اتوار، 18 دسمبر، 2016

ولی ومہر کابیان بہشتی زیور

بہشتی زیور ولی, مہر کابیان

ولی کا بیان

لڑکی اور لڑکے کے نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اس کو ولی کہتے ہیں

مسئلہ1۔ لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا۔ وہ نہ ہو تو پردادا۔ اگر یہ لوگ کوئی نہ ہوں تو سگا بھائی۔ سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا بھائی یعنی باپ شریک بھائی پھر بھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا پھر بھتیجے کا پوتا یہ لوگ نہ ہوں تو سگا چچا پھر سوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا۔ یہ کوئی نہ ہوں تو باپ کا چچا ولی ہے۔ پھر اس کی اولاد۔ اگر باپ کا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑپوتے کوئی نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اس کے لڑکے پوتے پھر پڑپوتے وغیرہ۔ یہ کوئی نہ ہوں تب ماں ولی ہے پھر دادی پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو۔ پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں۔ پھر پھوپھی۔ پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ۔

مسئلہ2۔ نابالغ شخص کسی کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور کافر کسی مسلمان کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور مجنون پاگل بھی کسی کا ولی نہیں ہے۔

مسئلہ3۔ بالغ یعنی جوان عورت خود مختار ہے چاہے نکاح کرے چاہے نہ کرے۔ اور جس کے ساتھ جی چاہے کرے کوئی شخص اس پر زبردستی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ خود اپنا نکاح کسی سے کر لے تو نکاح ہو جائے گا۔ چاہے ولی کو خبر ہو چاہے نہ ہو۔ اور ولی چاہے خوش ہو یا ناخوش ہر طرح نکاح درست ہے۔ ہاں البتہ اگر اپنے میل میں نکاح نہیں کیا اپنے سے کم ذات والے سے نکاح کر لیا اور ولی خوش ہے فتوی اس پر ہے کہ نکاح درست نہ ہو گا۔ اور اگر نکاح تو اپنے میل ہی میں کیا لیکن جتنا مہر اس کے دادھیالی خاندان میں باندھا جاتا ہے جس کو شرع میں مہر مثل کہتے ہیں اس سے بہت کم پر نکاح کر لیا تو ان صورتوں میں نکاح تو ہو گیا لیکن اس کا ولی اس نکاح کو توڑوا سکتا ہے۔ مسلمان حاکم کے پاس فریاد کرے وہ نکاح توڑ دے۔ لیکن اس فریاد کا حق اس ولی کو ہے جس کا ذکر ماں سے پہلے آیا ہے۔ یعنی باپ سے لے کر دادا کے چچا کے بیٹوں پوتوں تک۔

مسئلہ4۔ کسی ولی نے جوان لڑکی کا نکاح بے اس سے پوچھے اور اجازت لیے کر دیا تو وہ نکاح اس کی جازت پر موقوف ہے۔ اگروہ لڑکی اجازت دے تو نکاح ہو گیا اور اگر وہ راضی نہ ہو اور اجازت نہ دے تو نہیں ہوا۔ اور اجازت کا طریقہ آگے آتا ہے۔

مسئلہ5۔ جوان کنواری لڑکی سے ولی نے کہا کہ میں تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کیے دیتا ہوں یا کر دیا ہے اس پر وہ چپ ہو رہی یا مسکرا دی یا رونے لگی تو بس ہی اجازت ہے۔ اب وہ ولی نکاح کر دے تو صحیح ہو جائے گا۔ یا کر چکا تھا تو صحیح ہو گیا۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب زبان سے کہے تب ہی اجازت سمجھی جائے۔ جو لوگ زبردستی کر کے زبان سے قبول کراتے ہیں برا کرتے ہیں۔

مسئلہ6۔ ولی نے اجازت لیتے وقت شوہر کا نام نہیں لیا نہ اس کو پہلے سے معلوم ہے تو ایسے وقت چپ رہنے سے رضا مندی ثابت نہ ہو گی اور اجازت نہ سمجھیں گے بلکہ نام و نشان بتلانا ضروری ہے جس سے لڑکی اتنا سمجھ جائے کہ یہ فلانا شخص ہے۔ اسی طرح اگر مہر نہیں بتلایا اور مہر مثل سے بہت کم پر نکاح پڑھ دیا تو بدون اجازت عورت کے نکاح نہ ہو گا۔ اس کے لیے قاعدہ کے موافق پھر اجازت لینی چاہیے۔

مسئلہ7۔ اگر وہ لڑکی کنواری نہیں ہے بلکہ ایک نکاح پہلے ہو چکا ہے یہ دوسرا نکاح ہے اس سے اس کے ولی نے اجازت لی اور پوچھا تو فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے کہنا چاہیے اگر اس نے زبان سے نہیں کہا فقط چپ رہنے کی وجہ سے ولی نے نکاح کر دیا تو نکاح موقوف رہا بعد میں اگر وہ زبان سے منظور کر لے تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر منظور نہ کرے تو نہیں ہوا۔

مسئلہ8۔ باپ کے ہوتے ہوئے چچا یا بھائی وغیرہ کسی اور ولی نے کنواری لڑکی سے اجازت مانگی تو اب فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے اجازت دے دے تب اجازت ہو گی۔ ہاں اگر باپ ہی نے ان کو اجازت لینے کے واسطے بھیجا ہو تو فقط چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو ولی سب سے مقدم ہو اور شرع سے اسی کو پوچھنے کا حق ہو۔ جب وہ خود یا اس کا بھیجا ہوا آدمی اجازت لے تب چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی۔

مسئلہ9۔ ولی نے بے پوچھے اور بے اجازت لیے نکاح کر دیا۔ پھر نکاح کے بعد خود ولی نے یا اس کے بھیجے ہوئے کسی آدمی نے آ کر خبر کر دی کہ تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کر دیا گیا۔ تو اس صورت میں بھی چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی اور نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر کسی نے خبر دی تو اگر وہ خبر دینے والا نیک معتبر آدمی ہے یا وہ شخص ہیں تب بھی چھپ رہنے سے نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر خبر دینے والا ایک شخص اور غیر معتبر ہے تو چپ رہنے سے نکاح صحیح نہ ہو گا بلکہ موقوف رہے گا۔ جب زبان سے اجازت دے دے یا کوئی اور ایسی بات پائی جائے جس سے اجازت سمجھ لی جائے تب نکاح صحیح ہو گا

مسئلہ11۔ یہی حکم لڑکے کا ہے کہ اگر جوان ہو تو اس پر زبردستی نہیں کرسکتے اور ولی بے اس کی اجازت کے نکاح نہیں کر سکتا اگر بے پوچھے نکاح کر دے گا تو اجازت پر موقوف رہے گا۔ اگر اجازت دے دی تو ہو گیا نہیں تو نہیں ہوا۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ لڑکے کے فقط چپ رہنے سے اجازت نہیں ہوتی۔ زبان سے کہنا اور بولنا چاہیے۔

مسئلہ12۔ اگر لڑکی یا لڑکا نابالغ ہو تو وہ خود مختار نہیں ہے۔ بغیر ولی کے اس کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر اس نے بے ولی کے اپنا نکاح کر لیا یا کسی اور نے کر دیا تو ولی کہ اجازت پر موقوف ہے اگر ولی اجازت دے گا تو نکاح ہو گا نہیں تو نہ ہو گا۔ اور ولی کو اس کے نکاح کرنے نہ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ جس سے چاہے کر دے۔ نابالغ لڑکی اور لڑکے اس نکاح کو اس وقت رد نہیں کر سکتے چاہے وہ نابالغ لڑکی کنواری ہو یا پہلے کوئی اور نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی بھی ہو چکی ہو۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ13۔ نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح اگر باپ نے یا دادا نے کیا ہے تو جوان ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کر سکتے۔ چاہے اپنے میل میں کیا ہو یا بے میل کم ذات والے سے کر دیا ہو۔ اور چاہے مہر مثل پر نکاح کیا ہو یا اس سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہو ہر طرح نکاح صحیح ہے اور جوان ہونے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

مسئلہ14۔ اور اگر باپ دادا کے سوا کسی اور ولی نے نکاح کیا ہے اور جس کے ساتھ نکاح کیا ہے وہ لڑکا ذات میں برابر درجہ کا بھی ہے اور مہر بھی مہر مثل مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں اس وقت تو نکاح صحیح ہو جائے گا لیکن جوان ہونے کے بعد ان کو اختیار ہے چاہے اس نکاح کو باقی رکھیں چاہے مسلمان حاکم کے پاس نالش کر کے توڑ ڈالیں اور اگر اس ولی نے لڑکی کا نکاح کم ذات والے مرد سے کر دیا۔ یا مہر مثل سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہے یا لڑکے کا نکاح جس عورت سے کیا ہے اس کا مہر اس عورت کر مہر مثل سے بہت زیادہ مقرر کر دیا تو وہ نکاح نہیں ہوا

نوٹ۔ مسئلہ نمبر15،و نمبر 16ص 53 پر درج کئے گئے۔

مسئلہ17۔ قاعدے سے جس ولی کو نابالغہ کے نکاح کرنے کا حق ہے وہ پردیس میں ہے اور اتنی دور ہے کہ اگر اس کا انتظار کریں اور اس سے مشورہ لیں تو یہ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پیغام دینے والا اتنا انتظار نہ کرے گا اور پھر ایسی جگہ مشکل سے ملے گی۔ تو ایسی صورت میں اس کے بعد والا ولی بھی نکاح کر سکتا ہے۔ اگر اس نے بے اس کے پوچھے نکاح کر دیا تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر اتنی دور نہ ہو تو بغیر اس کی رائے لیے دوسرے ولی کو نکاح نہ کرنا چاہیے۔ اگر کرے گا تو اسی ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا جب وہ اجازت دے گا تب صحیح ہو گا۔

مسئلہ18۔ اسی طرح اگر حقدار ولی کے ہوتے دوسرے ولی نے نابالغ کا نکاح کر دیا جیسے حق تو تھا باپ کا اور نکاح کر دیا دادا نے اور باپ سے بالکل رائے نہیں لی تو وہ نکاح باپ کی اجازت پر موقوف رہے گا یا حق تو تھا بھائی کا اور نکاح کر دیا چچا نے بھائی کی اجازت پر موقوف ہے۔

مسئلہ19۔ کوئی عورت پاگل ہو گئی اور عقل جاتی رہی اور اس کا جو اب لڑکا بھی موجود ہے اور باپ بھی ہے۔ اس کا نکاح کرنا اگر منظور ہو تو اس کا ولی لڑا ہے کیونکہ ولی ہونے میں لڑکا باپ سے بھی مقدم ہے۔

مہر کا بیان

مسئلہ1۔ نکاح میں چاہے مہر کا کچھ ذکر کرے چاہے نہ کرے ہر حال میں نکاح ہو جائے گا۔ لیکن مہر دینا پڑے گا بلکہ اگر کوئی یہ شرط کر لے کہ ہم مہر نہ دیں گے بے مہر کا نکاح کرتے ہیں تب بھی مہر دینا پڑے گا۔

مسئلہ2۔ کم سے کم مہر کی مقدار تخمینا پونے تین روپے بھر چاندی ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں چاہے جتنا مقرر کرے لیکن مہر کا بہت بڑھانا اچھا نہیں۔ سو اگر کسی نے فقط ایک روپیہ بھر چاندی یا ایک روپیہ یا ایک اٹھنی مہر مقرر کر کے نکاح کیا تب بھی پونے تین روپے بھر چاندی دینی پڑے گی شریعت میں اس سے کم مہر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس کا آدھا دے۔

مسئلہ7۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ کتنا ہے یا اس شرط پر نکاح کیا کہ بغیر مہر کے نکاح کرتا ہوں کچھ مہر نہ دوں گا۔ پھر دونوں میں سے کوئی مر گیا یا ویسی تنہائی و یکجائی ہو گئی جو شرع میں معتبر ہے تب بھی مہر دلایا جائے گا اور اس صورت میں مہر مثل دینا ہو گا۔ اور اگر اس صورت میں ویسی تنہائی سے پہلے مرد نے طلاق دے دی تو مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ فقط ایک جوڑا کپڑا پائے گی اور یہ جوڑا دینا مرد پر واجب ہے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔

مسئلہ8۔ جوڑے میں فقط چار کپڑے مرد پر واجب ہیں ایک کرتہ ایک سربند یعنی اوڑھنی ایک پائجامہ یا ساڑھی جس چیز کا دستور ہے۔ ایک بڑی چادر جس میں سر سے پیر تک لپٹ سکے اس کے سوا اور کوئی کپڑا واجب نہیں۔

مسئلہ9۔ مرد کی جیسی حیثیت ہو ویسے کپڑے دینا چاہیے۔ اگر معمولی غریب آدمی ہو تو سوتی کپڑے اور اگر بہت غریب آدمی نہیں لیکن بہت امیر بھی نہیں تو ٹسرکے۔ اور جو بہت امیر کبیر ہو تو عمدہ ریشمی کپڑے دینا چاہیے لیکن بہرحال اس میں یہ خیال رہے کہ اس جوڑے کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے نہ بڑھے اور ایک روپیہ چھ آنے یعنی ایک روپیہ اور ایک چونی اور ایک دونی بھر چاندی کے جتنے دام ہوں اس سے کم قیمت بھی نہ ہو۔ یعنی بہت قیمتی کپڑے جن کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے بڑھ جائے مرد پر واجب نہیں۔ یوں اپنی خوشی سے اگر وہ بہت قیمتی اس سے زیادہ بڑھیا کپڑے دے دے تو اور بات ہے۔

مسئلہ10۔ نکاح کے وقت تو کچھ مہر مقرر نہیں کیا گیا لیکن نکاح کے بعد میاں بی بی دونوں نے اپنی خوشی سے کچھ مقرر کر لیا تو اب مہر مثل نہ دلایا جائے گا بلکہ دونوں نے اپنی خوشی سے جتنا مقرر کر لیا ہے وہی دلایا جائے گا۔ البتہ اگر ویسی تنہائی و یکجائی ہونے سے پہلے ہی طلاق مل گئی تو اس صورت میں مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہی جوڑا کپڑا ملے گا جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

مسئلہ11۔ سو روپے یا ہزار روپے اپنی حیثیت کے موافق مہر مقرر کیا۔ پھر شوہر نے اپنی خوشی سے کچھ مہر اور بڑھا دیا اور کہا کہ ہم سو روپے کی جگہ ڈیڑھ سو دے دیں گے تو جتنے روپے زیادہ دینے کو کہے اس میں وہ بھی واجب ہو گئے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔ اور اگر ویسی تنہائی و یکجائی سے پہلے طلاق ہو گئی تو جس قدر اصل مہر تھا اسی کا آدھا دیا جائے گا جتنا بعد میں بڑھایا تھا اس کو شمار نہ کریں گے۔ اسی طرح عورت نے اپنی خوشی و رضامندی سے اگر کچھ مہر معاف کر دیا تو جتنا معاف کیا ہے اتنا معاف ہو گیا۔ اور اگر پورا معاف کر دیا تو پورا مہر معاف ہو گیا۔ اب اس کے پانے کی مستحق نہیں ہے۔

مسئلہ12۔ اگر شوہر نے کچھ دباؤ ڈال کر دھمکا کر دق کر کے معاف کر لیا تو اس معاف کرانے سے معاف نہیں ہوا۔ اب بھی اس کے ذمہ ادا کرنا واجب ہے۔

مسئلہ13۔ مہر میں روپیہ پیسہ سونا چاندی کچھ مقرر نہیں کیا بلکہ کوئی گاؤں یا کوئی باغ یا کچھ زمین مقرر ہوئی تو یہ بھی درست ہے۔ جو باغ وغیرہ مقرر کیا ہے وہی دینا پڑے گا۔

مسئلہ14۔ مہر میں کوئی گھوڑا یا ہاتھی یا اور کوئی جانور مقرر کیا لیکن یہ مقرر نہیں کیا کہ فلانا گھوڑا دوں گا یہ بھی درست ہے۔ ایک منجھولا گھوڑا جو نہ بہت بڑھیا ہو نہ بہت گھٹیا دینا چاہیے یا اس کی قیمت دے دے۔ البتہ اگر فقط اتنا ہی کہا کہ ایک جانور دے دوں گا۔ اور یہ نہیں بتلایا کہ کون سا جانور دوں گا تو یہ مہر مقرر کرنا صحیح نہیں ہوا۔ مہر مثل دینا پڑے گا۔

مسئلہ17۔ جہاں کہیں پہلی ہی رات کو سب مہر دے دینے کا دستور ہو وہاں اول ہی رات سارا مہر لے لینے کا عورت کو اختیار ہے۔ اگر اول رات نہ مانگا تو جب مانگے تب مرد کو دینا واجب ہے دیر نہ کر سکتا۔

مسئلہ18۔ ہندوستان میں دستور ہے کہ مہر کا لین دین طلاق کے بعد مر جانے کے بعد ہوتا ہے کہ جب طلاق مل جاتی ہے تب مہر کا دعوی کرتی ہے یا مرد مر گیا اور کچھ مال چھوڑ گیا تو اس مال میں سے لے لیتی ہے۔ اور اگر عورت مر گئی تو اس کے وارث مہر کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اور جب تک میاں بی بی ساتھ رہتے ہیں تب تک نہ کوئی دیتا ہے نہ وہ مانگتی ہے تو ایسی جگہ اس دستور کی وجہ سے طلاق ملنے سے پہلے مہر کا دعوی نہیں کر سکتی۔ البتہ پہلی رات کو جتنے مہر کے پیشگی دینے کا دستور ہے اتنا مہر پہلے دینا واجب ہے ہاں اگر کسی قوم میں یہ دستور نہ ہو تو اس کا یہ حکم نہ ہو گا

مسئلہ20۔ مہر کی نیت سے شوہر نے کچھ دیا تو جتنا دیا ہے اتنا مہر ادا ہو گیا۔ دیتے وقت عورت سے یہ بتلانا ضروری نہیں ہے کہ میں مہر دے رہا ہوں۔

مسئلہ21۔ مرد نے کچھ دیا لیکن عورت تو کہتی ہے کہ یہ چیز تم نے مجھ کو یوں ہی دی۔ مہر میں نہیں دی اور مرد کہتا ہے کہ یہ میں نے مہر میں دیا ہے تو مرد ہی کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگر کھانے پینے کی کوئی چیز تھی تو اس کو مہر میں نہ سمجھیں گے اور مرد کی اس بات کا اعتبار نہ کریں گے۔

مہر مثل کا بیان

مسئلہ1۔ خاندانی مہر یعنی مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے باپ کے گھرانے میں سے کوئی دوسری عورت دیکھو جو اس کے مثل ہو یعنی اگر یہ کم عمر ہے تو وہ بھی نکاح کے وقت کم عمر ہو۔ اگر یہ خوبصورت ہے تو وہ بھی خوبصورت ہو۔ اس کا نکاح کنوارے پن میں ہوا اور اس کا نکاح بھی کنوارے پن میں ہوا ہو۔ نکاح کے وقت جتنی مالدار یہ ہے اتنی ہی وہ بھی تھی۔ جس کی یہ رہنے والی ہے اسی دیس کی وہ بھی ہے۔ اگر یہ دیندار ہوشیار سلیقہ دار پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہو۔ غرض جس وقت اس کا نکاح ہوا ہے اس وقت ان باتوں میں وہ بھی اسی کے مثل تھی جس کا اب نکاح ہوا۔ تو جو مہر اس کا مقرر ہوا تھا وہی اس کا مہر مثل ہے۔

مسئلہ2۔ باپ کے گھرانے کی عورتوں سے مراد جیسے اس کی بہن پھوپھی۔ چچا زاد بہن وغیرہ یعنی اس کی دادھیالی لڑکیاں۔ مہر مثل کے دیکھنے میں ماں کا مہر نہ دیکھیں گے ہاں اگر ماں بھی باپ ہی کے گھرانے میں سے ہو جیسے باپ نے اپنے چچا کی لڑکی سے نکاح کر لیا تھا تو اس کا مہر بھی مہر مثل کہا جائے گا

برصغیر میں حدیث وعلم حدیث



برصغیر پاک و ہند میں علمِ حدیث اورعلمائے اہلحدیث کی مساعی



بسلسلہ حدیث حضرت شاہ صاحب کی خدمات:
خدمت حدیث میں حضرت شاہ صاحب کی گرانقدر علمی خدمات ہیں اور آپ نے اس سلسلہ میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے، بعد کے علمائے کرام نے آپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور آپ کی علمی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔

مولانا سید عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شیخ اجلّ، محدث کامل، حکیم الاسلام اور فن حدیث کے زعیم حضرت شاہ ولی اللہ فاروقی دہلوی بن شاہ عبدالرحیم (م1176ھ) کی ذات گرامی سامنے آتی ہے۔ آپ حجاز تشریف لے گئے اور فن حدیث میں شیخ ابوطاہر کردی مدنی اور اس وقت کے دوسرے ائمہ حدیث کی شاگردی اختیار کی۔ آپ ہندوستان واپس تشریف لائے اور اپنی ساری کوشش اس علم کی نشرواشاعت میں صرف فرمائی۔ آپ نے درس حدیث کی مسند بچھائی۔ آپ کے درس سے بہت فائدہ پہنچا او ربہت سے لوگ فن حدیث میں کامل ہوکر نکلے۔ اس فن پر اپنے کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ آپ کے علم سےبے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا او رآپ کی کامیاب کوششوں سے بدعات کا خاتمہ ہوا۔ مسائل فقہیہ کی صحت کا فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں فرماتے تھے اور فقہاء کرام کےاقوال کی تطبیق کتاب و سنت سے کرتے تھے اور صرف انہی اقوال کو قبول فرماتے تھے کہ جن کوکتاب و سنت سے موافق پاتے تھے۔ او رجن مسائل فقہیہ کو کتاب وسنت کے موافق نہیں پاتے تھے اُن کو رد فرماتے تھے، خواہ وہ کسی امام کا قول ہو۔''1

مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے پیشتر اس مک میں علم حدیث کی بنیاد تو پڑ چکی تھی او رحدیث نبویؐ پر عمل کرنے میں ان کے رستے میں کسی معین مذہب کی رکاوٹ ہرگز نہ تھی او راسی کا نام ترک تقلید ہے جس پر اہلحدیث سے نزاع کی جاتی ہے۔''

قدرت نے عمل بالسنة کی تجدید کا حصہ آپ ہی کے لیے رکھا تھا ، چنانچہ آپ نے نہایت حکیمانہ طرز سے اپنی تصانیف میں تقلید و عمل بالحدیث کی بحثیں لکھیں۔ ''حجة اللہ'' میں کئی ایک ابواب نیز ''الانصاف'' و ''عقد الجید'' خاص کتابیں اس امر کے لیے تحریر کیں۔ نیز مؤطا امام مالک کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا جو کتب حدیث کی ماں کہلانے کی مستحق ہے جس سے لوگوں میں علم و عمل ہر دو کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس میں جابجا محدثین کی تعریف ہے او ران کے مذہب کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ مصفّٰے شرح مؤطا کے دیباچہ میں فرماتے ہیں:
''بائد دانست کہ سلف در استنباط مسائل فتاویٰ ہر دو وجہ بودند، یکے آنکہ قرآن و حدیث و آثار صحابہ جمع ہے کردنداز آنجا استنباط مینمودند و ایں طریقہ اصل راہ محدثین است دیگر آنکہ قواعد کلیہ کہ جمع ازائمہ تنقیح و تہذیب آں کردہ اند یاد گیرند بےملاحظہ آنہا پس ہر مسئلہ کہ داردمی شد جواب اں از قواعد طلب می کردند و ایں طریقہ اصل راہ فقہاء امت''2

آپ کی تصانیف سے ہندوستان کی علمی دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگیا اور قرآن و حدیث سےناواقفی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں جو یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ قرآن و حدیث کا علم نہایت مشکل ہے او ران کو سوائے مجتہد کے کوئی سمجھ نہیں سکتا اور زمانہ اجتہاد .......؟؟سے ختم ہوچکا ہے۔ یہ بات حضرت شاہ صاحب کے تراجم اور علم قرآن و حدیث کی تشویق و ترغیب کے سبب ذہنوں سے جاتی رہی او رلوگ شوق سے قرآن و حدیث کے سیکھنے میں لگ گئے او راس سے عمل بالحدیث کی بنیاد پڑگئی۔3

مولانا ابویحییٰ امام خاں نوشہروی (م1385ھ) لکھتے ہیں:
''جناب حجة اللہ شاہ ولی اللہ نے حدیث کی اوّل الکتب مؤطا امام مالک کی دو شرحیں (عربی و فارسی)بنام المسوّٰے او رالمصفّٰی لکھیں اور تقلیدی بندہنوں سےبالکل بےنیاز رہ کر اس مجتہدانہ شان کے ساتھ کہ 12 ویں صدی کے مجدّد کا فرض تھا ان دونوں کا (گویا) ضمیمہ ''الإنصاف في بیان سبب الاختلاف'' کے نام سے لکھا۔ تکملہ ''عقد الجید في أحکام الاجتهاد والتقلید'' سے کیا اور تتمہ ''حجة اللہ البالغہ '' جیسی غیر مسبوق کتاب سے، جیسا کہ خاتم المحدثین نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
''درفن خود غیر مسبوق الیہ واقع شدہ مثل آن دریں 12 صد سال ہجرت از ہیچ یکے علمائے عرب و عجم تصنیفے بوجود نیامدہ ومن جملہ تصانیف مولفش مرضی بودہ است وفی الواقع بیش ازاں است کہ وصفش تواں نوشت ''(اتحاف النبلاء ص71)4

حدیث و متعلقات حدیث پر آپ کی تصانیف یہ ہیں:
1۔ المسویٰ في أحادیث الموطأ (عربی) مؤطا امام مالک کی شرح
2۔ المصفّٰی في شرح الموطأ (فارقی) مؤطا امام مالک کی شرح
3۔ تراجم ابواب بخاری (عربی) صحیح بخاری کے ترجمة الباب کی شرح
4۔ مسلسلات (عربی) علم اسناد حدیث میں
5۔ الإرشاد إلیٰ مهمات الإسناد
6۔ چہل حدیث (''أربعون حدیثاً مسلسلة بالأشراف في غالب سندها'' ( عربی)

وفات:
جناب حجة اللہ نے 63 سال کی عمر میں 1176ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م1239ھ)
آپ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ 1159ھ؍1746ء میں پیدا ہوئے، آپ کا تاریخی نام غلام حلیم 1159ھ ہے۔ 15 سال کی عمر میں جملہ علوم و فنون یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، صرف، نحو، منطق، کلام، عقائد، ہندسہ، ہیئت اور ریاضی میں مہارت تامہ حاصل کرلی۔5

آپ کی عمر 17 سال کی تھی جب حضرت شاہ ولی اللہ نے داعی اجل کو لبیک کہا، چونکہ آپ تمام بھائیوں سے عمر کے ساتھ ساتھ علم میں بھی ممتاز و مشرف تھے۔اس لیے حضرت شاہ واحب کی مسند تحدیث و خلافت بھی آپ کو تفویض ہوئی۔6

اپنے والد بزرگوار کی جانشینی کا حق پوری طرح ادا کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ نے جو علم حدیث ہندوستان میں رائج کیا تھا اس کی 60 سال تک آبیاری کی۔ آپ کے درس سے وہ حضرات فیضیاب ہوئے جو خود آگے چل کر مسند تحدیث کے مالک بنے، مثلاً
شاہ رفیع الدین محدث دہلوی (م1233ھ)شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1230ھ) شاہ عبدالغنی محدث دہلوی (م1227ھ) شاہ اسماعیل الشہید دہلوی (م1246ھ) شاہ مخصوص اللہ دہلوی (م1273ھ) حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق (م1262ھ) مولانا شاہ عبدالحئ بڈھانوی (م1243ھ) مولانا شاہ محمد یعقوب مہاجر مکی (م1287ھ) السید احمد شہید بریلوی (م1246ھ) مفتی الٰہی بخش کاندھلوی (م1245ھ) مفتی صدر الدین آزراہ دہلوی (م1285ھ) مولانا فضل حق خیر آبادی (م1278ھ) مولانا رشید الدین دہلوی (م1249ھ) مولانا خرم علی بلہوری (م1260ھ) مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی (م1313ھ) مولانا حسن علی لکھنوی(1262ھ) مولانا شاہ غلام علی دہلوی (م1240ھ) مولانا شاہ احمد سعید مجددی (م1277ھ) مولانا حسین احمد ملیح آبادی (1277ھ) مولانا سید حیدر علی (م1277ھ)

آپ کی علمی قابلیت :
آپ کی علمی قابلیت اور دینی تبحر کا اعتراف بعد کے علمائے کرام نے کیا ہے او رآپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔

مولانا رحیم بخش دہلوی لکھتےہیں:
''جناب شاہ عبدالعزیز اپنے وقت کے نہایت زبردست عالم تھے۔اس زمانہ کے تمام علماء و مشائخ آپ کی طرف رجوع تھے او ربڑے بڑے فضلاء آپ کی خدمت تلمذ پر بے حد فخر کیا کرتے تھے۔ آپ نے علوم متداولہ وغیرہ میں وہ ملکہ پایا تھا جو بیان میں نہیں آسکتا۔کثرت حفظ، علم تعبیر رؤیا، سلیقہ وعظ، انشأپردازی، تحقیق نفائس علوم میں تمام ہمعصروں میں امتیازی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے اور مخالفین اسلام کو ایسی سنجیدگی سے جواب دیتے کہ وہ ہونٹ چاٹتے رہ جاتے۔''7

علم حدیث کے سلسلہ میں آپ کی گرانقدر خدمات:
علم حدیث کی اشاعت و ترویج کےسلسلہ میں جو آپ نے گرانقدر علمی خدمات سرانجام دی ہیں۔ علمائے کرام نے اس کوبھی بنظر استحسان دیکھا ہے۔

مولانا رحیم بخش دہلوی لکھتے ہیں:
''درحقیقت عمل بالحدیث کا بیج ہندوستان کی بنجر او رناقابل زمین میں آپ کے والد بزرگوار جناب شاہ ولی اللہ نے بویا اور آپ نے اسے پانی دیتے دیتے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ اس سے ایک نہایت خوشنما اور نونہال پودا پھوٹا جو چند روز میں سرسبز و شاداب ہوکر لہلہانے لگا او رپھر تھوڑے ہی عرصہ میں دور دور کے لوگ اس کے پھل و پھول سے گودیاں لبریز کرکے جانےلگے۔''8

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''آپ کا خاندان علوم حدیث اورفقہ حنفی کا ہے۔ علم حدیث کی جو خدمت ملک ہند میں اس خاندان نے کی ہے کسی او رنے نہیں کی۔ سرزمین ہند میں عمل بالحدیث کا بیج حقیقت میں آپ کے والد بزرگوار نے بویا تھا اور آپ نے برگ و بار بخشا، ورنہ بلاد ہند میں کوئی شخص علاوہ فقہ حنفی کے علم حدیث سے تمسک نہیں کرتا تھا۔''9

مولانا سیّد عبدالحئ (م1341ھ) لکھتے ہیں:
''شاہ ولی اللہ کے صاحبزدگان یعنی شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر ، شاہ رفیع الدین او ران کے پوتے شاہ اسماعیل شہید اور شاہ عبدالعسیز کے داماد شاہ عبدالحئ بڈھانوی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں علم حدیث کی نشرواشاعت او راس کی خدمت میں پورا حصہ لیا۔ انہوں نے فن حدیث کو تمام دورے علوم پر واضح طور پر فوقیت و فضیلت دی اور ان کا علم حدیث اہل روایت کے مطابق تھا جس کو کوئی شبہ ہو، وہ ان بزرگوں کے حالات و تصنیفات سے اس کی تصدیق کرسکتا ہے۔ جب تک ہندوستان میں مسلمان موجود ہیں۔ اس وقت تک ان بزرگان کرام کا شکر مسلمانوں پر واجب ہے اور انہوں نے فن حدیث کی خدمت و اشاعت کرکے امت مسلمہ پر جو احسان کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔''10

حضرت شاہ صاحب کی تحریری خدمت:
تحریری طور پر بھی حضرت شاہ صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور آپ کی تصنیفات آپ کے وسعت علم و کمال کی دلیل ہیں۔

تفسیر فتح العزیز، تحفہ اثنا عشریہ، عجالہ نافعہ او ربستان المحدثین آپ کی بہترین علمی تصانیف ہیں۔بستان المحدثین گو فن تاریخ میں ہے مگر اس کا تعلق حدیث سے بھی ہے، اس کتاب میں آپ نے تمام کتب حدیث او ران کے مصنفین و مؤلفین کے تاریخی حالات بسط و شرح کے ساتھ لکھے ہیں۔ بارہویں صدی کے بعد سلف کی یادگار میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب اسی سے اخذ کی گئی ہیں۔11

اور حضرت شاہ صاحب نے اس کتاب کی تالیف کا یہ سبب بیان کیا ہے:
''حمد و صلوٰة کے بعد یہ عرض ہے کہ اس رسالہ کا نام بستان المحدثین ہے۔ چونکہ اکثر رسالوں اور تصنیفوں میں ایسی کتابوں سے حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جن پر اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے سننے والوں کو حیرانی پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے اصل مقصود تو ان ہی کتابون کا ذکر ہے مگر تبعاً ان کےمصنفین کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ کیونکہ مصنف سے اس کی تصنیف کی قدر معلوم ہوتی ہے۔نیز ہمارا مقصود فقط متون کا ذکر ہے۔مگر بعض شرحوں کا بھی اس وجہ سے ذکر کیا جائے گا کہ کثر تشہرت اور کثرت نقل او رزیادتی اعتماد کی وجہ سے انکو متون کا حکم دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو خطأ و لغزش سے محفوظ رکھنے کے ساتھ پھسلنے کے مقامات سے بچا کر ثابت قدم رکھے۔ ہم کو دنیا و آخرت میں ہر امر کی اسی سے امید ہے اور فقط اسی پر اعتماد اور بھروسہ ہے''12

نیز المسوٰی فی احادیث المؤطا (عربی) از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر تعلیقات بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ کتاب مکہ معظمہ سے طبع ہوچکی ہے۔13

وفات :
7۔ شوال1239ھ کو دہلی میں انتقال کیا او راپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (م1243ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند 1167ھ میں پیدا ہوئے۔ حرنت شاہ ولی اللہ اور حضرت شاہ عبدالعزیز سے تعلیم حاصل کی او رعلم تفسیر، حدیث، فقہ میں نام پیدا کیا۔ساری عمر مسجد کے حجرے میں بسر کی مگر اس کے ساتھ ساتھ توحید و سنت میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ قرآن مجید کا بامحاورہ ترجمہآپ کی یادگار ہے او ریہ ترجمہ اتنا اہم ہے کہ بقول مولانا رحیم بخش دہلوی: ''اگر اردو زبان میں قرآن مجید نازل ہوتا تو انہیں محاورات کے لباس میں آراستہ ہوتا جن کی رعایت مولانا شاہ عبدالقادر محدث نے اس ترجمہ میں پیش نظر رکھی ہے۔''14
حوالہ جات
1. اسلام علوم و فنون ہندوستان میں ، ص199
2. مصفّٰی شرح مؤطا، ص4
3. تاریخ اہلحدیث، ص406
4. ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص14
5. حیات ولی، ص589
6. تراجم علمائے حدیث ہند، ص49
7. حیات ولی ، ص594
8. حیات ولی، ص595
9. تاریخ| اہلحدیث، ص410
10. اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں ، ص200
11. حیات ولی ، ص619
12. بستان المحدثین اردو ، ص12
13. تراجم علمائے حدیث ہند، ص61
14. حیات ولی، ص641

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس