منگل، 24 مارچ، 2020

ایصال ثواب اور مروجہ بدعات

ایصال ثواب اور مروجہ بدعات
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرَّ وَالْخَیْرِ فَتْنَۃً وَّاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۳۵)
          ابومحمد احقر امداداللہ عفی عنہ
ترجمہ: ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لئے بری بھلی  حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں،اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائیں جاؤ گے۔
پچھلی ایک خیر خواہانہ پوسٹ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا چونکہ وہاں مقصود دوسری اہم بات تھی،
قرآنی خوانی کے متعلق اول تو انتہائی افسوس کے ساتھ جب یہ نظر آئے کہ اہل علم یا ان کی اولاد ان بدعات کی مرتکب ہورہی ہے تو بہت ہی شرمندگی ہوتی ہے،
قرآن خوانی کے جائز ہونے کے متعلق فقہاء کرام نے اصولی طور پر دو شرطیں لگائی ہیں،
  معاوضہ کسی قسم کا نہ ہو،
  تداعی(لوگوں کو بلانا) نہ ہو ،
جہاں تک بات ہے معاوضہ کی تو معاوضہ کہتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں کسی بھی دنیاوی منفعت کی نیت ہو چاہے رقم ہو  طعام ہو یا اور کوئی منفعت دنیا یہ سب معاوضہ کی قسمیں ہیں جوکہ از روئے حدیث وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ مَرَّ عَلَى قَاصٍّ يَقْرَأُ ثُمَّ يَسْأَلُ فَاسْتَرْجَعَ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فليسأل الله بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقوام يقرؤون الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ
ترجمہ: عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک واعظ کے پاس سے گزرے جو کہ قرآن پڑھتا ، پھر کچھ طلب کرتا ، اس پر انہوں نے (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا پھر کہا : میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص قرآن پڑھے تو وہ اللہ سے طلب کرے ، کیونکہ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور اس کے عوض لوگوں سے سوال کریں گے ۔‘‘عَن بُرَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يَتَأَكَّلُ بِهِ النَّاسَ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَوَجْهُهُ عظم لَيْسَ عَلَيْهِ لحم» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان۔
ترجمہ: بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں سے مال (کھاتا) ہے تو وہ روز قیامت آئے گا تو اس کا چہرہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا اس پر گوشت نہیں ہو گا ۔‘‘
بروز قیامت چہرہ تروتازہ ہونے کا نہیں بلکہ مرجھانے کا سبب ہوگا اور چہرہ کے مرجھانے کے متعلق قرآن نے فرمایا 
سورہ القیٰمۃ آیت نمبر 24/25
وَ  وُجُوۡہٌ  یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴     تَظُنُّ  اَنۡ  یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ﴿ؕ۲۵
ترجمہ:اور بہت سے چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ ہوگا جو کمر توڑ دینے والا ہے۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی
بہر حال قرآن کے متعلق یہ وعید حدیث میں بیان کی گئی،
دوسری بات تداعی یعنی لوگوں کو بلانا دعوت دینا از روئے شرع ممنوع ہے اور تداعی کو فقہاء کرام نے بدعت لکھاہے

علامہ شامیؒ کی تحقیق
علامہ شامی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس پر عمدہ بحث فرمائی ہے جو قابل مطالعہ ہے کچھ حصہ ملاحظہ ہو ۔
قال تاج الشریعۃ فی شرح ان القرآن بالا جرۃ لایستحق الثواب لا للمیت ولاللقاری وقال العینی فی شرح الھدایۃ ویمنع القاری للدنیا والآخذ والمعطی آثمان فالحاصل ان ماشاع فی زماننا من قرأۃ الا جزاء بالا جرۃ لا یجوز لان فیہ الا مر بالقرا ء ۃ لاجل المال فاذا لم یکن للقاری ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستا جر ولولا الا جرۃ ماقرأ احد لا حد فی ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ الی جمع الدنیا انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ الی۔ قولہ۔ وقد ردہ الشیخ خیر الدین رملی فی حاشیۃ البحر فی کتاب الوقف حیث قال اقول المفتی بہ جواز الا خذ استحساناً علی تعلیم القرآن الا علی القراء ۃ المجردۃ کما صرح بہ فی التتارخانیۃ حیث قال لا معنی لھذہ الوصیۃ …لان ھذا بمنزلۃ الا جرۃ والاجارۃ فی ذلک باطلۃ وھی بدعۃ ولم یفعلھا احد من الخلفاء وقد ذکرنا مسئلۃ تعلیم القرآن علی ستحسان اھ یعنی للضرورۃ ولا ضرورۃ فی الاستئجار علی القرأ ۃ علی القبر۔الی قولہ ۔ ونقل العلامۃ الخلوتی فی ہاشیۃ المنتھی الحنبلی عن شیخ الا سلام تقی الدین مانصہ‘ ولا یصح الا ستئجار علی القرائۃ واھد ائھا الی المیت لا نہ لم ینقل عن احد من الا ئمۃ الا ذن فی ذلک وقد قال العلماء ان القاری اذا قرأ لا جل المال فلا ثواب لہ‘ فای شئی یھدیہ الی المیت وانما یصل المیت العمل الصالح والا ستئجار علی مجردۃ التلاوۃ لم یقل بہ احد من الا ئمۃالخ۔(شامی ج ۵ ص ۴۷،۴۸ باب الاجارۃ الفاسدۃ مطلب فی الا ستئجار علی الطاعات)
تاج الشریعۃ نے شرح ہدایہ میں فرمایا ہے اجرت لے کر قرآن پڑھنے پر نہ میت کو ثواب پہنچتا ہے اور نہ قاری مستحق ثواب ہوتا ہے، علامہ عینی ؒ نے شرح ہدایہ میں فرمایا ہے جو شخص دنیا کے لئے قرآن پڑھتا ہو اسے اس سے روکا جائے قرآن کریم کی تلاوت پر اجرت لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں حاصل یہ کہ ہمارے زمانہ میں جو قرآن کریم کے پاروں کی اجرت لے کر پڑھنے کا رواج ہوگیا ہے وہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس میں قرأ ت کا حکم کرنا آمر کو ثواب دینا اور مال کے لئے قرأت کرنا ہے پس جب نیت صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قاری کو ثواب نہیں ملتا تو مستاجر (اجرت دے کر پڑھوانے والے) کو کہاں ثواب پہنچے گا؟ اگر پیسے (شیرینی) ملنے کی امید نہ ہوتو اس زمانہ میں کوئی کسی کے لئے تلاوت نہ کرے حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے قرآن مجید کو کمائی اور دنیا جمع کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ا نا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ الی قولہ۔علامہ مفتی خیر الدین حاشیہ بحر کے کتاب الوقف میں تحریر فرماتے ہیں ،اقول۔ میں کہتا ہوں مفتی بہ قول یہ ہے کہ تعلیم قران پر استحساناً اجرت لینا جائز ہے ، تلاوت مجردہ پر اجرت لینا جائز نہیں جیسا کہ تاتار خانیہ میں بیان فرمایا ہے ، حیث قال ۔لا ینبغی لہذہ الوصیۃ …اگر کوئی یہ وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد اجرت دے کر قرآن خوانی کرانا تو یہ وصیت معتبر نہیں اس لئے کہ یہ بمنزلۂ اجرت کے ہے اور محض قرآن خوانی کے لئے اجرت دینا باطل ہے اور یہ بدعت ہے خلفاء میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا اور تعلیم قرآن پر اجرت لینے کے مسئلہ کو ہم نے استحساناً بیان کیا ہے ،یعنی (قرآن کی حفاظت ہوجائے اس )ضرورت کی وجہ سے اور قبر پر اجرت لے کر قرآن خوانی کرنے کے لئے کوئی ضرورت نہیں ۔الیٰ قولہ۔ علامہ خلوتی نے حاشیۃ المنتہی الحنبلی میں شیخ الا سلام تقی الدین سے نقل فرمایا ہے میت کے ایصال ثواب کے لئے اجرت دے کر قران خوانی کرانا صحیح نہیں ہے اس لئے کہ کسی بھی امام سے اس کی اجازت منقول نہیں ہے ، علماء نے فرمایا ہے کہ قاری جب مال کے لئے قرأ ت کرے تو اس کو ثواب نہیں ملتا تو وہ کون سی چیز میت کو پہنچائے گا میت کو عمل صالح پہنچتا ہے تلاوۃ مجردہ کے لئے اجرت دینا کوئی بھی امام اس کا قائل نہیں الخ۔
فتاویٰ بزازیہ میں ہے ۔
واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ وجمع الصلحاء والقراء للختم اولقرأۃ سورۃ الا نعام اوا لا خلاص فالحاصل ان اتخاذ الطعام عند قرأ ۃ القرآن لا جل الا کل یکرہ۔ (بزازیہ علی ہامش الہندیہ ص ۸۱ج۴ جنائز (فصل)نوع آخر)
(ایصال ثواب کا یہ طریقہ ) کہ ختم قرآن یا سورۂ انعام یا سورۂ اخلاص پڑھنے کے لئے صلحاء اور قراء کو دعوت دے کر جمع کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا مکروہ ہے ۔
حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ‘ فرماتے ہیں ۔
’’جس طریق سے آج کل قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کیا جاتا ہے یہ صورت مروجہ ٹھیک نہیں ہاں احباب خاص سے کہہ دیا جائے کہ اپنے اپنے مقام پر حسب توفیق پڑھ کر ثواب پہنچا دیں ۔ الیٰ قولہ۔ چاہے تین مرتبہ قل ہو اﷲ ہی پڑھ کر بخش دیں جس سے ایک قرآن کا ثواب مل جائے گا یہ اس سے بھی اچھا ہے کہ اجتماعی صورت میں دس قرآن ختم کئے جائیں ،اس میں اکثر اہل میت کو جتلانا ہوتا ہے ، اور اﷲ کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے، چنانچہ حضو ر اقدس ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا ایک صحابی ایک مد کھجور خیرات کرے اور غیر صحابی احد پہاڑ کے برابر سونا، تو وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ پاتا، یہ فرق خلوص اور عدم خلوص کا ہے ، کیونکہ جو خلوص ایک صحابی کا ہوگاوہ غیر صحابی کا نہیں ہوسکتا ۔(انفاس عیسیٰ ص ۲۱۵ ج۱)

مشینی ذبیحہ


سوال:  مشینی ذبیحہ کے متعلق شریعتِ مطہرہ کی کیا تعلیمات و احکامات ہیں؟
جواب:
جانور کو ذبح  کرنے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ ذبح کرنے والاعاقل ، بالغ ہو، اور مسلمان یا  اہلِ کتاب میں سے یہودی یا عیسائی ہو (بشرط یہ ہے کہ وہ  اپنے مذہب کے اصول، پیغمبر اور کتبِ سماویہ کو مانتاہو،  دھری نہ ہو) اور وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، اور ذبحِ اختیاری میں یہ بھی ضروری ہے کہ گلے کی چاروں رگیں (کھانے کی نالی، سانس کی نالی اور خون کی نالیوں) یا ان میں سے اکثر کٹ جائیں، اور  ذبح کرنے والا خود جانور کو  تیز دھار آلہ سے ذبح کرے، (اگر آلہ کی تیزی کے بجائے اس کے دباؤ سے  دم گھٹنے کی وجہ سے جانور مرجائے تو وہ مردار ہوگا)۔
مروجہ مشینی ذبیحہ میں یہ سب شرائط نہیں پائی جاتیں، لہذا مشین کے ذریعہ ذبح کرنا خلافِ شرع ہے، اور مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
ہاں اگر مشین کا کام صرف اس حد تک ہو کہ وہ جانور کو قابو کرلے، اور اس کے عمل سے جانور کی موت واقع نہ ہو، اور  مشین جانور کو  گزارتی جائے اور مشین کے  چھری پھیرنے کے بجائے  وہاں مسلمان یا متدین اہلِ کتاب کھڑے ہوجائیں اور وہ  اپنے سامنے گزرتے ہوئے جانوروں کو باری باری ہر ایک پر تسمیہ پڑھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے تیز دھار آلے کی مدد سے ذبح کریں تو اس صورت میں ذبیحہ حلال ہوگا۔              فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200468                                                                                                                                       دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


فتویٰ نمبر:558
سوال: میں غیر مسلم ملک میں رہتی ہوں یہاں  جو گوشت ملتا ہے وہ مشین سے ذبح کیا جاتا ہے ۔۔اس کے کھانے کا کیاحکم ہے ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلّياً
واضح رہے کہ مشینی ذبیحہ میں اگر جانور کو ذبح بھی مشین کے ذریعہ سے کیاجائے تو اس قسم کا مشینی ذبیحہ حرام اور مردار ہوگاالبتہ اگر ذبح کی جگہ سے مشین ہٹاکرمسلمان یاکتابی کوکھڑا کیااجائے اورمسلمان یاکتابی ہی شرعی طریقہ سے جانور کو ذبح کرے البتہ باقی سارا کام مشین سے ہواور مندرجہ ذیل شرائط کا بھی لحاظ رکھاجائے تو اس صورت میں مشینی ذبیحہ حلال ہوگا۔
۱۔ جانور ذبح ہونے سے پہلے کرنٹ لگا کر مار انہ جاتا ہوبلکہ وہ ذبح ہونے تک زندہ ہو۔
۲۔ ذبح کرنے والامسلمان ہویاکوئی اہل ِ کتاب یہودی یانصرانی ہو۔
۳۔ذبح کرنے والے نے (خواہ یہودی یانصرانی ہی کیوں نہ ہو) ذبح کرتے وقت خالص اللہ کانام لیاہو۔
۴۔جانور کی چار رگوں میں سے کم سے کم تین کٹی ہوں ۔ (مأخذہ ٗالتبویب ۱۲۷۲؍۱۴)
مندرجہ بالا شرائط میں سےکوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو ذبح ہونے والاجانور مردار اور حرام ہوگا۔================
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 389)
أما الشروط التي ذكرها الفقهاء للذكاة الشرعية، فإنها ترجع إلى ثلاثة عناصر، الأول: طريق إزهاق الروح، والثاني: ذكر اسم الله، والثالث: أهلية الذابح.
================
الدر المختار – (ج 6 / ص 296)
( وشرط كون الذابح مسلما حلالا خارج الحرم إن كان صيدا ) ۔۔۔۔( أو كتابيا ذميا وحربيا ) إلا إذا سمع منه عند الذبح ذكر المسيح ( فتحل ذبيحتما ) …(لا ) تحل ( ذبيحة ) غير كتابي من ( وثني ومجوسي ومرتدا )… ( وتارك تسمية عمدا )
================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 294)
(و) ذكاة (الاختيار) (ذبح بين الحلق واللبة) بالفتح: المنحر من الصدر (وعروقه الحلقوم) كله وسطه أو أعلاه أو أسفله: وهو مجرى النفس على الصحيح (والمريء) هو مجرى الطعام والشراب (والودجان) مجرى الدم (وحل) المذبوح (بقطع أي ثلاث منها) إذ للأكثر حكم الكل وهل يكفي قطع أكثر كل منها خلاف وصحح البزازي قطع كل حلقوم ومريء وأكثر ودج وسيجيء أنه يكفي من الحياة قدر ما يبقى في المذبوح
================
الفتاوى الهندية (5/ 286)
ومن شرائط التسمية أن تكون التسمية من الذابح حتى لو سمى غيره والذابح ساكت وهو ذاكر غير ناس لا يحل. (ومنها) أن يريد بها التسمية على الذبيحة، فإن أراد بها التسمية لافتتاح العمل لا يحل،
================
واللہ تعالی اعلم بالصواب


سوال:                                                                                                         # 5692
مشینی ذبیحہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ یہاں آسٹریلیا میں مذبح میں مشین کے ذریعہ مرغیاں ذبح کی جاتی ہیں، ضرورت و حاجت کی بنا پر ایک دن میں ایک لاکھ مرغیاں ذبح ہوتی ہیں، ذبح کا عمل اتنی سرعت سے ہوتا ہے کہ ایک مرغی پر بسم اللہ کہنا یا مرغی کو ہاتھ لگانا ممکن نہیں۔ایسے میں ایک مسلمان اگر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر مشین کا بٹن دبادے تو کیا اس عمل سے مشین کے بلیڈ سے جتنی مرغیاں ذبح ہوں گی، وہ حلال ہوں گی یا نہیں؟ یہاں اسلامی تنظیموں کی جانب سے مسلمان ذابح کی نگرانی میں مرغیاں ذبح ہوتی ہیں،ان پر حلال کا سرٹیفکٹ دیاجاتاہے۔ کیا یہ مرغیاں حلال ہیں؟ عام طور سے ۹۹/فیصد مرغیوں کا استعمال مسلم گھرانوں میں ہوتاہے۔ کیا ان کی دعوتیں قبول کی جاسکتی ہیں؟ کیا کھانے سے قبل مسلم میزبان سے پوچھنا ضروری ہے کہ اس کا ذبیحہ کس طرح کا ہے؟
Published on: Jun 22, 2008
جواب:                                                                                                                                        # 5692
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 876=763/ ب
صورتِ مسئولہ میں ذبح کا عمل اتنی سرعت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہرایک مرغی پر بسم اللہ کہنا ممکن نہیں ہے اور ایک مرتبہ کہہ لینا بھی کافی نہیں ہے، لہٰذا مشینی ذبیحہ جائز نہیں ہے، ایسی مرغی کے گوشت کا استعمال درست نہیں ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،     دارالعلوم دیوبند


سوال:                                                                                                                               # 56989
میں سویڈین میں رہتاہوں اور میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا مشینی ذبیحہ کھانا حلال ہے ؟ جب کہ مسلمان کے ذریعہ اس پر اللہ کا نام لیا جاتاہے۔ میں تذبذب میں ہوں کیوں کہ مارکیٹ میں دستیاب چکن پر لکھا ہوتاہے کہ یہ حلال ہے نیز اس پر اسلامک کلچرل سینٹر کی طرف سے حلال اسٹامپ بھی ہوتاہے ، لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اس کھا سکتاہوں کیوں کہ یہ مشینی ذبیحہ ہوسکتاہے۔براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب:                                                                                                                              # 56989
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 116-116/Sd=3/1436-U

مشینی ذبح کے اس وقت بہت سے طریقے رائج ہیں، جن میں سے اکثر طریقوں میں جانور شرعاً حلال نہیں ہوتا ہے، جب تک متعینہ طریقہ سامنے نہ ہو، علی الاطلاق حلت یا حرمت کا حکم نہیں دیا جاسکتا، تاہم چونکہ گوشت میں اصل حکم حرمت کا ہے، اس لیے جب تک گوشت کے بارے میں یہ یقین نہ ہوجائے کہ یہ شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہے کھانے سے احتراز کرنا چاہیے اور گوشت کی پیکنگ پر جو حلال اسٹامپ ہوتا ہے صرف اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب تک جانور کے شرعی طریقے پر ذبح ہونے کا یقین نہ ہوجائے، آپ اس طرح کے چکن کھانے سے احتراز کریں۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،     دارالعلوم دیوبند


غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ گوشت اور غذائی مصنوعات کا حکم

سوال کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام ان مسائل کے بارے میں:اگر کوئی مسلمان کسی اسلامی ملک میں کسی غیر اسلامی ملک مثلاً: برازیل ، نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا سے مرغی کا گوشت خریدے یا درآمد کرے جب کہ اس پر حلال کی مہر لگی ہوئی ہو تو کیا اس مسلمان درآمد کنندہ کے ذمے یہ تحقیق لازم ہے کہ یہ مشینی ذبیحہ ہے یا نہیں؟ جب کہ یہ بات معروف ہے کہ وہاں کی اسلامک کونسل جو حلال سر ٹیفکیٹ کا اجرا کرتی ہیں، ان کے یہاں مشینی ذبیحہ کے جواز کا قول ہے او ران کے نزدیک ہر ہر جانور پر تسمیہ پڑھنا ضروری نہیں، اور بنابر ضرورت اور عمومِ بلوی کے مشینی ذبیحہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والی اکثر غیر ملکی غذائی کمپنیاں جو مرغی کے گوشت سے بنی ہوئی مختلف اقسام کی اشیاء فروخت کرتی ہیں ان میں سے اکثر اور بعض مرغی سے بنی ہوئی کچھ غذائی اشیاء غیر اسلامی ملک سے درآمد کرتی ہیں اور بسا اوقات ان کے پاس حلال سر ٹیفکیٹ بھی نہیں ہوتا جو وہ صارف کو دکھا سکیں، اب کیا اس صورت میں کوئی مسلمان جس کو اس بات کا علم ہو کہ یہ غیر ملکی درآمد شدہ غذائی اشیاء ہیں تو وہ مسلمان یہ غذائی اشیاء خریدتے وقت اس تحقیق کا مکلف ہے کہ یہ مشینی ذبیحہ ہے یا نہیں؟ یا اسلامی ملک میں یہ حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے اور عام مسلمان اس تحقیق سے بری ہے ۔ کیوں کہ اگر ان غذائی کمپنیوں سے نہیں پوچھا جائے گا جیسا کہ اب تک ہو رہا ہے تو اس کا شیوع بڑھنے کا امکان ہے ، جو تقریباً حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے، اب تک کوئی ان غیر ملکی فوڈچین سے حلال سر ٹیفکیٹ کا مطالبہ بھی نہیں کرتا او رنہ ہی یہ اس کے حصول کی کوشش کرتی ہیں او رحکومت کی طرف سے فی الوقت کوئی قانونی ہدایات واضح معیار کی صورت میں موجود نہیں ہیں ، ایسی صورت میں ایک دین دار مسلمان کی کیا ذمے داری ہے؟

جوابغیر مسلم ممالک سے درآمد کیا جانے والا گوشت مسلمانوں کے لیے اس وقت حلال ہو گا جب وہ لوگ ذبح کی شرعی شرائط کی رعایت کریں ، جب تک ان شرائط کی رعایت کا یقین نہ ہو جائے ، اس وقت تک ان کا ذبیحہ حلال نہیں ہے اگر چہ اس پر حلال کی مہر لگی ہو ، کیوں کہ یہ شہادت قابلِ اعتماد نہیں ہے ، نیز یہی حکم مرغی کے گوشت سے بنی ہوئی ان غذائی اشیاء کا بھی ہے جو ان غیر مسلم ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔

رہی یہ بات کہ اس درآمد شدہ گوشت کے بارے میں مشینی یا غیر مشینی، حلال یا حرام کی تحقیق کا مکلف کون ہے ؟ ایک عام مسلمان یا حکومت وقت؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو مسلم ہے کہ یہ عام طور پر مشینی ذبیحہ ہوتا ہے جس میں ذبح کے شرعی اصولوں کی رعایت نہیں رکھی جاتی تاہم یہ حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ ان کمپنیوں کے ذمے داروں سے اس بات کا مطالبہ کرے کہ وہ ذبح میں شریعتِ اسلامیہ کے احکام کے موافق طریقہ اختیار کریں او رپھر مستند علماء کرام وماہرین کے ذریعے ان کے طریقہ کار کی جانچ پڑتال کروائے ، لیکن بہ ظاہر حکومت وقت کو اس اہم ترین فریضہ کی فرصت کہاں، اس لیے علماء کرام کو اپنے طور پر اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے یا ان ممالک میں آباد علماء کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے ، البتہ ایک عام مسلمان کے لیے حکم یہ ہے کہ جب تک اس گوشت کی حلت کا یقین نہ ہو اسے استعمال نہ کرے۔
مشینی ذبیحہ؟
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام قرآن وحدیث کی روشنی میں درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل غیر اسلامی اور بعض اسلامی ممالک میں جانور کو مشین سے ذبح کیا جاتا ہے جس کو مشینی ذبیحہ (Mechanical Slaughtring) کہتے ہیں ۔

مشینی ذبیحہ کا طریق کار:
عام طور پر مشینی ذبیحہ کی ضرورت چھوٹے جانور( مرغی وغیرہ) میں پڑتی ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرغی کو بے ہوش کرنے کے بعد مشین جو کہ ایک لوہے کی پٹری پر مشتمل ہوتی ہے جو ایک ہال کی چوڑائی میں دو دیواروں کے درمیان اوپر کے حصے میں نصب ہوتی ہے، اس پٹری کے نچلے حصے میں بہت سے ھک لٹکے ہوتے ہیں جن کا رخ زمین کی طرف ہوتا ہے، پھر ان ہکوں میں مرغی کو الٹا لٹکایا جاتا ہے، پھر اجتماعی تسمیہ کے ساتھ یا ٹیپ رکارڈ پر چلنے والی تسمیہ کے ساتھ مشین میں لگے بلیڈ کے ذریعے گردن کو الگ کر دیا جاتا ہے۔

مشینی ذبیحہ کا متبادل طریق کار:
متبادل طریقہ جو کہ بعض ممالک میں متعارف ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ مشینی پٹری کے ساتھ چند پٹری مزید لگا دی جائیں اور ہر پٹری پر ایک آدمی کھڑا ہاتھ کے ذریعہ ہر مرغی پر تسمیہ پڑھتے ہوئے ذبح کرے اور پھر باقی طریقہ کار بذریعہ مشین وہ ہی رہے جو کھال اتارنے سے لے کر گوشت کی پیکینگ تک رہتا ہے، اس طریقہ کار کے مطابق انتہائی کم مقدار میں مرغی کی قیمت تو بڑھتی ہے لیکن خریدار کے لیے اس کو خریدنا مشکل نہیں ہوتا۔

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں درکار ہیں:
1..
مشینی ذبیحہ جائز ہے یا نہیں؟ 2..  کیا سب جانوروں کے لیے ایک تسمیہ کافی ہے؟3.. کیا ہر ہر جانور کے لیے الگ الگ تسمیہ پڑھنا ضروری ہے ؟ 4..کیا جانور کے ذبح کے وقت پوری گردن الگ کرنا جائز ہے؟ 5.. اگر ٹیپ ریکارڈ پر تسمیہ کی آواز چل رہی ہو تو ایسی تسمیہ کے ساتھ ذبح شدہ جانور حلال ہے یا نہیں؟6.. مشینی ذبیحہ کا جو متبادل طریقہ ذکر کیا ہے کیا ایسے طریقے کے مطابق مذبوحہ جانور حلال ہو گا یا نہیں؟

جواب… 1..مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ مشینی ذبیحہ جائز ہے، اگر ایک شرط بھی مفقود ہو گئی تو مشینی ذبیحہ جائز نہیں ہو گا اور ذبح شدہ جانور حرام ہو گا:

جانور یا مرغی پہلے سے زندہ ہو۔ مشین کے ذریعے ذبح کرنے والا آدمی مسلمان ہو۔ مشین کی چھری جانور کی گردن تک پہنچاتے وقت اس نے خالص الله کا نام ” بسم الله، الله اکبر“ پڑھا ہو۔ چار رگیں (خوراک کی نالی، سانس کی نالی اور ان کے دائیں بائیں خون کی دو رگیں) یا کم از کم تین رگیں کٹ جائیں ۔ جتنے جانوروں یا مرغیوں کی گردن پر چھری بیک وقت پڑی وہ جانور او رمرغیاں ممتاز اور الگ ہوں ان دوسرے جانوروں اور مرغیوں سے جن پر چھری بعد میں چلی اور وہ مردار ہیں، ان کا گوشت پہلے جانوروں اور مرغیوں کے گوشت میں مخلوط نہ ہو گیا ہو ، نیز سانس نکلنے سے پہلے مرغیوں وغیرہ کو گرم پانی میں نہ ڈالا ہو۔

(2..3) 
ہر ہر جانور یا مرغی کے لیے الگ سے ” بسم الله“ پرھنا ضروری ہے، البتہ اگر مشین کابٹن دباتے وقت ” بسم الله“ پڑھ کر ایک سے زائد جانوروں یا مرغیوں پر بیک وقت مشین کا بلیڈ چلایا جائے تو ان سب کے لیے ایک ”تسمیہ“ پڑھنا کافی ہے ، بشرط کہ”تسمیہ“ پڑھنے، مشین کا بٹن دبانے اور ذبح کرنے میں قولاً وعملاً اتصال ہو۔

4..
مکروہ ہے۔ 5..حلال نہیں ہے۔ 6..سوال میں مذکورہ متبادل طریقہ درست ہے، لیکن اس میں بھی یہ خیال رہے کہ روح نکلنے سے پہلے جانور یا مرغی سے کھال وغیرہ نہ اترے، کیوں کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔

مشینی ذبیحہ کا حکم اور متبادل جائز طریقہ

سوال

مشینی ذبیحہ سے متعلق ویڈیو دیکھ لیں۔ ایک منٹ میں 150مرغی حلال ہوتی ہے۔ یہاں پر علماء میں اختلاف ہے کچھ حلال کہتے ہیں کچھ حرام، براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

مذکورہ مشینی ذبیحہ حلال نہیں اس لئے کہ مشین میں لگی ہوئی چھری کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ ہر مرغی پر ذبح کرنے والا خود تسمیہ پڑھے اور مشین اسٹارٹ کرتے ہوئے تسمیہ پڑھنا یا چھری کے پاس کھڑے ہونے والے شخص کا تسمیہ پڑھنا شرعی تقاضہ کو پورا نہیں کرتا نیز ذبح سے قبل کرنٹ والے پانی سے گزارنے کی صورت میں ذبح سے قبل مرغی کی موت واقع ہونے کااندیشہ ہے۔ البتہ مذکورہ طریقہ میں چند ترمیمات کرکے اسے شریعت کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔

۱۔ جس پانی سے مرغیوں کو ذبح سے قبل گزارا جاتا ہے اس میں کرنٹ نہ چھوڑا جائے۔

۲۔ مشین میں سے چھری نکال دی جائے اور اس کی جگہ پر چند مسلمان یا اہل کتاب کھڑے کر دیئے جائیں مرغیاں جب ان کے سامنے سے گزریں تو ان میں سے ہر ایک مرغی پر تسمیہ پڑھتے ہوئے اس کو شرعی طریقے کے مطابق ذبح کرے۔

۳۔ جس پانی سے مرغیوں کو ذبح کرنے کے بعد گزارا جاتا ہے وہ اتنا زیادہ گرم نہ ہو کہ ابلنے کی حد تک پہنچ جائے۔

(ماخذہ فقہی مقالات از مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب ص ۲۸۰ : ج۴)
ماخذ :دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور
فتوی نمبر :854

جدید خود کار آلات کے ذریعے مرغیاں ذبح کرتے وقت تسمیہ کیسے پڑھا جائے؟


 سوال نمبر:172296،                                                                تاریخ اشاعت : 19-02-2016،                                                                                     مشاہدات : 4303
سوال
سوال: برطانیہ میں ایک ادارہ اسلامی سلاٹر ہاؤس ہےجومذبح خانوں کی نگرانی کرتا ہے، اور ہوٹلوں کو یہ سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ متعلقہ ہوٹلانہی مذبح خانوں کا ذبح شدہ گوشت استعمال کریں جو اس ادارے کی زیر نگرانی چلتے ہیں، ان مذبح خانوں میں مرغی کو درج ذیل طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے:
مرغی کو پہلے ہلکا سا بجلی کا جھٹکا لگایا جاتا ہے جس سے مرغی کی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ مرغی کی قوت میں کمی آتی ہے، اور بجلی کے جھٹکے کی شدت کو کم اور زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے، اس کے بعد مشین چلائی جاتی ہے، جو کہ مرغیوں کو خود کار طریقے سے چلنے والی چھریوں کے نیچے سے گزارتی ہے جس سے خوراک، سانس اور خون کی دونوں رگوں سمیت سب رگیں کٹ جاتی ہیں، اب یہاں مسئلہ یہ در پیش ہے کہ اس مشین کو چلانے والا شخص صرف ابتدا میں تسمیہ پڑھ کر اللہ اکبر کہتا ہے، مذبح خانے کی طرف سے پانچ افراد کو مذبح ہال میں صرف اسی لیے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ "بسم اللہ ، اللہ اکبر" بار بار پڑھتے رہیں، لیکن ذبح کرنے والی مشین کو چلانے میں ان پانچ افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ صرف تسمیہ اور تکبیر ہی پڑھتے رہتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے ذبح شدہ مرغیاں حلال ہیں؟ جن کو ذبح کرتے ہوئے آٹو میٹک مشین چلانے والا صرف پہلی بار ہی تکبیر پڑھتا ہے، اور کیا ہال میں مقرر کردہ پانچ افراد کی طرف سے صرف تکبیریں پڑھتے رہنا فائدہ مند ہوگا؟ یہ واضح رہے کہ یہ پانچ افراد خود ذبح کرنے کے عمل میں شریک نہیں ہوتے؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
اول:
جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دینا  بسا اوقات  جانور کی موت کا باعث ہوتا ہے، اور عام طور پر اگر بجلی کا جھٹکا ہلکا یا درمیانی ہو تو جانور صرف بیہوش ہوتا ہے۔
چنانچہ اگر بجلی کے جھٹکے سے جانور مر گیا تو یہ مردار ہے اسے تمام فقہائے کرام کے ہاں کھانا جائز نہیں ہے، اور اگر بجلی کے جھٹکے سے نہ مرے بلکہ فوری بعد چھری سے ذبح کر دیا جائے تو ایسی صورت میں اسے کھانا حلال ہے۔
چنانچہ اس بارے میں ڈاکٹر محمد اشقر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر بجلی کے جھٹکے سے جانور مر جائے تو یہ چوٹ لگ کر مردار ہونے والے جانوروں میں شامل ہوگا،  اور اگر مرنے کی بجائے صرف بیہوش ہو  اور مرنے سے پہلے پہلے شرعی طریقے سے ذبح کر دیا جائے تو حلال ہوگا، اور اگر ذبح کیے بغیر ہی بجلی کے جھٹکوں کے بعد اس کی کھال وغیرہ اتارنی شروع کر دی جائے  تو تب بھی یہ حرام ہوگا" انتہی
ماخوذ از: "مجلہ اسلامی فقہ اکیڈمی" (شمارہ نمبر: 10 (1/339)
اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے یہ قرار داد پاس کی گئی ہے کہ  مرغیوں کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا لگانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ  یہ بات تجربے  اور مشاہدے میں آ چکی ہے کہ اس سے غیر معمولی مقدار میں مرغیاں مر جاتی ہیں۔
اسلامی فقہی اکیڈمی کے  دسویں اجلاس منعقدہ بمقام جدہ، سعودی عرب 23 تا 28 صفر 1418 ہجری بمطابق 28 جون تا 3 جولائی 1997ء میں  یہ قرار داد پا س کی گئی ہے کہ :
"بیہوش کرنے کے بعد ذبح کیے جانے والے جانور شرعی طور پر حلال ہیں بشرطیکہ ان میں تمام فنی شرائط  پائی جائیں اور  ذبح کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ جانور کی موت واقع نہ ہوئی ہو، اس کیلئے موجودہ حالات میں ماہرین  نے درج ذیل امور کو لازمی قرار دیا ہے:
1- برقی رو کے منفی اور مثبت   راڈ کو دائیں اور بائیں کنپٹی پر لگایا جائے یا پیشانی اور سر کی پچھلی جانب یعنی گدی پر لگایا جائے۔
2- وولٹیج 100 سے 400 وولٹ کے درمیان ہو۔
3- برقی رو کی شدت (0.75 سے 1 ) ایمپیئر  تک بکری کیلئے ہو، اور  گائے وغیرہ کیلئے (2 سے 2.5) ایمپیئر  تک ہو۔
4- بجلی کا جھٹکا 3 سے 6 سیکنڈ تک   دیا جائے۔
ج‌- جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہے اسے (Captive Bolt Pistol)  [ایک پستول جس میں سے ایک لوہے کا نوک دار میخ نکل کر جانور کے دماغ میں لگتا ہے اور بیہوش ہو جاتا ہے، چنانچہ 3 سے 4 منٹ تک جانور ذبح نہ کیا جائے تو وہ مر جائے گا] کے ذریعے یا دماغ پر کلہاڑی اور ہتھوڑی  مار کر ، یا گیس کے ذریعے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ عام طور پر انگریز انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جانور بیہوش کرتے ہیں۔
ح‌- مرغیوں کو بجلی کے جھٹکوں سے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ عینی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کافی تعداد میں مرغیاں ذبح ہونے سے پہلے ہی مر جاتی ہیں۔
خ‌- کاربن ڈائی آکسائید  کو ہوا یا آکسیجن کے ساتھ  ملا کر ، یا چپٹی گولی والی پستول [non-penetrating bolt gun] استعمال کر کے جانور بیہوش کرنا اور پھر اسے ذبح کرنا ایسے جانور کا گوشت حلال ہے، بشرطیکہ اس پستول کو بھی ایسے انداز سے استعمال کیا جائے جس سے جانور کی موت ذبح کرنے سے پہلے واقع نہ ہو" انتہی
ڈاکٹر محمد ہواری کا کہنا ہے کہ :
"
مرغی کو بجلی کے جھٹکے دینے سے 90 فیصد مرغیوں کا دل حرکت کرنے سے رک جاتا ہے، اور ان میں سے 10 فیصد مر بھی جاتی ہیں"
دیکھیں:   "مجلة مجمع الفقه الإسلامي" شمارہ نمبر: 10 ( 1 / 411 -583)
مذکورہ بالا تفصیل کے تحت اسلامی فقہی اکیڈمی  نے ذکر کیا ہے کہ غیر معمولی تعداد میں مرغیاں مر جاتی ہیں ، اور انہیں زندہ مرغیوں سے الگ بھی نہیں کیا جاتا تو ایسی صورت میں بجلی کا جھٹکا لگانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر بجلی کا جھٹکا اتنا ہلکا ہو کہ موت واقع نہ ہو تو پھر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا جانور حلال ہوگا۔
دوم:
ذبیحہ کے حلال ہونے کیلئے  تسمیہ پڑھنا شرط ہے، اور اہل علم کے راجح موقف کے مطابق بھولنے یا لا علمی کی وجہ سے یہ ساقط نہیں ہو سکتا۔
اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (85669) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اصولی طور پر تسمیہ کسی معین جانور کو سامنے رکھ کر پڑھا جاتا ہے۔
لیکن ایک ہی وقت میں متعدد جانوروں کو ذبح کرنے والے خود کار آلات  کے سامنے آنے پر علمائے کرام  ایسے آلات سے ذبح شدہ جانور کے حلال ہونے کیلئے تسمیہ کی شرط  سے متعلق متعدد آراء رکھتے ہیں:
1- ایک ہی وقت میں اگر  مشین سے کئی جانور ذبح ہوتے ہوں تو پھر مشین چلانے والے کی جانب سے ایک بار مشین چلانے پر ایک  دفعہ تسمیہ پڑھنا کافی ہوگا، یہی فتوی دائمی فتوی کمیٹی نے دیا ہے اور اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے قرار داد بھی یہی پاس کی گئی ہے۔
2- مشین چلانے والے کی طرف سے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہے، بشرطیکہ جن مرغیوں کو ذبح کرنا چاہتا ہے وہ اس کے سامنے ہوں، مثال کے طور پر مرغیوں کو چین وغیرہ میں لگا دیا گیا ہو۔ یہ فتوی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے۔
3- ان آلات کیساتھ ذبح کرتے ہوئے تسمیہ پڑھنا مشکل ہے، اس لیے ان کے ذریعے ذبح کرنا حلال نہیں ہے۔
ان میں سے راجح پہلا موقف ہی ہے؛ اس کے درج ذیل دلائل ہیں:
دائمی فتوی کمیٹی کے  فتاوی میں ہے کہ:
"
خود کار طریقے سے ذبح کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مشینوں کے ذریعے بیک وقت دسیوں مرغیاں ایک ہی تسمیہ کہہ کر ذبح کر دی جاتی ہیں، اور اگر کوئی شخص بہت بڑی تعداد میں مرغیاں ذبح کر رہا ہے تو کیا  اس کیلئے ایک ہی بار تسمیہ کہنا درست ہے؟ یا ہر بار اسے الگ سے تسمیہ کہنا ہوگا؟"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
1-  جدید آلات کے ذریعے ذبح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ آلات تیز دھار والے ہوں، اور حلق کیساتھ دیگر رگوں کو بھی کاٹ دیں۔
2- اگر مشین ایک وقت میں متعدد مرغیاں ذبح کرے تو  سب کیلئے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہوگا، اور یہ تسمیہ کوئی مسلمان یا اہل کتاب میں سے  کوئی بھی مشین کو ذبح کی نیت سے چلاتے وقت پڑھے گا۔
3- اگر مرغی کو ذبح کرنے والا شخص اپنے ہاتھ سے مرغیاں ذبح کر رہا ہے تو ہر مرغی پر الگ سے بسم اللہ پڑھنی ہوگی۔
4- ذبح کرنے کی جگہ سے ذبح کرنا لازمی ہے، یعنی خوراک کی نالی سمیت خون کی دونوں یا کوئی ایک رگ لازمی کاٹی جائے۔
بکر ابو زید۔۔۔ صالح الفوزان ۔۔۔  عبد الله بن غدیان ۔۔۔ عبد العزیز بن عبد الله آل شیخ " انتہی
"
فتاوى اللجنة الدائمة" (22/463)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (22/ 462) میں  یہ بھی ہے کہ:
"
جانور ذبح کرنے والی مشین کو چلاتے وقت صرف ایک ہی بار تسمیہ پڑھنا کافی ہے؟ یہ واضح رہے کہ مشین چلاتے وقت صرف ایک بار ہی تسمیہ پڑھا جاتا ہے"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"
متعدد جانوروں کو یک بار ذبح کرنے کیلئے مشین چلانے والا شخص ایک بار تسمیہ کہہ دے تو یہ کافی ہوگا، بشرطیکہ مشین چلانے  والا شخص مسلمان ، یا اہل کتاب میں سے یہودی یا عیسائی ہو۔
عبد الله بن غدیان ۔۔۔ عبد الرزاق عفیفی۔۔۔  عبد العزیز بن عبد الله بن باز" انتہی
گزشتہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی قرار دادوں میں یہ بھی ہے کہ:
"
آٹھویں شق: اصولی طور پر مرغیوں اور دیگر جانوروں کو ہاتھ سے ذبح کیا جائے ، تاہم  اگر دوسری شق میں مذکور تمام شرائط اور ضوابط پورے ہوں تو پھر مرغیوں وغیرہ کو خود کار آلات سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ یک بار میں جتنی بھی مرغیاں ذبح ہوں ان کیلئے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہے، اور جیسے ہی یہ تسلسل ٹوٹے تو پھر دوبارہ سے تسمیہ پڑھنا ہوگا" انتہی
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے پاس کردہ قرار داد میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ تسمیہ مشین چلانے والا ہی کہے گا۔
ڈاکٹر سلیمان اشقر کہتے ہیں کہ:
"
بڑی تعداد میں شریعت کے مطابق ہاتھ سے جانور ذبح کرتے ہوئے ہر جانور پر تسمیہ پڑھنا ذبح کرنے والوں کیلئے شدید مشقت کا باعث ہے، چنانچہ اگر کسی ایک شخص کو ایک گھنٹے میں 1200 مرغیاں ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو  اس کا مطلب ہے کہ ہر تین سیکنڈ میں ایک مرغی ذبح کرنی ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ اس نے ایک گھنٹے میں 1200 مرتبہ بسم اللہ واللہ اکبر کہنا ہے، اور اس میں بہت مشقت اور تنگی  کا سامنا کرنا پڑیگا، جبکہ شریعت میں تنگی اور مشقت کو ختم کرنے کا  کہا گیا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تم پر دین میں مشقت اور تنگی نہیں رکھی۔ [ الحج: 78]
اسی وجہ سے کویت کے دار الافتاء نے یہ فتوی صادر کیا اور جس وقت یہ فتوی صادر ہوا تھا میں بھی فتوی کمیٹی کا ممبر تھا ، کہ بہت بڑی تعداد میں مرغیوں کو ذبح کرتے وقت  صرف شروع میں تسمیہ پڑھا جائے اور بنا کسی توقف کے ذبح کا عمل جاری رہے تو ابتدا میں پڑھی ہوئی تسمیہ ہی کافی ہے، چنانچہ اگر درمیان میں انقطاع  آ جائے تو ذبح کرنے والا بقیہ مرغیوں پر دوبارہ سے تسمیہ پڑھ دے" انتہی
"
مجلة مجمع الفقه الإسلامي" شمارہ نمبر: 10 ( 1/ 346)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا جس کا متن درج ذیل ہے:
سائل کہتا ہے کہ: "میں وطنیہ پولٹری فارم  میں مرغیوں کو ذبح کرنے کا طریقہ دیکھنے کیلئے گیا ؛ تو وہ شروع میں مرغی کو زنجیر میں لٹکا دیتے ہیں تا کہ ذبح کرنے والے کے سامنے سے گزرتے ہوئے حرکت نہ کر سکے، پھر یہ مرغی ذبح کرنے والے کے سامنے سے گزری تو اس نے بسم اللہ پڑھے بغیر اسے ذبح کر دیا،
تو میں نے پوچھا : تم نے بسم اللہ کیوں نہیں پڑھی؟
تو اس نے کہا:  میں یومیہ پانچ لاکھ مرغیوں پر کیسے بسم اللہ پڑھ سکتا ہوں؟ اس لیے میں شروع میں بسم اللہ  اللہ اکبر ، پڑھ کر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
میں نے پوچھا: اس کے بارے میں تم نے کسی سے پوچھا ہے؟
اس نے کہا: اہل علم نے اس کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔
شیخ صاحب! اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ ایسا کرنا جائز ہے؟ "
تو انہوں نے جواب دیا:
"
کسی بھی معین چیز پر تسمیہ پڑھنا لا زمی ہے، چاہے معین جانور ایک ہوں یا زیادہ، چنانچہ مثال کے طور پر اگر ایک ہزار مرغیوں کو زنجیر پر لٹکا دیا گیا ، اور پھر مشین چلنے پر اس نے بسم اللہ پڑھ لی تو یہ کافی ہے، اسی طرح جب دوسری بار مرغیوں کو لٹکا دیا گیا اور مشین چل پڑی چھریوں سے مرغیوں کے ذبح کرنے کا عمل شروع ہو گیا تو  دوسری بار  والی مرغیوں پر تسمیہ پڑھے، اسی طرح تیسری اور چوتھی بار بھی ایسے ہی کرے۔
سائل: شیخ ! ذبح کرنے والے کا کہنا ہے کہ: میں ایک ہی دفعہ تسمیہ پڑھتا ہوں، تو کیا یہ کافی ہے؟
شیخ: مشین چلنے پر ایک دفعہ پڑھتا ہے اور پھر مشین بند ہونے تک پڑھتا ہی نہیں ہے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ تسمیہ کسی معین چیز پر پڑھنا لازمی امر ہے۔
سائل: شیخ ایک بات اور بھی ہے! ہم ایک بار تبو ک میں قائم اسٹرا فارمز میں گئے تو وہ وہاں پر بٹیرے  ذبح کر رہے تھے، اس کیلئے وہ بٹیروں کو پہلے چین میں لٹکاتے  اور پھر ایک مشین کے ذریعے ان پر پانی پھینکا جاتا جس سے ان پر غنودگی سے طاری ہو جاتی ، پھر اس کے بعد یہ بٹیرے ایک دیوار کے پاس سے گزرتے جہاں پر بسم اللہ و اللہ اکبر لکھا ہوا ہے، وہاں سے گزر کر  نے کا بعد اس کا سر مشین سے کاٹ دیا جاتا۔
وہاں پر موجود ایک ذمہ دار نے کہا کہ اس طرح کرنا بھی کافی ہے کہ دیوار پر بسم اللہ و اللہ اکبر لکھا ہوا ہے۔
شیخ: یہ بالکل جہالت ہے، اور ہاں آپ اور آپ کے رفقا جنہوں نے یہ تمام معاملات دیکھے ہیں ایک تحریر لکھ کر اس پر دستخط کریں اور دار الافتاء  ارسال کریں ، آپ نے اپنی تحریر میں یہ بھی لکھنا ہے کہ یہ کب  ہوا تھا، تا کہ آپ بری الذمہ ہوں۔
سائل: شیخ ! ان کا کہنا ہے کہ متعدد علمائے کرام نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔
شیخ: نہیں ، ایسا ممکن نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ کچھ مشایخ نے اس صورت کے بارے میں فتوی نہ دیا ہو، بلکہ کسی اور صورت کے بارے میں وہی فتوی دیا ہو جو میں نے بتلایا ہے، یعنی کہ متعین جانوروں کو سامنے رکھ کر انہیں ذبح کرنے کی نیت کرے اور پھر سب پر شروع میں ہی تسمیہ پڑھ دے، یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ پرندوں کا غول دیکھ کر شکاری بندوق چلائے اور بسم اللہ پڑھ کر فائر کرے اس فائر کی وجہ سے بیس پرندے  شکار ہوں تو یہ جائز  اور حلال ہونگے"
"
اللقاء المفتوح "(35/ 27)
راجح -واللہ اعلم-یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی رائے کی بجائے جن مرغیوں کو ذبح کرنا ہے ان کی تعین کرنا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں پر ایک بار تسمیہ پڑھنے پر اکتفا کرنا شکاری کی صورت میں مجبوری کی حالت پر قیاس شدہ ہے، اور شکار میں معین پرندوں کا شکار کرنے کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اپنے ہتھیار پر بسم اللہ پڑھے گا، چنانچہ اگر شکاری نے شکار کرتے ہوئے اپنے ہتھیار کو بسم اللہ پڑھ کر استعمال کیا  اور نیت کسی خاص شکار کی کی لیکن وہ کسی اور کو جا لگا تو وہ شکار حلال ہی ہوگا۔
یہاں ہم شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی مفید گفتگو نقل کرتے ہیں ، جو ہماری ذکر شدہ بات کی تائید کرتی ہے کہ اصولاً ہر ذبیحہ  پر تسمیہ الگ سے پڑھی جائے گی، جبکہ ذبح کرنے والی مشین کو چلانا والے کی طرف سے ایک بار تسمیہ پڑھنا خلاف اصل اور رخصت  ہے، جسے شکار کی صورت  پر اضطراری حالت میں قیاس کیا گیا ہے، اور اس میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس شخص کا ذبح کرنے والی مشین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے وہ اس کے پاس کھڑے ہو کر بسم اللہ پڑھے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تقی عثمانی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ:
"
اس طریقے سے جانور ذبح کرتے ہوئے تسمیہ کہنے کا معاملہ بہت سنگین نوعیت کا ہے، اس میں پہلا مسئلہ یہ آتا ہے کہ ذبح کرنے والا کون ہے؟ کیونکہ ذبح کرنے والے پر تسمیہ پڑھنا واجب ہے، چنانچہ اگر ایک شخص ذبح کرے اور دوسرا کوئی شخص تسمیہ پڑھ دے تو یہ جائز نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خود کار مشین میں ذبح کرنے والا کون ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے بھی مشین کو چلایا ہے وہی ذبح کرنے والا شمار ہوگا؛ کیونکہ بجلی سے چلنے والی تمام مشینوں کا عمل اسے چلانے والے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، ویسے بھی مشین کوئی ذی عقل چیز تو ہے نہیں کہ اس کی طرف کسی کام کی نسبت کی جائے، چنانچہ جو بھی ان مشینوں کو چلاتا ہے اسی کی طرف کام کی نسبت کی جاتی ہے، لہذا مشین کے واسطے سے حقیقی فاعل وہی ہوتا ہے ۔
اب یہاں ایک نیا مسئلہ ہے کہ: جس نے بھی یہ مشین صبح کام شروع ہوتے وقت چلائی  وہ دن میں صرف ایک بار ہی چلاتا ہے اور پھر ڈیوٹی ٹائم کے دوران وہ مشین چلتی ہی رہتی ہے، اور بسا اوقات دن رات مسلسل چلتی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں مرغیاں ذبح ہوئی، تو کیا سارے دن ذبح ہونے والی مرغیوں کیلئے دن کے شروع میں کہی گئی تسمیہ کافی ہوگی؟
قرآنی آیت: (وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ )
ترجمہ: جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ[الأنعام: 121] کا ظاہر اس بات کا تقاضا کر تا ہے کہ ہر جانور کو ذبح کرنے کیلئے الگ سے تسمیہ پڑھی جائے گی اور تسمیہ پڑھنے کے فوراً بعد جانور ذبح کر دیا جائے گا۔
اسی بنیاد پر فقہائے کرام نے  احکام مستنبط کرتے ہوئے کہا ہے کہ  ہر جانور پر یا ہر ذبح کرنے کے عمل پر تسمیہ پڑھنا واجب ہے۔
میں نے اپنے مضمون میں فقہائے کرام کی عبارتیں ذکر کی ہیں کہ: فقہائے کرام ہر جانور پر الگ سے تسمیہ پڑھنے کی شرط لگاتے ہیں، اور یہ بھی لازم قرار دیتے ہیں کہ ذبح اور تسمیہ دونوں ایک ہی وقت میں ہوں دونوں میں قابل ذکر فاصلہ نہ ہو۔
اب یہ شرائط بجلی سے چلنے والی مذکورہ مشین  میں نہیں پائی جاتیں، کیونکہ اگر مشین چلاتے ہوئے اگر تسمیہ کہی جائے تو یہ ہر جانور پر تسمیہ نہیں ہے، بلکہ درمیان میں ہزاروں مرغیوں کے ذبح ہونے کا فاصلہ بھی ہے، جو بسا اوقات 24 گھنٹے یا 48 گھنٹوں تک بھی پھیل سکتا ہے، تو اس سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ اس طرح سے تسمیہ پڑھنا سارے دن کے جانوروں کو ذبح کرنے کیلئے کافی نہیں ہوگا۔
میں نے کینڈا کے کچھ مذبح خانوں کا دورہ کیا اور وہاں میں نے دیکھا کہ انہوں نے گھومنے والی چھریوں کے پاس ایک آدمی کو مقرر کیا ہے وہ مسلسل "بسم اللہ ، اللہ اکبر " کہتا جا رہا ہے، میں نے اس مشین کے بارے میں بھی گفتگو کی اور کہا کہ:
اس شخص کی تسمیہ اور تکبیر  کو شرعی حکم دینے کیلئے کچھ تحفظات ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1- تسمیہ ذبح کرنے والے پر پڑھنا لازمی ہے، لیکن گھومنے والی چھریوں کے پاس کھڑے ہوئے شخص کا ذبح کرنے کے عمل سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے، کیونکہ نہ تو اس نے مشین کو چلایا ہے، نہ چھری چلائی، اور نہ ہی مرغیاں اس کے قریب کی گئیں، لہذا یہ شخص ذبح کرنے کے عمل سے بالکل الگ تھلگ ہے، اس کا ذبح کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس کی تسمیہ اور تکبیر ذبح کرنے والے شخص کی طرف سے نہیں سمجھی جا سکتی۔
2- گھومنے والی چھریوں کے پاس متعدد مرغیاں  چند سیکنڈوں کے دورانیے میں گزر جاتی ہیں ، اور کھڑا ہوا یہ شخص بغیر وقفے کے ہر ایک پر تکبیر نہیں پڑھ سکتا۔
3- تسمیہ پڑھنے کیلئے مقرر کردہ شخص انسان ہے، وہ کوئی خود کار مشین نہیں ہے، اس لیے وہ کسی اور چیز میں بھی مشغول ہو سکتا ہے، اسے کسی اور چیز کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت بھی پڑھ سکتی ہے، لیکن اسی دوران دسیوں مرغیوں پر چھری چل جائے گی اور اسے ان پر تسمیہ پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔
یہاں خود کار مشین پر تسمیہ کے حوالے سے ایک اور بھی قابل غور امر ہے کہ ہم اس مشین کے چلانے کو شکار کیلئے کتا چھوڑنے پر قیاس کر لیں؛ اس لیے کہ شکار میں تسمیہ اس وقت پڑھا جاتا ہے جب شکار کیلئے کتا چھوڑیں، چنانچہ شکار پکڑے جانے یا اس کے مرنے کے وقت تسمیہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، اور شکار کی اس صورت میں شکاری کتا چھوڑنے اور تسمیہ پڑھنے میں کافی فاصلہ آ سکتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کتا ایک بار میں متعدد جانوروں  کا شکار کر لے، اور اس بارے میں ظاہر سی بات ہے کہ سب شکار حلال ہونگے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"
اگر شکاری  تسمیہ پڑھ کر کسی خاص جانور کے شکار کی نیت سے تسمیہ پڑھے لیکن کوئی اور جانور شکار ہو جائے تو وہ بھی حلال ہی ہوگا، لیکن اگر شکاری نے ایک تیر نکال کر اس پر تسمیہ پڑھی پھر اس رکھ کر دوسرا تیر نکالا اور شکار کر دیا لیکن تسمیہ نہیں پڑھی تو اس کا شکار حلال نہیں ہوگا"
یہ تمام باتیں اضطراری حالت میں ہیں جبکہ ہماری گفتگو اختیاری صورت حال کے بارے میں اور اضطراری حالت پر اختیاری حالت کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
تاہم اگر ہم ان نکات کی طرف دیکھیں کہ:
*
آبادی بہت بڑھ چکی ہے، صارفین کی تعداد زیادہ اور ذبح کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی بنا پر ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مصنوعات کی ضرورت ہے
*
شریعت نے شکار کرتے ہوئے شکار کا تعین مشکل ہونے کی وجہ سے اس کی تعیین لازمی قرار نہیں دی، جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : "ایسی صورت حال میں شریعت رکاوٹ اور مشکلات کو درمیان میں حائل نہیں ہونے دیتی"
تو ہمیں صرف تسمیہ پڑھنے سے متعلق اختیاری حالات کو اضطراری حالات پر قیاس کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے، تا کہ رکاوٹیں ختم ہوں اور لوگوں کیلئے آسانی پیدا ہو۔
اس تمام گفتگو کے بعد بھی میں  اس امر کو بہت زیادہ قوی نہیں سمجھتا ، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میں علمائے کرام کے سامنے اس موضوع کو رکھوں، اور اس کے بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میں نے ابھی تک اس سے متاثر ہو کر کوئی فتوی نہیں دیا، کیونکہ ہمارے پاس گھومنے والی چھریوں  کا متبادل موجود ہے، اور اس متبادل کی وجہ سے پروڈکشن پر بھی کسی قسم کا منفی اثر نہیں پڑتا، متبادل یہ ہے کہ گھومنے والی خود کار چھریوں کی جگہ پر چار مسلمانوں کو ذبح کرنے کیلئے کھڑا کر دیا جائے اور سب کے سب لٹکی ہوئی مرغیوں کو  ذبح کریں اور ساتھ میں تسمیہ بھی پڑھیں۔
یہ متبادل میں نے ری یونین جزیرہ کے ایک بڑے مذبح خانے کے سامنے رکھا تو انہوں نے اس کا تجرباتی مشاہدہ کیا، اور تجربے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اس طرح ان کی پروڈکشن پر کسی قسم کا کوئی منفی اثر نہیں پڑا ، اس کی وجہ یہ بنی کہ چار افراد مل کر اتنی ہی تعداد میں مرغیاں ذبح کرتے تھے جتنی تعداد میں خود کار گھومنے والی چھریاں  ذبح کرتی تھیں"
شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی، ماخوذ از: "مجلة مجمع الفقه الإسلامي" شمارہ نمبر: 10 ( 1/ 541- 544)
گزشتہ پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ :
1- مرغیوں کو بجلی کا جھٹکا بالکل مت لگائیں، لہذا ذبح کرنے کے عمل پر نگرانی کرنے والے ادارے اس وقت تک سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں جب تک کرنٹ کی وجہ سے مرغیوں کی عدم ِ اموات کا یقین نہ کر لیں۔
2- جس وقت مشین چلائی جائے اس وقت تسمیہ پڑھنا کافی ہے، اور جب رک جائے تو دوبارہ چلنے پر پھر تسمیہ پڑھی جائے گی۔
3- مشین کے پاس کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف سے تسمیہ پڑھنے کی کوئی وقعت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فضول کام ہے، اس لیے اس سے لازمی طور پر بچیں۔
4- جانوروں کے ذبح ہوتے ہوئے ان کی شرعی قواعد و ضوابط کی نگرانی کرنے والے ادارے تمام تر شرعی اصولوں پر پا بندی کو یقینی بنائیں، اور ان میں کسی قسم کا تساہل برداشت نہ کریں۔
کوشش کریں کہ شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی اقتراح کے مطابق ذبح کرنے کا عمل ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیں مشینی ذبح کو ترجیح مت دیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بجلی کے جھٹکوں اور تسمیہ  پڑھنے کا مسئلہ در پیش نہیں آئے گا، ایسے ہی یہ امر بھی یقینی ہو جائے گا کہ مرغی کو مخصوص جگہ سے ہی ذبح کیا جائے  گا ؛ کیونکہ مرغیوں کا سائز چھوٹا بڑا ہوتا ہے اور مشینی چھریاں اس چیز کا خیال نہیں کرتیں ، اس بات کی طرف بھی کچھ مضمون نگاروں نے اشارہ کیا ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذالاسلام سوال و جواب



مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس