون یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، صرف، نحو، منطق، کلام، عقائد، ہندسہ، ہیئت اور ریاضی میں مہارت تامہ حاصل کرلی۔5

آپ کی عمر 17 سال کی تھی جب حضرت شاہ ولی اللہ نے داعی اجل کو لبیک کہا، چونکہ آپ تمام بھائیوں سے عمر کے ساتھ ساتھ علم میں بھی ممتاز و مشرف تھے۔اس لیے حضرت شاہ واحب کی مسند تحدیث و خلافت بھی آپ کو تفویض ہوئی۔6

اپنے والد بزرگوار کی جانشینی کا حق پوری طرح ادا کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ نے جو علم حدیث ہندوستان میں رائج کیا تھا اس کی 60 سال تک آبیاری کی۔ آپ کے درس سے وہ حضرات فیضیاب ہوئے جو خود آگے چل کر مسند تحدیث کے مالک بنے، مثلاً
شاہ رفیع الدین محدث دہلوی (م1233ھ)شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1230ھ) شاہ عبدالغنی محدث دہلوی (م1227ھ) شاہ اسماعیل الشہید دہلوی (م1246ھ) شاہ مخصوص اللہ دہلوی (م1273ھ) حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق (م1262ھ) مولانا شاہ عبدالحئ بڈھانوی (م1243ھ) مولانا شاہ محمد یعقوب مہاجر مکی (م1287ھ) السید احمد شہید بریلوی (م1246ھ) مفتی الٰہی بخش کاندھلوی (م1245ھ) مفتی صدر الدین آزراہ دہلوی (م1285ھ) مولانا فضل حق خیر آبادی (م1278ھ) مولانا رشید الدین دہلوی (م1249ھ) مولانا خرم علی بلہوری (م1260ھ) مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی (م1313ھ) مولانا حسن علی لکھنوی(1262ھ) مولانا شاہ غلام علی دہلوی (م1240ھ) مولانا شاہ احمد سعید مجددی (م1277ھ) مولانا حسین احمد ملیح آبادی (1277ھ) مولانا سید حیدر علی (م1277ھ)

آپ کی علمی قابلیت :
آپ کی علمی قابلیت اور دینی تبحر کا اعتراف بعد کے علمائے کرام نے کیا ہے او رآپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔

مولانا رحیم بخش دہلوی لکھتےہیں:
''جناب شاہ عبدالعزیز اپنے وقت کے نہایت زبردست عالم تھے۔اس زمانہ کے تمام علماء و مشائخ آپ کی طرف رجوع تھے او ربڑے بڑے فضلاء آپ کی خدمت تلمذ پر بے حد فخر کیا کرتے تھے۔ آپ نے علوم متداولہ وغیرہ میں وہ ملکہ پایا تھا جو بیان میں نہیں آسکتا۔کثرت حفظ، علم تعبیر رؤیا، سلیقہ وعظ، انشأپردازی، تحقیق نفائس علوم میں تمام ہمعصروں میں امتیازی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے اور مخالفین اسلام کو ایسی سنجیدگی سے جواب دیتے کہ وہ ہونٹ چاٹتے رہ جاتے۔''7

علم حدیث کے سلسلہ میں آپ کی گرانقدر خدمات:
علم حدیث کی اشاعت و ترویج کےسلسلہ میں جو آپ نے گرانقدر علمی خدمات سرانجام دی ہیں۔ علمائے کرام نے اس کوبھی بنظر استحسان دیکھا ہے۔

مولانا رحیم بخش دہلوی لکھتے ہیں:
''درحقیقت عمل بالحدیث کا بیج ہندوستان کی بنجر او رناقابل زمین میں آپ کے والد بزرگوار جناب شاہ ولی اللہ نے بویا اور آپ نے اسے پانی دیتے دیتے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ اس سے ایک نہایت خوشنما اور نونہال پودا پھوٹا جو چند روز میں سرسبز و شاداب ہوکر لہلہانے لگا او رپھر تھوڑے ہی عرصہ میں دور دور کے لوگ اس کے پھل و پھول سے گودیاں لبریز کرکے جانےلگے۔''8

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''آپ کا خاندان علوم حدیث اورفقہ حنفی کا ہے۔ علم حدیث کی جو خدمت ملک ہند میں اس خاندان نے کی ہے کسی او رنے نہیں کی۔ سرزمین ہند میں عمل بالحدیث کا بیج حقیقت میں آپ کے والد بزرگوار نے بویا تھا اور آپ نے برگ و بار بخشا، ورنہ بلاد ہند میں کوئی شخص علاوہ فقہ حنفی کے علم حدیث سے تمسک نہیں کرتا تھا۔''9

مولانا سیّد عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شاہ ولی اللہ کے صاحبزدگان یعنی شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر ، شاہ رفیع الدین او ران کے پوتے شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبدالعسیز کے داماد شاہ عبدالحئ بڈھانوی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں علم حدیث کی نشرواشاعت او راس کی خدمت میں پورا حصہ لیا۔ انہوں نے فن حدیث کو تمام دورے علوم پر واضح طور پر فوقیت و فضیلت دی اور ان کا علم حدیث اہل روایت کے مطابق تھا جس کو کوئی شبہ ہو، وہ ان بزرگوں کے حالات و تصنیفات سے اس کی تصدیق کرسکتا ہے۔ جب تک ہندوستان میں مسلمان موجود ہیں۔ اس وقت تک ان بزرگان کرام کا شکر مسلمانوں پر واجب ہے اور انہوں نے فن حدیث کی خدمت و اشاعت کرکے امت مسلمہ پر جو احسان کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔''10

حضرت شاہ صاحب کی تحریری خدمت:
تحریری طور پر بھی حضرت شاہ صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور آپ کی تصنیفات آپ کے وسعت علم و کمال کی دلیل ہیں۔

تفسیر فتح العزیز، تحفہ اثنا عشریہ، عجالہ نافعہ او ربستان المحدثین آپ کی بہترین علمی تصانیف ہیں۔بستان المحدثین گو فن تاریخ میں ہے مگر اس کا تعلق حدیث سے بھی ہے، اس کتاب میں آپ نے تمام کتب حدیث او ران کے مصنفین و مؤلفین کے تاریخی حالات بسط و شرح کے ساتھ لکھے ہیں۔ بارہویں صدی کے بعد سلف کی یادگار میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب اسی سے اخذ کی گئی ہیں۔11

اور حضرت شاہ صاحب نے اس کتاب کی تالیف کا یہ سبب بیان کیا ہے:
''حمد و صلوٰة کے بعد یہ عرض ہے کہ اس رسالہ کا نام بستان المحدثین ہے۔ چونکہ اکثر رسالوں اور تصنیفوں میں ایسی کتابوں سے حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جن پر اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے سننے والوں کو حیرانی پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے اصل مقصود تو ان ہی کتابون کا ذکر ہے مگر تبعاً ان کےمصنفین کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ کیونکہ مصنف سے اس کی تصنیف کی قدر معلوم ہوتی ہے۔نیز ہمارا مقصود فقط متون کا ذکر ہے۔مگر بعض شرحوں کا بھی اس وجہ سے ذکر کیا جائے گا کہ کثر تشہرت اور کثرت نقل او رزیادتی اعتماد کی وجہ سے انکو متون کا حکم دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو خطأ و لغزش سے محفوظ رکھنے کے ساتھ پھسلنے کے مقامات سے بچا کر ثابت قدم رکھے۔ ہم کو دنیا و آخرت میں ہر امر کی اسی سے امید ہے اور فقط اسی پر اعتماد اور بھروسہ ہے''12

نیز المسوٰی فی احادیث المؤطا (عربی) از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر تعلیقات بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ کتاب مکہ معظمہ سے طبع ہوچکی ہے۔13

وفات :
7۔ شوال1239ھ کو دہلی میں انتقال کیا او راپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1243ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند 1167ھ میں پیدا ہوئے۔ حرنت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز سے تعلیم حاصل کی او رعلم تفسیر، حدیث، فقہ میں نام پیدا کیا۔ساری عمر مسجد کے حجرے میں بسر کی مگر اس کے ساتھ ساتھ توحید و سنت میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ قرآن مجید کا بامحاورہ ترجمہآپ کی یادگار ہے او ریہ ترجمہ اتنا اہم ہے کہ بقول مولانا رحیم بخش دہلوی: ''اگر اردو زبان میں قرآن مجید نازل ہوتا تو انہیں محاورات کے لباس میں آراستہ ہوتا جن کی رعایت مولانا شاہ عبدالقادر محدث نے اس ترجمہ میں پیش نظر رکھی ہے۔''14
حوالہ جات
1. اسلام علوم و فنون ہندوستان میں ، ص199
2. مصفّٰی شرح مؤطا، ص4
3. تاریخ اہلحدیث، ص406
4. ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص14
5. حیات ولی، ص589
6. تراجم علمائے حدیث ہند، ص49
7. حیات ولی ، ص594
8. حیات ولی، ص595
9. تاریخ| اہلحدیث، ص410
10. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ، ص200
11. حیات ولی ، ص619
12. بستان المحدثین اردو ، ص12
13. تراجم علمائے حدیث ہند، ص61
14. حیات ولی، ص641

جمعرات، 3 نومبر، 2016

مسبوق کاطریقہ نماز masbooq ka tareqa namaz

                         مسبوق چھوٹی ہوئ رکعتیں کس طرح ادا کرے


                                                                                *پہلی صورت*

 اگر پہلی رکعت چھوٹی تو امام کے سلام پھیرنے پر کھڑا ہو اور ثناء, سورةفاتحہ اور سورة پڑھے باقی نماز پوری کرے,

*

                                                                                   دوسری صورت 

اگر پہلی اور دوسری رکعت چھوٹی ہے توامام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکرپہلی رکعت میں ثناء, فاتحہ, سورة پڑھے اور رکعت پوری کرکے بیٹھے نہیں کھڑے ہوجائے دوسری رکعت میں فاتحہ, وسورة پڑھے اور پھر بقیہ نماز پوری کرے.

                                                                                    *تیسری صورت* 

اگر تین رکعتیں چھوٹ گئیں اور صرف چوتھی رکعت ملی یہ ذرا توجہ طلب ہے کیونکہ اسکی ادائیگی ذرا مختلف ہے اور اس میں غلطی ہوتی ہے,

اسے اس طرح ادا کریں کہ جب امام سلام پھیر دے توکھڑے ہوجائیں اور ثناء, فاتحہ, اورسورة پڑھیں اور یہ رکعت پوری کرکے بیٹھ جائیں اور قعدہ اولی(التحیات)کریں اور پھر 

*اشہدان لااله الاالله واشہدان محمداعبده ورسوله* 

پڑھ کر کھڑے ہوں پھرسورةفاتحہ, وسورة پڑھیں رکعت پوری کرکے کھڑےہوں پھر صرف فاتحہ پڑھ کر بقیہ نماز پوری کریں,

اگر مغرب کی نماز میں آخری رکعت ملی تو اسے بھی اسی طرح کہ کھڑے ہوکر ثناء, فاتحہ, سورة پڑھیں اور رکعت پوری کرکے قعدہ کریں پھر کھڑے ہوکر فاتحہ, وسورة پڑھیں پھرقعدہ آخیرہ کریں اورنمازمکمل کرلیں مغرب نماز میں ایک رکعت ملنے یانکلنے کی صورة میں ہررکعت کے بعد قعدہ ہوگا.


                                                                                چوتھی صورت  

چاروں رکعتیں نکل گئیں صرف التحیات ملی تو جس طرح نمازشروع سے پڑھتے ہیں اسی طرح پڑھیں البتہ جماعت کا ثواب ملے گا


                                                                         کتبہ:احقرامداداللہ عفی عنہ

 

پیر، 8 اگست، 2016

رب اور اسکابندہ

رب اور اسکابندہ

Imdadullahshaikh
أبو يعلى عن الحسن عن أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه عزَّ وجلّ قال: ((أربع خصال، واحدة منهن لي، وواحدة لك، وواحدة فيما بيني وبينك، وواحدة فيما بينك وبين عبادي.
❶ فأما التي لي: فتعبدني لا تشرك بي شيئًا.
❷ وأما التي لك عليَّ: فما عملت من خير جزيتك به.
❸ وأما التي بيني وبينك: فمنك الدعاء وعليَّ الإِجابة.
❹ وأما التي بينك وبين عبادي: فارض لهم ما ترضى لنفسك)).

آپﷺ نے اللّٰه تعالی کایہ فرمایان ارشاد فرمایا کہ اللّٰه فرماتے ہیں چار عادتیں ہیں ایک میرے لئےہے, ایک تیرے لئے ہے, ایک میرے اورتیرے درمیان ہے, اور ایک تیرے اورمیرےبندہ کےدرمیان ہے,
❶ جومیرےلئے ہے وہ یہ کہ تومیری ہی عبادت کر,
❷ جوتیرے لئے ہےوہ یہ کہ تیرے نیک عمل پرمیں جزادوں,
❸ جومیرے تیرے درمیان ہے وہ یہ کہ تودعاء مانگے میں قبول کروں,
❹ جومیرےبندےاور تیرے درمیان ہےوہ یہ کہ اسکے لئے وہی پسند کرجوتواپنےلئے کرے.

ریاض الصالحین کتاب الدعوات باب فضل الدعاء

توحید ورسالت

اللّٰه ربی لآاشرک به شیئاذاتاوصفاتا۞
محمدﷺ نبیی ھوبشرسیدالبشرلیس له صفات اللّٰه ولیس ھو نور۞
الاسلام دینی لیس مثله دین۞
العلماء ورثة الانبیاء۞

ملک کی بنیاد میں علمائے حق کاخون ہے


ملک کی بنیاد میں علمائے حق کاخون ہے


 ملکِ(1)اسلامی کے قلعہ میں ہرایک مامون ہے
ملک کابدخواہ توسودائ ہے مجنون ہے
ملک کادشمن جوہے بدبخت ہے ملعون ہے
ملک کی مٹی میرے اسلاف کی مرہون ہے
           ملک کی بنیاد میں علمائے حق کاخون ہے

 کون ہےجومرمٹااس دولت ایمان پر
کون ہےجوکھیل بیٹھاخود اپنی ہی جان پر
کس نے واری اپنی ہستی ارض پاکستان پر
پوچھئے اس سے جواس کی خاک میں مدفون ہے
         
 ملک کی بنیاد میں علمائے حق کاخون ہے

آج تک شاہد ہیں اس کے اےاثراہل جہاں
واقعی آزادئ مسلم کاتھا روح رواں
حضرتِ اشرف علی کا کارواں
بانی(2) پاکستان کاخود آپ کاممنون ہے
         
 ملک کی بنیاد میں علمائے حق کاخون ہے

کب ہےپوشیدہ کسی سے سعئ مولانا ظفر(3)
کس سے مخفی ہے شفیعِؒ (4)وقت کا سحر واثر
کون ہے شبیرعثمانیؒ (5)سے جگ میں بے خبر
روز روشن کی طرح اظہر یہ ایک مضمون ہے
       
ملک کی بنیاد میں علمائے حق کاخون ہے

1پاکستان,
2محمدعلی جناح, 3مولاظفراحمدعثمانیؒ,
4مفتئ اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی صاحبؒ,
5شیخ الاسلام علامہ شبیرؒاحمدعثمانی

شاعر محترم جناب شاہین اثراقبال صاحب خلیفہ مجاز مجددزمانہ حضرت مولاناشاہ حکیم محمداختر صاحب نوراللّٰه مرقدہ

ہفتہ، 23 جولائی، 2016


حضرت امام ابوحنیفه اورعلم حدیث

از: محمد جسیم الدین قاسمی سیتا مڑھی

شعبہٴ افتاء دارالعلوم دیوبند

سیدنا امام الائمہ، سراج الامہ، رئیس الفقہاء، محدثِ کبیر، حافظِ حدیث، امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی (و:۸۰ھ- م:۱۵۰ھ) رحمہ اللہ کے اوصافِ مخصوصہ: علم و عمل، زہد و تقویٰ، ریاضت وعبادت اور فہم و فراست کی طرح، آپ کی شانِ محدثیت، حدیث دانی اور حدیث بیانی بھی، اہل ایمان میں مسلم اور ایک ناقابل انکار حقیقت ہے؛

لیکن اس کے باوجود، کچھ کم علم اور متعصب افراد نے امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“ اور ”یتیم فی الحدیث“ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو خالص حسد و عناد پر مبنی ہے۔ ذیل کے مقالے میں، آپ کی شانِ محدثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ امامِ حدیث، حافظِ حدیث اور صاحبِ ”جرح و تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ، کثیر الحدیث ہونے میں بعد کے محدثین مثلاً امام بخاری و مسلم وغیرہ کے ہم پلہ ہیں؛ جس سے آپ کا علمِ حدیث میں بلند مقام ومرتبہ کا ہونا ظاہر ہے؛ نیز آپ پر حدیث کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا بے بنیاد ہونا بھی ان شاء اللہ ثابت ہوجائے گا۔

ضروری تجزیہ

امام صاحب کی علم حدیث میں مہارت معلوم کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ، نصابِ تعلیم اور اساتذہ کا تجزیہ ایک ناگزیر ضرورت ہے، جسے اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔

اولیں درس گاہ اور حدیث کے لیے سفر

امام صاحب کی تبحر حدیث میں، اس کا بھی دخل ہے کہ آپ کی اولیں درس گاہ ”کوفہ“ ہے جس کے سرپرست اعلیٰ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور صدر مدرس حضرت عبداللہ بن مسعود تھے، واضح رہے کہ یہ ”کوفہ“ ان حضرات کے ورود مسعود سے پہلے بھی علم حدیث کا شہر تھا اور بعد میں تو خیر رہا ہی۔(۱) امام صاحب کی تحصیل حدیث کی دوسری بڑی درسگاہ ”بصرہ“ ہے جو حسن بصری، شعبہ قتادہ کے فیض تعلیم سے مالا مال تھا۔ چوں کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ”حج“ استفادے اور افادے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا؛ اس لیے تکمیل حدیث کے لیے علوم شرعیہ کے اصل مرکز: حرمین شریفین (صانہما اللہ تعالیٰ) کا سفر کیا اور پچپن حج کیے۔ سب سے پہلا حج سولہ سال کی عمر میں والد صاحب کی معیت میں ۹۶ھ میں کیا، اس سفر میں صحابی رسول حضرت عبداللہ بن الحارث سے ملاقات کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور ان کی زبان مبارک سے یہ ارشاد بھی سنا: ”من تفقہ فی دین اللّٰہ، کفاہ اللّٰہ ہمہ ورزقہ من حیث لا یحتسب“(۲)

شرفِ تابعیت

اسی وجہ سے باتفاق ائمہ محدثین آپ تابعی ہیں، لہٰذا آپ اللہ کے قول: ”والذین اتبعوہم باحسان رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ“ میں داخل ہیں؛کیوں کہ حج کے مسلسل سفروں میں حضراتِ صحابہ سے استفادے کا موقع ملا؛ اسی کے ساتھ ساتھ آپ کو حج کے سفروں میں تدریس کے مواقع بھی فراہم ہوئے، جہاں لوگ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے؛ اسی وجہ سے آپ کے شاگردوں کی تعداد، حد شمار سے باہر ہے، جب کہ آپ کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد چارہزار تک ہے۔(۴)

نصاب تعلیم

اس زمانے میں نصابِ تعلیم، قرآن واحادیث ہی تھا، بلکہ اس وقت علم سے مراد قرآن و حدیث ہی کا علم ہوتا تھا۔ چانچہ خلف بن ایوب فرماتے ہیں:

”صار العلم من اللّٰہ تعالیٰ الی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم الی اَصحابہ، ثم الی التابعین، ثم صار الی ابی حنیفة وأصحابہ“(۵) (یعنی ”علم خدا کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، پھر صحابہ میں تقسیم ہوا، پھر تابعین میں، اس کے بعدامام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب میں آیا“) اس قول کو نقل کرنے کے معاً بعد علامہ ظفر تھانوی لکھتے ہیں کہ : ”ولا یخفیٰ أن العلمَ في ذٰلک الزمان، لم یکن الا علم الحدیث والقرآن“ (یعنی یہ بات واضح رہے کہ اس وقت علم صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی کا علم تھا) لہٰذا اس وقت کا سب سے بڑا عالم وہی مانا جاتا تھا جو قرآن و حدیث کا عالم ہو،اسی وجہ سے حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ : ”امام ابوحنیفہ علم ”حدیث“ و” فقہ“ میں اعلم الناس ہیں۔(۶) اور خلف بن ایوب نے ابھی اوپر آپ کو عالم قرآن و حدیث ثابت کردیا، تو جس کا نصاب تعلیم ہی قرآن و حدیث ہو، وہ کیسے ”یتیم فی الحدیث“ ہوسکتا ہے؟!

علم حدیث میں سبقت

امام صاحب اپنے زمانے کے تمام محدثین پر فائق تھے درادراکِ حدیث؛ اسی لیے آپ کے معاصر اور مشہور محدث امام مسعر بن کدام فرماتے ہیں: ”طلبتُ مع أبي حنیفة الحدیثَ فَغَلَبَنَا الخ“ کہ ”میں نے امام ابوحنیفہ کے ساتھ ”حدیث“ کی تحصیل کی وہ ہم سب پر غالب رہے“(۷)

آپ کی محدثیت اور مہارتِ حدیث پر شہادتیں

علم حدیث کے سلسلے میں، جس قدر آپ معرفت رکھتے ہیں اور جس قدر آپ نے اس سے حصہ وافر پایا ہے، اس کے جان لینے کے بعد کوئی انصاف پسند عالم، یہ نہیں کہہ سکتا کہ: ”ولم یعدہ أحد من المحدثین“ (حضرت امام صاحب کو کسی نے بھی محدثین کی فہرست میں شمار نہیں کیا) چوں کہ آپ کی محدثیت کا بے شمار لوگوں نے بار بار اعتراف کیا ہے، چند اقوال ملاحظہ فرمائیں:

۱- امام ذہبی نے آپ کا شمار ”حملة الحدیث“ (حاملین حدیث) میں کیا ہے۔(۸)

۲- ابن خلدون نے آپ کو ”کبار المجتہدین فی علم الحدیث“ (علم حدیث میں بڑا مجتہد) کہا ہے۔(۹)

۳- حضرت امام ابویوسف فرماتے ہیں: ”میں نے امام ابوحنیفہ سے زیادہ جاننے والا نفس حدیث کو، کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کوئی ان سے زیادہ تفسیر حدیث کا عالم، میری نظر سے گزرا“(۱۰)

۴- حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: ”اول من صیَّرني محدثا أبوحنیفة“ ”مجھے محدث بنانے والا، سب سے پہلا شخص، امام ابوحنیفہ کی ذات اقدس ہے۔ (اِنجاء الوطن،ص:۳۱)

۵- شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے بھی آپ کو محدثین کی فہرست میں شمار کیا ہے۔(۱۱)

۶- حضرت عبداللہ بن المبارک فرماتے ہیں کہ: اگر مجھے ابوحنیفہ اور سفیان کا شرف حاصل نہ ہوا ہوتا، تو میں بدعتی ہوجاتا۔(۱۲)

۷- شیخ الاسلام علامہ ابن عبدالبر مالکی، تحریر فرماتے ہیں کہ : ”رویٰ حماد بن زید عن أبي حنیفة أحادیثَ کثیرة“ (۱۳) (حماد بن زید نے امام ابوحنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں) اگر حضرت امام صاحب ”محدث“ نہیں تھے ، تو احادیث کثیرہ کا کیا مطلب ہوگا؟ اور جب وہ ”قلیل الحدیث“ تھے اور ان کے پاس زیادہ حدیثیں بھی نہ تھیں، تو حماد بن زید نے، ان سے روایاتِ کثیرہ اور احادیث کثیرہ کس طرح لیں؟

۸- آپ کی مہارت و تبحر حدیث کا اندازہ اس سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امام احمد بن حنبل اورامام بخاری کے استاذِ حدیث، شیخ الاسلام حافظ ابو عبدالرحمن مقری، جب امام صاحب سے کوئی حدیث روایت کرتے، تو اِس لفظ کے ساتھ روایت کرتے کہ : ”أخبرَنا شاہنشاہ“(۱۴) (ہمیں علم حدیث کے شہنشاہ نے خبردی) اندازہ فرمائیے ! ایک محدث کامل، امام صاحب کو حدیث کا ”بادشاہ“ ہی نہیں ، بلکہ ”شاہنشاہ“ کہہ رہے ہیں؛ جس سے علم حدیث میں تبحر ظاہر ہے، جن لوگوں نے آپ کو محدثین میں شمار نہیں کیا ہے، ان کی بات قابل قبول نہیں۔(۱۵)

حافظ حدیث ہونے پر شہادتیں

یحییٰ بن معین، علی ابن مدینی، سفیان ثوری، عبداللہ بن المبارک اور حافظ ابن عبدالبر مالکی وغیرہ حضراتِ محدثین کا قول ثابت کرتا ہے کہ آپ ”حافظ حدیث“ بھی ہیں،جیسا کہ ”تذکرة الحفاظ“ سے معلوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ علامہ ذہبی نے آپ کو ”حافظ الحدیث“ کہا ہے(۱۶)، اگر آپ حافظ حدیث نہ ہوتے، تو امام ذہبی جیسا شخص (جو مذہباً شافعی ہیں) امام ابوحنیفہ کو ”حافظ حدیث“ نہ کہتے۔ اسی بات کا اعتراف، حافظ یزید بن ہارون نے اپنے ان الفاظ میں کیا ہے کہ : ”کان أبو حنیفة نقیًا ․․․ أحفظَ أہل زمانہ“ (۱۷) (امام ابوحنیفہ پرہیز گار ․․․ اور اپنے زمانے کے بہت بڑے حافظِ حدیث تھے) ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ : ”علامہ ذہبی وغیرہ نے امام ابوحنیفہ کو حفاظ حدیث کے طبقے میں لکھا ہے اور جس نے ان کے بارے میں یہ خیال کیاہے کہ وہ حدیث میں کم شان رکھتے تھے، تو اس کا یہ خیال یا تو تساہل پر مبنی ہے یا حسد پر۔(۱۸) حافظ محمد یوسف شافعی لکھتے ہیں کہ : ”امام ابوحنیفہ بڑے حفاظِ حدیث اور ان کے فضلاء میں شمار ہوتے ہیں“ (مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۲۰)

امام صاحب اور جرح و تعدیل

جس طرح امام بخاری اور ابن معین وغیرہ کے اقوال کو محدثین، اپنی کتابوں میں بہ طور احتجاج پیش کرتے ہیں، اسی طرح امام صاحب کے اقوال کو بھی پیش کرتے ہیں؛ چناں چہ امام ترمذی فرماتے ہیں: ”حدثنا محمود بن غیلان عن جریر عن یحیی الحمانی سمعت أبا حنیفة یقول: ما رأیت أکذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء“(۱۹) (ترجمہ ظاہر ہے) اسی طرح علامہ ابن حزم اپنی مشہور کتاب ”المحلی في شرح المجلی“ میں لکھتے ہیں: ”جابر الجعفي کذاب، و أول من شہد علیہ بالکذب أبوحنیفة“ (جابر جعفی کذاب ہے اور سب سے پہلے جس نے اس کے کاذب ہونے کی شہادت دی وہ امام ابوحنیفہ ہیں) (انجاء الوطن، ص: ۳۱)

ان عبارات کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ امام صاحب کے اقوال ”جرح و تعدیل“ کے باب میں، اصح طریقے پر معتبر ہیں، کتب رجال: ”تہذیب الکمال“ (از امام مزی) ”تہذیب التہذیب“ (از امام ذہبی) اور ”تذہیب التہذیب“ (از حافظ ابن حجر) میں ”جرح و تعدیل“ سے متعلق امام صاحب کے مزید اقوال دیکھے جاسکتے ہیں۔

کثیر الحدیث ہونے پر شہادتیں

تمام کبار محدثین کے نزدیک یہ بات محقق ہے کہ آپ اجلہٴ محدثین میں ہونے کے ساتھ ساتھ، ”کثیر الحدیث“ بھی ہیں؛ لہٰذا ذیل میں چند اقوال پیش کیے جارہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ”کثیر الحدیث“ ہیں؛ چناں چہ ملا علی قاری ابن سماعہ سے نقل کرتے ہیں کہ: ”امام ابوحنیفہ نے اپنی (املائی) تصانیف میں ستر ہزار سے کچھ اوپر حدیثیں بیان کی ہیں اور چالیس ہزار سے ، ”کتاب الآثار“ کا انتخاب کیا ہے۔(۲۰) اسی طرح یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: ”کان النعمان جمع حدیث بلدہ کلہ“ (امام صاحب نے اپنے شہر کوفہ (علم حدیث کا مرکز و مرجع ہے) کی تمام حدیثیں جمع کرلی تھیں) پھر خود حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ : ”عندي صنادیق الحدیث ، ما أخرجت منہا الا الیسیر الذي ینتفع بہ“ (۲۱) (میرے پاس حدیث کے بہت سے صندوق بھرے ہوئے موجود ہیں مگر میں نے ان میں سے تھوڑی حدیثیں نکالی ہیں جن سے لوگ نفع اٹھائیں) یہاں لفظ ”صنادیق“ جمع کا ہے، جس سے واضح ہے کہ آپ کثیر الحدیث ہیں، علامہ ظفر احمد عثمانی نے ”کثیر الحدیث“ سے متعلق بہت سے اقوال پیش کیے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیں مقدمہ اعلاء السنن۔

آپ امام بخاری کے ہم پلہ ہیں

باتفاقِ محدثین عظام (جس میں خصوصیت کے ساتھ سفیان ثوری، امام شعبہ، ابن قطان، امام عبدالرحمن مہدی اور امام احمد بن حنبل، خصوصیت سے قابل ذکر ہیں) متون حدیث کی تعداد چار ہزار چار سو ہے: ”ان جملة الأحادیث المسندة عن النبی صلی اللّہ علیہ وسلم یعنی الصحیحة بلا تکرار، أربعة آلاف و أربع مائة حدیث“ (احادیث صحیحہ، جو بلا تکرار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گی ہیں، ان کی تعداد چار ہزار چار سو ہے) اور یہ بات مسلم ہے کہ آپ چار ہزار متون احادیث کے حافظ تھے۔

چنانچہ امام صدرالائمہ مکی فرماتے ہیں کہ: ”کان أبوحنیفة یروي أربعة آلافِ حدیث ، ألفین لحماد، وألفین لسائر المشیخة“(۲۲) (یعنی امام صاحب نے چار ہزار حدیثیں روایت کی ہیں، دو ہزار صرف حماد کے طریق سے اور دو ہزار باقی شیوخ سے) معلوم یہ ہوا کہ اگر تعدد طرق و اسانید اور تکرار سے صرفِ نظر کرلی جائے تو چار ہزار حدیثیں امام صاحب سے مروی ہیں اوراگر تعددِ طرق کا لحاظ کیاجائے، تو ستر ہزار سے بھی آپ کی مرویات کی تعداد بڑھ جاتی ہے، جن کا تذکرہ آپ نے اپنی املائی تصانیف میں کیا ہے؛ چوں کہ امام صاحب اور بعد کے محدثین (مثلاً امام بخاری) کے درمیان ۱۱۴/ سال کے طویل عرصے میں، ایک حدیث کو سینکڑوں، بلکہ ہزاروں اشخاص نے روایت کیاہوگا (جس سے حدیث کی تعداد بدل جاتی ہے فی اصطلاح المحدثین) اس لیے دونوں کے درمیان جو لاکھوں اور ستر ہزار حدیثوں کا فرق ہے، وہ دراصل اسانید کی تعداد کا فرق ہے؛ ونہ صحیح بخاری کے مکررات نکال کر، احادیث کی تعداد، حافظ عراقی نے چار ہزار بتائی ہے(۲۳)، امام نووی نے صحیح مسلم کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے: ”ومسلم باسقاط المکرر نحو أربعة آلاف“(۲۴) اور تقریباً یہی تعداد ”سنن ابی داؤد“ و ”ابن ماجہ“ وغیرہ کے متعلق ہے۔(۲۵) غرضیکہ امام صاحب، ان حضرات محدثین کے ”متونِ احادیث“ میں بالکل ہم پلہ ہیں؛ بلکہ تعدد سند میں بھی آپ،امام بخاری کے تقریباً برابر ہی ہیں؛ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے حماد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”جمعتہا من خمس مائة ألف حدیث(۲۶) (الوصیة، ص:۶۵)؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“ ہونے کا الزام غلط ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ جس طرح ، طلوع آفتاب سے رات کی تمام تاریکیاں ختم ہوجاتی ہیں، اسی طرح آپ سے ”قلیل الحدیث“ ہونے کا الزام ختم ہوجاتا ہے۔

قلتِ روایت کے اسباب

مخالفین اورحاسدین، ”قلتِ روایت“ کی آڑ میں، امام صاحب کی حدیث دانی اور فقہی قدر و منزلت کو مجروح کرکے ”حنفیت“ کا راستہ روکنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں مگر                 ع

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

اس سلسلے میں واضح رہے کہ قلت روایت، کوئی عیب نہیں اور نہ یہ کوئی عار کی بات ہے اور نہ قلت روایت، قلت علم حدیث کو مستلزم ہے؛ چنانچہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی مرویات کی تعداد ایک ہزار سے کم ہی ہے؛ جبکہ ان سے کم درجہ کے صحابی کی تعداد حضرت ابوبکر و عمر وغیرہ سے کہیں زیادہ ہے، تو کیا اب یہ کہہ دینا چاہیے کہ حضرت ابوبکر و عمر زیادہ بڑے محدث نہیں تھے؟ نہیں ہرگز نہیں؛ بلکہ یہ حضرات نقل روایات میں، حد درجہ احتیاط کرتے تھے، کہ مبادا نقل روایت میں کوئی فرق ہوجائے؛ اسی لیے ان کبارِ صحابہ نے، حدیث کے اپنے وافر معلومات کو مسائل اور فتاویٰ کی صورت میں بیان کیا۔ امام صاحب بھی انہی کے نقش قدم پر چلے اورحدیث کے اپنے وافر معلومات کو استنباط میں لگایا،(۲۷) اسی کو حافظ محمدیوسف صالحی شافعی یوں بیان فرماتے ہیں: ”وانما قلَّت الروایة عنہ، لاشتغالہ بالاستنباط، کما قلَّت روایة أبی بکر وعمر “ (۲۸) قلت کی دوسری وجہ، ابن خلدون اس طرح لکھتے ہیں: ”والامام أبوحنیفة انما قلت روایتہ، لما اشتد فی شروط الروایة والتحمل“(۲۹) تیسری وجہ قلت کی یہ ہے کہ آپ صحابہ کی طرح غیر احکامی احادیث بیان کرنے میں حددرجہ احتیاط کرتے تھے؛ کیوں کہ حضرت عمر نے اسی طرح کا ارشاد فرمایا ہے۔ اور یہی نظریہ امام مالک کا بھی ہے ، فرماتے ہیں: ”اگر میں لوگوں کو، وہ تمام روایت کروں جو میں نے سنیں،تو میں احمق ہوں گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں لوگوں کو گمراہ کررہا ہوں۔(۳۰) غرضیکہ امام صاحب قلت روایت میں، صحابہ کے ہی نقش قدم پر چلے ہیں؛ مگر یہ فضیلت، مخالفین کے لیے وجہ حسد بن گئی، جب کچھ نہ بن پڑا تو ”قلت روایت“ کا الزام دھردیا، فیا للعجب!

اہل الرائے اور اہلِ حدیث

”حدیث بیانی“ اور ”حدیث دانی“ دو الگ الگ فن ہیں، تمام ”رواة حدیث“ (اہل حدیث) ”حدیث بیاں“ تو ہیں؛ مگر ضروری نہیں کہ وہ ”حدیث داں“ بھی ہوں؛ (کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان میں ”رب حامل فقہ، غیر فقیہ (۳۱) کے ذریعے فرق بتلادیا ہے) البتہ ”فقہاء“ (اہل الرائے)،” حدیث داں“ ضرور ہوتے ہیں۔ توجو ”حدیث دانی“ کے ساتھ ساتھ ”حدیث بیانی“ میں بھی مہارت رکھتا ہو، اس پر ”اہل الرائے“ کا اطلاق ہوتا ہے؛ اسی لیے محدثین نے آپ کو ”اہل الرائے“ کہا ہے،جو بلا ریب و شک صفتِ حمیدہ ہے؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ محدثین اس کا اطلاق، صحابہ وغیرہ پر بھی کرتے ہیں؛ چنانچہ کہتے ہیں: ”مغیرة بن شعبة کان من أہل الرأي، و ربیعة بن عبدالرحمن کان من أہل الرأي“(۳۲) یعنی یہ دونوں حضرات اہل الرائے میں سے ہیں) مگر غیرمقلدین نے ”اہل الرائے“ کو صفتِ قبیحہ اور ”جرح و طعن“ پر محمول کیا ہے، جو محدثین کی مراد کے خلاف ہے؛ اگر یہ لفظ ”جرح و طعن“ کے لیے ہے، تو کیا حضرت مغیرہ بن شعبہ مجروح ہوں گے؟! جبکہ تمام صحابہ عدول ہی ہیں، کوئی مجروح نہیں ہوسکتا (الصحابة کلہم عدول) کیا حضرت ربیعہ بھی مجروح ہوں گے؟ٍ جبکہ ان سے تمام ائمہ حدیث نے روایت لی ہیں؟ ! نہیں ہرگز نہیں، بلکہ محدثین، لفظِ ”اہل الرائے“ کا اطلاق اسی پر کرتے ہیں جو ”حدیث بیانی“ کے ساتھ ”حدیث دانی“ میں بھی ماہر ہو، یہی فرق ہے ”اہل الرائے“ اور ”اصحاب الحدیث“ میں کہ ”اہل الرائے“ لفظ انسان“ کی طرح خاص ہے اور ”اصحاب الحدیث“ لفظ ”حیوان“ کی طرح عام ہے، فبینہما نسبة عموم وخصوص مطلقاً اور چوں کہ خاص افضل ہوتا ہے؛ اس لیے محدثین کے یہاں ”اہل الرائے“ کا درجہ بڑھا ہوا ہے؛ اسی لیے محدثین، فقہاء کو اپنے سے آگے رکھتے تھے، جس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقوال سے ہوتا ہے:

حضرت امام وکیع بن الجراح لکھتے ہیں: ”حدیث یتداولہ الفقہاء خیر من أن یتداولہ الشیوخ“ (حدیث فقہاء کو ہاتھ لگے یہ اس سے بہتر ہے کہ شیخ الحدیث کے ہاتھ لگے)(۳۳) محدثِ عظیم حضرت اعمش فرماتے ہیں : یامعشرالفقہاء! ”أنتم الأطبا“ ونحن ”الصیادلة“(۳۴) (اے گروہ فقہاء طبیب تم ہو، ہم تو صرف دوائیں لگائے بیٹھے ہیں)

حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں: ”وکذلک قال الفقہاء، وہم أعلم بمعانی الحدیث“(۳۵) (اسی طرح فقہاء نے کہا ہے اور وہ حدیث کے معنی کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں)

ان اقوال سے معلوم ہوا ”اصحاب الرائے“ بہرحال محدث ہوتے ہیں (اسی لیے صاحب ہدایہ نے کہا ہے کہ فقیہ کے لیے حدیث دانی شرط ہے)(۳۶) تو معلوم ہوا کہ اس کا اطلاق آپ کی مہارتِ حدیث پر دال ہے۔

قیاس پر حدیث ضعیف کو مقدم کرنا، عظمت حدیث کی دلیل

امام صاحب کے اہم اصول میں سے ہے کہ ”حدیثِ ضعیف“ اور ”مرسل حدیث“ قیاس سے افضل ہے، جس سے آپ کی عظمت حدیث کا بین ثبوت ملتا ہے، اسی قاعدے پر ان کے مذہب کی بنیاد ہے، اور اسی قاعدے کی وجہ سے : (۱) رکوع سجدے والی نمازمیں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ جنازے کی نماز میں نہیں ٹوٹتا۔ (۲) نبیذ تمر سے سفر میں وضو ہوجاتا ہے۔ (۳) دس درہم سے کم کی چوری پر، چور کا ہاتھ نہیں کٹتا۔ (۴) حیض کی اکثر مدت دس دن ہوتی ہے۔ (۵) جمعہ کی نماز میں مصر کی قید لگانا اور کنویں کے مسئلے میں قیاس نہ کرنا، یہ سب وہ مسائل ہیں جن میں قیاس کا تقاضا کچھ اور تھا؛ مگر ”احادیثِ ضعیفہ“ کے ہوتے ہوئے قیاس کو ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔(۳۷)جس سے علم حدیث کے تعلق سے آپ کی غایت شغل کا اندازہ ہوتا ہے؛ اسی پر بس نہیں؛ بلکہ قیاس کی چار قسموں (قیاس موٴثر، قیاس مناسب، قیاس شبہ، قیاس طرد) میں سے، صرف قیاس موٴثر (اور ایک قول کے مطابق قیاس مناسب بھی) امام صاحب کے یہاں معتبر ہے، بقیہ قسمیں باطل ہیں؛ (جبکہ قیاس کی تمام اقسام کو حجت گرداننے اور احادیث ضعیفہ و مرسلہ کو غیر معتبر ماننے والے دوسرے حضرات مثلاً: حضرت امام شافعی رحمہ اللہ ہیں)(۳۸) اسی لیے تعجب ہے ان لوگوں پر جو آنکھ بند کرکے امام صاحب پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ قیاس وغیرہ کو حدیث پرمقدم کرتے ہیں اور حدیث کی مخالفت کرتے ہیں؛ حالاں کہ حقیقت وہ ہے جو ابن قیم نے کہا : ”فتقدیم الحدیث الضعیف و آثار الصحابة علی القیاس والرأي قولہ (ابی حنیفة) وقول أحمد و علی ذلک بنی مذہبہ کما قدَّم حدیثَ القہقہة مع ضعفہ علی القیاس والرأي“(۳۹) الخ یہی وہ عادتِ مستمرہ ہے جس کی وجہ سے کبار محدثین فقہ حنفی کے سایے میں ملیں گے۔

محدثین فقہ حنفی کے سایے میں

حدیث کے ساتھ والہانہ لگاؤ ہی کے سبب، آپ کا بیان فرمودہ ہر مسئلہ، قرآن و حدیث کے مطابق ہے،آج تک کوئی یہ ثابت نہ کرسکا کہ آپ کا فلاں مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے، اسی مہارتِ حدیث کی وجہ سے کبار محدثین نے آپ کے بیان کردہ مسائل و فتاویٰ کے سامنے،اپنا سر تسلیم خم کردیا؛ چنانچہ بہت سے چوٹی کے محدثین اورماہرین اسماء الرجال، امام صاحب کے قول کے مطابق ہی فیصلے دیتے تھے، جن میں سے امام وکیع(۴۰) ابن الجراح، ماہر اسماء الرجال امام یحییٰ بن سعید القطان(۴۱) اور امام بخاری کے استاذ (حضرت یحییٰ بن بکیر) کے استاذ امام لیث(۴۲) بن سعد، خاص طور سے قابل ذکر ہیں اور حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند نے کم و بیش چالیس کبارِ محدثین کا ذکر کیا ہے جو خالص حنفی تھے،(۴۳) جبکہ حضرت موصوف ہی نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں نمونہ کے طور پر چار ایسے نام ذکر کیے ہیں جنھوں نے دوسرے مذاہب چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کرلیا مثلاً: (۱)”امام طحاوی“ یہ پہلے شافعی تھے، پھر حنفی بن گئے، (۲) امام احمد بن محمد بن محمد بن حسن تقی شمنی: یہ پہلے مالکی تھے، پھر حنفی مذہب کو اختیار کیا، (۳) تیسرے علامہ عبدالواحد بن علی العبکری: اول یہ حنبلی تھے، اس کے بعد حنفی مذہب اختیار کیا، (۴) چوتھے علامہ یوسف بن فرغلی البغدادی سبط ابن الجوزی: پہلے یہ حنبلی مذہب رکھتے تھے، پھر حنفی مذہب اختیار کیا۔(۴۴) (تفصیل دیکھئے کشف الغمہ بسراج الامہ، ص: ۱۱۴)

یقینا یہ اقتباس واضح دلیل ہے کہ حدیث سے آپ کا شغف اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ”فقہ حنفی“ میں بھی حدیث ہی حدیث ہے، تبھی تو مذکورہ کبار محدثین آپ کی فقہ کی طرف مائل ہوئے؛ اسی لیے بہت سے اکابرین مثلاً عبداللہ بن المبارک فرماتے تھے کہ ”ابوحنیفہ کی رائے“ کا لفظ مت کہو، بلکہ تفسیر و حدیث کہو۔“ (۴۵)

آپ کی تصنیفات

آپ نے تدریس و تدوین فقہ کے ساتھ، فقہ کے ابواب پر مشتمل حدیثوں کا مجموعہ بھی، صحیح اور معمول بہا روایتوں سے منتخب فرماکر مرتب کیا، جس کا نام ”کتاب الآثار“ ہے، یہ دوسری صدی کے ربع ثانی کی تالیف ہے، اس کتاب سے پہلے حدیث نبوی کے جتنے مجموعے تھے، ان کی ترتیب فنی نہیں تھی؛ مگر یہ پہلی تصنیف ہے جس نے بعد کے محدثین کے لیے ترتیب و تبویب کی شاہراہ قائم کردی۔(۴۶) واضح رہے کہ اس کا انتخاب امام صاحب نے چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (انتخب ابوحنیفة الآثار من أربعین ألف حدیث)(۴۷)

مسانید

حدیث کی دوسری کتابوں کی طرح ”کتاب الآثار“ کی بھی علمی خدمت کی گئی؛ چنانچہ امام صاحب کے ہر استاذ کی مرویات کو یکجا کرکے،اس کو ”مسند ابی حنیفہ“ کے نام سے موسوم کیاگیا۔(۴۸) جس کی تعداد باتفاق محدثین، پندرہ ہیں، جبکہ محمد بن یوسف صالحی شافعی نے سترہ ذکر کیے ہیں۔(۴۹)

جامع المسانید

امام ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی نے، تمام مسانید کو یکجا جمع کرکے، ”جامع المسانید“ نام رکھا ہے، اور مکررات کو حذف کرکے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔(۵۰)

سترہ حدیث اور ابن خلدون

مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ آپ کثیر الحدیث ہیں؛ مگر آپ کے حاسدین ”قلیل الحدیث“ ثابت کرنے کے لیے موٴرخِ اسلام، انصاف پسند، علامہ ابن خلدون  کی منقول سترہ روایت کا حوالہ دیتے ہیں، تو عارضی طور پر ہم بھی حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ اتنے بڑے اسلامی موٴرخ، امام صاحب جیسے عظیم محدث اور حافظِ حدیث کے حق میں صرف سترہ ہی روایت کے قائل ہیں؟! اس لیے حقیقت سمجھنی چاہیے۔

پس منظر اورحقیقت

علامہ ابن خلدون کی منقول سترہ روایت کا پس منظر یہ ہے کہ امام محمد نے ”موٴطا امام محمد“ کی تمام احادیث کو، امام مالک سے ہی روایت کیا ہے؛ کیوں کہ انہوں نے خاص طور پر صرف امام مالک ہی کی روایات بیان کرنے کا التزام کیا ہے؛ لیکن موقع بہ موقع کہیں کہیں امام ابوحنیفہ و ابویوسف کی روایتیں بھی ضمناً آگئی ہیں، جن کی تعداد سترہ یا ان کے لگ بھگ ہے،(۵۱) تو بعض لوگ آپ کے بقیہ تمام ذخیرئہ احادیث سے قطع نظر کرکے حسداً یہ کہہ بیٹھے کہ : آپ ”قلیل البضاعة فی الحدیث“ تھے تبھی تو سترہ حدیثیں ہی مروی ہیں۔ اس زبردست غلطی کا علامہ ابن خلدون نے اس طرح ازالہ کیا ہے کہ : ”امام صاحب کے حوالے سے ”موٴطا امام محمد“ میں جو صرف سترہ حدیثیں مروی ہیں، ان سے بغض و تعصب رکھنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ ”قلیل البضاعہ فی الحدیث“ تھے اورحدیث میں آپ کا کل سرمایہ اتنا ہی تھا، حالانکہ سترہ روایت کا نظریہ، سرے سے باطل ہے؛ بلکہ سترہ کے واسطے سے ”قلیل البضاعہ فی الحدیث“ کا نظریہ، جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تقوُّل اور جھوٹ پر مبنی ہے اور راہِ راست سے بہت دور ہے، تو ابن خلدون کا مقصد امام صاحب پر لگائے گئے الزام کو دفع کرنا ہے، نہ یہ کہ آپ کے لیے اسے ثابت کرنا ہے؛ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن خلدون کا مکمل حوالہ و عبارت نقل کردی جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے، ملاحظہ فرمائیں: ابن خلدون فرماتے ہیں:

”واعلم ایضاً أن الأئمة المجتہدین تفاوتوا في الاکثار من ہذہ الصناعة والاقلال، فأبوحنیفة رضي اللہ تعالیٰ عنہ یقال: بلغت روایتہ الی سبعة عشر حدیثًا أو نحوہا، ومالک رحمہ اللہ تعالیٰ انما صح عندہ ما في الکتاب الموٴطا، وغایتہا ثلاث مائة حدیث، أو نحوہا، وأحمد بن حنبل رحمہ اللہ في مسندہ خمسون ألف حدیث، ولکل ما أداہ الیہ اجتہادہ فی ذلک․ وقد تقول بعض المبغضین المتعصبین الی أن: ”منہم من کان قلیل البضاعة فی الحدیث“ فلہذا قلت روایتہ“(۵۲)

ولا سبیل الی ہذا المعتقد في کبار الأئمة․ (مقدمہ ابن خلدون، ص:۴۴۴، مصر)

”اور تو یہ بھی جان لے کہ ائمہ مجتہدین، حدیث کے فن میں متفاوت رہے ہیں، کسی نے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں کسی نے کم، سو امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ ان کی روایتیں صرف سترہ یا ان کے لگ بھگ ہیں اور امام مالک سے جو روایتیں ان کے یہاں صحیح ہیں، وہ وہی ہیں جو موٴطا میں درج ہیں اور امام احمد بن حنبل کی مسند میں پچاس ہزار احادیثیں ہیں اور ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق اس میں سعی کی ہے۔

اور بعض بغض و کج روی رکھنے والوں نے اس جھوٹ پر کمر باندھ لی ہے کہ ”ائمہ مجتہدین میں سے جن سے کم حدیثیں مروی ہیں وہ محض اس لیے کہ ان کا سرمایہ ہی اس فن میں اتنا ہے لہٰذا ان کی روایتیں بھی کم ہیں“؛ حالانکہ ان بڑے بڑے اماموں کی نسبت ایسا خیال کرنا راہِ راست سے دوری ہے۔

یہ عبارت چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ امام صاحب پر مذکورہ الزام سرے سے ہی باطل ہے اور تقوُّل و جھوٹ پر مبنی ہے، خاص طو ر پر، خط کشیدہ عبارت میں، نظر عمیق سے غور کرنے سے حاسدین کے جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔

لطیفہٴ تھانوی

اس موقع سے حضرت تھانوی نے ایک لطیفہ ذکر کیا ہے کہ (سترہ کی) تردید کے بغیر بھی، اس سے امام صاحب کی منقبت نکلتی ہے نہ کہ منقصت، کہ امام صاحب کی فہم اتنی عالی تھی کہ صرف سترہ حدیثوں سے اس قدر مسائل استنباط کیے کہ دوسرے ائمہ، باوجود لاکھوں احادیث کے حافظ ہونے کے بھی، ان کے برابر مسائل مستنبط نہ کرسکے، اس سے زیادہ فہم کی کیا دلیل ہوگی۔(۵۳)

آپ پر ہوئے اعتراض کی حقیقت

آپ کی شرفِ تابعیت (جو آپ کو اپنے معاصرین میں ممتاز بنائے ہوئے ہے) اور صحیح مسلم (ج:۲، ص: ۳۱۲) پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہی، تمام اعتراضات کا مسکت جواب ہے؛ تاہم منصف مزاج حضرات نے تمام اعتراضوں کو ”بکواس“ کہہ کر، آپ کی جلالت شان پر مہر ثبت کردی ہے؛ چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں: ”ولا عبرة لکلام بعض المتعصبین في حق الامام، بل کلام من یطعن في ہذا الامام، عند المحققین یشبہ الہذیانات“(۵۴) (امام ابوحنیفہ کے حق میں بعض متعصبین کے کلام کا اعتبار نہیں؛ بلکہ جو شخص امام صاحب پر طعن کرتا ہے تو اس کا کلام بکواس کے مشابہ ہے عند المحققین)

آخری بات

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا ”علم حدیث“ میں بہت اونچا مقام ہے؛ چنانچہ آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ امامِ حدیث، حافظ حدیث اور صاحب ”جرح و تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر الحدیث ہونے میں امام بخاری وغیرہ کے ہم پلہ ہیں، نیز آپ پر مخالفین کی جانب سے، خصوصاً حدیث کے تعلق سے کیے گئے اعتراضات، محض حسد و عناد پرمبنی ہیں،(۵۵) جو بازاری افسانوں اور بکواس کلاموں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ (خدایا! امام صاحب کو غریقِ رحمت فرما،آمین یا رب العالمین، بجاہ سید المرسلین)

اللّٰہم وتغمَّد امامنا بعفوک، واجعلہ فی سعة رحمتک، والحمد للّٰہ أولاً و آخرا، والصلاة والسلام علی أفضل رسلہ دائماً متواتراً․

حوالے

(۱)         منہاج السنة، ج:۴، ص: ۱۳۹، بہ حوالہ: دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۴۲، و مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۷ (اردو)

(۲)        جامع علم البیان، بہ حوالہ: دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۶۶۔

(۳)       انجاء الوطن مقدمہ ”اعلاء السنن“

(۴)        صدرالائمہ، ج:۱، ص: ۲۵۴

(۵)        انجاء الوطن۔

(۶)        دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۹۰ (اردو)

(۷)        دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۸۸ (۸) انجاء الوطن

(۹)         مقدمہ تاریخ ابن خلدون، ص: ۴۴۵ بحوالہ :مناقب ابی حنیفہ، ص: ۱۶۳۔

(۱۰)       کشف الغمہ بسراج الامہ، ص: ۶۴ (از : حضرت مولانا سید مہدی حسن صاحب)

(۱۱)        تلخیص الاستغاثہ، ص: ۱۳، بحوالہ: مناقب ابی حنیفہ، ص: ۱۲۵

(۱۲)       آثار امام صاحب، ص: ۳۶

(۱۳)      الانتقاء، ص: ۱۳۰ بحوالہ: مناقب ․․․ ص:۱۰۹

(۱۴) تاریخ بغداد، ج:۱۳، ص: ۲۴۵، بحوالہ: ”علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام و مرتبہ“ (از: حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ)

(۱۵) آثار امام صاحب، ص:۱۳۶

(۱۶) کشف الغمہ․․․ ص: ۵۹، بحوالہ: ”علم حدیث میں امام صاحب کامقام و مرتبہ“ ص:۶

(۱۷) اخبار ابی حنیفہ، ص: ۳۶

(۱۸) الخیرات الحسان، ص: ۶۰، وانجاء الوطن

(۱۹)تہذیب التہذیب، ج:۴، ص: ۲۴۴، انجاء الوطن، ص: ۳۱

(۲۰) عقود الجواہر، ج:۱، ص: ۲۳، بحوالہ: دفاع، ص: ۱۱۲

(۲۱) مناقب الامام اعظم، ج:۱، ص: ۹۵، بحوالہ: علم حدیث میں ․․․ ص: ۸

(۲۲) توضیح الافکار، ص: ۶۳، بحوالہ: دفاع․․․ ص: ۱۱۷

(۲۳) مناقب موفق، ج:۱، ص: ۹۶، بحوالہ: مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۱۶

(۲۴) تنقیح الافکار، ص: ۶۵

(۲۵)التقریب، ص: ۵۱، بحوالہ: دفاع ․․․ ص:۱۱۷

(۲۶) دفاع ․․․․ ص: ۱۱۷

(۲۷) الوصیة، ص: ۶۵، بحوالہ: پمفلٹ

(۲۸) دفاع امام صاحب، ص: ۹۲

(۲۹) تأنیب الخطیب، ص: ۵۶، بحوالہ مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۴۰

(۳۰)مقدمہ ابن خلدون، ص: ۴۵۵، بحوالہ: دفاع ․․․ ص: ۹۴

(۳۱) ترتیب المدارک، ج:۱، ص: ۱۸۸، بحوالہ: ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ ماہ رمضان المبارک ۱۴۱۳ھ

(۳۲) ماہ نامہ ”دارالعلوم دیوبند“ سابقہ

(۳۳) انجاء الوطن، ص: ۴۴

(۳۴)معرفة علم الحدیث، ص: ۱۱، بحوالہ:ماہ نامہ ”دارالعلوم“

(۳۵) نشر العرف، ص:۱، بحوالہ: ماہ نامہ دارالعلوم“ مذکورہ، ص: ۸

(۳۶) ترمذی شریف، ج:۱، ص: ۱۱۸، بحوالہ: ماہ نامہ دارالعلوم سابقہ

(۳۷) ہدایہ کتاب القاضی

(۳۸) اعلام الموقعین،ج:۱، ص: ۷۷، بحوالہ: مسند الامام ابی حنیفہ، ص: ۳۴

(۳۹) انجاء الوطن، ص: ۴۰

(۴۰) اعلام الموقعین، ج:۱، ص: ۳۱، بحوالہ: انجاء الوطن

(۴۱) مفتاح السعادہ، ج:۲۰، ص: ۱۱۷، بحوالہ: ماہ نامہ مذکورہ

(۴۲) تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۴۷۱، بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ

(۴۳) اتحاف النبلاء المتقین، ص: ۲۳۷، بحوالہ ماہ نامہ مذکورہ

(۴۴) ماہ نامہ ”دعوة الحق“ عربی، شوال ۸۴ھ (ایڈیٹر: حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی، نوراللہ مرقدہ)

(۴۵) کشف الغمہ بسراج الامہ، ص: ۱۱۴

(۴۶) دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۷۶

(۴۷) دفاع ابوحنیفہ، ص: ۱۱۵

(۴۸) عقود الجواہر، ج:۱، ص: ۲۳، بحوالہ: دفاع ․․․ ص: ۱۱۲

(۴۹) بستان المحدثین، ص: ۷۸

(۵۰)مستدلات الامام ابی حنیفہ، ص: ۴۲

(۵۱) دفاع ․․․․ ص: ۱۱۵ (اردو)

(۵۲) مقام ابی حنیفہ، ص: ۱۳۹، دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۱۰۰، کشف الغمہ․․․ ص: ۵۳، نصر المقلدین، ص: ۱۹۱ (از حافظ احمد علی) (۵۳) اشرف الجواب، ص: ۱۷۴

(۵۴) میزان کبریٰ للشعرانی، ص: ۱۸، بحوالہ: کشف الغمہ، ص: ۵۸

(۵۵) انجاء الوطن، ص: ۴۴

(۵۶) دفاع امام ابوحنیفہ، ص: ۱۰۲

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10-11، جلد: 89 ‏،   رمضان‏، شوال 1426ہجری مطابق اکتوبر‏، نومبر 2005ء

ہفتہ، 16 جولائی، 2016

فرائض کے بعد اجتماعی دعاء

                                       فرائض کے بعداجتماعی دعاء


«3714»
 حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عِيسَى الْجُهَنِيُّ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ لَمْ يَحُطَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى فِي حَدِيثِهِ لَمْ يَرُدَّهُمَا حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ.
ترجمہ: حضرت عمرؓفرماتے ہیں کہ جب آپﷺ دعاءکیلئے اٹھاتے تو اس وقت نہ چھوڑتے ہاتھ جب تک کہ انہیں اپنے چہرہ پر نہ پھیرلیں. 

«386» حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الصَّلاَةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَخَشَّعُ وَتَضَرَّعُ وَتَمَسْكَنُ وَتَذَرَّعُ وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ يَقُولُ تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ مُسْتَقْبِلاً بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ وَتَقُولُ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا)). قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَالَ غَيْرُ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: ((مَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ)).

ترجمہ: آپﷺ نےفرمایا نمزدودو رکعت ہے اور ہردو کے بعد تشہدہےاور خشوع اور زاری اورعاجزی اور اللّٰه کی طرف وسیلہ پکڑناہے اور دعاء کیلئے ہاتھ اٹھااور فرمایاکہ ہاتھوں کواپنے رب کی طرف بلند کراس طرح کہ ہتھیلیوں کارخ تیرے چہرہ کی طرف ہو اور کہ یارب یارب اور جس نے ایسانہ کیاپس وہ ایساویساہے
مثنی فرمایا وہ بےکار ہے

ان حدیثوں سے چندباتیں ثابت ہوتی ہیں


 فرض نماز کےبعد دعاءکی قبولیت کاموقع ہے


 دعاءہاتھ اٹھاکرمانگنا اور ختم پرہاتھ چہرہ پرپھیرنا


 نہ مانگنےپر سخت تنبیہ


 اجتماعیت کاکوئ حکم نہیں


🖋افراط وتفریط: -


ایک طبقہ نے فرائض کےبعد دعاء ہی کاانکار کردیا اولا پھر ان میں سے بعض نے دعاء کوتسلیم کیامگر ہاتھ اٹھائےبغیر, 
ایک دوسرے طبقہ نے افراط سے کام لیتے ہوئے فرائض کےبعد اجتماعی دعاء کولازم قرار دیا ان میں سے بعض نے سنن ونوافل کےبعدبھی اجتماعی دعاءکولازم قرار دیا, 

         🌴راہ اعتدال🌴

احادیث میں دعاء بعدالفرائض کی قبولیت کاذکرہے اور مانگنے کی ترغیب آئ ہے لیکن اجتماعی دعاء کاکہیں حکم نہیں آیا اس لئے فرائض کےبعدہر کوئ انفرادی دعاء مانگے نہ مقتدی امام کانہ امام مقتدی کاپابند ہے جوجتنی اور جودعاء چاہے مانگے (اور اس طرح دعاء مانگنے میں صورة اگرچہ اجتماعیت ہوجاتی ہے)اگرچہ احادیث سے اجتماعیت ثابت نہیں لیکن ترک اجتماعیت کابھی حکم  اصل یعنی انفرادیت کوباقی رکھتے ہوئے کبھی کبھی امام کوتعلیما بآوازبلند دعاء بھی کرانی چاہئے تاکہ لوگوں کو دعاء کاطریقہ اور ادعیہ مأثورة یاد ہوجائیں. 
واضح رہے کہ جہاں اجتماعیت کالزوم بدعت ہے وہاں ترک کالزوم بھی مناسب نہیں. 

واللّٰه اعلم بالصواب

کتبه: احقرامداد اللّٰه عفی عنه 

ایده: مفتی عبدالمقتدرمسعود قاسمی صاحب



درود شریف

اللهم صل وسلم وبارك على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه ومن والاه اللهُــــــــمّے💖 صَــــــلٌ علَےَ سيدنا💖 مُحمَّــــــــدْ💖 و علَے آل سيدنا💖 مُحمَّــــــــدْ 💖كما صَــــــلٌيت💖 علَےَ سيدنا 💙إِبْرَاهِيم💙و علَےَآل سيدنا💙إِبْرَاهِيمَ💙 وبارك علَےَ سيدنا💙 مُحمَّــــــــدْ💙 و علَےَ آل سيدنا 💚مُحمَّــــــــد💚...ْ كما باركت...علَےَ سيدنا💚 إبْرَاهِيمَ 💚و علَےَ آل سيدنا💚 إِبْرَاهِيم💚َ فى الْعَالَمِينَ إِنَّك حميد 💚 مجيد 💙 💖 💚 💖 💜 

 

عدد ماكان وعدد مايكون وعدد الحركات والسكون عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته عدد حبات الرمل وعدد قطرات المطر وعدد شعر البشر وعدد أوراق الشجر وعدد كل قطرة ماء ف البحار والأنهار والمحيطات وكما ينبغي لجلال وجه الله وعظيم سلطانه.

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس