منگل، 24 مارچ، 2020

ایصال ثواب اور مروجہ بدعات

ایصال ثواب اور مروجہ بدعات
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرَّ وَالْخَیْرِ فَتْنَۃً وَّاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۳۵)
          ابومحمد احقر امداداللہ عفی عنہ
ترجمہ: ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لئے بری بھلی  حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں،اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائیں جاؤ گے۔
پچھلی ایک خیر خواہانہ پوسٹ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا چونکہ وہاں مقصود دوسری اہم بات تھی،
قرآنی خوانی کے متعلق اول تو انتہائی افسوس کے ساتھ جب یہ نظر آئے کہ اہل علم یا ان کی اولاد ان بدعات کی مرتکب ہورہی ہے تو بہت ہی شرمندگی ہوتی ہے،
قرآن خوانی کے جائز ہونے کے متعلق فقہاء کرام نے اصولی طور پر دو شرطیں لگائی ہیں،
  معاوضہ کسی قسم کا نہ ہو،
  تداعی(لوگوں کو بلانا) نہ ہو ،
جہاں تک بات ہے معاوضہ کی تو معاوضہ کہتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں کسی بھی دنیاوی منفعت کی نیت ہو چاہے رقم ہو  طعام ہو یا اور کوئی منفعت دنیا یہ سب معاوضہ کی قسمیں ہیں جوکہ از روئے حدیث وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ مَرَّ عَلَى قَاصٍّ يَقْرَأُ ثُمَّ يَسْأَلُ فَاسْتَرْجَعَ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فليسأل الله بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقوام يقرؤون الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ
ترجمہ: عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک واعظ کے پاس سے گزرے جو کہ قرآن پڑھتا ، پھر کچھ طلب کرتا ، اس پر انہوں نے (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا پھر کہا : میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص قرآن پڑھے تو وہ اللہ سے طلب کرے ، کیونکہ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور اس کے عوض لوگوں سے سوال کریں گے ۔‘‘عَن بُرَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يَتَأَكَّلُ بِهِ النَّاسَ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَوَجْهُهُ عظم لَيْسَ عَلَيْهِ لحم» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان۔
ترجمہ: بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں سے مال (کھاتا) ہے تو وہ روز قیامت آئے گا تو اس کا چہرہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا اس پر گوشت نہیں ہو گا ۔‘‘
بروز قیامت چہرہ تروتازہ ہونے کا نہیں بلکہ مرجھانے کا سبب ہوگا اور چہرہ کے مرجھانے کے متعلق قرآن نے فرمایا 
سورہ القیٰمۃ آیت نمبر 24/25
وَ  وُجُوۡہٌ  یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴     تَظُنُّ  اَنۡ  یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ﴿ؕ۲۵
ترجمہ:اور بہت سے چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ ہوگا جو کمر توڑ دینے والا ہے۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی
بہر حال قرآن کے متعلق یہ وعید حدیث میں بیان کی گئی،
دوسری بات تداعی یعنی لوگوں کو بلانا دعوت دینا از روئے شرع ممنوع ہے اور تداعی کو فقہاء کرام نے بدعت لکھاہے

علامہ شامیؒ کی تحقیق
علامہ شامی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس پر عمدہ بحث فرمائی ہے جو قابل مطالعہ ہے کچھ حصہ ملاحظہ ہو ۔
قال تاج الشریعۃ فی شرح ان القرآن بالا جرۃ لایستحق الثواب لا للمیت ولاللقاری وقال العینی فی شرح الھدایۃ ویمنع القاری للدنیا والآخذ والمعطی آثمان فالحاصل ان ماشاع فی زماننا من قرأۃ الا جزاء بالا جرۃ لا یجوز لان فیہ الا مر بالقرا ء ۃ لاجل المال فاذا لم یکن للقاری ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستا جر ولولا الا جرۃ ماقرأ احد لا حد فی ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ الی جمع الدنیا انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔ الی۔ قولہ۔ وقد ردہ الشیخ خیر الدین رملی فی حاشیۃ البحر فی کتاب الوقف حیث قال اقول المفتی بہ جواز الا خذ استحساناً علی تعلیم القرآن الا علی القراء ۃ المجردۃ کما صرح بہ فی التتارخانیۃ حیث قال لا معنی لھذہ الوصیۃ …لان ھذا بمنزلۃ الا جرۃ والاجارۃ فی ذلک باطلۃ وھی بدعۃ ولم یفعلھا احد من الخلفاء وقد ذکرنا مسئلۃ تعلیم القرآن علی ستحسان اھ یعنی للضرورۃ ولا ضرورۃ فی الاستئجار علی القرأ ۃ علی القبر۔الی قولہ ۔ ونقل العلامۃ الخلوتی فی ہاشیۃ المنتھی الحنبلی عن شیخ الا سلام تقی الدین مانصہ‘ ولا یصح الا ستئجار علی القرائۃ واھد ائھا الی المیت لا نہ لم ینقل عن احد من الا ئمۃ الا ذن فی ذلک وقد قال العلماء ان القاری اذا قرأ لا جل المال فلا ثواب لہ‘ فای شئی یھدیہ الی المیت وانما یصل المیت العمل الصالح والا ستئجار علی مجردۃ التلاوۃ لم یقل بہ احد من الا ئمۃالخ۔(شامی ج ۵ ص ۴۷،۴۸ باب الاجارۃ الفاسدۃ مطلب فی الا ستئجار علی الطاعات)
تاج الشریعۃ نے شرح ہدایہ میں فرمایا ہے اجرت لے کر قرآن پڑھنے پر نہ میت کو ثواب پہنچتا ہے اور نہ قاری مستحق ثواب ہوتا ہے، علامہ عینی ؒ نے شرح ہدایہ میں فرمایا ہے جو شخص دنیا کے لئے قرآن پڑھتا ہو اسے اس سے روکا جائے قرآن کریم کی تلاوت پر اجرت لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں حاصل یہ کہ ہمارے زمانہ میں جو قرآن کریم کے پاروں کی اجرت لے کر پڑھنے کا رواج ہوگیا ہے وہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس میں قرأ ت کا حکم کرنا آمر کو ثواب دینا اور مال کے لئے قرأت کرنا ہے پس جب نیت صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قاری کو ثواب نہیں ملتا تو مستاجر (اجرت دے کر پڑھوانے والے) کو کہاں ثواب پہنچے گا؟ اگر پیسے (شیرینی) ملنے کی امید نہ ہوتو اس زمانہ میں کوئی کسی کے لئے تلاوت نہ کرے حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے قرآن مجید کو کمائی اور دنیا جمع کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ا نا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ الی قولہ۔علامہ مفتی خیر الدین حاشیہ بحر کے کتاب الوقف میں تحریر فرماتے ہیں ،اقول۔ میں کہتا ہوں مفتی بہ قول یہ ہے کہ تعلیم قران پر استحساناً اجرت لینا جائز ہے ، تلاوت مجردہ پر اجرت لینا جائز نہیں جیسا کہ تاتار خانیہ میں بیان فرمایا ہے ، حیث قال ۔لا ینبغی لہذہ الوصیۃ …اگر کوئی یہ وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد اجرت دے کر قرآن خوانی کرانا تو یہ وصیت معتبر نہیں اس لئے کہ یہ بمنزلۂ اجرت کے ہے اور محض قرآن خوانی کے لئے اجرت دینا باطل ہے اور یہ بدعت ہے خلفاء میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا اور تعلیم قرآن پر اجرت لینے کے مسئلہ کو ہم نے استحساناً بیان کیا ہے ،یعنی (قرآن کی حفاظت ہوجائے اس )ضرورت کی وجہ سے اور قبر پر اجرت لے کر قرآن خوانی کرنے کے لئے کوئی ضرورت نہیں ۔الیٰ قولہ۔ علامہ خلوتی نے حاشیۃ المنتہی الحنبلی میں شیخ الا سلام تقی الدین سے نقل فرمایا ہے میت کے ایصال ثواب کے لئے اجرت دے کر قران خوانی کرانا صحیح نہیں ہے اس لئے کہ کسی بھی امام سے اس کی اجازت منقول نہیں ہے ، علماء نے فرمایا ہے کہ قاری جب مال کے لئے قرأ ت کرے تو اس کو ثواب نہیں ملتا تو وہ کون سی چیز میت کو پہنچائے گا میت کو عمل صالح پہنچتا ہے تلاوۃ مجردہ کے لئے اجرت دینا کوئی بھی امام اس کا قائل نہیں الخ۔
فتاویٰ بزازیہ میں ہے ۔
واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ وجمع الصلحاء والقراء للختم اولقرأۃ سورۃ الا نعام اوا لا خلاص فالحاصل ان اتخاذ الطعام عند قرأ ۃ القرآن لا جل الا کل یکرہ۔ (بزازیہ علی ہامش الہندیہ ص ۸۱ج۴ جنائز (فصل)نوع آخر)
(ایصال ثواب کا یہ طریقہ ) کہ ختم قرآن یا سورۂ انعام یا سورۂ اخلاص پڑھنے کے لئے صلحاء اور قراء کو دعوت دے کر جمع کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا مکروہ ہے ۔
حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ‘ فرماتے ہیں ۔
’’جس طریق سے آج کل قرآن شریف پڑھ کر ایصال ثواب کیا جاتا ہے یہ صورت مروجہ ٹھیک نہیں ہاں احباب خاص سے کہہ دیا جائے کہ اپنے اپنے مقام پر حسب توفیق پڑھ کر ثواب پہنچا دیں ۔ الیٰ قولہ۔ چاہے تین مرتبہ قل ہو اﷲ ہی پڑھ کر بخش دیں جس سے ایک قرآن کا ثواب مل جائے گا یہ اس سے بھی اچھا ہے کہ اجتماعی صورت میں دس قرآن ختم کئے جائیں ،اس میں اکثر اہل میت کو جتلانا ہوتا ہے ، اور اﷲ کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے، چنانچہ حضو ر اقدس ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا ایک صحابی ایک مد کھجور خیرات کرے اور غیر صحابی احد پہاڑ کے برابر سونا، تو وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ پاتا، یہ فرق خلوص اور عدم خلوص کا ہے ، کیونکہ جو خلوص ایک صحابی کا ہوگاوہ غیر صحابی کا نہیں ہوسکتا ۔(انفاس عیسیٰ ص ۲۱۵ ج۱)

مکمل دروس عقیدہ طحآویہ

عقیدہ طحاویہ کے مکمل دروس