ہفتہ، 25 مارچ، 2017

علم و علماء کی فضیلت



علم و علماء کی فضیلت


’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

امام محمد رحمہ اللہ کو کسی نے خواب میں دیکھا، پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا، جب میں درگاہ رب العزت میں حاضر ہوا مجھ سے فرمایا گیا کہ کیا مانگتے ہو؟ میں نے عرض کیا، ’’یا رب اغفرلی‘‘، ’’اے  میرے رب مجھے معاف کردے‘‘۔ ارشاد ہوا کہ اے محمد اگر ہمیں تم کو عذاب دیان ہوتا تو تم کو یہ علم عطا نہ کرتے۔ تم کو ہم نے اپنا علم اسی لئے عطا کیا تھا کہ ہم تم کو بخشنا چاہتے تھے۔
اسی سے بعض نے استنباط کیا ہے کہ کسی کو خبر نہیں کہ میرے ساتھ خدا کو کیا منظور ہے بجز علماء کے۔ کیونکہ ارشاد ہ: ’’ من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین‘‘، اب سمجھ میں آگیا کتنی بڑی ضرورت اور کیسی فضیلت ہے علم دین کی کہ خدا تعالی بدوں اس کے خوش نہیں ہوسکتے۔ رضا حق علم دین حاصل کرنے پر موقوف ہے۔ (حق الاطاعۃ عبدیت، و۴۲ ج۱۹)

علماء کی ضرورت
میں پوچھتا ہوں کہ آیا علماء کا قوم کے لئے ہونا ضروری ہے یا نہیں، اگر نہیں ہے تو اس کا قائل ہونا پڑے گا کہ پھر اسلام کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ بدوں علماء کے اسلام قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ کوئی پیشہ بدون اس کے ماہرین کے چل نہیں سکتا۔ یہ اور بات کہ تھوڑی بہت دینی معلومات سب کو ہوجائیں اور اس سے وہ محدود وقت تک کچھ ضرورت رفع کریں مگر اس سے اس مقدار ضرورت کا بقا نہیں ہوسکتا۔ بقاء کسی شے کا ہمیشہ اس کے ماہرین سے ہوتا ہے تو ماہرین علماء کی ضرورت ٹہھری۔
پھر یہ ماہرین کیسے پیدا ہوں؟ سو تجربہ سے اس کی صرف یہی صورت ہے کہ ساری قوم پر واجب ہے کہ چندہ سے کچھ سرمایہ جمع کرکے علماء کی خدمت کرکے آئندہ نسل کو علوم دینیہ پڑھائیں اور برابر یہی سلسلہ جاری رکھیں۔ سو عقلا تو یہ بات واجب تھی کہ ساری قوم اس کی کفیل ہوتی مگر ایک طالب علم بیچارہ آپ ہی ہر مصیبت جھیل کے تحصیل علوم دینیہ میں مشغول ہوا تو چاہئے تو یہ تھا کہ آپ اس کی قدر کرتے بجائے اس کے رہزنی کرتے ہیں کہ عربی پڑھوگے تو کھاؤگے کیا؟ کیا مسجد کے مینڈھے بنوگے؟ ہاں صاحب دنیا کا کتا بننے سے اچھا ہے۔

عالم کی مثال
عالم کی مثال آفتاب کی سی ہے اس کے طلوع ہوتے ہی نصف کرۂ زمین (پوری زمین کا آدھا حصہ) منور ہوجا تا ہے اور ظلمت بالکل جاتی رہتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دیندار عالم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری تابع بن جائے اس کی صفت یہ ہو کہ ’’لایخافون فی اللہ لومۃ لائم‘‘ ’اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔‘‘ (دعوات عبدیت طریق النجاۃ، ص۵۳ ج ۱۲)

دنیاوی امن و سلامتی کے لئے بھی علماء کی جماعت کا ہونا ضروری ہے
’’ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ، و لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا‘‘
دعا دونوں معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ اس آیت میں اگر عبادت کے معنی لئے جائیں تب خلاصہ یہ ہوگا کہ اول بھی عبادت کا حکم ہے اور بعد میں بھی۔ اور درمیان میں فساد کی ممانعت ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عبادت نہ کرنا فساد ہے۔ قرآن شریف اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ عبادت کا ترک کرنا موجب فساد فی الارض ہے اور انتظام عبادت کو اصلاح فی الارض فرمایا ہے۔ تو آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عبادت یعنی دین نہ ہونا موجب فساد ہے اور اب میں اس کو مشاہدہ سے ثابت کرتا ہوں دین حقیقت میں چند چیزوں کے مجموعے کا نام ہے اور وہ پانچ چیزیں ہیں، عقائد، عبادات، معاملات، آداب معاشرت، اخلاق باطنی۔
اصلاح الارض میں جدا جدا ہر ایک کا دخل ہے مثلا معاملات کا اثر امن عام میں ظاہر ہوتا ہے کیونکہ معاملہ کے احکام کا حاصل حقیقت یہ ہے کہ کسی کا حق ضائع نہ کیا جائے پس معاملات کو اتفاق میں بڑا اثر ہے۔
اور مثلا اخلاق میں جھوٹ نہ بولنا، ہمدردی کرنا، خود غرضی نہ کرنا سب داخل ہے اور یہ اصول تمدن میں بہت چیز ہے جن پر تمام دنیا کا دار و مدار ہے اور واقعات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ اخلاق دو شخصوں میں پائے جائیں جن میں ایک تو توحید و رسالت کا قائل ہو اور دوسرا اس کا قائل نہ ہو تو یقیناًدونوں میں بہت بڑا فرق ہوگا یعنی منکر توحید میں یہ اخلاق محدود العمر ہونگے اس طرح سے کہ جب تک ان اخلاق پر عمل کرنے سے اس کے دنیاوی منافع فوت نہ ہوں ان کے خلاف کرنے سے رسوائی کا اندیشہ ہو اس وقت تو ان اخلاق پر عمل کیا جائے گا اگر ایسا موقع آپڑے کہ ان اخلاق پر عمل کرنے سے دنیوی ضرر ہوتا اور ان کے خلاف کرنے میں بدنامی کا اندیشہ نہ ہو تو اس منکر توحید و رسالت کو کبھی ان اخلاق کی پرواہ نہ ہوگی۔ البتہ جو اخلاقی تعلیم کے ساتھ خدا اور قیامت میں ضرور ہی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اب عمل کا دخل لیجئے سب کو معلوم ہے کہ اخلاق میں بڑی چیز تواضع ہے اس کے نہ ہونے سے تمام عالم میں فساد پھیلتا ہے کیونکہ فساد کی جڑ ہے نا اتفاقی اور نااتفاقی تکبر سے پیدا ہوتی ہے اگر تکبر نہ ہو تو نااتفاقی کی کوئی وجہ نہیں تو اتفاق کے لیے تواضع پیدا کرنے اور تکبر کو مٹانے کی ضرورت ہے۔
اور تواضع کی عادت نماز سے خوب ہوتی ہے نفس کا خاصہ ہے کہ اگر اس کو کہیں ذلت نہ سکھلائی جائے تو اس میں فرعونیت پیدا ہوجاتی ہے اور نماز میں اول ہی سے اللہ اکبر کی تعلیم ہے تو جس کے دل میں خدا کی عظمت ہوگی وہ اپنے کو چیونٹی سے بھی مغلوب اور ناتواں سمجھے گا کیونکہ بڑوں کے سامنے ہوتے ہوئے چھوٹوں پر بھی حکومت نہیں رہتی تو اللہ اکبر کی وہ تعلیم ہے کہ اس سے تکبر کی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔
علیٰ ہذا قوت بہیمیہ سے سینکڑوں فساد لڑئی جھگڑے دنیا میں ہوتے ہیں اور روزے سے قوت بہیمیہ ٹوٹتی ہے۔
اسی طرح زکوٰۃ کے لینے والے کے علاوہ دوسروں کو بھی زکوۃ دینے والے کے ساتھ محبت ہوتی ہے دیکھو حاتم طائی سخاوت کی وجہ سے سب کو اس سے محبت ہے اور اتفاق کی جڑ محبت ہے تو زکوۃ کو اتفاق میں کتنا بڑا دخل ہے۔
علی ہذا حج پو غور کیجئے کہ اس میں ساری دنیا کے آدمی ایک شغل میں ایک زمانہ میں ایک مکان میں جمع ہوتے ہیں اور تمام سامان تکبر سے خالی ہوکر ایک عظیم الشان دربار میں حاضر ہوتے ہیں، جس کو اتحاد و اتفاق میں بہت بڑا دخل ہے چنانچہ وہاں بہت کم حادثے پیش آتے ہیں۔
اب رہی معاشرت سو تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جتنے طریقے ناجائز ہیں وہ کے سب وہی ہیں جن سے تکبر ٹپکتا ہے۔ مثلا ناجائز وضع سے شریعت نے منع کیا ہے۔
ہر چیز میں ایک خاصیت ہوتی ہے۔ اسی طرح اعمال میں بھی ایک خاصیت ہے اور عقائد میں بھی اور معاشرت میں بھی اور وہ یہ ہے کہ ان سب سے قلب میں ایک نور پیدا ہوتا ہے اور اس نور سے اس کی وہ حالت ہوتی ہے۔
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ (مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے لوگ محفوظ ہوں) اب یہ بھی سمجھو کہ اطاعت ایک عمل ہے اور عقلی مسئلہ ہے کہ عمل بدون علم کے ہو نہیں سکتا تو امن عالم کے لئے علم دین کی ضرورت ہوئی اور اس کے حامل علماء ہیں تو اب بتاؤ یہ جماعت دنیا میں سب سے زیادہ ضروری ہوئی یا نہیں؟ میں نے کوئی شاعری نہیں کی، نہ کسی کی طرف داری کی امید ہے کہ اس بیان سے حقیقت حال منکشف ہوگئی ہوگی۔(دعوات عبدیت ضرورۃ العلماء ص۸۴ ج۱۱)

علماء کے وجود سے دنیا قائم ہے
اس سے اس حدیث کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا ہوگا ’’لا تقوم الساعۃ حتی لایقال فی الارض اللہ اللہ‘‘ یعنی جب تک کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہے قیامت نہ آئے گی۔
مختصر وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام طاعت ہے اور کفر بغاوت ہے تو دنیوی سلطنتوں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اگر کسی شہر میں باغی زیادہ ہوں تو شہر پر توپ خانہ لگادیا جاتا ہے۔ خدا تعالی بھی اگر یہی کرتے تو اکثر اوقات توپ لگے ہوتے۔ مگر یہ خدا تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے یہ قانون مقرر کیا کہ اگر کل باغی ہوں مگر صرف ایک غیر باغی ہوتو اس کی بدولت تمام عالم محفوظ رہے گا۔ ہاں جب بغاوت عام ہوجائے اس وقت پھر ہلاکت بھی عام ہوگی۔ (یعنی قیامت آجائے گی اور یہیں سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ بہت سے لوگ جن کو آپ حقیر سمجھتے ہیں وہ آپ کی بقاء کے سبب ہیں) (دعوات عبدیت ضرورۃ العلماء و۸۳ ج۱۱)

قومی ترقی کے لئے علم دین ضروری ہے
افسوس کہ آپ کے ہم وطن ہندوؤں نے تو تعلیم کے اہم ہونے تو محسوس کرلیا کہ ان میں بکثرت لوگ امتحان سے فارغ ہوکر اس کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت سررشتہ تعلیم (سرکاری تعلیم کا محکمہ) میں داخل ہو اس لئے کہ سب شاخیں اسی کی فرع ہیں تو تعلیم میں دخیل ہونا ذریعہ ہے ترقی کا۔ مگر ہم کو اب تک اس کی خبر نہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو عاقل سمجھے ہوئے ہیں۔ تعلیم کی حالت دوسرے کاموں کے مقابلوں میں ایسی ہے جیسے انجن کا پہیہ کہ اس کے چکر پر تمام گاڑیوں کو حرکت ہوتی ہے۔ اگر اس کی حرکت بند ہوجائے تو تمام گاڑیوں کی حرمت بند ہوجائے۔ مگر اس کی ضرورت کا احساس لوگوں کو نہیں ہوتا۔ درس و تدریس سب محکموں کی روح ہے خواہ تقریر ہو خواہ تصنیف۔ سب اسی تعلیم کی فرع ہیں مگر اس وقت سب سے زیادہ اسی کو بیکار سمجھ رکھا ہے۔ عام طور سے لوگوں کی نظر میں علماء کی وقعت کم ہے۔( ضرورۃ العلماء عبدیت ص۴۹ ج۱۱)

علماء کرام دنیوی فلاح کا بی ذریعہ ہیں
میں ترقی کرکے کہتا ہوں کہ وقت نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ علماء دنیا بی سکھلاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تاریخ اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ مسلمانوں کی دنیا دین کے ساتھ درست ہوتی ہے۔ یعنی جب ان کے دین میں ترقی ہوتی ہے تو دنیا میں بھی ترقی ہوتی اور جب دین میں کوتاہی ہوتی ہے تو دنیا بھی خراب ہوجاتی ہے تو جب ہم دین سکھلاتے ہیں معاملات معاشرت اخلاق کو درست کرتے ہیں تو گویا ہم دنیا کی ترقی کی تدابیر بھی کرتے ہیں۔ (طریق النجاۃ عبدیت ص۲۶ ج۱۲)

تحفۃ العماء، جلد اول، ص ۶۱۔۶۵، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی، ۲۰۰۷

مرتب: حضرت مولانا مفتی زیدمظاہری ندوی


نمازکی اکیاون سنتیں مدلل

                                    نماز کی اکیاون سنتیں 

     

 *قیام کی 11 سنتیں*

1) تکبیر تحریمہ کے وقت سیدھا کھڑا ہونا یعنی سر کو پست نہ کرنا(طحاوی علی المراقی ج1ص302) .
2) دونوں پیروں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھنا اور پیروں کی انگلیاں قبلہ کی طرف رکھنا(طحاوی علی المراقی ج1ص357,شامی باب صفة الصلاة ص205ج2).
*تنبیہ* بعض فقہاءنےچار انگل کے فاصلہ کومستحب لکھاہے لیکن فقہ میں مستحب کااطلاق سنت پراور سنت کااطلاق مستحب پرہوتاہےـ
{کذافی الشامی تجویز اطلاق اسم المستحب علی السنة وعکسه(ج3ص48)}
3) مقتدی کی تکبیر تحریمہ امام کی تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہونا.
*فائدہ*: مقتدی کی تکبیرتحریمہ اگر امام کی تکبیر تحریمہ سے پہلے ختم ہوگئ تو اقتداء صحیح نہ ہوگی ـ(طحطاوی علی المراقی ج1ص350)
4) تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا(ابوداؤد باب رفع الیدین ج1ص105).
5)ہتھیلیوں کوقبلہ کی طرف رکھنا(طحطاوی علی المراقی ص1ج350,شامی باب صفة الصلاة ص202,203ج1)
6) انگلیوں کو اپنی حالت پر رکھنا یعنی زیادہ نہ کھلی رکھنا اور نہ زیادہ بند(مراقی مع الطحطاوی ص349ج1,شامی باب صفةالصلاة ص171ج2) .
7) داہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھنا(طحطاوی علی المراقی ص351ـ352ج1)
8) چھنگلیا اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر گٹے کو پکڑنا(طحطاوی فصل فی بیان سننھاص352ج1).
9)درمیانی تین انگلیوں کوکلائ پررکھنا(طحطاوی ص352ج1).
10) ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا(شامی باب صفة الصلاة ص187ج2).
11) ثناء پڑھنا(طحطاوی علی المراقی ص351ج1)

            *قراءت کی سات سنتیں*

ِِِِِِِ
1) تعوذ یعنی *اعوذ باللّٰه* پڑھنا(طحطاوی علی المراقی ص353ج1)
2) تسمیہ یعنی ہررکعت کے شروع میں *بسم اللّٰه* پڑھنا(ایضا)
3) چُپکے سے آمین کہنا(طحطاوی علی المراقی ص355ج1)
4) فجر اور ظہر میں طوالِ مفصل یعنی سورہ حجرات سے بروج تک ،عصر وعشاء اوساط مفصل یعنی سورہ بروج سے لم یکن تک اور مغرب میں قصار مفصل یعنی سورہ لم یکن سے سورہ ناس تک کی سورتیں پڑھنا(طحطاوی علی المراقی ج1ص357,358).
5) فجر کی پہلی رکعت کو طویل کرنا(طحطاوی علی المراقی ص360ج1).
6) ثناء, تعوذ, تسمیہ اورآمین کوآہستہ کہنا(طحطاوی علی المراقی ص355ـ356 ج1).
7) فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا(طحطاوی علی المراقی ص368ج1).

            *کوع کی آٹھ سنتیں*

ِ
1) رکوع کی تکبیر کہنا(طحطاوی علی المراقی ص360ج1).
2) رکوع میں دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنا(طحطاوی علی المراقی ص361ج1)
3)گھٹنوں کو پکڑنے میں انگلیوں کو کشادہ رکھنا(طحطاوی علی المراقی ص362ج1).
4) پنڈلیوں کو سیدھا رکھنا(شامی 197ج2).
5) پیٹھ کو بچھا دینا(شامی ص196ج2)
6) سر اور سُرین کو برابر رکھنا(شامی ص196ـ197ج2).
7) رکوع میں کم از کم تین بار *سبحان ربی العظیم* کہنا(طحطاوی ص144).
8) رکوع سے اٹھنے میں امام کو *سمیع اللّٰه لمن حمدہ* بآوازبلندکہنااور مقتدی کو *ربنا لک الحمد* اور منفرد کو دونوں کہنا(آہستہ سے)اوررکوع کےبعداطمینان سےسیدھاکھڑاہونا(شامی ص201ج2).

        *سجدہ کی بارہ سنتیں*

1) سجدہ کی تکبیر کہنا(شامی ص202ج2)
2) سجدہ میں پہلے دونوں گھٹنوں کو رکھنا(طحطاوی علی المراقی )
3) پھر دونوں ہاتھوں کو رکھنا(طحطاوی علی المراقی )
4) پھر ناک رکھنا(شامی ص203ج2,طحطاوی363ج1).
5) پھر پیشانی رکھنا(شامی ص203ج2,طحطاوی ص363ج1).
6) دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدہ کرنا(طحطاوی علی المراقی )
7) سجدہ میں پیٹ کو رانوں سے الگ رکھنا(طحطاوی علی المراقی ص365ج1).
8) پہلوؤں کو بازوؤں سے الگ رکھنا(طحطاوی علی المراقی ص365ج1)
9) کہنیوں کو زمین سے الگ رکھنا(طحطاوی علی المراقی ص365ج1)
10) سجدہ میں کم از کم تین بار سبحان ربی الاعلیٰ پڑھنا(ہدایہ جلدنمبر1صفحہ109 )
11) سجدہ سے اٹھنے کی تکبیر کہنا( شامی ص210,211ج2 )
12) سجدہ سے اٹھنے سے پہلے ، پیشانی ، پھر ناک ، پھر ہاتھوں کو، پھر گھٹنوں کو اٹھانا اور دونوں سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنا(طحطاوی علی المراقی ص366ج1)

      *قعدہ کی 13 سنتیں*



1) دائیں پیر کو کھڑارکھنااور بائیں پیر کو بچھاکر اس پر بیٹھنا اور پیر کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف رکھنا.(طحطاوی علی المراقی ص366 ج 1)
2)دونوں ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا.(طحطاوی علی المراقی ص366 ج 1).
3) تشہد میں *ان لا الٰه* پر شہادت کی انگلی کو اٹھانا اور *الا اللّٰه* پر جھکا دینا.(طحطاوی علی المراقی ص367 ج1 ).
4) قعدہ آخیرہ میں درود شریف پڑھنا. (طحطاوی علی المراقی ص369 ج1 ).
5) درود شریف کے بعد دعائے ماثورہ ان الفاظ میں جو قرآن اور حدیث کے مشابہ ہوں پرھنا.(طحطاوی علی المراقی ص371 ج1 ).
6) دونوں طرف سلام پڑھنا .(طحطاوی علی المراقی ص 373ج1 ).
7) سلام کی داہنی طرف سے ابتداء کرنا.(طحطاوی علی المراقی ص373 ج1 ).
8) امام کو مقتدیوں ، فر شتوں اور صالح جنات کی نیت کرنا.(طحطاوی علی المراقی ص 373-374ج 1).
9) مقتدی کو امام وفر شتوں اور صالح جنات اور دائیں بائیں مقتدیوں کی نیت کرنا.(طحطاوی علی المراقی ص375 ج 1).
10) منفرد کو صرف فر شتوں کی نیت کرنا.(طحطاوی علی المراقی ص375 ج1 ).
11) مقتدی کو امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیرنا.(طحطاوی علی المراقی ص375 ج 1).
12) دوسرے سلام کی آواز کو پہلے سلام کی آواز سے پست کرنا.(طحطاوی علی المراقی ص375 ج1 )
مسبوق کو امام کے فارغ ہو نے کا انتظار کرنا.(طحطاوی علی المراقی ص375 ج1).

از:پیارے نبی ﷺ کی پیاری سنتیں

مصنف:شیخ العرب والعجم رومئ ثانی تبریزدوراں جنیدوقت مجددزمانہ عارف بالله حضرت مولاناشاہ حکیم محمداختر صاحب نورالله مرقدہ

دعاء انس بن مالکؓ


                              دعاءانس بن مالک رضی اللہ عنہ


بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ

بِسْمِ اللّٰهِ وَبِاللّٰه,بِسْمِ اللّٰهِ خَیْرِالْاَسْمَآءِ, بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِیْ لَایَضُرُّمَعَ اسْمِهٖ شَیْئٌ فِیْ الْاَرْضِ وَلَافِیْ السَّمَآء, بِسْمِ اللّٰهِ افْتَتَحْتُ, وَبِاللّٰهِ خَتَمْتُ,وَبِهٖ آمَنْتُ,بِسْمَ اللّٰهِ اَصْبَحْتُ,وَعَلٰی اللّٰهِ تَوَکَّلْتُ,

بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰی قَلْبِیْ وَنَفْسِیْ,بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰی عَقْلِیْ وَذِھْنِیْ,بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ,بِسْمِ اللّٰهِ عَلٰی مَآأَعْطَانِیْ رَبِّیْ,بِسْمِ اللّٰهِ الشَّافِیْ,بِسْمِ اللّٰهِ الْمُعَافِیْ,بِسْمِ اللّٰهِ الْوَافِیْ,بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِیْ لَایَضُرُّمَعَ اسْمِهٖ شَیْئٌ فِیْ الْاَرْضِ وَلَافِیْ السَّمَآءِوَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ,

اَللّٰهُ اَللّٰهُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا۔ 

اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَر وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ مِمَّااَخَافُ وَاَحْذَرُ اَسْئَلُکَ اللّٰھُمَّ بِخَیْرِکَ مِنْ خَیْرِکَ الَّذِیْ لَایُعْطِیْهِ غَیْرُکَ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَآئُکَ وَلَآ اِلٰهَ غَیْرُکَ۔ 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّکُلِّ سُلْطَانٍ وَّمِنْ شَرِّکُلِّ شَّیْطَانٍ مَّرِیْدٍ۔ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ۔

وَّمِنْ شَرِّکُلِّ قَضَآءِ سُوْءٍ وَّمِنْ شَرِّکُلِّ دَآبَّةٍ اَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَآ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ وَّاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظً,

اِنَّ وَلِیِّیَ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتَابَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ, 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَجِیْرُبِکَ وَاَحْتَجِبُ بِکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْتَهٗ وَاَحْتَرِسُ بِکَ مِنْ جَمِیْعِ خَلْقِکَ وَکُلِّ مَاذَرَأتَ وَبَرَأتَ وَاَحْتَرِسُ بِکَ مِنْھُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاُقَدِّمُ بَیْنَ یَدَیَّ فِیْ یَوْمِیْ ھٰذَا وَلَیْلَتِیْ ھٰذِہٖ وَسَاعَتِیْ ھٰذِهٖ وَشَھْرِیْ ھٰذَا,


بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ


قُلْ هُوَ اْللهُ أَحَدُ (1) اللهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَدُ (عن أمامي)

بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ


 قُلْ هُوَ اْللهُ أَحَدُ (1) اللهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَدُ

(من خلفی)

بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ


قُلْ هُوَ اْللهُ أَحَدُ (1) اللهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَدُ. (عن يميني)

 بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ


 قُلْ هُوَ اْللهُ أَحَدُ (1) اللهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَدُ .

(عن شمالي)

 بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ


 قُلْ هُوَ اْللهُ أَحَدُ (1) اللهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَدُ (من فوقی)

بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ


 قُلْ هُوَ اْللهُ أَحَدُ (1) اللهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَدُ (من تحتی)


بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ 


اللّٰهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَن ذا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

,

بِــــــــــــــسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِــــــیْــــــمِ

شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لآ إَلَهَ إلا هُوَ والمَلائِكَةُ وَأُوْلُواْ العلِمِ قآئِماَ بِالقِسطِ لآ إِلهَ إِلا هُوَ العَزِيزُ الحَكِيمُ,

( سات مرتبہ )

ونحن على ما قال ربنا من الشاهدين,

 فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسبِيَ اللهُ لآ إلهَ إِلا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِيِم,

(سات مرتبہ )


حوالہ جات:

عمل الیوم واللیلة لابن سنی جلد2صفحہ158,

کنزالعمال جلد2صفحہ294,

سبل الھدی والرشادفی سیرةخیرالعباد جلد1صفحہ228,

المستطرف فی کل فن مستظرف جلد1صفحہ480,



https://m.facebook.com/groups/1651361318414835?view=permalink&id=1836414269909538

شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاکاندھلویؒ

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ
آج امت مسلمہ خاص کر بر صغیر میں رہنے والے مسلمان مختلف جماعتوں، گروہوں اور تنظیموں میں منقسم ہوگئے ہیں۔۔ ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ ہی حق پر ہے اور دوسرے باطل پر ہیں۔ (سورہ الروم ۳۲)
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف فی نفسہ برا نہیں ہے بشرطیکہ اختلاف کا بنیادی مقصد حقیقت کا اظہار ہو اور اس اختلاف سے کسی کی دل آزاری اور اہانت مطلوب ومقصود نہ ہو۔ اختلاف تو دور نبوت میں بھی تھا۔ بعض امور میں صحابہ کرام کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوا کرتی تھی۔ بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے صحابہ کرام سے مشورہ لیا اور آپ ا نے اپنی رائے کے بجائے صحابہ کرام کے مشورہ پر عمل کیا، مثلاً غزوۂ احد کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے صحابہ کرام کے نقطۂ نظر پر عمل کرکے مدینہ منورہ سے باہر نکل کر کفار مکہ کا مقابلہ کیا۔
غزوۂ احزاب سے واپسی پر نبی اکرم انے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو فوراً بنو قریظہ روانہ فرمایااور کہا کہ عصر کی نماز وہاں جاکر پڑھو۔ راستہ میں جب نمازِ عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو صحابہ کرام میں عصرکی نماز پڑھنے کے متعلق اختلاف ہوگیا۔ ایک جماعت نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کے مطابق ہمیں بنو قریظہ ہی میں جاکر نمازِ عصر پڑھنی چاہئے خواہ عصر کی نماز قضا ہوجائے، جبکہ دوسری جماعت نے کہا کہ آپ اکے کہنے کا منشا یہ تھا کہ ہم عصر کی نماز کے وقت میں ہی بنو قریظہ پہونچ جائیں گے،لیکن اب چونکہ عصر کے وقت میں بنو قریظہ کی بستی میں پہونچ کر نمازِ عصر پڑھنا ممکن نہیں ہے،لہذا ہمیں عصر کی نماز ابھی پڑھ لینی چاہئے۔ اس طرح صحابہ کرام دو جماعت میں منقسم ہوگئے، کچھ حضرات نے نماز عصر وہیں پڑھی ، جبکہ دوسری جماعت نے بنو قریظہ کی بستی میں جاکر قضا پڑھی۔ جب صبح نبی اکرم ابنو قریظہ پہونچے اور اس واقعہ سے متعلق تفصیلات معلوم ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی جماعت پر بھی کوئی تنقید نہیں کی اورنہ ہی اس اہم موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی ہدایت جاری کی، جس سے معلوم ہوا کہ احکام میں اختلاف تو کل قیامت تک جاری رہے گا اور اس نوعیت کا اختلاف مذموم نہیں ہے۔ البتہ عقائد اور اصول میں اختلاف کرنا مذموم ہے۔
علامہ ابن القیم ؒ نے اپنی کتاب (الصواعق المرسلۃ) میں دلائل کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان بھی متعدد مسائل میں اختلاف تھا، جن میں سے ایک مسئلہ ایک مجلس میں ایک لفظ سے تین طلاق کے واقع ہونے کے بارے میں ہے۔ یہ اختلاف محض اظہار حق یا تلاش حق کے لئے تھا۔
لیکن! آج ہم اختلاف کے نام پر بغض وعناد کررہے ہیں، اپنے مکتب فکر کو صحیح اور دیگر مکاتب فکر کو غلط قرار دینے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کررہے ہیں حالانکہ اسلام میں اختلاف کی گنجائش تو ہے مگر بغض وعناد اور لڑائی جھگڑا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا: آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ (سورہ الانفال ۴۶)
آج غیر مسلم قومیں خاص کر یہودونصاریٰ کی تمام مادی طاقتیں مسلمانوں کو زیر کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ دنیاوی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہیں، جس سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ لہذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ صحابہ اور اکابرین کی سیرت کی روشنی میں اپنے اختلاف کو صرف اظہار حق یا تلاش حق تک محدود رکھیں۔ اپنا موقف ضرور پیش کریں، لیکن دوسرے کی رائے کی صرف اس بنیاد پر مخالفت نہ کریں کہ اس کا تعلق دوسرے مکتب فکر سے ہے۔ اب تو دیگر آسمانی مذاہب کے ساتھ بھی ہم آہنگی کی بات شروع ہونے لگی ہے۔ لہذا ہمیں امت مسلمہ کے شیرازہ کو بکھیرنے کے بجائے اس میں پیوندکاری کرنی چاہئے۔ اگر کسی عالم کے قول میں کچھ نقص ہے تو اس کی زندگی کا بیشتر حصہ سامنے رکھ کر اس کی عبارت میں توجیہ وتاویل کرنی چاہئے، نہ کہ اس پر کفر وشرک کے فتوے لگائے جائیں۔ فروعی مسائل میں اختلاف کی صورت میں دیگر مکاتب فکر کی رائے کا احترام کرتے ہوئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اپنا موقف ضرور پیش کیا جاسکتا ہے، لیکن دوسرے مکتب فکر کی رائے کی تذلیل اور رسوائی ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے۔
برصغیر میں مختلف مکاتب فکر کے آپسی اختلافات کا شکار حدیث کی بے لوث خدمت کرنے والی شخصیت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی بھی ہے۔ فضائل سے متعلق ان کی تحریر کردہ ۹ کتابوں کے مجموعہ (فضائل اعمال) کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کی علم حدیث کی عظیم خدمات کو ہی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ان ۹ کتابوں کے مجموعہ پر مختلف اعتراضات کئے گئے، جن کے متعدد جوابات شائع ہوئے اور یہ سلسلہ برابر جاری وساری ہے۔ اس سلسلہ کی اہم کڑی حضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب قاسمی کی عربی زبان میں تحریر کردہ وہ جامع کتاب (تحقیق المقال فی تخریج احادیث فضائل الاعمال للشیخ محمد زکریا ؒ ) ہے جو بیروت (لبنان) اور دبئی سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ۶۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندوپاک میں اس کے دو ترجمہ اختصار کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کے ان ۹ کتابوں کے مجموعہ پر اعتراضات کا خلاصہ دو امور پر مشتمل ہے:
کتاب میں ضعیف احادیث بھی تحریر کی گئی ہیں۔
بزرگوں کے واقعات کثرت سے ذکر کئے گئے ہیں۔
مسئلہ کی وضاحت سے قبل چند تاریخی حقائق کو سمجھیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے میں حدیث لکھنے کی عام اجازت نہیں تھی تاکہ قرآن وحدیث میں اختلاط نہ پیدا ہوجائے۔
خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی حدیث لکھنے کا نظم صرف انفرادی طور پر اور وہ بھی محدود پیمانے پرتھا۔
۲۰۰ ہجری سے ۳۰۰ ہجری کے درمیان احادیث لکھنے کا خاص اہتمام ہوا، چنانچہ حدیث کی مشہور ومعروف کتابیں : بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی وغیرہ( جن کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے) اسی دور میں تحریر کی گئی ہیں، جبکہ مؤطا امام مالک ۱۶۰ ہجری کے قریب تحریر ہوئی۔ ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل ہی ۱۵۰ ہجری میں امام ابوحنیفہ ؒ (شیخ نعمان بن ثابت) کی وفات ہوچکی تھی۔ امام محمد ؒ کی روایت سے امام ابوحنیفہؒ کی حدیث کی کتاب (کتاب الآثار) ان احادیث کی کتابوں کی تحریر سے قبل مرتب ہوگئی تھی۔
نبی اکرم کے فرمان یا عمل کو جو حدیث ذکر کرنے کا بنیادی مقصد ہوتا ہے، متن حدیث کہا جاتا ہے۔
جن واسطوں سے یہ حدیث محدث تک پہنچتی ہے اس کو سند حدیث کہتے ہیں۔ حدیث کی مشہور کتابوں میں محدث اور صحابی کے درمیان عموماً دو یا تین یا چار واسطے ہیں، کہیں کہیں اس سے زیادہ بھی ہیں۔
احادیث کی کتابیں تحریر ہونے کے بعد حدیث بیان کرنے والے راویوں پر باقاعدہ بحث ہوئی، جس کو اسماء الرجال کی بحث کہا جاتا ہے۔
احکام شرعیہ میں علماء وفقہاء کے اختلاف کی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید اختلاف محدثین کا راویوں کو ضعیف اور ثقہ قرار دینے میں ہے۔ یعنی ایک حدیث ایک محدث کے نقطۂ نظر میں ضعیف اور دیگر محدثین کی رائے میں صحیح ہوسکتی ہے۔
سند میں اگر کوئی راوی غیر معروف ثابت ہوا یعنی یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے، یا اس نے کسی ایک موقع پر جھوٹ بولا ہے، یا سند میں انقطاع ہے۔۔۔۔۔ تو اس بنیاد پر محدثین وفقہاء احتیاط کے طور پر اس راوی کی حدیث کو عقائد اور احکام میں قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ جو عقائدیا احکام صحیح مستند احادیث سے ثابت ہوئے ہیں ان کے فضائل کے لئے قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ بخاری ومسلم کے علاوہ حدیث کی مشہور ومعروف تمام ہی کتابوں میں ضعیف احادیث کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ، اور امت مسلمہ ان کتابوں کوزمانۂ قدیم سے قبولیت کا شرف دئے ہوئے ہے، حتی کہ بخاری کی تعالیق اور مسلم کی شواہد میں بھی ضعیف احادیث موجود ہیں۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کی متعدد کتابیں تحریر فرمائیں، بخاری شریف کے علاوہ ان کی بھی تمام کتابوں میں ضعیف احادیث کثرت سے موجود ہیں۔
نوٹ: اگر ضعیف احادیث قابل اعتبار نہیں ہیں تو سوال یہ ہے کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں انہیں کیوں حمع کیا ؟ اور ان کے لئے طویل سفر کیوں کئے؟ نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر ضعیف حدیث کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو سیرت نبوی اور تاریخ اسلام کا ایک بڑا حصہ دفن کرنا پڑے گا۔ زمانۂ قدیم سے جمہور محدثین کا اصول یہی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہے اور انہوں نے ضعیف حدیث کو صحیح حدیث کی اقسام کے ضمن میں ہی شمار کیا ہے۔
مسلم شریف کی سب سے زیادہ مقبول شرح لکھنے والے امام نووی ؒ (مؤلف ریاض الصالحین ) فرماتے ہیں: محدثین، فقہاء، اور ان کے علاوہ جمہور علماء نے فرمایا ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنا فضائل اور ترغیب وترہیب میں جائز اور مستحب ہے ۔ (الاذکار، ص ۷۔۸)
اسی اصول کودیگر علماء ومحدثین نے تحریر فرمایا ہے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
شیخ ملا علی قاری ؒ (موضوعات کبیرہ ص ۵ ، شرح العقاریہ ج ۱ ص ۹، فتح باب العنایہ ۱/۴۹)
شیخ امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوریؒ (مستدرک حاکم ج ۱ ، ص ۴۹۰)
شیخ ابن حجر الہیثمی ؒ (فتح المبین، ص ۳۲)
شیخ ابو محمد بن قدامہ ؒ (المغنی ۱ / ۱۰۴۴)
شیخ علامہ الشوکانی ؒ (نیل الاوطار ۳ / ۶۸)
شیخ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ (شرح علل الترمذی ۱/۷۲ ۔ ۷۴)
شیخ علامہ ابن تیمیہ حنبلی ؒ (فتاویٰ ج ۱ ص ۳۹)
شیخ نواب صدیق حسن خان ؒ (دلیل الطالب علی المطالب ص ۸۸۹)
جہاں تک بزرگوں کے واقعات بیان کرنے کا تعلق ہے تو اس سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف قرآن وحدیث سے ثابت شدہ حکم کی تائید کے لئے کسی بزرگ کا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں کے واقعات تحریر کرنے کا رواج ہر وقت اور ہر مکتب فکر میں موجود ہے، جیسا کہ مولانا لطیف الرحمن قاسمی صاحب نے اپنی کتاب (تحقیق المقال فی تخریج احادیث فضائل الاعمال للشیخ محمد زکریا ؒ ) میں دیگر مکاتب فکر کے متعدد علماء کی کتابوں کے نام حوالوں کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں۔ امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ اس بات پر متفق ہے کہ کبھی کبھی بزرگوں کے ذریعہ ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جن کا عام آدمی سے صدور مشکل ہوتا ہے۔ نیز اگر مان بھی لیا جائے کہ کتاب میں بعض واقعات کا ذکر غیر مناسب ہے یا چند موضوع احادیث ذکر کردی گئی ہیں، اگرچہ وہ احادیث کی مشہور ومعروف کتابوں سے ہی لی گئی ہیں، تو صرف اس بنیاد پر ان کی حدیث کی خدمات کو نظر انداز کرنا ان کی عظیم شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ شیخ الحدیثؒ ؒ نے چالیس سال سے زیادہ حدیث کی کتابیں پڑھائیں، کوئی تنخواہ نہیں لی۔ سو سے زیادہ عربی واردو زبان میں کتابیں تحریر فرمائیں، ایک کتاب کے حقوق بھی اپنے لئے محفوظ نہیں رکھے۔ ۱۸ جلدوں پر مشتمل (اوجز المسالک الی موطا امام مالک) کتاب عربی زبان میں تحریر فرمائی، جس سے لاکھوں عرب وعجم نے استفادہ کیا اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی شخصیت:
شیخ الحدیث ؒ ۱۰ رمضان ۱۳۱۵ھ (۱۲ فروری ۱۸۹۸) کو ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شیخ محمد یحیےٰ ؒ مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں استاذ حدیث تھے۔ آپ کے دادا شیخ محمد اسماعیل ؒ بھی ایک بڑے جید عالم تھے۔ آپ کے چچا شیخ محمد الیاس ؒ ہیں جو فاضل دارالعلوم دیوبند ہونے کے ساتھ تبلیغی جماعت کے مؤسس بھی ہیں، جنہوں نے امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے مخلصانہ کوشش کرتے ہوئے ایک ایسی جماعت کی بنیاد ڈالی، جسکی ایثار وقربانی کی بظاہر کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی، اور یہ جماعت ایک مختصر عرصہ میں دنیا کے چپہ چپہ میں یہاں تک کہ عربوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ ۶ خلیجی ممالک، ۲۲ عرب ممالک اور ۷۵ اسلامی ممالک مل کر بھی آج تک کوئی ایسی منظم جماعت نہیں تیار کرسکے ، جس کی ایک آواز پر بغیر کسی اشتہاری وسیلہ کے لاکھوں کا مجمع پلک جھپکتے ہی جمع ہوجائے۔۔۔ عمومی طور پر اب ہماری زندگی دن بدن منظم ہوتی جارہی ہے، چنانچہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی حتی کہ مدارس عربیہ اسلامیہ میں بھی داخلہ کا ایک معین وقت، داخلہ کے لئے ٹیسٹ اور انٹرویو ، کلاسوں کا نظم ونسق،پھر امتحانات اور ۳ یا ۵ یا ۸ سالہ کورس اور ہر سال کے لئے معین کتابیں پڑھنے پڑھانے کی تحدید کردی گئی ہے۔ حالانکہ قرآن وحدیث سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اسی طرح اپنی اور بھائیوں کی اصلاح کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہونا چاہئے، لیکن تعلیم وملازمت وکاروبار غرضیکہ ہماری زندگیوں کے منظم شیڈیول کو سامنے رکھتے ہوئے اکابرین نے اس محنت کے لئے بھی وقت کی ایک ترتیب دے دی ہے۔۔۔ انفرادی طور پر جب ہمارے اندر کمیاں موجود ہیں تو اجتماعی طور پر کام کرنے کی صورت میں کمیاں ختم نہیں ہوجائیں گی۔ موجودہ دور کی کوئی بھی اسلامی تنظیم تنقید سے خالی نہیں ہے۔۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیخ محمد الیاس ؒ کی فکر سے وجود میں آنی والی اپنی اور بھائیوں کی اصلاح کی مذکورہ کوشش مجموعی اعتبار سے بے شمار خوبیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کے چچازاد بھائی شیخ محمد یوسف بن شیخ محمد الیاس ؒ تھے جنہوں نے عربی زبان میں تین جلدوں پر مشتمل حیاۃ الصحابہ تحریر فرمائی، جس کے مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوئے، جو عرب وعجم میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئے اور ہورہے ہیں ،جن سے لاکھوں کی تعداد نے استفادہ کیا اور کررہے ہیں۔
اس خاندان نے عربی و اردو میں سینکڑوں کتابیں تحریر کیں لیکن خلوص وللہیت کی واضح علامت یہ ہے کہ ایک کتاب کے حقوق بھی اپنے لئے محفوظ نہیں کئے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اجرعظیم کی امید کے ساتھ اعلان کردیا کہ جو چاہے شائع کرے، فروخت کرے، تقسیم کرے، چنانچہ دنیا کے بے شمار ناشرین خاص کر لبنان کے متعدد ناشرین اس خاندان کی عربی کتابیں بڑی مقدار میں شائع کررہے ہیں اور عربوں میں ان کی کتابیں بہت مقبول ہیں۔ سعودی عرب کے تقریباً تمام بڑے مکتبوں میں ان کی کتابیں (مثلاً اوجز المسالک الی مؤطا امام مالک اور حیاۃ الصحابہ ) دستیاب ہیں۔
۱۲ سال کی عمر میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں داخلہ لیا۔ دارالعلوم دیوبند کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور برصغیر کا سب سے بڑا مدرسہ شمار کیا جاتا ہے جس کی بنیاد دارالعلوم دیوبند کے ۶ ماہ بعد رکھی گئی تھی۔ شیخ الحدیث ؒ کے حدیث کے اہم اساتذہ میں شیخ خلیل احمد سہارن پوری ؒ ، آپ کے والد شیخ محمد یحیٰ ؒ اور آپ کے چچا شیخ محمد الیاس ؒ تھے۔
والد کے انتقال کے بعد صرف ۲۰ سال کی عمر میں (۱۳۳۵ھ میں) مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں استاذ ہوگئے۔ ۱۳۴۱ ھ میں اپنے شیخ خلیل احمد سہارن پوریؒ کے اصرار پر صرف ۲۶ سال کی عمر میں بخاری شریف کا درس دینا شروع فرمادیا۔ ۱۳۴۵ھ میں نبی اکرم اکے شہر مدینہ منورہ میں ایک سال قیام فرمایا اور مدرسہ العلوم الشرعیہ (مدینہ منورہ) میں حدیث کی مشہور کتاب ابو داؤد پڑھائی۔ یہ مدرسہ آج بھی موجود ہے، جس کے ذمہ دار سید حبیب مدنی ؒ کے بڑے صاحبزادہ ہیں۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران ہی اپنی مشہور کتاب اوجز المسالک الی مؤطا امام مالک کی تالیف شروع فرمادی تھی، اس وقت آپ کی عمر صرف ۲۹ سال تھی۔ ۱۳۴۶ھ میں مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد دوبارہ مدرسہ مظاہر العلوم میں حدیث کی کتابیں خاص کر بخاری شریف اور ابوداؤد پڑھانے لگے اور یہ سلسلہ ۱۳۸۸ ھ یعنی ۷۳ سال کی عمر تک جاری رہا۔ غرضیکہ آپ نے ۵۰ سال سے زیادہ حدیث پڑھانے اور لکھنے میں گزارے اور اس طرح ہزاروں طلبہ نے آپ سے حدیث پڑھی جو دین اسلام کی خدمت کے لئے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے۔
شیخ الحدیث ؒ نے حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے متعدد سفر کئے ۔ ۱۳۴۵ ھ میں آپ اپنے استاذ شیخ خلیل احمد سہارن پوری ؒ کے ساتھ مدینہ منورہ میں مقیم تھے کہ آپ کے استاذ محترم کا انتقال ہوگیا اور وہ جنت البقیع میں اہل بیت کے قریب دفن کئے گئے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی بھی خواہش تھی کہ مدینہ منورہ میں ہی مولائے حقیقی سے جا ملوں، چنانچہ بتاریخ یکم شعبان ۱۴۰۲ ہجری  (24 May 1982) مدینہ منورہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ ایک عظیم جم غفیر کی موجودگی میں مدینہ منورہ کے مشہور ومعروف قبرستان البقیع کے اس خطہ میں دفن کئے گئے جہاں اب تدفین کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ مسجد نبوی کے تقریباً تمام ائمہ شیخ الحدیث ؒ کے جنازہ میں شریک تھے ۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے بھتیجے سید حبیب مدنی ؒ (سابق رئیس الاوقاف، مدینہ منورہ )نے اپنی نگرانی میں شیخ الحدیثؒ کی قبر اُن کے استاذ شیخ خلیل احمد سہارن پوری ؒ کے جوار میں بنوائی، اس طرح دونوں شیوخ اہل بیت کے قریب ہی مدفون ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذ اور مجاہد آزادی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے چند مرحلوں میں تقریباً ۱۵ سال مسجد نبوی میں علوم نبوت کا درس دیا ۔ ان کے بھتیجے سید حبیب مدنی ؒ ایک طویل عرصہ تک مدینہ منورہ کے گورنر کی سرپرستی میں مدینہ منورہ کے انتظامی امور دیکھتے رہے، غرضیکہ وہ عرصۂ دراز تک مساعد گورنر تھے۔ سعودی عرب میں کوئی بھی ہند نزاد سعودی اتنے بڑے عہدہ پر فائز نہیں ہوا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے (یعنی یہاں آکر موت تک قیام کرسکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ میں اس شخص کی شفاعت کروں گا جو مدینہ منورہ میں مرے گا ۔ (ترمذی(
شیخ الحدیث ؒ کو آخری عمر میں (۱۳۹۷ھ میں) سعودی شہریت (Saudi Nationality) بھی مل گئی تھی اور انہوں نے سعودی پاسپورٹ سے ہی ہندوستان کا آخری سفر اور اس سے قبل ساؤتھ افریقہ کا سفر کیا تھا۔ شیخ الحدیث ؒ کے خلیفہ شیخ عبد الحفیظ عبد الحق مکی صاحب بھی سعودی ہیں جو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ۱۹۵۲ میں ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ میں مقیم ہوئے، مکہ مکرمہ میں مکتبہ امدادیہ کے مالک ہیں۔ اس مکتبہ سے ہندوپاک کے علماء کی عربی کتابیں سعودی حکومت کی اجازت کے بعد بڑی مقدار میں شائع ہوتی ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی علمی خدمات:
شیخ الحدیث ؒ نے عربی اور اردو میں ۱۰۰ سے زیادہ کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے بعض اہم کتابوں کا مختصر تعارف عرض ہے:
اوجز المسالک الی مؤطا امام مالک : یہ کتاب عربی زبان میں ہے جو حدیث کی مشہور ومعروف کتاب مؤطا امام مالک کی شرح ہے۔ اس کتاب کی ۱۸ جلدیں ہیں جو آپ نے درس حدیث اور دیگر مصروفیات کے ساتھ ۱۳۷۵ھ میں ۳۰سال کی جدوجہد کے بعد تحریر فرمائی۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران اس کتاب کی تالیف شروع فرمائی تھی، اس وقت آپ کی عمر صرف ۲۹ سال تھی۔ دنیا کے تقریباً تمام مکاتب فکر کے علماء اس کتاب سے استفادہ کرتے ہیں۔ لبنان کے متعدد ناشرین اس کتاب کے لاکھوں کی تعداد میں نسخے شائع کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی تقریباً تمام ہی لائبریریوں اور مکتبوں کی یہ کتاب زینت بنی ہوئی ہے، مالکی حضرات اس کتاب کو نہایت عزت واحترام کے ساتھ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض مالکی علماء نے فرمایا ہے کہ ہمیں بعض فروعی مسائل سے واقفیت صرف اسی کتاب سے ہوئی ہے۔ بعض ناشرین نے اس کتاب کو ۱۵ جلدوں میں شائع کیا ہے۔
الابواب والتراجم للبخاری : اس کتاب میں بخاری شریف کے ابواب کی وضاحت کی گئی ہے۔ بخاری شریف میں احادیث کے مجموعہ کے عنوان پر بحث ایک مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے جسے ترجمۃ الابواب کہتے ہیں۔ شیخ زکریا ؒ نے اس کتاب میں شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اور علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ جیسے علماء کے ذریعہ بخاری کے ابواب کے بارے میں کی گئی وضاحتیں ذکر کرنے کے بعد اپنی تحقیقی رائے پیش کی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۶ جلدیں ہیں۔
لامع الدراری علی جامع صحیح البخاری : یہ مجموعہ دراصل شیخ رشید احمد گنگوہی ؒ کا درسِ بخاری ہے جو شیخ الحدیث ؒ کے والد شیخ محمد یحییٰ ؒ نے اردو زبان میں قلم بند کیا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا اور اپنی طرف سے کچھ حذف واضافات کرکے کتاب کی تعلیق اور حواشی تحریر فرمائے۔ اس طرح شیخ الحدیث ؒ کی ۱۲ سال کی انتہائی کوشش اور محنت کی وجہ سے یہ عظیم کتاب منظر عام پر آئی۔ اس کتاب پر شیخ الحدیث ؒ کا مقدمہ بے شمار خوبیوں کا حامل ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۱۰ جلدیں ہیں۔
بذل المجھود فی حل ابی داؤد: یہ کتاب شیخ خلیل احمد سہارن پوری ؒ کی تحریر کردہ ہے لیکن شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی چندسالوں کی کوشش کے بعد ہی ۱۳۴۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں مکمل ہوئی۔ اس کتاب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیخ الحدیث ؒ نے اپنے استاذ سے زیادہ وقت لگاکر اس کتاب کو پاےۂ تکمیل تک پہونچایا۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی تقریباً ۲۰ جلدیں ہیں۔
الکوکب الدری علی جامع الترمذی : یہ مجموعہ دراصل شیخ رشید احمد گنگوہی ؒ کا اردو زبان میں درسِ ترمذی شریف ہے جو شیخ الحدیث ؒ نے عربی زبان میں ترجمہ کرکے اپنی تعلیقات کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور اس کی ۴ جلدیں ہیں۔
جزء حجۃ الوداع وعمرات النبی ا: اس کتاب میں شیخ الحدیث ؒ نے حضور اکرم ا کے حج اور عمرہ سے متعلق تفصیل ذکر فرمائی ہے۔ حج اور عمرہ کے مختلف مسائل اور مراحل، نیز ان جگہوں کے موجودہ نام جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم    نے قیام فرمایا تھا یا جہاں سے گزرے تھے، ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے۔
خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی: امام ترمذی ؒ کی مشہور تالیف (الشمائل المحمديۃ) کا تفصیلی جائزہ اردو زبان میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
شیخ الحدیث کی چند دیگر عربی کتابیں
وجوب اعفاء اللحيۃ، اصول الحدیث علی مذہب الحنفےۃ، اولیات القیامۃ، تبویب احکام القرآن للجصاص، تبویب تاویل مختلف الاحادیث لابن قتیبۃ، تبویب مشکل الآثار للطحاوی، تقریر المشکاۃ مع تعلیقاتہ، تقریر النسائی، تلخیص البذل، جامع الروایات والاجزاء، جزء اختلاف الصلاۃ، جزء الاعمال بالنیات، جزء افضل الاعمال، جزء امراء المدینۃ، جزء انکحتہا، جزء تخریج حدیث عائشۃ فی قصۃ بریرۃ، جزء الجہاد، جزء رفع الیدین، جزء طرق المدینۃ، جزء المبہمات فی الاسانید والروایات، جزء ما قال المحدثون فی الامام الاعظم، جزء مکفرات الذنوب، جزء ملتقط المرقاۃ، جزء ملتقط الرواۃ عن المرقاۃ،حواشی علی الہداية، شرح سلم العلوم، الوقائع والدھور (تین جلدیں، پہلی جلد نبی اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم   کی سیرت کے متعلق، دوسری جلد خلفاء راشدین کے متعلق اور تیسری جلد دیگر حکمرانوں کی تاریخ کے متعلق)۔
شیخ الحدیث کی چند اردو کتابیں:
الاعتدال فی مراتب الرجال، آپ بیتی (۷ جلدیں)، اسباب اختلاف الائمہ، التاریخ الکبیر، سیرت صدیق ؓ ، نظام مظاہر العلوم (دستور)، تاریخ مظاہر العلوم، شرح الالفےۃ (تین جلدیں) ، اکابر کا تقویٰ، اکابر کا رمضان، اکابر علماء دیوبند، شریعت وطریقت کا تلازم (اس کا عربی زبان میں ترجمہ مصر سے شائع ہوچکا ہے) ، موت کی یاد، فضائل زبان عربی، فضائل تجارت، اور فضائل پر مشتمل ۹ کتابوں کامجموعہ فضائل اعمال ۔
چند سطریں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی شخصیت کے متعلق تحریر کی ہیں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ تفصیلات کے لئے دیگر کتابوں کے ساتھ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کی کتاب (تذکرۂشیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ ) کا مطالعہ فرمائیں۔ میرے ہر ہر لفظ سے آپ کا متفق ہونا کوئی ضروری نہیں ہے، البتہ فضائل اعمال کو سامنے رکھ کر شیخ الحدیث ؒ کی شخصیت پر کچھ کہنے یا لکھنے سے قبل ان کی دیگر تصانیف خاص کر ۱۸ جلدوں پر مشتمل مشہورومعروف عربی زبان میں تحریر کردہ کتاب(اوجز المسالک الی مؤطا امام مالک) کا مطالعہ کرلیں۔ عربی سے واقفیت نہ ہونے کی صورت میں دنیا کے کسی بھی خطہ کے معروف عالم خاص کر عرب علماء سے اس کتاب کے متعلق معلومات حاصل کرلیں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

شاہ اسماعیل شہید اور تقویة الایمان

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
شیخ شاہ اسماعیل شہید ؒ اور ان کی کتاب تقويۃ الایمان
حال ہی میں الشیخ شاہ اسماعیل شہید ؒ کی کتاب تقويۃ الایمان کے متعلق محترم محمد انعام الحق قاسمی صاحب اور محترم عباس علی صدیقی صاحب کے تاثرات پڑھنے کو ملے۔ کتاب تقويۃ الایمان پر کچھ لکھنے سے قبل الشیخ شاہ اسماعیل شہید ؒ کا مختصر تعارف کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔
نہ صرف بر صغیر (ہند ،پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان )میں بلکہ پورے عالم اسلام میں الشیخ شاہ ولی اللہ ؒ کی شخصیت انتہائی مسلم اور قابل قدر ہے۔ بر صغیر میں حدیث پڑھنے اور پڑھانے کی سند محدثین کرام اور پھر حضور اکرم ا تک حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے واسطے سے ہی ہوکر جاتی ہے۔ بر صغیر کا ہر مکتب فکر اپنا تعلق الشیخ شاہ ولی اللہ ؒ کی شخصیت سے جوڑکر اپنے حق پر ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور ان کی اولاد نے قرآن وحدیث کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں۔
شاہ ولی اللہ ؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید ؒ (1831 - 1779) نے بھی اپنی پوری زندگی اعلاء کلمۃ اللہ، احیاء اسلام اور قرآن وحدیث کی خدمت میں صرف کی۔ انہوں نے تقریباً ۱۰ کتابیں تحریر فرمائیں۔ شاہ اسماعیل شہید ؒ نے نہ صرف قلمی جہاد کیا بلکہ عملی جہاد میں بھی شرکت کی چنانچہ ۱۸۳۱ میں بالآخر بالاکوٹ کے مقام پر شہادت حاصل کی۔
شاہ اسماعیل شہید ؒ کے زمانے میں اس علاقہ میں شرک اور بدعات کافی رائج ہوگئیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن وحدیث کی روشنی میں شرک اور بدعات کی تردید اور توحید وسنت کی جڑیں مضبوط کرنے میں صرف کیا۔ اسی مقصد کو سامنے رکھ کر انہوں نے 1826 میں کتاب تقوےۃ الایمان لکھی۔ یہ کتاب آج تک کتنی مرتبہ شائع ہوچکی ہے، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، غرض لاکھوں لوگوں نے اس کتاب سے فیضیاب ہوکر اپنی زندگی کا رخ سیدھا کیا۔ شاہ اسماعیل شہید ؒ نے اپنی اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں شرک اور بدعات کی تردید کی ہے۔ جس پر بعض حضرات نے غلط فیصلہ لے کر اس شخص کو کا فر کہہ دیا کہ جس نے پوری زندگی قرآن وحدیث کے مطابق گزاری، لاکھوں لوگوں نے اس کے علم سے مستفید ہوکر اپنی اخروی زندگی کی تیاری کی، جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کردیا۔
میں نے کتاب کا مطالعہ کیاہے، مجھے کہیں کوئی ایسی عبارت نہیں ملی جس کی بنیاد پر کسی عالم دین کو صرف بغض وعناد کی وجہ سے کافر قرار دیا جائے۔ میرے عزیز دوستوں! اسلام اس لئے نہیں آیا کہ چھوٹی چھوٹی بات پر مسلمانوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے بلکہ اسلام کا بنیادی واہم مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کلمہ لاالہ الا اللہ ومحمد رسول اللہ پڑھکر مسلمان ہوجائے اور کلمہ کے تقاضوں پر عمل کرکے ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم سے بچ جائے۔ کسی انتقال شدہ معین شخص کو کافر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اسکے لئے ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم کا فیصلہ صادر فرمادیا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔ اس موقع پر نبی اکرم ا کے ارشاد کو بھی یاد رکھیں: اگر کوئی شخص کسی شخص کے لئے کہے اے کافر! تو یہ لفظ کسی ایک کو ضرور پہونچے گا، یا تو وہ واقعی کافر ہوگا ورنہ کہنے والا کافر ہوجائے گا۔ (بخاری، مسلم، مؤطا مالک، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد(
اگر ہمیں کسی شخص کے مسلمان ہونے کا علم ہوتا ہے تو کتنی خوشی ہوتی ہے، یقیناًخوشی کی بات ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم سے بچ گیا اگر ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجائے۔ میرے عزیز دوستوں! کسی شخص کو کافر قرار دینے میں ہمیں کبھی بھی عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے، اور نہ ہی اس کو فخریہ طور پر بیان کرنا چاہئے۔
عباس علی صدیقی نے یہ تحریر کیا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید ؒ نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ نبی اکرم ا کا احترام بڑے بھائی کی طرح کرنا چاہئے، اورا س کی بنا پر کفر کا فتویٰ لگایا گیاہے۔ ۔۔ کتاب کی مکمل عبارت یوں ہے: تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، جو بہت بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے، اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کرو، باقی سب کا مالک اللہ ہے، عبادت اسی کی کرنی چاہئے۔ معلوم ہوا کہ جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں خواہ انبیاء ہوں یا اولیاء ہوں وہ سب کے سب اللہ کے بے بس بندے ہیں اور ہمارے بھائی ہیں، مگر حق تعالیٰ نے انہیں بڑائی بخشی تو ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہوئے، ہمیں ان کی فرمانبرداری کا حکم ہوا کیونکہ ہم چھوٹے ہیں ، لہذا ان کی تعظیم انسانوں کی سی کرو اور انہیں الٰہ (معبود) نہ بناؤ۔۔۔۔۔۔۔ (صفحہ ۱۳۴ ۔ ۱۳۵(
شاہ اسماعیل شہید ؒ کا نبی اکرم ا کو بڑے بھائی سے مشابہت دینے کا مقصد واضح ہے کہ نبی اکرم ا کا احترام ضروری ہے، ان کا زیادہ سے زیادہ احترام کیا جائے، لیکن اس نوعیت کا احترام نہیں کیا جائے کہ نبی اکرم ا کو معبود بنادیا جائے، جو کہ بالکل غلط ہے۔ اس عبارت کی بناء پر کسی شخص کو کیسے کافر کہا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے : جب تم اپنے حج کے ارکان سے فارغ ہو جاؤ تو تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسا کہ باپ دادا کا ذکر کرتے ہو بلکہ باپ دادا کے ذکر کرنے سے بھی زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔ (سورۂ البقرہ ۲۰۰) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کرنے کو باپ دادا کے ذکر کرنے سے مشابہت دی ہے ، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ باپ دادا بن گیا، بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کریں۔
میری تمام حضرا ت سے خصوصی درخواست ہے کہ کسی معین شخص کو کافر کہنے سے بالکل باز رہیں جبکہ وہ اللہ کی وحدانیت اور قرآن کے کتاب اللہ ہونے کا اقرار کرتا ہو، اور رسول اللہ ا کو خاتم النبیین بھی مانتا ہو، مزید برآں قرآن وحدیث پر عمل پیرا بھی ہو۔ لہذا آپ اگر کسی شخص کی تحریر سے متفق نہیں ہیں تو اس کی تردید کرسکتے ہیں لیکن کافر نہیں کہہ سکتے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
محمد نجیب قاسمی، سنبھلی (najeebqasmi@yahoo.com)

منگل، 14 مارچ، 2017

قضاء نمازیں پڑھنےکاطریقہ qazanmazen

سوال: ایک مسئلے کے متعلق بتائیں کہ بعض عورتیں کہتی ہیں  کسی خاص دن 2 دو رکعت نفل پڑهنے سے جتنی بهی نمازیں قضا ہو ئی ہیں وه سب ادا ہو جائینگی  کیا اس طرح نفل پڑهنے سے هماری تمام قضا نمازیں واقعی ادا ہو جائینگی  اس کا جواب درکار ہے ؟

جواب: یہ  بات درست نہیں  ہے کہ  2 رکعت نفل پڑهنے سے تمام قضاء نمازیں ادا هو جائینگی بلکه تمام قضاء نمازیں ادا کرنی هونگی اس کا پڑهنا واجب هے جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے هیں ان کی بات شریعت کے خلاف هے.
اور نه هی ایسی کوئی صحیح روایت موجود هے جس سے یه ثابت ہو جائے کہ  2 رکعت نفل پڑهنے سے تمام قضا نمازیں ادا هوجائی گی.

* فتاوی محمودیه ج1 *

* قضاء نماز پڑهنے کا طریقه *
=================

قضاء نمازوں کو پڑهنے کا طریقه وهی هے جو ادا نمازورں کا هے.
صرف نیت میں ” قضاء ” نماز کا خیال کرنا هوگا اگر قضاء نمازیں بہت زیاده هیں اور ان کی تعداد بهی معلوم نهیں هے تو اس کا بہتر طریقه یه هے که ایک تعداد اندازے سے مقر ر کرلیں مثلا:

کسی نے دو سال سے نمازیں قضاء کی هو ں یا جس عمر سے نماز فرض هوئی هے اندازے سے معلوم کرے که اتنے سالوں سے نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی  کی ہے .
پهر ہر وقتی نماز کے ساتھ  ایک یا جتنی ہو سکیں قضاء نمازیں بهی اس کے ساتھ  پڑهتے رہیں.

اور ہر  نماز کی قضاء کرتے وقت یه نیت کرلیں کہ اس وقت کی مثلا ظهر کی جتنی نمازیں آپ کے ذمه هیں ان میں سے پہلی قضاء پڑهتا پڑھتی هوں یعنی دل میں اراده کرے کہ ان قضاء نمازوں میں جو پہلی ہے  وه قضاء کر رہا ،کر رہی ہوں
اسی طرح دوباره جب قضاء پڑهیں تو پهر اس وقت کی قضاء نماز مثلا ، عصر ، فجر یا جو بهی هو وه کہ کر اس وقت کی جتنی نمازیں میرے ذمه هیں ان میں سے پہلی قضاء پڑه رهی هوں.
جتنی رکعتیں اصل ادا نماز کی هیں اتنی هی رکعتیں قضاء نماز کی پڑهنی ہیں .

فرض نماز کے علاوه  نماز وتر واجب هے اس کی بهی قضاء پڑهنی ضروری ہے .

سنتوں کی قضاء نهیں صرف نماز فجر کی سنتیں اسی دن میں اشراق کا وقت شروع هونے سے لے کر اسی دن کے زوال تک قضاء پڑه سکتے ہیں  اس دن میں زوال کے بعد وه بهینہیں  ہے .
قضاء نماز هر وقت ادا کرسکتے هیں صرف تین مکروه اوقات کے علاوه باقی جس دن جس وقت چاہیں ادا کرسکتے هیں.

1__ سورج طلوع هونے کے وقت.
2__ عین زوال کے وقت جب سورج بالکل اوپر ہو .
3__ سورج کے غروب ہو نے کے وقت .

* شرح التنویر: ج2 ص76،77 ،66 __ فتاوی عالمگیری: ج1 ص131 *
————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی الله عنه کی روایت هے که فرمایا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے:

( من نسی صلاته او نام عنها فکفارتها ان یصلیها اذا ذکرها )
صحیح مسلم: ج1 ص411 )

جو شخص نماز ادا کرنا بهول گیا یا سوگیا تو اس کا کفاره یہ ہے  که یاد آنےپر نماز قضا کرلے.

ایک روایت میں آپ صلی الله علیه وسلم کا یه ارشاد مروی هے.
( اذا رقد احدکم عن الصلوته او غفل عنها فلیصلها اذا ذکرها فان الله یقول ، اوقم الصلوته لذکری….. سوره طه 14 )

اگر تم میں سے کوئی آدمی سوگیا یا نماز ادا کرنا بهول گیا تو یاد آنے پر قضا کر لے کیونکه

الله تعالی کا فرمانہے  ” اور میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو “

لا کفارته لها الا ذلک واقم الصلاته لذکری ……. نهیں کفاره هے مگر یهی  پهر راوی نے دلیل کے طور پر آیت اقم الصلوته لذکری پڑهی.

( صحیح بخاری شریف ، باب من نسی صلوته فلیصل اذا ذکر ص84 نمبر 597 )
ابوداود شریف ، باب فی من نام عن صلوته او نسیها ص70نمبر 435 )
اس حدیث اور آیت سے معلوم هوا که فوت شده نماز پڑهنا فرض ہے …
 قضاء نماز کا فدیه موت کے بعد

ہر نماز کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ ہے صدقہٴ فطر کی مقدار غلہ یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دینا بھی صحیح ہے۔، اور وتر مستقل نماز ہے، اس لئے ہر دن کے چھ فدیے ہوئے، یہ فدیہ اگر کوئی شخص اپنے مال سے ادا کرے تو ٹھیک ہے، اور اگر مرحومہ کے ترکے میں سے ادا کرنا ہو تو اس کے لئے یہ شرط ہے کہ سب وارث بالغ اور حاضر ہوں اور وہ خوشی سے اس کی اجازت دے دیں۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ مرحوم یا مرحومہ نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہ کی ہو۔
اگر وصیت کی ہو تو اس کے تہائی ترکہ سے تو وارثوں کی رضامندی کے بغیر فدیہ ادا کیا جائے گا، اور تہائی مال سے زائد فدیہ ہو تو اس کے لئے وہی شرط ہے جو اُوپر لکھی گئی ہے


پیر، 13 مارچ، 2017

سورة اخلاص


کثرت درودشریف

ترجمہ: آپ ﷺ نےفرمایاکہ تمام ایام سے افضل ترین جمعہ کادن ہے اس دن مجھ پر بہت زیادہ درودشریف پڑھاکرو کہ تمہارا درود مجھ پرپیش کیا جاتاہے

 

تشریح: مطلب اس حدیث کا یہ ہیکہ جمعہ وشب جمعہ میں درود ایک خاص انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیاجاتا ہے اور ایک روایت میں ہیکہ جمعہ وشب جمعہ میں اللہ تعالی تمام پردہ ہٹا دیتے ہیں جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود سماعت فرماتے ہیں،

قابل غور:اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ ہرجگہ حاضرناظرنہیں جیساکہ بعض گمراہوں کاعقیدہ ہے،

یہ روایت ابوداؤد اور ریاض الصالحین میں موجودہے  

 

جمعہ، 10 مارچ، 2017

کتاب الله کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب "فضائل اعمال"پراعتراض کےجوابات

کتاب اللّٰه کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب

کتاب اللہ کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب "فضائل اعمال "کے مختلف زبانوں میں تر جمے۔​
 "فضائل اعمال " فضا ئل قران: عربی ۔مترجم: مولانا سید محمد واضح رشید ندوی صاحب ۔
برمی ۔ مترجم : مولانا محمد موسیٰ فاضل مظاہر علوم انگریزی۔ مترجم : سید عز الدین ۔
 بنگالی۔ مترجم
قاضی خلیل الرحمن ۔
فارسی ۔ ،مترجم استاذ محمد اشرف ۔
گجراتی ۔مترجم : سید محمود قاسم...


The most read book after the "virtues actions" in different languages on the firm.
"Virtues do" atmosphere mansions Qur'an: Arabic Translators: Syed Mohammad Rashid Nadvi is clear. Burmese. Translator: Maulana Mohammad Musa Fazil phenomena studies English. Translator: Saeed Khan honor. Bengali. Translate Qazi Khalil. Persian. , Translator, teacher Mohammad Ashraf. Gujarati Translators: Sayed Mahmoud Kassem.


فضائلِ اعمال پر اعتراضات کے جوابات : یو ٹیوب لنکس
الحمدللہ فضائل اعمال کے ابتک کے ۹ اسباق ( ۹ اعتراض کے جوابات ) YouTube پر اپلوڈ کر دیئے گئے ہیں ـ جتنا زیادہ ہو سکے ان اسباق کو شیئر کریں - سبق نمبر 1 حضرت شیخ الحدیث رح کی بیماری پر کئے جانے والے اعتراض کا جواب . https://www.youtube.com/watch?v=aREWLspURQU...

جمعہ، 3 مارچ، 2017

حکیم الامت مولانااشرف علی تھانویؒ

نام:اشرف علی تھانوی
 پیدائش19 اگست 1863 ء
وفات4 جولائی 1943 (عمر 79 سال)
رہائش تھانہ بھون
 قومیت بھارتی (برطانوی ہندنسل ہندوستانی دوردور جدید)
پیشہ عالم دین
مذہب اسلام
تحری کدیوبندی
شعبۂ علم فقہ
 مادر علمی دارالعلوم دیوبند
پیر/شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی
 متاثر عبدالماجد دریا بادی

 ولادت آپ کے والد شیخ عبدالحق ایک مقتدر رئیس صاحب نقد وجائیداد اور ایک کشادہ دست انسان تھے۔فارسی میں اعلٰی استعداد کے مالک اور بہت اچھے  انشاء پرداز تھے۔ اس طرح یہ ایک عالی خاندان تھا جہاں دولت وحشمت اور زہد وتقوی بغل گیر ہوتے تھے۔

 5 ربیع الثانی 1280ھ بمطابق 9ستمبر ، 1863ء تاریخ ولادت ہے۔   والد نے آپ کی تربیت بڑے ہی پیار ومحبت سے کی۔تربیت میں اس بات کو خاص اہمیت دی کہ برے دوستوں اور غلط مجالس سے آپ دور رہے ۔آپ کی طبیعت خود بھی ایسی واقع ہوئی تھی کہ کبھی بازاری لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلے بچپن سے مزاج دینی تھا۔ 12سال کی عمر میں پابندی سے نماز تہجد پڑھنے  لگ گئے تھے۔ تعلیم وتربیت  ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی فارسی کی ابتدائی کتابیں یہیں پڑھیں اور حافظ حسین مرحوم دہلوی سے کلام پاک حفظ کیا پھر تھانہ بھون آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی اکثر کتابیں پڑھیں ذوالقعدہ 1295ھ میں آپ بغرض تحصیل وتکمیل علوم دینیہدارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور پانچ سال تک یہاں مشغول تعلیم رہ کر 1301ھ میں فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تقریباً199سال تھی زمانہ طالب علمی میں حضرت میل جول سے الگ تھلگ رہتے اگر کتابوں سے کچھ فرصت ملتی تو اپنے استاد خاص حضرت مولانا محمد یعقوب کی خدمت میں جابیٹھتے۔ درس وتدریس تکمیل تعلیم کے بعد والد اور اساتذہ کرام کی اجازت سے آپ کانپور تشریف لے گئے اور مدرسہ  فیض عام میں پڑھانا شروع کردیا چودہ سال تک وہاں پرفیض کو عام کرتے رہے، 1315ھ میں کانپور  چھوڑکر آپ آبائی وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور یہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خانقاہ کو نئے سرے سے آباد کیا اور مدرسہ اشرفیہ کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں آخر دم تک تدریس،تزکیہ نفوس اور اصلاح معاشرہ جیسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس مراجعت پر حضرت حاجی صاحب نے آپ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا" بہتر ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے امید ہے کہ خلائق کثیر کو آپ سے فائدہ ظاہری وباطنی ہوگا،اور آپ ہمارے مدرسہ ومسجد کو ازسرنو آباد کریں گے،میں ہر وقت آپ کے حال میں دعا کرتا ہوں" سلوک ومعرفت ظاہری علوم کی تکمیل کے بعددل میں تزکیہ باطن کا داعیہ پیدا ہوا ، چنانچہ شوال 1201ھ میں جب  کہ آپ طالب علمی کی زندگی ختم فرماکر کانپور میں اشاعت علوم میں مصروف تھے۔ سفر حج کی تو فیق ہوئی،حضرت والا اپنے والد ماجد کی معیت میں زیارت حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوئے مکہ معظمہ پہنچ کر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے حاجی صاحب مجدد الملۃ کے آنے سے بہت خوش ہوئے اور دست بدست بیعت کی نعمت سے سرفراز کیا اور فرمایا تم میرے پاس چھ مہینے رہ جاؤلیکن حضرت والد ماجد نے مفارقت کو گوارا نہ کیا۔ اس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ والد کی اطاعت مقدم ہے اس وقت چلے جاؤپھر دیکھا جائے گا،1310ھ میں آپ دوبارہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور چھ ماہ حاجی صاحب کی خدمت میں رہے۔ اس دوران حاجی صاحب نے آپ کو شرف خلافت سے نوازا اور ساتھ یہ فرمایا میاں اشرف،توکل بخدا تھانہ بھون جاکر بیٹھ جانا اگر سخت حالات  پیش آئیں تو عجلت مت کرنا،ان وصیتوں اور باطنی دولت کو لے کر آپ 1311ھ میں وطن واپس  لوٹ آئے اور حضرت حاجی صاحب کی وصیت کے مطابق تھانہ بھون میں رشد واصلاح باطنی کاکام شروع کردیا۔ ہندوستان کے طول وعرض سے لوگ پروانہ وار آتے رہے اور دین اسلام کا کام کرتے رہے۔ تصانیف آپ کی تصانیف اور رسائل کی تعداد 800 تک ہے ۔ ان میں سے چند ایک کے نام پیش خدمت ہیں۔ تفسیر بیان القرآن ،سلیس بامحاورہ ترجمہ، تفسیر میں روایات صحیحہ اور اکابر کے اقوال کا التزام کیا گیا ہے۔ اعمال قرآنی ،قرآن مجید کی بعض آیتوں کے خواص حقیقۃ الطریقۃ ،سلوک وتصوف کے مسائل وروایات پر مشتمل ایک بےنظیر کتاب احیاء السنن،فقہی ترتیب پر جمع کیے گیے احادیث کا مجموعہ امداد الفتاوی،فقہی مسائل اور مباحث کا ایک نادر مجموعہ الانتباہات المفیدہ ،جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے مذہبی اعتراضات کے جوابات اعلاء السنن ،مذہب حنفی کی موید احادیث ،محدثین اور اہل فن کی تحقیقات کا مجموعہ بہشتی زیور،اسلامی معلومات کا مکمل ذخیرہ المصالح العقلیہ،اسلامی احکام ومسائل کے مصالح وحکم کا بیان جمال القرآن ،اصطلاحات تجوید پر مشتمل ایک عام فہم رسالہ نشر الطیب ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل جامع مانع کتاب وفات اشرف علی تھانوی 83سال 3 ماہ 11 دن کی زندگی گزارنے کے بعد 16 رجب1362ھ بمطابق 20 جولائی، 1943ء کی انتقال کرگئے۔ آپ کی نماز جنازہ ظفر احمد عثمانی نے پڑھائی،تھانہ بھون کے قبرستان میں آپ مدفون ہیں

منزل آیات قرآنی

Mufti Imdadullah 

                                                         منزل

🌴🌴 🌴 سورة

الفاتحة🌴

 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ ١

 اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ اِهْدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾


🌴 سورة البقرة 🌴

 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیم۞ الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚ ۖ ۛفِیۡہِ ۚ ۛ ھُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲﴾ۙ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ هُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭

وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾


 وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶۳﴾٪

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِهٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ھُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ﴿۲۵۵﴾ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾ اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ هُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵۷﴾


 لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡہُ یُحَاسِبۡکُمۡ بِهِ اللّٰہُ ؕ فَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۸۴﴾


اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡهِ مِنۡ رَّبِّهٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِکَتِهٖ وَ کُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِهٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾


 شَہِدَ اللّٰهٗ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَةُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿ؕ۱۸﴾


 قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۶﴾ تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّھَارِ وَ تُوۡلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۲۷﴾


 اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّھَارَ یَطۡلُبُهٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَهُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾ اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَةً ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِھَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾


 قُلِ ادۡعُوا اللّٰهَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ لَا تَجۡھَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِھَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۱۰}. وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّهٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾


 🌴

سورة المؤمنون 🌴

 اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾ فَتَعٰلَی اللّٰهُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ ﴿۱۱۶﴾ وَ مَنۡ یَّدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرۡهَانَ لَهٗ بِهٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنۡدَ رَبِّهٖ ؕ اِنَّهٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۱۱۷} وَ قُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَ ارۡحَمۡ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿٪۱۱۸﴾


 🌴 سورة الصافات 🌴

 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ﴿۱﴾فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ﴿۲﴾فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۳﴾ اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ ﴿ؕ۴﴾رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ رَبُّ الۡمَشَارِقِ ؕ﴿۵﴾اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ۙ﴿۶﴾وَ حِفۡظًا مِّنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ مَّارِدٍ ۚ﴿۷﴾لَا یَسَّمَّعُوۡنَ اِلَی الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰی وَ یُقۡذَفُوۡنَ مِنۡ کُلِّ جَانِبٍ ٭ۖ﴿۸﴾دُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۙ﴿۹﴾اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ ﴿۱۰﴾فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَہُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمۡ مَّنۡ خَلَقۡنَا ؕ اِنَّا خَلَقۡنٰہُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ ﴿۱۱﴾


 🌴سورۃالرحمن🌴

 یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ ﴿ۚ۳۳﴾فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۳۴﴾یُرۡسَلُ عَلَیۡکُمَا شُوَاظٌ مِّنۡ نَّارٍ ۬ ۙ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنۡتَصِرٰنِ ﴿ۚ۳۵﴾فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۳۶﴾فَاِذَا انۡشَقَّتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ وَرۡدَۃً کَالدِّھَانِ ﴿ۚ۳۷﴾فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۳۸﴾فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُسۡـَٔلُ عَنۡ ذَنۡۢبِہٖۤ اِنۡسٌ وَّ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۳۹﴾ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۴۰﴾


 🌴سورۃالحشر🌴

 لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ھٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَةِ اللّٰهِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ھُوَ اللّٰهُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ۚ ھُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۲۲﴾ھُوَ اللّٰهُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۲۳﴾ھُوَ اللّٰهُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ھُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۲۴﴾


 🌴سورة الجن🌴

 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّهُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا ۙ﴿۲﴾وَّ اَنَّهٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا ۙ﴿۳﴾وَّ اَنَّهٗ کَانَ یَقُوۡلُ سَفِیۡہُنَا عَلَی اللّٰهِ شَطَطًا ۙ﴿۴﴾


 🌴سورة الكافرون🌴

 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿۶﴾


 🌴 سورة الإخلاص 🌴

 بِسۡمِ اللّٰهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ قُلۡ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾لَمۡ یَلِدۡ ۬ ۙوَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾


 🌴 سورة الفلق🌴

 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾مِنۡ شَرِّ مَا خَلَقَ ۙ﴿۲﴾وَ مِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۙ﴿۳﴾وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ ۙ﴿۴﴾وَ مِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٪﴿۵﴾


🌴 سورة الناس 🌴

 بِسۡمِ اللّٰهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۞ قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲﴾اِلٰهِ النَّاسِ ۙ﴿۳﴾مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ ۙالۡخَنَّاسِ ۪ۙ﴿۴﴾الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾مِنَ الۡجِنَّةِ وَ النَّاسِ ٪﴿۶﴾

 یہ ۳۳آیات ہیں جو جادو کے اثرکو دفع کرتی ہیں اورشیاطین چوروں درندےجانوروں سےپناہ ہوجاتی ہے https://plus.google.com/104496239223778719883/posts/hDhPqfMEA1g

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس