ہفتہ، 15 ستمبر، 2018

ماہ محرم

دارالإفتاء جامعہ فاروقیہ
محرم میں ماتم
سوال …محرم الحرام کے مہینے میں حضرت حسین رضی الله عنہ کی شہادت کی وجہ سے غم اور سوگ کا اظہار کرنا، مرثیہ خوانی آہ و بکاء اور ماتم کرنا درست ہے یا نہیں؟

بعض سنی حضرات بھی ماتم وغیرہ کرتے ہیں تو کیا ان کے لیے اس طرح ماتم وغیرہ درست ہے یا نہیں؟

جواب …واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے مصائب کے وقت صبر کی تعلیم دی ہے اور ماتم صبر کے منافی ہے اس لیے اسلام میں ماتم، غم اور سوگ کا اظہار، مرثیہ خوانی اور آہ و بکاء ناجائز و حرام ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اے ایمان والو!صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بے شک الله تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اور الله تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو شعور نہیں۔“(سورہٴ بقرہ، آیت:153،154)

دوسری جگہ ارشاد ہے:
”اور ان لوگوں کو بشارت اور خوش خبری دیجئے جو ہر مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں اور” اناللہ واناالیہ راجعون“ پڑھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی خصوصی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔“(سورہٴ بقرہ، آیت:156،157)

ارشاد خداوندی ہے:
”اور الله تعالیٰ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں۔“(سورہٴ آل عمران:146)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” وہ ہم میں سے نہیں جو چہرے پر تھپڑ مارے اور گریبان پھاڑے اور کفر کے جاہلانہ طریقے پر آہ و فغاں اور واویلا کرے۔“(بخاری شریف،ج:1/172)

حدیث قدسی میں ہے:
”جو شخص میرے فیصلے اور تقدیر پر راضی نہیں اور میری بھیجی ہوئی مصیبت پر صبر نہیں کرتا تو وہ میرے آسمان کے نیچے سے نکل کر میرے سواکوئی اور رب تلاش کرے۔“

علامہ ابن حجر مکی فرماتے ہیں:
”خبردار اور ہوشیار!عاشورہ کے دن روافض کی بدعتوں میں مبتلا نہ ہوجانا مانند مرثیہ خوانی، آہ و بکاء اور رنج و الم کے، اس لیے کہ یہ خرافات مسلمانوں کے شایان شان نہیں اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو حضوراقدس صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا دن اس کے لیے زیادہ موزوں تھا۔(الصواعق المحرقہ، ص109)

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:
”اگر حضرت حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ”یوم مصیبت و ماتم“ کے طور پر منایا جائے تو یوم ”شنبہ“(پیرکادن) اس غم و ماتم کے لیے زیادہ موزوں ہے اس لیے کہ اس دن حضرت رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم نے وفات پائی ہے اور اسی دن حضرت ابوبکر نے بھی وفات پائی ہے۔“(حالا نکہ ایسا کوئی نہیں کرتا) (غنیة الطالبین، ج:2،38)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”اہل سنت کا طریقہ یہ ہے کہ عاشورہ کے دن فرقہ، روافض کی بدعات مثلاً: ماتم، نوحہ وغیرہ سے علاحدہ رہتے ہیں اس لیے کہ یہ مسلمانوں کا کام نہیں ورنہ اس غم کا سب سے زیادہ حق دار پیغمبرحضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کی وفات کا دن تھا۔“(شرح سفرالسعادةص543)

معلوم ہوا کہ ماہ محرم میں ماتم، نوحہ خوانی، زنجیرزنی اور تعزیہ وغیرہ جیسی غیراسلامی رسومات روافض کی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہیں، اسلام میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

لہٰذا سنی حضرات کو چاہیے کہ ان کی غیر شرعی مجالس میں شرکت نہ کریں اور جو حضرات ناواقفی کی بنا پر شرکت کرتے ہیں، انہیں سمجھا کر ان کو منع کریں۔

الله تعالیٰ ہمیں ان رسومات و بدعات سے بچائیں اور راہ راست پر چلنے کی توفیق عطافرمائیں۔ آمین۔
محرم میں ایصال ثواب
سوال …محرم کے مہینے میں بعض لوگ نویں دسویں گیارھویں تاریخ کو حلوہ، کھچڑا اور کھانا پکانے کا اہتمام کرتے ہیں، پکانے کے بعد لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

کیا اسلام میں ان تاریخوں میں کھانا پکانے کا اہتمام اور پکاکر تقسیم کرنا درست ہے یا نہیں؟اوراس کھانے کا کیا حکم ہے؟ کھانا درست ہے یا نہیں؟

جواب …محرم کے مہینے میں بالخصوص نویں، دسویں اور گیارھویں تاریخ کو کھانا، کھچڑا اور حلوے پکاکر حضرت حسین رضی الله عنہ کی روح کو ایصال ثواب ناجائز وبدعت ہے۔

مروجہ کھانا وغیرہ صرف نام و نمود اور ریا کاری کے لیے پکایا جاتا ہے، اس کے علاوہ فساد عقیدہ کی وجہ سے اس میں اور بھی قباحتیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

اول: جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ان کو لوگ اکثر و بیشتر نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اس وجہ سے کھانا پکاکر دیتے ہیں اور یہ صریح شرک ہے اورایسا کھانا حرام ہوتا ہے اور الله تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت داخل ہوتا ہے:

”وما اھل لغیرالله بہ“(مائدہ آیت۔3)
”حرام ہے وہ جانور جس پر نام پکارا جائے الله تعالیٰ کے سوا کسی اور کا۔“

دوئم:بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو چیز صدقے میں دی جاتی ہے میت کو بعینہ وہی چیز پہنچ جاتی ہے یہ خیال لغو اور غلط ہے۔

سوئم:یہ تاریخ متعین کرنا کہ ان تاریخوں میں کھانا پکانا ہے، یہ اپنے اوپر غیر ضروری چیز کو لازم سمجھنا التزام مالایلزم میں داخل ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے اس رسم کو ترک کرنا ضروری ہے۔
حلیم کے لیے چندہ دینا، حضرت حسین کی نیاز کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفیتان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

محرم الحرام میں جو چندہ حلیم کے نام، یا سبیل کے نام پر دیا جاتا ہے، یہ دینا درست ہے یا نہیں؟ حضرت حسین  یا اور مردوں کی نیاز کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب… حلیم کے لیے چندہ دینا اور غیر الله کی نیاز چڑھانا ناجائز اور حرام ہے لہٰذا ایسی اشیاء کے کھانے پینے سے احتراز لازمی ہے۔
سبیل کا شربت
سوال …ہر سال محرم کے مہینے میں ”سبیل حسین“ کے نام سے سبیل لگائی جاتی ہے،اس طرح سبیل لگانا اور اس سے پانی پینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب … لوگوں کو پانی پلانا کارخیراور ثواب کا کام ہے، لیکن محرم کے مہینے میں پہلی تاریخ سے لے کر دسویں محرم تک شربت تقسیم کرنا اور سبیل لگانا بہ چند وجوہ ناجائز ہے۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ سبیل لگانے اور شربت پلانے والوں کا خیال ہے کہ اس سے کربلا کے شہیدوں کی پیاس بجھ جاتی ہے، حال آنکہ یہ عقیدہ بالکل باطل اور فاسد ہے۔ اس لیے کہ شہدا جنت کی نعمتوں میں ہوتے ہیں، ان کو اس شربت وغیرہ کی کیا ضرورت؟

دوسری وجہ یہ ہے کہ سبیل لگانے اور شربت پلانے کا مقصد ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کے لیے عشرہٴ محرم کی تخصیص اور باقی دنوں میں اس عمل کو ترک کرنا ترجیح بلا مرجح ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ سبیل لگانے میں روافض کے ساتھ تشبہ بھی ہے۔

لہٰذا سنی حضرات پر لازم ہے کہ سبیل لگانے اور روافض کی لگائی ہوئی سبیل کا پانی پینے سے اجتناب کریں۔
ماہ محرم میں شادی
سوال …ہمارے ہاں محرم کے مہینے کو سوگ کا مہینا قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں شادی بیاہ ناجائز ہے۔

کیا واقعتاً محرم کا مہینہ سوگ کا مہینہ ہے اور اس میں شادی کرنا ناجائز ہے؟

جواب …ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینا قرار دینا ناجائز و حرام ہے، اس لیے کہ شریعت مطہرہ نے سوگ منانے کے لیے عام رشتہ داروں کو تین دن اور بیوہ کو چار مہینے دس دن تک اجازت دی ہے۔

اسی طرح اس مبارک مہینے میں شادی وغیرہ کو ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا ہے ان کو اعتقاداً یا عملاً ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔

لہٰذا مسلمانوں کوچاہیے کہ روافض اور شیعہ کے اعتقادات اور رسومات سے بچنے کی کوشش کریں۔
دسویں محرم کو روزہ رکھنا
سوال …کوئی شخص صرف دسویں محرم کو روزہ رکھتا ہے، نویں یا گیارھویں کو اس کے ساتھ روزہ نہیں رکھتا تو اس طرح روزہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب …دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا بھی روزہ رکھنا چاہیے، اگر نویں کا روزہ نہ رکھ سکے تو گیارھویں کا روزہ رکھے، ورنہ صرف دسویں محرم کا روزہ مکروہ ہوجائے گا۔
استخارہ اور اس کا مسنون طریقہ
سوال… محترم مفتی صاحب! مجھے استخارہ کا مسنون طریقہ بتا دیجیے، بہت مہربانی ہو گی۔

جواب… واضح رہے کہ استخارہ سے مقصود رفع تردد، ایک جانب کو ترجیح اور طلب خیر ہے، نیز اس کامشروع طریقہ یہ ہے کہ استخارہ خود کیا جائے۔

لہٰذا آپ اگر تردد کا شکار ہیں اور کسی ایک جانب کو ترجیح دینا چاہتے ہیں تو سونے سے پہلے دو رکعت نماز نفل پڑھیں، بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہٴ کافرون اور دوسری رکعت میں سورہٴ اخلاص پڑھیں، سلام پھیرنے کے بعد حمد وثناء اور درود شریف کے بعد انتہائی خشوع خضوع اور تضرع کے ساتھ یہ دعاء پڑھیں:

” اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک، واسئلک من فضلک العظیم، فإنک تقدر، ولا اقدر وتعلم ولا اعلم، وانت علام الغیوب، اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیرلی فی دینی ومعاشی وعاقبة امری فاقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ، وان کنت تعلم ان ھذا الامر شرلی فی دینی ومعاشی وعاقبة امری فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدر لی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ۔

جب ” ھذا الأمر“ پڑھیں تو جس چیز کے لیے استخارہ کر رہے ہیں اس کا خیال کریں ، اس کے بعد پاک وصاف بچھونے پر باوضو قبلہ کی طرف رخ کرکے سو جائیں ، صبح کو جس جانب زیادہ رحجان ہو اس کو اختیار کریں ، ان شاء الله اسی میں خیر ہو گی، اگر ایک دن میں خلجان اور تردد دور نہ ہو تو اسی عمل کو سات دن تک کریں ، الله نے چاہا تو اطمینان اور حجان حاصل ہو جائے گا۔

البتہ اگر تردد نہیں ہے، ویسے ہی کوئی پریشانی ہے ، تو دو رکعت صلاة الحاجات پڑھ کر الله سے رو رو کر مانگیں، توبہ واستغفار بھی کریں، نیز صبح وشام یہ دعا پڑھ لیا کریں:

”اللھم انی أعوذبک من الھم والحزن واعوذبک من العجز والکسل واعوذبک من الجبن والبخل، واعوذبک من غلبة الدین وقھر الرجال“․

ہم بھی آپ کے لیے دعاگو ہیں ، الله رب العالمین آپ کی تمام جائز حاجتوں کو پورا فرما کر آسانی اور عافیت کا معاملہ فرمائیں۔
شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا کسی بچہ کو گود لینا
سوال…دسمبر1997ء میں زید نے دوسری شادی کر لی اب تقریباً آٹھ سال گزرنے کے باوجود زید کو دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی کچھ عرصہ پہلے زید کی بیوی اپنے لیے ایک پرایا بچہ گود لینے کا کہتی رہی ۔ لیکن زید نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرے پانچ بچے ہیں اور پرایا بچہ میں نہیں لے سکتا اور نہ میرے بچے اس پرائے کو قبول کریں گے۔

اب آج سے دس دن پہلے زید کی بیوی ایک پرایا بچہ شوہر کے انکار کے باوجود زبردستی شوہر کے گھر لے آئی اور اسے پال رہی ہے، زید نے اپنی بیوی کے اکلوتے بھائی سے رابطہ کیا، زید کے سالے نے کہا کہ بچے کا خرچ سب اس کی ماں ( زید کی بیوی) برداشت کر ے گی۔ لیکن پھر بھی زید اس پرائے بچے کو گود لینے، پالنے اور گھرمیں رکھنے سے انکار ی ہے۔

اب آخر میں عرض ہے کہ شریعت کے مطابق اس مسئلے کا کیا حل ہے وضاحت کریں کہ کیا زید کی بیوی اپنے شوہر زید کی رضا مندی کے بغیر اس بچے کو گودلے سکتی ہے، زید ہی کے گھر میں پرورش کرسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب… شریعت کی رو سے زید کی بیوی زید کی اجازت اور رضامندی کے بغیر نہ کسی بچے کو گود لے سکتی ہے اور نہ زید کے گھرپال سکتی ہے ، مباح امور میں شوہر کی اطاعت واجب ہے، لہٰذا زید کی بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو راضی کرے، بصورت دیگر بچہ واپس کر دے۔

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس